صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کا کیا تقاضا ہے؟
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کا کیا تقاضا ہے؟

جواب:

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت عین ایمان ہے، ان سے محبت کا تقاضا ہے کہ ان کے محاسن بیان کیے جائیں، ان کے لیے دعائے رحمت و مغفرت کی جائے، ان کے مشاجرات میں زبان بندی کی جائے اور ہر لحاظ سے ان کا دفاع کیا جائے۔
❀ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
إن رجلا سأل النبى صلى الله عليه وسلم عن الساعة، فقال: متى الساعة؟ قال: وماذا أعددت لها؟ قال: لا شيء، إلا أني أحب الله ورسوله صلى الله عليه وسلم، فقال: أنت مع من أحببت، قال أنس: فما فرحنا بشيء، فرحنا بقول النبى صلى الله عليه وسلم: أنت مع من أحببت، قال أنس: فأنا أحب النبى صلى الله عليه وسلم وأبا بكر، وعمر، وأرجو أن أكون معهم بحبي إياهم، وإن لم أعمل بمثل أعمالهم.
ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ قیامت کب آئے گی؟ فرمایا: آپ نے اس کے لیے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ کہنے لگا: کچھ بھی نہیں، بس میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہوں۔ فرمایا: آپ انہی کے ساتھ ہوں گے، جن سے محبت کرتے ہیں۔ انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہمیں اتنی خوشی کسی شے سے نہیں ہوئی، جتنی اس فرمان نبوی سے ہوئی کہ آپ انہی کے ساتھ ہوں گے، جن سے محبت کرتے ہیں۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ سے محبت کرتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ ان سے محبت کی وجہ سے مجھے ان کا ساتھ نصیب ہوگا، اگرچہ میرے اعمال ان جیسے نہیں۔
(صحيح البخاري: 3688، صحیح مسلم: 2639)
❀ حافظ بیہقی رحمہ اللہ (458ھ) فرماتے ہیں:
إذا ظهر أن حب الصحابة من الإيمان فحبهم أن يعتقد فضائلهم، ويعترف لهم بها، ويعرف لكل ذي حق منهم حقه، ولكل ذي غناء فى الإسلام منهم غناؤه، ولكل ذي منزلة عند الرسول صلى الله عليه وسلم منزلته، وينشر محاسنهم، ويدعو بالخير لهم، ويقتدي بما جاء فى أبواب الدين عنهم، ولا يتبع زلاتهم وهفواتهم، ولا يتعمد تهجين أحد منهم ببث ما لا يحسن عنه، ويسكت عما لا يقع ضرورة إلى الحوض فيه فيما كان بينهم.
جب ثابت ہو گیا کہ صحابہ سے محبت ایمان ہے، تو ان سے محبت کا تقاضا ہے کہ ان کے با فضیلت ہونے کا اعتقاد رکھا جائے، ان کے فضائل کا اعتراف کیا جائے، ہر حق دار کے حق کو تسلیم کیا جائے، انہوں نے جو اسلام کو نفع و فائدہ پہنچایا، اس کا اقرار کیا جائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں ان کا جو مقام و مرتبہ تھا، اسے مانا جائے، ان کے محاسن کو عام کیا جائے، ان کے لیے بھلائی کی دعا کی جائے، ان سے دین کے متعلق جو کچھ مروی ہے، اس کی اقتدا کی جائے، ان کی غلطیوں اور لغزشوں کا اتباع نہ کیا جائے، کسی صحابی کو ایسے عیب کے ساتھ حقیر نہ سمجھا جائے، جو اس کے شایان شان نہیں، ان کے مشاجرات میں جن باتوں میں غور و خوض کرنا ضروری نہیں، ان کے متعلق خاموشی اختیار کی جائے۔
(شعب الإيمان: 93/3)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے