صبح کی نماز منہ اندھیرے اول وقت میں پڑھنی چاہیے
وَعَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ لا وَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ: إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ عَلَ ليُصَلِّى الصُّبْحَ، فَيَنْصَرِفُ النِّسَاءُ مُتَلَفِّعَاتٍ بِمُرُوطِهِنَّ مَا يُعْرَفْنَ مِنَ الْغلَسِ
حضرت عائشہ ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ) رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے فرمایا : ”رسول الله صلى الله عليه وسلم صبح كی نماز پڑهتے تهے، عورتيں اپنی چادروں ميں لپٹی هوئي واپس پلٹتي تهيں تو اندهيرے كي وجه سے وه پهچانی نهيں جاتی تهيں۔ “
تحقيق و تخريج : البخاری : 578 مسلم : 635
فوائد :
➊ صبح کی نماز منہ اندھیرے اول وقت میں پڑھنی چاہیے ۔
➋ عورتیں مساجد میں نماز باجماعت ادا کر سکتی ہیں ۔
➌ ضرورت کے پیش نظر عورتیں گھر سے باہر جا سکتی ہیں گھر سے اجازت لینا یا گھر والوں کو اطلاع دینا بہت ضروری ہے ۔ اندھیرے اور رو شنی دونوں صورتوں میں عورتیں مسجدوں کی طرف چل کر جا سکتی ہیں ۔ اس میں جوان بوڑھی کی کوئی قید نہیں ہے ۔ عورتوں کو نہ تو مساجد میں جانے سے روکا جا سکتا ہے خواہ جتنا بھی فتنہ ہو کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے نفی ثابت ہے نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو روکا اور نہ ہی عورتوں کو جبر سے مسجدوں میں جانے کو کہہ سکتے ہیں ۔ کیونکہ عورتیں فرضی و نفلی نماز مسجدوں میں پڑھنے کی مکلف نہیں ہیں ۔ عیدین کے موقعہ پر تمام تر خواتین حائضہ غیر حائضہ کو میدان میں آنے کے بارے حکم ملتا ہے تو وہ بھی استحبابی امر ہے اور ترغیبی فرمان ہے عیدین کی طرف عورتوں کانکلنا کوئی فرض نہیں ہے فرض تو خود عیدین بھی نہیں ہیں لیکن پھر بھی عیدین کے احترام اور عظمت کا تقاضہ یہ ہے کہ ان کی طرف نکلا جائے ۔
➍ مساجد کی طرف نکلتے ہوئے عورتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس طرح کی چادریں اوڑھیں کہ پور ا جسم چھپ جائے ۔ ننگے سر عورت کانکلنا حرام ہے ۔
➎ بات میں وزن بھرنے کے لیے دلائل نقلی و عقلی دئیے جا سکتے ہیں ۔ جیسے اس حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نماز فجر کا وقت بتانے کے لیے فرما رہی ہیں کہ صبح کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اندھیرے میں پڑھتے تھے تاریکی اتنی ہوتی کہ عورتوں کو معرفت مشکل ہوتی تھی ۔ اسی طرح اسلام میں عورتوں کے خصائل اطوار، اقوال اور افعال بیان کرنا درست ہے ۔ عورتوں کو شعری انداز میں اس طرح بیان کرنا کہ ان کے محاسن بدن ایک ایک کر کے واضح ہو جائیں اور تصویر معاشقہ کو ترویج ملے قطعاً درست نہیں ہے ۔ اور نہ ہی مسلمان مستورات کی ہجو گوئی اور عیب جوئی کی اجازت اسلام دیتا ہے ۔ جیسا کہ کعب بن اشرف لعین نے نفوس قدسیہ پر کیچڑ اچھالا تھا تو پاش پاش کر دیا گیا ۔

[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: