صحیح، حسن اور ضعیف حدیث پر عمل کا شرعی حکم اور کتب حدیث کی وضاحت
ماخوذ: قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل، جلد 01، صفحہ 565

سوال

➊ کن احادیث پر عمل کیا جانا چاہیے؟ کیا صحیح، حسن، ضعیف یا دیگر اقسام پر بھی عمل ممکن ہے؟ کیونکہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جن احادیث پر اہلِ حدیث عمل کرتے ہیں، اہلِ سنت بریلوی انہیں ضعیف کہتے ہیں، اور جن پر اہلِ سنت بریلوی عمل کرتے ہیں، اہلِ حدیث انہیں ضعیف قرار دیتے ہیں۔ آخرکار حدیث تو حدیث ہی ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہر حدیث پر عمل کرو چاہے وہ صحیح ہو یا ضعیف۔ براہِ کرم وضاحت فرمائیں۔

➋ صحاحِ ستہ کے علاوہ بھی بہت سی کتبِ حدیث موجود ہیں جیسے طبرانی، طحاوی، نیل الاوطار، بلوغ المرام، کنز العمال وغیرہ۔ یہ کتابیں کس درجہ کی ہیں؟ کیونکہ اہلِ سنت بریلوی عموماً طحاوی سے اور اہلِ حدیث اکثر بلوغ المرام سے حوالے پیش کرتے ہیں۔ اس بارے میں وضاحت فرمائیں۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

➊ ہر وہ حدیث جو متواتر، صحیح یا حسن درجے کی ہو اور منسوخ نہ ہو، اس پر عمل کیا جائے گا۔
◈ اگر اہلِ علم کے درمیان کسی مسئلے میں اختلاف پایا جائے تو تعصب کو بالائے طاق رکھ کر دلائل کی بنیاد پر تحقیق کی جائے گی۔
◈ اہلِ حدیث، دیوبندی یا بریلوی میں سے جس جماعت کی پیش کردہ حدیث صحیح یا حسن ثابت ہو گی، اس پر عمل کیا جانا لازم ہے۔

➋ کتبِ حدیث کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔
◈ اگر کوئی حدیث ان کتابوں میں موجود ہے اور وہ صحیح یا حسن ہے تو اس پر عمل کیا جائے گا۔
◈ یہ ضروری نہیں کہ صرف صحاحِ ستہ ہی کی احادیث پر عمل کیا جائے، بلکہ دیگر معتبر کتبِ حدیث میں موجود صحیح اور حسن روایات پر بھی عمل کرنا لازم ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے