صحابہ کے فضائل قرآن و حدیث کی روشنی میں
تحریر:حافظ شیر محمد الاثریِ , پی ڈی ایف لنک

فضائل صحابہؓ

دشمنانِ اسلام کی چال یہ تھی کہ صحابہ کرام کی مقدس جماعت کو بدنام کرے اور اس طرح بالواسطہ وہ اس ہستی کو نشانہ بنا ئیں جس کی محبت سے یہ جماعت تیار ہوئی تھی گویا وہ اس طرح نبوت کی عمارت ہی کو منہدم کرنا چاہتے تھے اور ظاہر ہے کہ جب نبوت کی عمارت ہی منہدم ہو جائے تو پھر اسلام باقی رہے گا نہ مسلم… اور یہی اُن کا اصل مقصد تھا، اگر چہ وہ اپنے اس مقصد میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکے لیکن ان کی یہ سازش جاری ہے۔

ہمارا فضائل صحابہ یا مستقل تحریر کرتے رہنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ دشمنان اسلام کی سازش بے نقاب ہو اور ان پاکباز ہستیوں کے بارے میں ان دشمنانِ اسلام کے ناپاک ارادے خاک میں ملیں اور اہل اسلام کے دل صحابہ کرامؓ کی محبت سے لبریز ہو جائیں۔

❀ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

(وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ حَبَّبَ اِلَیْكُمُ الْاِیْمَانَ وَ زَیَّنَهٗ فِیْ قُلُوْبِكُمْ وَ كَرَّهَ اِلَیْكُمُ الْكُفْرَ وَ الْفُسُوْقَ وَ الْعِصْیَانَؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الرّٰشِدُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ نِعْمَةًؕ وَاللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ)

’’لیکن اللہ نے تمھارے لیے ایمان کو محبوب بنا دیا اور اسے تمھارے دلوں میں مزین کر دیا اور اس نے کفر اور گناہ اور نافرمانی کو تمہارے لیے نا پسندیدہ بنا دیا یہی لوگ ہدایت والے ہیں۔ اللہ کی طرف سے فضل اور نعمت کی وجہ سے اور اللہ سب کچھ جاننے والا کمال حکمت والا ہے۔“

(الحجرات: ۷-۸)

قرآن مجید کی مذکورہ آیات سے درج ذیل باتیں واضح ہیں:

➊ اللہ تعالیٰ کی گواہی کہ ان لوگوں (صحابہ کرامؓ ) کو ایمان محبوب ہے۔

➋ ایمان ان کے دلوں میں مزین کر دیا گیا ہے۔

➌ یہ لوگ راہ ہدایت پر ہیں۔

➍ ان لوگوں پر اللہ کا فضل اور انعام ہے۔

➎ صحابہ کرامؓ ، کفر، گناہ اور معصیت و نافرمانی سے نفرت کرتے ہیں۔

❀ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

(لَقَدْ رَضِیَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ عَلَیْهِمْ وَ اَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِیْبًا)

’’بلا شبہ اللہ ایمان والوں سے راضی ہو گیا جب وہ اس درخت کے نیچے آپ کی بیعت کر رہے تھے تو اس نے جان لیا جو ان کے دلوں میں تھا، پس ان پر سکینت نازل کر دی اور انھیں بدلے میں ایک قریب فتح عطا فرمائی“

(الفتح : ۱۸)

یعنی صحابہ کرامؓ نے حدیبیہ میں ایک درخت کے نیچے اس بات پر بیعت کی کہ وہ قریش مکہ سے لڑیں گے اور راہ فرار اختیار نہیں کریں گے ، نیز ان کے دلوں میں جو صدق و صفا کے جذبات تھے اللہ ان سے بھی واقف تھا، اس سے ان دشمنان صحابہؓ کا رد ہو گیا جو کئی صحابہ کے بارے میں اپنی دلوں میں تنگی محسوس کرتے ہیں۔

❀ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

(لٰـكِنِ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ جٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْؕ وَاُولٰٓىٕكَ لَهُمُ الْخَیْرٰتُ٘-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ)

’’لیکن رسول نے اور ان لوگوں نے جو اس کے ہمراہ ایمان لائے اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کیا اور یہی لوگ ہیں جن کے لیے بھلائیاں ہیں اور یہی فلاح پانے والے ہیں۔“

(التوبة: ۸۸)

آیت بالا میں صحابہ کرامؓ کی بہت بڑی فضیلت ہے، ثابت ہوا کہ صحابہ کرام اللہ کے راستے میں نہ صرف اپنی جان اور اپنے مال کی قطعاً کوئی پروا نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی قربانی کا یہ عالم تھا کہ اللہ رب العزت نے اعلان فرما دیا کہ یہی لوگ ہیں جن کے لیے بھلائیاں ہیں اور یہی فلاح پانے والے ہیں، اس کے باوجود ان عظیم المرتبت ہستیوں کے بارے میں کچھ ناداں لوگوں کے دلوں میں میل موجود ہے جو در حقیقت ان کی کج فہمی اور بدنصیبی کی دلیل ہے، کیونکہ آسمان پر تھوکنے کا نتیجہ سب جانتے ہیں…!!!

❀ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

(وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖۤ اِخْوَانًاۚ وَكُنْتُمْ عَلٰى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِفَاَنْقَذَكُمْ مِّنْهَاؕ)

جو نعمت اللہ نے تمھیں بخشی ہے اسے یاد کرو جب تم دشمن تھے تو اس نے تمھارے دلوں کے درمیان الفت ڈال دی تو تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے ایک گڑھے کے کنارے پر تھے تو اس نے تمھیں اس سے بچا لیا۔“

(آل عمران ۱۰۳)

آیت بالا میں اس بات کا کتنا واضح ثبوت ہے کہ صحابہ کرامؓ آپس میں ایک دوسرے سے بڑی محبت کرتے تھے، یعنی اسلام قبول کرنے سے پہلے یہ باہمی ذاتی عداوتوں میں مبتلا تھے اسی کو یہاں آگ کے گڑھے کے کنارے سے تعبیر کیا گیا ہے، پھر اسلام کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے انھیں آگ میں گرنے سے بچا لیا اور عداوت کے بجائے اخوت پیدا کر دی اور بعد از اسلام اگر کوئی معاملہ ہوا بھی تو وہ ذاتی نہیں محض اجتہادی تھا اور اس میں بھی غلبہ دین ہی پیش نظر تھا۔ واللہ اعلم

❀ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

(مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَہُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكَفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُم ترابهم ركعا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم من اثر السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوَريةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرع اخرجَ شَطْعَهُ فَازَرَة فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوى عَلى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزراعَ لِيَغِيظ بهِمُ الْكَفَارَ وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصلِحَتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَاجْرًا عَظِيمًا)

’’محمد(ﷺ) اللہ کے رسول ہیں اور وہ لوگ جو ان کے ساتھ ہیں کافروں پر بہت سخت اور آپس میں نہایت رحم دل ہیں تو انھیں اس حال میں دیکھے گا کہ رکوع کرنے والے ہیں سجدے کرنے والے ہیں اپنے رب کا فضل اور (اس کی) رضا ڈھونڈتے ہیں ان کی شناخت ان کے چہروں میں (موجود) ہے سجدے کرنے کے اثر سے، یہ ان کا وصف تورات میں ہے اور انجیل میں ۔ ان کا وصف اس کھیتی کی طرح ہے جس نے اپنی کونپل نکالی، پھر اسے مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوئی، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہو گئی کاشت کرنے والوں کو خوش کرتی ہے تاکہ وہ ان کے ذریعے سے کافروں کو غصہ دلائے۔ اللہ نے ان لوگوں سے جو ان میں سے ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے بڑی بخشش اور بہت بڑے اجر کا وعدہ کیا ہے۔“

(الفتح : ٢٩)

اس آیت سے صحابہ کرامؓ کی درج ذیل خصوصیات ثابت ہورہی ہیں :

➊ کافروں پر سخت۔

➋ آپس میں نہایت نرم۔

➌ ان کا اکثر وقت نماز میں گزرتا ہے۔

➍ وہ ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رضا تلاش کرتے رہتے ہیں۔

آیت مبارکہ میں کتنا واضح ثبوت ہے کہ صحابہ کرامؓ ہر کام میں اور ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے طالب تھے، لہٰذا انھوں نے جو بھی کام کیے وہ خلوص پر مبنی تھے۔

❀ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

(اِذْ جَعَلَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْحَمِیَّةَ حَمِیَّةَ الْجَاهِلِیَّةِ فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوٰى وَ كَانُوْۤا اَحَقَّ بِهَا وَ اَهْلَهَاؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا)

(الفتح: ٢٦)

” جب ان لوگوں نے جنھوں نے کفر کیا اپنے دلوں میں ضد رکھ لی جو جاہلیت کی ضد تھی تو اللہ نے اپنی سکینت اپنے رسول پر اور ایمان والوں پر اتار دی اور انھیں تقویٰ کی بات پر قائم رکھا اور وہ اس کے زیادہ حق دار اور اس کے لائق تھے اور اللہ ہمیشہ سے ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔“

اس آیت کی موجودگی میں کیا کوئی مومن صحابہ کرامؓ کے متعلق بدگمانی رکھ سکتا ہے؟ اگر کوئی رکھتا ہے تو اس کا دل نفاق سے خالی نہیں یا وہ بدعتی گمراہ ہو گا ۔ میرے نبی ﷺ نے کیا خوب فرمایا:

((لا يُحِبُّهُمْ إِلا مُؤْمِنٌ وَلا يُبْغِضُهُمْ إِلا مُنَافِقٌ فَمَنْ أَحَبَّهُمْ اَحَبَّهُ اللهُ وَ مَنْ أَبْغَضَهُمْ أَبْغَضَه الله -))

(صحيح البخاري: ۳۷۸۳)

’’انصار سے صرف مومن ہی محبت رکھے گا اور ان سے صرف منافق ہی بغض رکھے گا۔ پس جو شخص ان سے محبت رکھے گا اس سے اللہ محبت رکھے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا اس سے اللہ بغض رکھے گا۔“

قارئین کرام ! سید نا ابو بکر الصدیقؓ سے لے کر سیدنا امیر معاویہؓ تک جمیع صحابہ کے بہت سے فضائل و مناقب کتب احادیث میں موجود ہیں جن کی تفصیل ہماری کتاب ’’فضائل صحابہؓ‘‘ میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اب اگر کوئی کسی صحابی کے بارے میں بدگمانی کا اظہار کرتا ہے تو وہ راہ حق و راہ اعتدال سے ہٹا ہوا ہے۔

تنبیہ :

ہمیں معلوم ہوا ہے کہ ایک شخص ہمارے شیخ محترم حافظ زبیر علی زئیؒ کے ساتھ اپنا خود ساختہ تعلق جوڑ کر بعض صحابہ کرامؓ کے بارے میں بدگمانیاں پھیلا رہا ہے واضح رہے کہ ایسے منصوبے پر عمل پیرا اس شخص کا محدث العصرؒ یا ہمارے ادارے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔ ہم ایسے لوگوں سے بری ہیں۔

اے اللہ ! ہمارے دلوں میں تمام صحابہ کرامؓ کی محبت بھر دے۔ آمین

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے