تعارف
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کی مذمت فرمائی جو رات بھر سوتا رہے اور صبح کی نماز چھوڑ دیتا ہے۔ روایت میں اس حالت کو بیان کرنے کے لیے فرمایا گیا کہ شیطان اس شخص کے کان میں پیشاب کر دیتا ہے۔ بعض لوگ اس حدیث کے الفاظ کو ظاہری طور پر سمجھتے ہیں اور اسے غیر سنجیدہ قرار دیتے ہیں، جبکہ حقیقت میں یہ ایک محاورہ ہے جو عربی زبان میں گہری نیند، لاپرواہی اور غفلت کی شدت کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
روایتِ حدیث
پہلی روایت
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"ذُكِرَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ نَامَ لَيْلَهُ حَتَّى أَصْبَحَ، قَالَ: «ذَاكَ رَجُلٌ بَالَ الشَّيْطَانُ فِي أُذُنِهِ»”
ترجمہ: "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس شخص کا ذکر ہوا جو رات بھر سوتا رہا، تو آپ نے فرمایا: یہ وہ شخص ہے جس کے کان میں شیطان نے پیشاب کیا۔”
(صحیح بخاری: جلد دوم، حدیث نمبر 529)
دوسری روایت
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
"مَا زَالَ نَائِمًا حَتَّى أَصْبَحَ، مَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ، فَقَالَ: «بَالَ الشَّيْطَانُ فِي أُذُنِهِ»”
ترجمہ: "آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ذکر آیا کہ ایک شخص صبح تک سوتا رہا اور نماز کے لیے نہ اٹھا، تو آپ نے فرمایا: شیطان نے اس کے کان میں پیشاب کیا۔”
(صحیح بخاری: جلد اول، حدیث نمبر 1096)
تیسری روایت
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الَّذِي يَنَامُ مِنْ أَوَّلِ اللَّيْلِ إِلَى آخِرِهِ، قَالَ: «ذَاكَ الَّذِي بَالَ الشَّيْطَانُ فِي أُذُنِهِ»”
ترجمہ: "آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ جو شخص رات بھر سوتا رہے، تو آپ نے فرمایا: یہ وہ شخص ہے جس کے کان میں شیطان نے پیشاب کیا۔”
(الطحاوی: شرح مشکل الآثار، جلد 10، حدیث 4020)
حدیث کی وضاحت
شیطان کا عمل
امام ابن بطل (449ھ) فرماتے ہیں کہ حدیث میں شیطان کا کسی کے کان میں پیشاب کرنا ایک محاورہ ہے جس کا مطلب ہے:
◄ شیطان کی خوشی اور رضامندی۔
◄ انسان پر شیطان کا غلبہ اور اسے گمراہ کرنا۔
(ابن بطل: شرح صحیح بخاری، جلد 9، صفحہ 370)
کان کا ذکر
کان سننے کی صلاحیت کے لیے اہم ہیں۔ نیند کی حالت میں کانوں پر "پردہ پڑ جانا” ایک استعاراتی مفہوم ہے، جو غفلت اور لاپرواہی کو ظاہر کرتا ہے۔
قرآن کریم میں اہلِ کہف کے بارے میں بھی یہی مفہوم بیان ہوا ہے:
"فَضَرَبْنَا عَلَىٰ آذَانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَدًا” (الکہف: 11)
ترجمہ: "پھر ہم نے ان کے کانوں پر (نیند کا) پردہ ڈال دیا کئی سالوں کے لیے۔”
پیشاب کا مفہوم
امام ابن حجر (852ھ) فرماتے ہیں:
"یہ محاورہ گہری نیند کی شدت کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے، جس سے انسان نماز جیسی فرض عبادات سے محروم ہو جاتا ہے۔ عرب میں پیشاب کا لفظ خراب یا بے کار چیز کے لیے استعمال ہوتا ہے۔”
(ابن حجر: فتح الباری، جلد 3، صفحہ 28-29)
علمائے کرام کا نقطۂ نظر
◄ امام نووی (676ھ): "پیشاب کا ذکر توہین، غلبہ اور مذاق کے معنوں میں آتا ہے۔ یہ دراصل شیطان کا انسان پر غالب آ جانے کی طرف اشارہ ہے۔” (النووی: شرح صحیح مسلم، جلد 6، صفحہ 64)
◄ ابو جعفر الطحاوی (321ھ): "یہ نیند وہ حالت ہے جو انسان کو نمازِ عشاء اور فجر جیسی فرض عبادات سے محروم کر دیتی ہے۔ یہ ایک تشبیہ ہے جو غفلت کی انتہا کو ظاہر کرتی ہے۔” (الطحاوی: شرح مشکل الآثار، جلد 10، صفحہ 193-194)
خلاصہ
یہ حدیث محض ایک محاورہ ہے جو نمازوں میں غفلت اور شیطان کے غلبے کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ یہ دراصل اُس برائی کی نشاندہی کرتی ہے جو فرض عبادات میں کوتاہی کے نتیجے میں انسان کے اندر پیدا ہوتی ہے۔ پیشاب کا ذکر شیطان کے اثرات کی شدت اور غفلت کے بوجھ کو بیان کرتا ہے۔