سوال:
سیدنا ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن من ورائكم أيام الصبر، الصبر فيه مثل قبض على الجمر، للعامل فيهم مثل أجر خمسين رجلا يعملون مثل عمله، وزادني غيره قال: يا رسول الله، أجر خمسين منهم؟ قال: أجر خمسين منكم.
آپ کے بعد ایک ایسا دور آنے والا ہے، جس میں صبر کرنا آگ کا انگارہ پکڑنے کے مترادف ہو گا، ان ایام میں ایک نیکی کرنے والے کا اجر پچاس افراد کے برابر ہو گا، جبکہ عمل سب کے ایک جیسے ہوں گے۔ پوچھا گیا: اللہ کے رسول! پچاس افراد ہم میں سے یا ان میں سے؟ فرمایا: آپ (صحابہ) میں سے۔
(سنن أبي داود: 4341، سنن ابن ماجه: 4014، وسنده حسن)
❀ سیدنا ابو جمعہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
تغدينا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، ومعنا أبو عبيدة بن الجراح، قال: فقال: يا رسول الله، هل أحد خير منا؟ أسلمنا معك وجاهدنا معك، قال: نعم، قوم يكونون من بعدكم يؤمنون بي ولم يروني.
ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ناشتہ کیا۔ سیدنا ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ انہوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! ہم نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور آپ کے ساتھ مل کر جہاد کیا، کیا ہم سے افضل بھی کوئی ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جی ہاں، آپ کے بعد وہ قوم جو بن دیکھے مجھ پر ایمان لائے گی۔
(مسند الإمام أحمد: 106/4، سنده حسن)
اس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ (المعرفة: 199/2) نے صحیح الإسناد اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے۔
❀ امام ابن مندہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هذا إسناد صحيح مشهور.
یہ سند صحیح اور مشہور ہے۔
(الإيمان تحت الرقم: 210)
ان احادیث کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں صحابہ سے افضل لوگ بھی ہو سکتے ہیں، اس میں کیا تطبیق ہے؟
جواب:
اہل علم نے ان احادیث صحیحہ میں کئی وجوہات سے جمع و تطبیق کی ہے:
1. یہ حدیث غیر صحابی کے صحابی سے افضل ہونے کی دلیل نہیں ہے، کیونکہ بعض اعمال میں صرف اجر کی زیادتی، مطلق افضلیت کو لازم نہیں کرتی۔
2. بسا اوقات مفضول میں ایسی جزوی خوبیاں ہوتی ہیں، جو فاضل میں نہیں ہوتیں، لیکن کلی طور پر فاضل کے برابر نہیں ہو سکتا۔
❀ علامہ ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ (974ھ) فرماتے ہیں:
الخيرية بينهما إنما هي باعتبار ما يمكن أن يجتمعا فيه وهو عموم الطاعات المشتركة بين سائر المؤمنين، فلا يبعد حينئذ تفضيل بعض من يأتى علىٰ بعض الصحابة فى ذلك، وأما ما اختص به الصحابة رضوان الله عليهم وفازوا به من مشاهدة طلعته صلى الله عليه وسلم ورؤية ذاته المشرفة المكرمة، فأمر من وراء العقل، إذ لا يسع أحد أن يأتى من الأعمال وإن جلت بما يقارب ذلك فضلا عن أن يمائله.
فاضل اور مفضول میں افضلیت کا اعتبار ان معاملات میں ہوتا ہے، جن میں دونوں کا جمع ہونا ممکن ہو، جیسے کہ عام اطاعت کے کام ہیں، جو تمام مسلمانوں میں مشترک ہو سکتے ہیں۔ اس لحاظ سے بعد والے کی کسی صحابی پر فضیلت ہونا بعید از قیاس نہیں۔ لیکن جو خصوصیات صحابہ رضی اللہ عنہم سے متعلق ہیں اور جن کی بنا پر وہ فوز و فلاح کے حق دار بنے، جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ پر نور کی زیارت سے مشرف ہونا، تو یہ عقل سے ماورا خوبی ہے، کیونکہ بعد والے کے بڑے سے بڑے عمل کا اس فضیلت کے برابر ہونا تو کجا، قریب ہونا بھی ناممکن ہے۔
(الصواعق المحرقة: 613/2)