صحابہ کرامؓ اور جذبہ اتباع سنت
ماخوذ: ماہنامہ الحدیث، حضرو

صحابہ کرامؓ اور جذبہ اتباع

ارشاد باری تعالی ہے :
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ‎﴿٦٥﴾‏
(4/ النساء: 65)
’’پس تیرے رب کی قسم ! وہ مومن نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ وہ آپ کو حاکم مانیں جس چیز میں اُن کے درمیان اختلاف ہو جائے ، پھر اپنے دلوں میں اس سے کوئی تنگی محسوس نہ کریں جو آپ نے فیصلہ کیا اور وہ تسلیم کر لیں پوری طرح تسلیم کرنا ۔‘‘

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے قسم کھا کر مومن کے تین وصف بیان کیے ہیں :
➊کسی بھی اختلاف کی صورت میں رسول اللہ ﷺ کے علاوہ کسی اور کے پاس فیصلے کے لیے نہ جایا جائے۔
➋آپ جو فیصلہ فرمادیں اُس پر دل میں کسی بھی قسم کی تنگی محسوس نہ کریں۔
➌اس فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے اس پر عمل پیرا ہوا جائے۔

اس مختصر سے مضمون میں تیسرا وصف بیان کرنا ہی ہمارا مقصود ہے۔

صحابہ کرامؓ نے نبی کریم ﷺ کے ہر فیصلے کے سامنے سرتسلیم خم کیا ہوا تھا۔ وہ جب بھی نبی کریم ﷺ سے جو بات بھی سنتے تو فوراً اسے تسلیم کرتے ہوئے اس پر عمل پیرا ہو جاتے۔

مصور کھینچ وہ نقشہ جس میں یہ صفائی ہو
ادھر فرمان مصطفیٰ ہو ادھر گردن جھکائی ہو

کتب احادیث میں موجود بے شمار ایسی مثالوں میں سے چند ہدیہ قارئین ہیں:

❀سیدنا عمر بن خطابؓ

سیدنا عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا:
إِنَّ اللهَ يَنْهَاكُمْ أَنْ تَحْلِفُوا بابائكُمْ قَالَ عُمَرُ : فَوَاللَّهِ مَا خَلَفْتُ بِهَا مُنْذُ سَمِعْتُ النَّبِيِّ ﷺ ذَاكِراً وَلا آثِرًا .
(صحيح البخاري :6647 ، صحيح مسلم: 1646)
’’اللہ تعالیٰ تمھیں اس بات سے منع فرماتا ہے کہ تم اپنے آباء و اجداد کی قسمیں کھاؤ ۔‘‘
سیدنا عمرؓ فرماتے ہیں :
اللہ کی قسم ! جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ سے (یہ بات) سنی ہے تو میں نے کبھی (آباء و اجداد) کی قسم نہیں کھائی ، نہ تو اپنی بات کرتے ہوئے اور نہ کسی دوسرے کی بات کو نقل کرتے ہوئے۔

سیدنا عمرؓ نے نبی کریم ﷺ کے فرمان کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا کہ ایک ہی دفعہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی بات سنی، پھر ساری زندگی اس پر عامل رہے اور جس چیز سے رسول اللہ ﷺ نے انھیں منع کیا تو آپ ساری زندگی اس کے قریب بھی نہیں گئے ۔

❀سیدنا عبداللہ بن عمرؓ

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ نُصَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ إِذْ قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ اللهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ كَثِيرًا ، وَسُبْحَانَ اللهِ بُكْرَةً وَأَصِيلا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ : (مَنِ الْقَائِلُ كَلِمَةَ كَذَا وَكَذَا؟) قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: أَنَا ، يَا رَسُولَ اللهِ ، قَال: (عَجِبْتُ لَهَا، فُتِحَتْ لَهَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ) قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَمَا تَرَكْتُهُنَّ مُنذُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ذَلِكَ.
(صحيح مسلم:۶۰۱)
سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے کہ لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا : اللهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ كَثِيرًا، وَسُبْحَانَ اللهِ بُكْرَةً وَأَصِيلا رسول الله ﷺ نے فرمایا : یہ کلمات کس نے کہے ہیں؟ اس آدمی نے کہا: میں نے ، اے اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا: ” مجھے اس کے لیے تعجب ہوا کہ ان (کلمات) کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے گئے۔‘‘ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں : جب سے میں رسول اللہ ﷺ سے ان (کلمات کی فضیلت) کے بارے میں سنا ہے تو میں نے انھیں کبھی ترک نہیں کیا۔

سیدنا عبداللہ بن عمرؓ بڑے ہی متبع سنت صحابی تھے۔ جب انھوں نے نبی کریم ﷺ کی حدیث سنی تو فوراً عمل پیرا ہو گئے ، پھر کبھی اس سے انحراف بھی نہیں کیا۔

سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
[مَا حَقٌّ امری؟ مُسْلِمٍ، لَهُ شَيْءٌ يُوصِي فِيهِ، يَبِيتُ ثَلَاثَ لَيَالٍ، إِلَّا وَوَصِيَّتُهُ عِنْدَهُ مَكْتُوبَةٌ] ، قَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ: مَا مَرَّتْ عَلَى لَيْلَةٌ مُنذُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ و ذَلِكَ إِلَّا وَعِنْدِى وَصِيَّتي.
(صحيح مسلم: 1627)
’’کسی مسلمان کو یہ لائق نہیں کہ اس کے پاس وصیت کی کوئی چیز موجود ہو اور وہ تین راتیں گزارے مگر اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی ہونی چاہیے۔‘‘
سیدنا عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں :
جب سے میں نے یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے، اس دن سے میری ایک رات بھی ایسی نہیں گزری کہ میرے پاس میری وصیت نہ ہو ۔

❀سیدنا جابر بن عبد اللهؓ

طَلْحَةُ بْنُ نَافِعٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِيَدِى ذَاتَ يَوْمٍ إِلَى مَنْزِلِهِ ، فَأَخْرَجَ إِلَيْهِ فَلَقًا مِنْ خُبْزِ، فَقَالَ: ((مَا مِنْ أدم؟)) فَقَالُوا: لَا إِلَّا شَيْءٌ مِنْ خَلٌّ ، قَالَ: ((فَإِنَّ الْخَلَّ نِعْمَ الْأُدُمُ))، قَالَ جَابِرٌ: فَمَا زِلْتُ أُحِبُّ الْخَلَّ مُنْذُ سَمِعْتُهَا مِنْ نَبِيِّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ، وَقَالَ طَلْحَةُ : مَا زِلْتُ أُحِبُّ الْخَلَّ مُنْذُ سَمِعْتُهَا مِنْ جَابِر.
(صحيح مسلم: 2052)
طلحہ بن نافعؒ نے سیدنا جابر بن عبداللہؓ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے میرے ہاتھ کو پکڑا اور اپنے گھر کی طرف لے گئے ، پھر آپ کے پاس روٹی کے چند ٹکڑے لائے گئے تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” کیا کوئی سالن ہے؟ ‘‘ انھوں (گھر والوں) نے کہا: نہیں سرکہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’یقیناً سرکہ بہترین سالن ہے۔“
سیدنا جابر بن عبد اللہؓ فرماتے ہیں کہ جب سے میں نے سرکے سے متعلق رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ، اس وقت سے میں سرکے کو بہت زیادہ پسند کرتا ہوں ۔ طلحہ بن نافعؒ فرماتے ہیں : جب سے میں نے سرکے کے بارے میں سیدنا جابرؓ سے سنا ہے، تب سے میں (بھی) سرکے کو بہت زیادہ پسند کرتا ہوں۔

اس حدیث میں نبی کریم ﷺ نے سرکے کو بہترین سالن قرار دیا ہے، چنانچہ جب سیدنا جابرؓ نے نبی کریم ﷺ سے سنا تو آپ ﷺ کی حدیث کی وجہ سے آپ نے سرکے کے ساتھ محبت اور سرکے کو پسند کر لیا اور اسی طرح سیدنا جابرؓ سے جب اس حدیث کو طلحہ بن نافعؒ نے سنا تو انھوں نے بھی حدیث کی محبت ہی کی وجہ سے سرکے کو پسند کرلیا۔

ایسا جذبه صحابہ وتابعین میں تھا کہ جب وہ نبی کریم ﷺ کی احادیث کو سنتے تو فوراً ان احادیث کے سامنے سرتسلیم خم ہو جایا کرتے تھے۔

❀سید نا جریر بن عبداللهؓ

عن جرير بن عبدِ اللهِ ، قَالَ: جَاءَ نَاسٌ مِنَ الْأَعْرَابِ إِلَى رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالُوا إِنَّ نَاسًا مِنَ الْمُصَدِّقِينَ يَأْتُونَنَا فَيَظْلِمُونَنَا، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللهِ: (أرضُوا مُصَدِّقِيكُمْ) قَالَ جَرِيرٌ مَا صَدَرَ عَنِّى مُصَدِّقٌ، مُنْذُ سَمِعْتُ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللهِ ، إِلَّا وَهُوَ عَنِّى رَاضِ.
(صحيح مسلم: 989)
سیدنا جریر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس چند اعرابی (دیہاتی) آئے اور کہنے لگے۔ بعض زکاۃ وصول کرنے والے لوگ ہمارے پاس آتے ہیں اور ہم پر ظلم کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا : ” اپنے زکوۃ وصول کرنے والوں کو راضی کیا کرو ‘‘۔
سیدنا جریرؓ فرماتے ہیں : جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ حدیث سنی ہے، تب سے میرے پاس سے جو کوئی زکوۃ وصول کرنے والا گیا تو وہ راضی ہی گیا۔
عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلاقَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ جَرِيرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ يَوْمَ مَاتَ المُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ، قَامَ فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنى عَلَيْهِ، وَقَالَ: عَلَيْكُم باتقاء الله وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ، وَالوَقَارِ، وَالسَّكِينَةِ، حَتَّى يَأْتِيَكُمْ أَمِيرٌ، فَإِنَّمَا يَأْتِيكُمُ الآنَ . ثُمَّ قَالَ: اسْتَعْفُوا لِأَمِيرِكُمْ، فَإِنَّهُ كَانَ يُحِبُّ العَفْوَ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّى أَتَيْتُ النَّبِى قُلْتُ: أَبايِعُكَ عَلَى الإِسْلَامِ فَشَرَطَ عَلَيَّ: وَالنَّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ فَبَايَعْتُهُ عَلَى هَذَا ، وَرَبِّ هَذَا المَسْجِدِ! إِنِّي لَنَاصِحُ لَكُمْ ، ثُمَّ اسْتَغْفَرَ وَنَزَلَ .
(صحيح البخاري: 58)
زیاد بن علاقہ سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا جریر بن عبد اللہؓ سے سنا : جس دن سیدنا مغیرہ بن شعبہؓ فوت ہوئے تو وہ خطبے کے لیے کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور کہا : تم اللہ وحدہ لا شریک کے تقویٰ کو لازم پکڑو اور تحمل و اطمینان سے رہو حتٰی کہ کوئی حاکم (بن کر) آجائے کیونکہ وہ آنے والا ہے پھر انھوں نے فرمایا : اپنے مرنے والے حاکم کے لیے دعائے مغفرت کرو کیونکہ وہ بھی معافی کو پسند کرتا تھا، پھر کہا: اس کے بعد تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ میں نے ایک دفعہ نبی کریم ﷺ کے پاس آکر عرض کیا : میں آپ سے اسلام پر بیعت کرتا ہوں ۔ آپ نے مجھ سے ہر مسلمان کی خیر خواہی کے لیے شرط چاہی۔ پس میں نے اس شرط پر آپ سے بیعت کرلی۔ اس مسجد کے رب کی قسم ! میں تمھارا خیر خواہ ہوں ،پھر استغفار کیا اور منبر سے اتر آئے۔
اس اثر میں سیدنا جریر بن عبد اللہؓ کا جذبہ انتباع واضح ہے کہ نبی کریم ﷺ نے جس شرط کا تقاضا ان سے کیا وہ اسی پر قائم رہے اور ہمیشہ لوگوں کی خیر خواہی کو پسند کیا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے