شیعہ اثنا عشریہ اور قرآن
تحریر: مولانا ابوالحسن مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : کیا شیعہ اثناعشریہ ہمارے قرآن پر ایمان نہیں رکھتے ؟
جواب : اللہ وحدہ لا شریک لہ نے اپنے انبیاء و رسل پر کتب و صحائف نازل فرمائے اور اس سلسلے کی آخری کڑی امام اعظم سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بذریعہ جبرئیل امین علیہ السلام قرآن نازل کیا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّـهِ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ ﴿٩٧﴾ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِلَّـهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيلَ وَمِيكَالَ فَإِنَّ اللَّـهَ عَدُوٌّ لِلْكَافِرِينَ [2-البقرة:97]
’’ آپ کہہ دیں جو شخص جبرئیل کا دشمن ہے جس نے آپ کے دل پر اس قرآن کو اللہ کے حکم سے اتارا ہے جو اس چیز کی تصدیق کرنے والا ہے جو اس کے سامنے ہے اور یہ ہدایت و خوشخبری ہے ایمان والوں کے لیے ( تو اللہ بھی اس کا دشمن ہے )۔ جو شخص اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں اور رسولوں اور جبرئیل اور میکائیل کا دشمن ہے تو بلاشبہ اللہ تعالیٰ بھی کافروں کا دشمن ہے۔“ [البقرۃ : 97۔ 98]
اس آیت کریمہ میں واضح کیا گیا ہے کہ جبرئیل امین علیہ السلام یہ قرآن لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے خود اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ [15-الحجر:9]
’’ بے شک ہم نے اس ذکر ( یعنی قرآن) کو نازل کیا اور بے شک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔“
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالذِّكْرِ لَمَّا جَاءَهُمْ وَإِنَّهُ لَكِتَابٌ عَزِيزٌ ﴿٤١﴾ لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ تَنْزِيلٌ مِنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ [41-فصلت:41]
’’ بے شک وہ لوگ جنہوں نے قرآن حکیم کے ساتھ کفر کیا جب وہ ان کے پاس آیا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک زبردست کتاب ہے، باطل نہ سامنے سے اس پر آ سکتا ہے اور نہ پیچھے سے، یہ ایک حکیم و حمید کی نازل کردہ ہے۔“ [فصلت : 41، 42]
معلوم ہوا کہ قرآن پاک ایک ایسی کتاب ہے جس میں باطل کو دخل نہیں اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری رب ذوالجلال والا کرام نے لے رکھے ہے۔ قرآن حکیم لاریب کتاب ہے، اس میں تبدیلی و تحریف نا ممکن ہے۔ قرآن حکیم کا یہ اعجاز ہے کہ اس جیسی کتاب نہ کوئی لا سکتا ہے اور نہ لا سکے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ وحی الہٰی لوگوں کو سنانا شروع کی تو کفار نے کہا: ’’ اس میں کچھ ترمیم کر لو، تب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مان سکتے ہیں۔“ تو ارشاد الہٰی ہوا :
وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هَـذَا أَوْ بَدِّلْهُ قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِنْ تِلْقَاءِ نَفْسِي إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَيَّ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [10-يونس:15]
’’ اور جب ان پر ہماری واضح آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو ہم سے ملاقات کی توقع نہیں رکھتے ہیں، کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ کوئی اور قرآن لاؤ یا اس میں کچھ ترمیم کرو۔ آپ ان سے کہہ دیجیے کہ میرا یہ کام نہیں ہے کہ میں اپنی طرف سے اس میں کوئی تغیر و تبدل کر لوں، میں تو بس اس وحی کا پیروکار ہوں جو میرے پاس بھیجی جاتی ہے، اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب کا ڈر ہے۔“ [یونس : 15]
معلوم ہو ا کہ وحی الہٰی قرآن پاک میں تغیر و تبدل کا حق کسی کو نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک قرآن حکیم ایک مکمل جامع کتاب ہے، اس میں کسی قسم کا شبہ، تغیر و تبدل اور تحریف ممکن نہیں۔ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو جمع کرنے کے لیے کہا انہوں نے اسی طرح اس کو جمع کر دیا۔ قرآن پاک کی تحریف کا قائل مسلمان نہیں۔ امام ابن حزم رحمه الله نے نصاریٰ کا یہ الزام نقل کیا ہے :
و ايضا فان الروافض يزعمون ان اصهاب نبيكم بدلوا القرآن واسقطوا منه و زادوا فيه [الفصل في الملل والهواء وا لنحل 75/2]
’’ نیز روافض دعویٰ کرتے ہیں کہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہ نے قرآن پا ک کو تبدیل کر دیا ہے اور اس میں سے کچھ آیات گرا دی ہیں اور کچھ زیادہ کر دی ہیں۔“
اس کا جواب دیتے ہوئے امام ابن حزم رحمه الله فرماتے ہیں :
واما قولهم في دعوي الروافض تبديل القراءت فان الروافض ليسوا من المسلمين انما هي فرق حدث اولها بعد موت النبي صلي الله عليه وسلم بخمس وعشرين سنة وكان مبداها اجابة ممن خذله الله تعاليٰ لدعوة من كاد الاسلام وهي طائفة تجري مجري اليهود والنصاري في الكذب والكفر [الفصل في الملل والهواء والنحل 75/2]
’’ رہا نصاریٰ کا یہ کہنا کہ روافض کا دعویٰ ہے کہ صحابہ نے قرآن تبدیل کر دیا تھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ روافض کا شمار مسلمانوں میں نہیں ہے۔ یہ ایسے فرقے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے 25 سال بعد پیدا ہوئے اور ان فرقوں کی ابتدا اس شخص کی دعوت کو قبول کرنے کی وجہ سے ہوئی جسے اللہ تعالیٰ نے اسلام کے خلاف سازشیں کرنے والوں کا داعی ہونے کی وجہ سے ذلیل و رسوا کر دیا تھا اور یہ روافض کا گروہ جھوٹا ہونے اور کفر میں یہود و نصاریٰ کے راستے پر گامزن ہے۔“ [الفصل فى الملل والهوا ء والنحل : 2/ 75]
حافظ ابن حزم اندلسی رحمه الله کی اس توضیح سے معلوم ہو ا کہ اہل حدیث کے نزدیک تحریف قرآن کا قائل مسلمان نہیں ہے۔ روافض کو انہوں نے مسلمانوں میں شمار نہیں کیا۔ اس لیے کہ یہ لوگ تحریف قرآن کے قائل اور عقائد فاسدہ رکھتے تھے۔ شیعہ حضرات کا ایمان موجودہ قرآن کریم پر نہ ہے اور نہ ہو ہی سکتا ہے۔ اس کی وجوہات درج ذیل ہیں :
➊ شیعہ حضرات کے عقائد کا جزولاینفک ہے کہ ناقلان قرآن اور راویان دین اسلام یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت جھوٹی تھی، ان میں سے ایک آدمی بھی ایسا نہ تھا جس نے حق و صداقت کو دل و جان سے قبول کیا ہو اور ان کے نزدیک اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دو گروہ تھے۔ ایک گروہ خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم اور دیگر ہزاروں صحابہ کی تعداد میں موجود تھا۔ دوسرا گروہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور ان کے چند ساتھیوں پر مشتمل تھا۔ پہلے گروہ کے جھوٹ کا نام انہوں نے نفاق رکھا ہے اور دوسرے گروہ کے جھوٹ کا نام تقیہ رکھا ہے۔ شیعہ حضرات کا ثقہ الاسلام ابوجعفر محمد بن یعقوب الکلینی لکھتا ہے کہ اما م باقر نے فرمایا :
كان الناس اهل ردة بعد النبي صلي الله عليه وسلم الا ثلاثة فقلت ومن الثلاثة ؟ فقال المقداد بن الاسود و ابو ذر الغفاري وسلمان الفارسي [كتاب الروضة من الكافي 245/8]
’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد لوگ مرتد ہو گئے تھے، سوائے تین اشخاص کے۔“ راوی کہتا ہے کہ میں نے کہا: ’’ وہ تین کون ہیں ؟“ تو انہوں نے کہا: ’’ مقداد بن اسود، ابوذر غفاری اور سلمان فارسی (رضی اللہ عنہم)۔“ [كتاب الروضة من الكافي : 8/245]
قاضی نور اللہ شوشتری نے لکھا ہے کہ امام باقر سے روایت ہے :
ارتد الناس الا ثلاث نفر سلمان و ابو ذر والمقداد [مجالس المومنين 203/1]
’’ تین کے سوا تمام لوگ مرتد ہو گئے تھے سلمان فارسی، ابوذر غفاری اور مقداد بن اسود (رضی اللہ عنہم)۔“ [مجالس المؤمنين : 1/ 203]
اس کے بعد لکھتا ہے :
يعني حضرت امام فرمود كه جميع مشاهير صحابه كه استماع نص نبوي در باب خلافت امير المومنين نموده بودند مرتد شدند الاسه نفر كه سلمان و ابوذر و مقداد است [مجالس المومنين 203/1]
’’ امام باقر رحمه الله نے فرمایا : ’’ تما م مشہور صحابہ امیر المؤمنین کی خلافت کے بارے میں نص نبوی سننے کے باوجود پھر گئے اور مرتد ہو گئے سوائے تین اشخاص کے یعنی سلمان، ابوذر اور مقداد۔“ [مجالس المؤمنين : 1/ 203]
احمد بن علی الطبرسی نے لکھا ہے :
وما من الامة احد بايع مكرها غير علي وابعتنا
’’ امت میں سے کوئی ایسا آدمی نہ تھا جس نے دلی رضا مندی کے بغیر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت کی ہو چار اشخاص کے سوا یعنی ابوذر، سلمان، مقدار اور عمار بن یاسر (رضی اللہ عنہم)۔“ [الاحتجان : 1/ 84]
طبرسی کی اس عبارت سے معلوم ہو ا کہ تمام امت مسلمہ نے دل و جان سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت کی تھی، صرف مذکورہ چار اشخاص ایسے تھے جنہوں نے مجبوراً بیعت کی اور جو بات ان کے دل میں تھی وہ زبان پر نہ تھی۔ یعنی ان کا ظاہر و باطن ایک نہ تھا (العیاذ باللہ) زبان سے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اور دل سے کسی اور کے ساتھ۔
شیخ الطائفہ الامامیہ ابوجعفہ الطوسی رقمطراز ہیں :
عن حمران قال قلت لابي جعفر ما اقلنا لو اجتمعنا علي شاة ما افنيناها قال فقال الا اخبرك باعجب من ذلك؟ قال فقلت بلي قال المهاجرون والانصار ذهبوا الا واشار بيده ثلاثة [رجال كشي ص 71]
’’ حمران نے کہا: میں نے امام باقر سے کہا: ’’ ہماری تعداد کس قدر کم ہے، اگر ہم ایک بکری پر جمع ہوں تو اسے بھی ختم نہ کر پائیں۔“ امام نے کہا: ’’ میں تجھے اس سے بھی عجیب بات نہ بتاؤں ؟“ میں نے کہا:۔ ’’ کیوں نہیں ؟“ فرمایا : ’’ مہاجرین و انصار تین کے علاوہ سب چلے گئے یعنی مرتد ہو گئے تھے۔“ [رجال كشي، ص 17]
شیعہ حضرات کے مذکورہ حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تمام صحابہ (العیاذ باللہ) مرتد ہو گئے تھے اور یہ عقیدہ انہوں نے اپنے مزعومہ ائمہ معصومین سے نقل کیا ہے۔ شیعہ حضرات کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے باری میں موقف مزید معلوم کرنا ہو تو اسد حیدر کی کتاب ’’ الصحابہ فی نظر الشعیۃ الامامیۃ“ مطبوعہ قاہر ہ اور باقر مجلسی کی ’’ بحار الانوار“ سے مطاعن پر مشتمل جلدوں کا مطالعہ کریں۔ جس سے یہ حقیقت آشکارا ہو جاتی ہے کہ ان کے نزدیک دین اسلام کے راویان اور ناقلان قرآن جھوٹے تھے، جب تک عدالت و عظمت صحابہ کو شیعہ حضرات تسلیم نہیں کر لیتے اتنی دیر تک ان کا قرآن حکیم پر ایمان درست نہیں ہو سکتا اور صحابہ پر تبّرا اور سب و شتم کرنا ان کا بنیادی عقیدہ ہے۔ اس عقیدے کی موجودگی میں قرآن حکیم پر ایمان محال و ناممکن ہے۔ تقیہ اور کتمان کے بارے میں اصول کافی وغیرہ کتب کا مطالعہ کر لیں۔
➋ شیعہ علماء کے اقرار کے مطابق اس قرآن کو خلفائے ثلاثہ نے جمع کیا اور انہیں کے انتظام و انصرام سے یہ پوری دنیا میں پھیلایا گیا اور اس موجودہ قرآن کی قابل و ثوق تصدیق ان کے ائمہ معصومین سے نہیں ملتی اور خلفائے ثلاثہ کے متعلق شیعہ کا عقیدہ ہے کہ وہ دین دشمن تھے اور اسلام کے لبادے میں حصول حکومت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کا رعب و دبدبہ اس قدر تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پوچھے بغیر کوئی کام سرانجام نہیں دیتے تھے اور ان کے رعب کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم خلافت بلافصل کا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے لیے کھلے عام واضح اور دو ٹوک اعلان نہ کر سکے۔ لہٰذا جو چیز دین دشمن لوگوں نے لکھ کر پھیلا دی ہو وہ معتبر اور قابل وثوق کیسے ہو سکتی ہے ؟ شیعہ حضرات کا کہنا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو لوگ مرتد ہو گئے اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے خلاف ہو گئے اور اپنے لیے زمام حکومت پر قابض ہو گئے۔ علی رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل اور کفن دفن کے بعد اپنے گھر میں محصور ہو کر قرآن تالیف کرنے لگے۔ جب قرآن پاک جمع کر لیا تو اسے انصار و مہاجرین کے پاس لے کر آئے، اس لیے کہ اس بات کی انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی تھی۔
فصل الخطات میں ہے :
فلما فتحه ابوبكر خرج في اول صفحة فتحها فضايع القوم فوثب عمر وقال يا علي ! اردده فلا حاجة لنا فيه فاخذه علي عليه السلام وانصرف [فصل الخطاب في اثبات تحريف كتاب رب الارباب ص 7]
’’ جب اسے ابوبکر نے کھولا تو پہلے صفحہ پر قوم کی فضیحتوں اور رسوائیوں کا ذکر تھا تو عمر اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا: ’’ اے علی ! اس کو لے جاؤ، ہمیں اس کی ضرورت نہیں۔“ علی رضی اللہ عنہ نے اس قرآن کو لیا اور چلے گئے۔“ [فصل الخطاب فى اثبات تحيريف كتاب رب الارباب : ص، 7]
پھر زید بن ثابت رضی اللہ عنہ قاری قرآن کو بلا کر نیا قرآن لکھویا گیا اور اس میں سے انصار و مہاجرین کی ذلت و رسوائی والی آیات کو نکال دیا گیا۔ [الاحتجاج للطبرسي : 1/ 156]
دوسری روایت میں ہے کہ جب صحابہ نے کہا:“ ہمیں تمہارے جمع کردہ قرآن کی حاجت نہیں۔“ تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
والله ما تروه بعد يومكم هذا [فصل الخطاب في اثبات تحريف كتاب رب الارباب ص 7]
’’ اللہ کی قسم ! تم اس قرآن کو آج کے بعد کبھی نہیں دیکھو گے۔“
مذکورہ بالا حواجات سے معلوم ہوا کہ شیعہ حضرات کے نزدیک موجودہ قرآن کے جامع ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہ تھے اور انہوں نے اسے سیدنا زید بن ثابت سے لکھوا کر دنیا میں پھیلا دیا اور اصل قرآن جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے لکھا تھا وہ تسلیم نہ کیا تو علی رضی اللہ عنہ نے اسے غائب کر دیا۔ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہ کا پھیلایا ہوا قرآن ہی آج دنیا میں پڑھا جا رہا ہے اور اس کے حافظین دنیا کے ہر گوشے میں موجود ہیں اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں شیعہ حضرات کا عقیدہ ملاحظہ ہو۔
ملا باقر مجلسی نے اپنی کتا ب میں لکھا ہے :
ابوبكر و عمر۔۔۔ هر دو كافر بودندو هر كه ايشان را دوست دارد كافر است
’’ ابوبکر و عمر دونوں کافر تھے اور ان سے دوستی رکھنے والا ہر فرد بھی کافر ہے۔“ (العیاذ باللہ) [حق القين : ص/ 542]
اس کے بعد لکھتا ہے :
ودرين باب احاديث بسيار است ودركتب متفرق است واكثر دربحار الانوار مذكور است
’’ اس بارے میں بہت سی روایات ہیں اور متفرق کتب میں موجود ہیں اور اکثر کا ذکر ’’ بحار الانوار“ میں موجود ہے۔“ [حق اليقين : ص / 542]
بحار الانوار باقر مجلسی ہی کی کتا ب ہے، جو 110 جلدوں میں چھپی ہے اور راقم الحروف کے کتب خانہ میں موجود ہے۔ مجلسی نے لکھا ہے :
اعتقاد ما در براءت آنستكه بيزاري جو يند از بت هائے چهار گانه يعني ابوبكر و عمر وعثمان و معاويه وزنان چهار گانه يعني عائشه و حفصه وهند وام الحكم و از جميع اشياع واتباع ايشان و آنكه ايشان بدترين خلق خدا يند و آنكه تمام نمي شود اقرار بخدا و رسول وائمه مگر به بيزاري از دشمنان ايشان [حق اليقين : ص / 539]
’’ تبرّا کے بارے میں ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ چار بتوں سے بیزاری اختیار کریں یعنی ابوبکر، عمر، عثمان اور معاویہ سے اور چار عورتوں سے بیزاری اختیار کریں یعنی عائشہ، حفصہ، ہند اور ام لحکم سے ان کے تمام پیروکاروں سے اور یہ اللہ کی مخلوق میں سے بدترین لوگ تھے اور یہ کہ اللہ پر، رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اور ائمہ پر ایمان مکمل نہیں ہو گا جب تک ان دشمنوں سے بیزاری نہ کریں۔“
مشہور شیعہ مفسر علی بن ابراہیم قمی رقمطراز ہیں :
’’ آیت و کرہ الیکم الکفروالفسوق والعصیان میں کفر سے مراد ابوبکر، فسوق سے مراد عمر اور عصیان سے مراد عثمان رضی اللہ عنہ ہیں۔“ (العیاذ باللہ)۔ [ تفسير فمي : 2/ 319، نيز ديكهيں تفسير الصافي : 2/ 590، تفسير نور الثقلين : 5/ 83]
مولودی مقبول حسین دہلوی لکھتا ہے :
’’ کافی اور تفسیر قمی میں جناب امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ حبب اليكم الايمان میں ایمان سے اور زينه فى قلوبكم میں ضمیر غائب سے مراد جناب امیر المؤمنین ہیں اور کرہ الیکم الکفر والفسوق والعصیان میں کفر سے مراد ہیں حضرت اول اور الفسوق سے مراد ہیں حضرت ثانی اور العصیان سے حضرت ثالث۔“ [ترجمه و تفسير مقبول دهلوي‘ ص/ 823]
مذکورہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہو ا کہ اہل تشیع کے نزدیک قرآن کا انتظام و انصرام کرنے والے اور اسے نقل کروا کے دنیا کے مختلف گوشوں میں پھیلانے والے خلفائے راشدین رضی اللہ عنہ تھے چنانچہ ان کی سب سے زیادہ دشمنی ان کے ساتھ ہے اور ان سے بیزاری کا اظہار کرنا ان کا عقیدہ ہے، اس عقیدے کی موجودگی میں یہ موجودہ قرآن پر کیسے ایمان رکھ سکتے ہیں ؟ کیونکہ اگر وہ اس قرآن کو مان لیں تو ان کا عقیدہ باطل ہو جاتا ہے۔
➌ تیسری اہم وجہ یہ ہے کہ تحریف قرآن کے بارے میں شیعہ حضرات کی امہات الکتب میں دو ہزار سے زائد روایت موجود ہیں۔ جب میں پانچ قسم کی تحریف کا ذکر ہے : (1) کمی، (2) زیادتی، (3) تبدیلی الفاظ، (4) تبدیلی حروف، (5) آیات و سور اور کلمات کی خرابی ترتیب، پھر ان روایات میں شیعہ حضرات کے معتبر اور ثقہ علماء کے تین اقرار ہیں۔
① یہ روایات متواتر ہیں اور ان کی تعداد مسئلہ امامت کے متعلق مروی روایت سے کم نہیں۔
② یہ روایات تحریف قرآن پر صراحتاً دلالت کر تی ہیں۔
③ ان روایات کے مطابق شیعہ کا تحریف قرآن کا عقیدہ بھی ہے۔
ایران سے مرزا حسین بن محمد تقی نوری طبرسی شیعہ کی ایک کتاب 1298ھ میں بنام ’’ فصل الخطاب فی اثبات تحریف کتاب رب الارباب“ شائع ہوئی، جس میں مؤلف نے ہر عقلی و نقلی طریقے سے یہ بات اپنے مذہب کی امہات الکتب سے ثابت کی ہے کہ قرآن محرف و مبدل ہے۔ موجودہ قرآن پر شیعہ کا ایمان نہیں اور یہ شیعہ کے ثقہ علما، میں سے ہے اور شیعہ رجال کے تراجم پر ایران و ہندوستان سے جتنی کتب طبع ہوئیں ان میں سے اکثر کے اندر اس کا ذکر بڑے بھاری القابات سے کیا گیا ہے، مثلاً شیخ عباسی قمی نے ’’ فوائد رضویہ [ص : 15] “ میں لکھا ہے :
سحاب الفضل۔۔۔ بحر العلم الذي ليس له ساحل
’’ مرزا حسین بن محمد نوری فضل کا بادل …. اور علم کا ایسا سمندر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں۔“
نیز ایک اور کتاب میں لکھا ہے :
امام ائمة الحديث كبار رجال الاسلام [مستدرك ابوسائل 4/1]
’’ حدیث کے اماموں کا امام ہے اور اسلام کے عظیم آدمیوں میں سے ہے۔“ [مستدرك ابوسائل : 1/ 4]
معلوم ہو ا کہ فصل الخطاب کا مؤلف شیعہ حضرات کے ہاں بڑا معتبر محدث اور بحرالعلوم ہے اور یہ کتاب اس نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے روضہ میں بیٹھ کر مکمل کی ہے۔ اپنی کتاب کے آخری صفحہ پر لکھتا ہے :
وقد فرغ من تنميق هذه الاوراق رجاء الانتفاع بها في يوم يكشف عن ساق العبد المذنب المسيء حسين بن محمد تقي النوري الطبرسي في مشهد مولانا امير المومنين عليه السلام لليلتين ان بقيا من شهر جمادي الاخري من سنة اثنتين بعد الالف
’’ امیر المؤمنین کے روضہ میں بیٹھ کر ان اوراق کے لکھنے سے بندہ گناہ گار حسین بن محمد تقی النوری الطبرسی 28 جمادی الاخریٰ 1292ھ میں قیامت والے دن نفع کی امید کرتے ہوئے فارغ ہوا۔“
اور یہ مقام شیعہ کے ہاں بابرکت اور اقدس البقاع ہے اور جب یہ مؤلف فوت ہوا تو اسے نجف میں مشہد مرتضویٰ کے صحن میں دفن کیا گیا اور مشہد مرتضوی یعنی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا روضہ شیعہ کے ہاں اتقیاء کے دفن کا مقام ہے۔ لہٰذا اس کتاب کا مؤلف ان کے ہاں بڑا معتبر محدث ہے اور اس نے فصل الخطاب لکھ کر ثابت کر دیا کہ شیعہ اس قرآن کو تسلیم نہیں کرتے۔
اس کتاب میں لکھا ہے :
ان الاخبار الدالة علي ذلك تزيد علي الفي حديث وادعي استفافتها جماعة كالمفيد و المحقق الداماد والعلامة المجلسي وغيرهم [فصل الخطاب في اثبات تحريف كتاب رب الارباب ص 251]
’’ تحریف قرآن پر دلالت کرنے والی احادیث دو ہزار سے زائد ہیں اور ان کے مشہور ہونے کا دعویٰ علماء کی ایک جماعت نے کیا ہے جیسے شیخ مفید، محقق داماد اور علامہ مجلسی وغیرہ ہیں۔“ [فصل الخطاب فى اثبات تحيريف كتاب رب الارباب : ص، 251]
اس مؤلف نے سید نعمت اللہ الجزائری الشیعی کے حوالے سے لکھا ہے :
ان الاصحاب قد اطبقوا علي صحة الاخبار المستفيضة بل المتواترة الدالة بصريحها علي وقوع التحريف في القرآن كلاما ومادة واعرابا والتصديق بها [فصل الخطاب ص 31، الانوار النعمانية 357/2]
’’ اصحاب امامیہ نے ان مشہور روایات کی صحت بلکہ تواتر پر اتفاق کیا ہے، ایسا تواتر جو صراحتاً قرآن پاک میں تحریف پر دلالت کرتا ہے، یہ تحریف کلام و مادہ اور اعراب میں ہے اور ان روایات کی تصدیق پر بھی علمائے شیعہ نے اتفاق کیا ہے۔“
شیعہ کے معتبر کتاب اصول کافی میں روایت ہے کہ امام جعفر صادق رحمه الله نے فرمایا :
ان القرآن الذي جاء به جبريل عليه السلام الي محمد سبعة عشر الف آية
’’ بلاشبہ جو قرآن جبرئیل علیہ السلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لے کر آئے اس کی سترہ ہزار آیات تھیں۔“
اس حدیث کی شرح میں ملا باقر مجلسی نے لکھا ہے :
فالخبر صحيح ولا يخفي ان هذا الخبرو كثيرا من الاخبار الصحيحة صريحة في نقص القرآن و تغييره وعندي ان الاخبار في هذا الباب متواتره معني وطرح جميعها يوجب رفع الاعتماد عن الاخبار راسا بل ظني ان الاخبار في هذا الباب لا يقصر عن اخبار الامامة فكيف يشبتونها بالخبر
’’ یہ خبر صحیح ہے پس مخفی نہ رہے کہ یہ خبر اور دیگر بہت ساری صحیح روایات صراحتاً قرآن پاک میں کمی اور تبدیلی پر دلالت کرتے ہیں اور میرے نزدیک تحریف قرآن کے مسئلہ میں روایات معناً متواتر ہیں اور سب روایات کو ترک کرنا تمام ذخیرہ احادیث سے اعتماد کو اٹھانا ہے بلکہ میرا خیال ہے کہ تحریف قرآن کی روایات مسئلہ امامت کی روایات سے کم نہیں، اگر ان روایات کا اعتبار نہ ہوا تو مسئلہ امامت روایت سے کیسے ثابت کریں گے ؟“ [مراة العقول فى شرح اخبار آل الرسول : 12/525]
مرزا حسین بن محمد بن تقی نوری طبرسی لکھتا ہے :
الاخبار الكثيرة المعتبرة الصريحة في وقوع السقط ودخول النقصان في الموجود من القرآن
’’ بہت ساری معتبر روایتیں موجودہ قرآن میں کمی پر صراحتاً دلالت کرتی ہیں۔“ [فصل الخطاب : ص/ 235]
ملا فیض کاشانی لکھتا ہے :
واما اعتقاد مشايخنا في ذلك فالظاهر من ثقة الاسلام محمد بن يعقوب الكليني انه كان يعتقد التحريف و النقصان في القرآن لانه كان روي روايات في هذا المعني في كتابه الكافي ولم يتعرض لقدح فيها مع انه ذكره في اول الكتاب انه كان يثق بما رواه فيه وكذلك استاذه علي بن ابراهيم القمي فان تفسيره مملو منه وله غلو فيه و كان الشيخ احمد بن ابي طالب الطبرسي فناه ايصا نسج علي منوالهما في كتاب الاحتجاج
’’ بہر کیف تحریف قرآن کے بارے میں ہمارے مشائخ کا عقیدہ تو ظاہر بات ہے کہ ثقہ الاسلام محمد بن یعقوب کلینی قرآن پاک میں تحریف اور کمی کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ اس لیے کہ انہوں نے اپنی کتاب اصول کافی میں اس معنی کی روایات بیان کی ہیں اور ان پر جرح نہیں کہ باوجود اس کے کہ انہوں نے اپنی کتاب کی ابتدا میں ذکر کیا ہے کہ جو روایات وہ اس میں لائیں گے اس پر انہیں اعتماد ہے۔ اسی طرح ان کے استاذ علی بن ابراہیم قمی کا بھی یہی عقیدہ تھا۔ ان کی تفسیر قمی اس بات سے بھری پڑی ہے اور انہوں نے اس میں غلو سے کام لیا ہے اور شیخ احمد بن ابی طالب طبرسی بھی ان دونوں کے منہج پر اپنی کتاب الاحتجاج میں چلے ہیں۔“ [مقدمة تفسير صافي : 1/ 34]
مذکورہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ فقہ جعفریہ کی امہات الکتب میں دو ہزار سے زائد روایات تحریف قرآن پر دلالت کر تی ہیں اور یہ ان کے ہاں متواتر روایات ہے۔ ان کا مقام بھی وہی ہے جو مسئلہ امامت کی روایات ہے اور مسئلہ امامت ان کے ہاں اصول دین سے ہے۔ اگر ان روایات کا انکار کریں گے تو اپنے اصول دین کا انکار کرنا پڑے گا اور ان روایات میں اس بات کی تصریح ہے کہ قرآن محرف ہو چکا ہے، اس میں کمی بیشی، تبدیلی حروف و کلمات وغیرہ کی صورت میں ہوئی ہے اور تحریف قرآن پر ان کے ثقہ علماء کا اتفاق ہے۔ تفسیر قمی جو ان کی پہلی تفاسیر میں سے ہے اور بڑی معتبر سمجھی جاتی ہے اور اس کا مؤلف علی بن ابراہیم قمی ان کے ہاں ثقہ محدث و مفسر ہونے کے ساتھ گیارہویں امام حسن عسکری کے دور کا ہے۔ اس میں تحریف قرآن پر دلالت کرنے والی کثیر روایات موجود ہیں اور اس کا شاگرد محمد بن یعقوب کلینی جو اصول کافی وغیرہ کا مؤلف ہے اور یہ کتاب ان کے ہاں ایسے ہی ہے جیسے ہمارے ہاں بخاری شریف ہے۔ یہ بھی تحریف قرآن کا قائل ہے اور اس کے علاوہ ان کے علماء کی بہت بڑی تعداد صراحتاً تحریف قرآن پر عقیدہ رکھتی ہے۔ بعض شیعہ حضرات اپنے چار علماء کا نام لیتے ہیں کہ وہ تحریف کے قائل نہ تھے۔
① سید شریف مرتضیٰ ② شیخ صدوق ③ ابوجعفر طوسی ④ ابوعلی طبرسی
لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بھی تحریف کے قائل تھے۔ انہوں نے قرآن کے محرف نہ ہونے کا قول تقیہ کرتے ہوئے اور بعض مصلحتوں کی بنیاد پر اختیار کیا کیونکہ سید شریف مرتضیٰ اپنے رسالہ ”المحکم والمتشابۃ المعروف بتعید النعمانی“ [ص 26] میں لکھا ہے :
و أما ما حرف من كتاب الله فقوله كنتم خير ائمة أخرجت للناس تأمرون بالمعروف و تنهون عن المنكر فحرفت إلى خير أمة
مقصود یہ ہے کہ اس آیت میں لفظ ائمه کو امه سے بدل دیا گیا ہے۔ اسی طرح کی کئی مثالیں شریف مرتضیٰ نے اس مقام پر ذکر کر کے واضح کر دیا کہ یہ اس بات کا قائل ہے کہ قرآنِ حکیم میں تحریف کی گئی ہے۔
مرزا حسین بن محمد نے فصل الخطاب میں ذکر کیا ہے کہ ان متقدمین میں کوئی موافق نہیں ہے۔
سید نعمت اللہ الجزائری الشیعی نے لکھا ہے :
و الظاهر أن هذا القول إنما صدر منهم لاجل مصالح كثيره منها سد باب الطعن عليها بأنه إذا جاز هذا فى القرآن فكيف جاز العمل بقواعدو و احكامه مع جواز لحوق التحريف لها، كيف و هؤلاء الأعلام رووا فى مؤلفاتهم أخبارا كثيرة تشتمل على وقوع تلك الأمورفى القرآن وإن الآية هكذا انزلت غيرت إلى هذا [الأنوار النعمانية 358/2]
”ظاہر ہے کہ ان حضرات کا یہ انکار چند مصلحتوں پر مبنی تھا جن میں سے ایک یہ ہے کہ طعن کا دروازہ بند کرنے کے لئے جب قرآن میں تحریف جائز ہے تو اس کے قواعد اور احکام پر عمل کیسے جائز ہو سکتا ہے ؟ باوجود اس کے کہ ان میں تحریف کا واقع ہونا جائز ہے اور یہ قران کے غیر محرف ہونے کا عقیدہ کیسے رکھ سکتے تھے ؟ جب کہ انہوں نے اپنی کتابوں میں بہت ساری ایسی روایات درج کی ہیں جو تحریف قرآن پر مشتمل ہیں اور بتاتی ہیں کہ فلاں آیت اس طرح نازل ہوئی پھر اس طرح بدل دی گئی۔“
معلوم ہوا کہ ان چاروں نے بھی تقیہ کرتے ہوئے اور بعض مصلحتوں کی بنا پر کہہ دیا کہ قران محرف نہیں حالانکہ یہ تحریر کے قائل تھے۔ بعض شیعہ یہ مغالطہ دیتے ہیں کہ ہم تو اس قرآن کو مانتے ہیں اور اسے ہی پڑھتے پڑھاتے ہیں۔ لہذا ہم کیسے اس کی تحریف کے قائل ہو سکتے ہیں ؟ یہ بھی صرف مغالطہ ہے کیونکہ ی تقیہ کی آڑ میں ایسا کہتے ہیں، ان کو یہ حکم ہے کہ جب تک بارھواں امام اصل قرآن لے کر نہیں آتا تم اسے ہی پڑھتے رہو، جب وہ اصل قرآن لے کر آئے گا تو پھر اس کی تلاوت گی۔
مولوی مقبول دہلوی سورہ یوسف کی آیت ۴۹ میں يعصرون کے لفظ کے بارے میں لکھتا ہے :
”معلوم ہوتا ہے کہ جب قرآن میں ظاہراً اعراب لگا دیئے گئے تو شراب خور خلفاء کی خاطر يُعْصَرُوْن کو يُعْصِرُوْن سے بدل کر معنی کو زیر و زبر کیا گیا یا مجہول کو معروف سے بدل کر لوگوں کے لیے ان کے کرتوت کی معرفت آسان کر دی۔ ہم اپنے امام کے حکم سے مجبور ہیں کہ جو تغیر یہ لوگ کر دیں تم اس کو اس کے حال پر رہنے دو اور تغیر کرنے والے کا عذاب کم نہ کرو، جہاں تک ممکن ہو لوگوں کو اصل حال سے مطلع کر دو۔ قرآن کو اس کی اس حالت پر لانا جناب صاحب العصر علیہ السلام کا حق ہے اور انہی کے وقت میں وہ حسب تنزیل خدائے تعالیٰ پڑھا جائے گا۔“ [ترجمہ و تفسیر مقبول دهلوی ص 384]
نیز دیکھیں شیعہ حضرات کی معتبر کتب الانوار النعمانیہ 360/2، المقدمۃ السادسۃ من تفسیر الصافی 25/1، بصائر الدرجات الجزء الرابع ص 193
مذکورہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ یہ لوگ قرآن کو پڑھنے پر مجبور ہیں اور ان کے نزدیک اصل قرآن ان کا بارھواں امام صاحب العصر و الزمان لے کر آئے گا۔ اس کے ظہور تک یہ اسے ہی پڑھتے رہیں گے، حقیقت میں ان کا اس پر ایمان نہیں ہے۔ لہٰذا واضح ہو گیا کہ ان کا ایمان نہ قرآن پر ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ اگر یہ قرآن پر صحیح ایمان لے آئیں تو فقہ جعفریہ کا خون ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ حقائق کو سمجھ کر صحیح عمل کی توفیق نصیب کرے اور باطل مذاہب سے محفوظ رکھے۔ شیعہ حضرات کے اس موقف کی تفصیل کے لئے ان کی کتاب ”فصل الخطاب فی اثبات تحریف کتاب رب الارباب“ اور علامہ احسان الہیٰ ظہیر رحمہ اللہ کی ”الشیعۃ والقرآن“ ملاحظہ ہو۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے