شیطان سے تحفظ: قرآن و سنت کی روشنی میں مؤمن کی حکمتِ عمل
ماخذ: خطبات حافظ محمد اسحاق زاہد، مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام

اس مقالے میں یہ واضح کیا جاتا ہے کہ شیطان انسان کا ازلی، اعلانیہ اور دائمی دشمن ہے۔ قرآنِ کریم کی نصوص اور صحیح احادیث کی روشنی میں اس کی دشمنی کی حقیقت، اس کے اہداف، وار کرنے کے طریقے اور اُن خدائی ہدایات کو بیان کیا جائے گا جن کے ذریعے مومن اس فتنۂ عظیم سے بچ سکتا ہے۔ مضمون کا پہلا حصّہ شیطان کی دشمنی کے قرآنی شواہد، اس کی مہلتِ قیامت تک، اللہ تعالیٰ کے دیے گئے تین بنیادی احکامات، اور شیطان سے متعلق چند بنیادی حقائق پر مشتمل ہے۔ اگلے حصوں میں اُس کی چالیں اور اُس کے شر سے بچاؤ کی مفصل تدابیر آئیں گی—ان شاء اللہ۔

شیطان کی دشمنی: ازل سے اعلان تک

جب ابلیس نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے تکبر کے باعث انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے رحمت سے دور کرکے جنت سے نکال دیا۔ تب اس نے کھلم کھلا انسان کو گمراہ کرنے کا عہد کیا:

﴿ قَالَ اَرَئَیْتَکَ ھٰذَا الَّذِیْ کَرَّمْتَ عَلَیَّ لَئِنْ اَخَّرْتَنِی اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لَاَحْتَنِکَنَّ ذُرِّیَّتَہٗٓ اِلَّا قَلِیْلًا ﴾ [الإسراء : 62 ]
’’ اس نے کہا : بھلا دیکھ جس کو تو نے مجھ پر فوقیت دی ہے اگر تو مجھے قیامت تک مہلت دے تو میں چند لوگوں کے سوا اس کی تمام تر اولاد کو لگام ڈالے رکھوں گا ۔ ‘‘

اللہ تعالیٰ کا جواب:

﴿قَالَ اذْھَبْ فَمَنْ تَبِعَکَ مِنْھُمْ فَاِنَّ جَھَنَّمَ جَزَآؤُکُمْ جَزَآئً مَّوْفُوْرًا﴾ [الإسراء: 63]
’’ اللہ تعالی نے فرمایا : جا ، اولادِ آدم میں سے جو بھی تمھارے پیچھے لگے گا تو تم سب کیلئے جہنم ہی پورا پورا بدلہ ہے ۔ ‘‘

مہلتِ قیامت تک — دشمنی کی دوامیت

خود شیطان نے مہلت چاہی اور اسے مل گئی:

﴿قَالَ رَبِّ فَاَنْظِرْنِیْٓ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ ٭ قَالَ فَاِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ ٭ اِلٰی یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ﴾ [ الحجر : ۳۶۔ ۳۸]
’’ وہ کہنے لگا : اے میرے رب ! پھر مجھے اس دن تک مہلت دے دے جب لوگ اٹھائے جائیں گے ۔ اللہ تعالی نے فرمایا : تجھے مہلت دی جاتی ہے اُس دن تک جس کا وقت ( ہمیں) معلوم ہے ۔ ‘‘

اللہ تعالیٰ کے تین بنیادی احکامات (شیطان سے مقابلے کی بنیاد)

① شیطان کو دشمن جاننا اور اسی زاویے سے معاملہ کرنا

﴿ اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْہُ عَدُوًّا اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَہٗ لِیَکُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ﴾ [فاطر: 6 ]
﴿ بے شک شیطان تمہارا دشمن ہے، پس تم اسے دشمن ہی سمجھو۔ وہ تو اپنے گروہ کو بلاتا ہے تاکہ وہ بھڑکتی آگ والوں میں شامل ہوں۔ ﴾

﴿اَفَتَتَّخِذوْنَہٗ وَ ذُرِّیَّتَہٗٓ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِیْ وَ ھُمْ لَکُمْ عَدُوٌّ بِئْسَ لِلظّٰلِمِیْنَ بَدَلًا﴾ [الکہف :50]
﴿ کیا تم اسے اور اس کی اولاد کو میرے سوا دوست بناتے ہو؟ حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں۔ ظالموں کے لیے کیسا برا بدلہ ہے (جو انہوں نے اختیار کیا)۔ ﴾

② اس کے نقشِ قدم کی پیروی سے ممانعت

﴿ یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ لَا یَفْتِنَنَّکُمُ الشَّیْطٰنُ کَمَآ اَخْرَجَ اَبَوَیْکُمْ مِّنَ الْجَنَّۃِ ﴾ [ الأعراف : ۲۷]
﴿ اے آدم کی اولاد! شیطان تمہیں فتنہ میں نہ ڈال دے، جیسے اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکال دیا تھا۔ ﴾

﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ وَمَن يَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ ﴾ [ النور : ۲۱]
﴿ اے ایمان والو! شیطان کے نقشِ قدم پر نہ چلو، اور جو شیطان کے نقشِ قدم پر چلے گا، تو وہ بے حیائی اور برے کاموں کا حکم دیتا ہے۔ ﴾

③ بچاؤ کی تدابیر سکھانا

ان عملی تدابیر کی تفصیل آئندہ حصوں میں آئے گی—ان شاء اللہ۔

شیطان کے متعلق بعض اہم حقائق

1) وہ انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(إِنَّ الشَّیْطَانَ یَجْرِيْ مِنِ ابْنِ آدَمَ مَجْرَی الدَّمِ) [ البخاری: ۶۷۵۰، مسلم :۲۱۷۴]
"بے شک شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے۔”
یہ اس کی دشمنی کی شدت اور وساوس کی باریک روی کو واضح کرتا ہے۔

2) وہ ہمیں دیکھتا ہے؛ ہم اسے نہیں دیکھ سکتے

﴿ اِنَّہٗ یَرٰکُمْ ھُوَ وَ قَبِیْلُہٗ مِنْ حَیْثُ لَا تَرَوْنَھُمْ ﴾ [ الأعراف : ۲۷]
"بے شک وہ (شیطان) تمہیں دیکھتا ہے، وہ اور اس کا قبیلہ، وہاں سے جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔”
پوشیدہ اور مکار دشمن سے بچاؤ مزید مشکل ہوجاتا ہے—إلا من رحم اللہ۔

3) شیطان اکیلا نہیں؛ جن و انس میں لشکر رکھتے ہے

﴿ وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَ الْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا ﴾ [ الأنعام : ۱۱۲]
﴿ اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے انسانوں اور جنوں کے شیطانوں کو دشمن بنایا، جو ایک دوسرے کے پاس فریب دینے کے لیے خوشنما باتوں کی وحی کرتے ہیں۔ ﴾

﴿وَ اِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰٓی اَوْلِیٰٓئِھِمْ لِیُجَادِلُوْکُمْ ﴾ [ الأنعام : ۱۲۱ ]
﴿ اور بے شک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں (وسوسے ڈال کر) تم سے جھگڑنے کے لیے باتیں ڈالتے ہیں، اور اگر تم ان کی بات مانو گے تو یقیناً تم بھی مشرکوں میں شمار ہوگے۔ ﴾

اور حدیثِ صحیح میں ابلیس کے عرش اور اس کے کارندوں کی درجہ بندی مذکور ہے:
[مسلم :۲۸۱۳]

4) ہر سمت سے گھات—دلوں میں شکوک، دنیا پر فریفتگی

﴿ قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿16﴾ ثُمَّ لَآتِيَنَّهُم مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَن شَمَائِلِهِمْ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ ﴾ [ الأعراف : ۱۶۔ ۱۷]
(ابلیس نے) کہا: ’’چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے، میں ضرور ان کے لیے تیرے سیدھے راستے پر بیٹھوں گا، پھر میں ان کے پاس سامنے سے آؤں گا، پیچھے سے، ان کے دائیں سے اور بائیں سے، اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہیں پائے گا۔‘‘

مفسرِ قرآن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے مطابق:

آگے سے: آخرت کے بارے میں شک ڈالنا

پیچھے سے: دنیا کی محبت میں الجھانا

دائیں سے: دین کے بارے میں شکوک وشبہات

بائیں سے: گناہوں کی ترغیب

مزید:
﴿وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَہٗ شَیْطٰنًا فَہُوَ لَہٗ قَرِیْنٌ ﴾ [الزخرف:63]

اسی باب میں قرینِ جن و فرشتہ کی احادیث: [ مسلم : ۲۸۱۴] ، [ مسلم : ۲۸۱۵]

5) قیامت کے روز شیطان بریٔ الذمہ ہو جائے گا

﴿وَ قَالَ الشَّیْطٰنُ لَمَّا قُضِیَ الْاَمْرُ اِنَّ اللّٰہَ وَعَدَکُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَ وَعَدْتُّکُمْ فَاَخْلَفْتُکُمْ وَ مَا کَانَ لِیَ عَلَیْکُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّآ اَنْ دَعَوْتُکُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ فَلَا تَلُوْمُوْنِیْ وَلُوْمُوْٓا اَنْفُسَکُمْ مَآ اَنَا بِمُصْرِخِکُمْ وَمَآ اَنْتُمْ بِمُصْرِخِیَّ اِنِّیْ کَفَرْتُ بِمَآ اَشْرَکْتُمُوْنِ مِنْ قَبْلُ اِنَّ الظّٰلِمِیْنَ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ﴾ [إبراہیم: 22 ]
اور جب فیصلہ چکا دیا جائے گا تو شیطان کہے گا:
’’بیشک اللہ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا، اور میں نے بھی تم سے وعدہ کیا تھا مگر میں نے تم سے وعدہ خلافی کی۔ اور میرا تم پر کوئی زور نہ تھا سوائے اس کے کہ میں نے تمہیں بلایا اور تم نے میری بات مان لی۔ پس اب مجھے ملامت نہ کرو بلکہ خود اپنے آپ کو ملامت کرو۔ نہ میں تمہاری فریاد کو پہنچ سکتا ہوں اور نہ تم میری فریاد کو۔ میں تو اس سے انکار کرتا ہوں کہ تم نے اس سے پہلے مجھے اللہ کا شریک بنایا تھا۔ بے شک ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘

یہ آیت بتاتی ہے کہ فیصلے کے دن شیطان اپنے پیروکاروں سے بری ہو کر کہے گا کہ میں نے بس دعوت دی تھی، اختیار تم نے خود کیا؛ لہٰذا اس کی دوستی کے بجائے اس کی مخالفت لازم ہے۔

6) رحمن کی فرمانبرداری = شیطان کی نافرمانی

ہر وہ عبادت جو اللہ کو محبوب ہے، شیطان کے نزدیک مبغوض ہے؛ اس لئے وہ انسان کو اس سے روکتا ہے۔ اور ہر معصیت شیطان کو پسند ہے؛ وہ اسے مزین کر کے راستے آسان بناتا ہے۔ جو مسلمان رحمن کی اطاعت پر قائم رہے گا وہ کامیاب، اور جو شیطان کی پیروی کرے گا وہ خسارے میں ہوگا۔

شیطان کا بنیادی ہدف

﴿ اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَہٗ لِیَکُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ﴾ [فاطر: 6 ]
“بیشک وہ (شیطان) اپنے ساتھیوں کو صرف اس لیے بلاتا ہے تاکہ وہ جہنم (سعیر) کے رہنے والوں میں شامل ہو جائیں۔”

ابلیس کی اصل چاہت یہ ہے کہ جیسے وہ خود جہنمی ہے ویسے انسان بھی جہنم کا ایندھن بن جائے، اس کے لئے وہ اطاعتِ الٰہی سے غافل اور معصیت کی طرف مائل کرتا ہے۔

شیطان کی چالیں

① کفر و شرک میں مبتلا کرنا

﴿ کَمَثَلِ الشَّیْطٰنِ اِِذْ قَالَ لِلْاِِنْسَانِ اکْفُرْ فَلَمَّا کَفَرَ قَالَ اِِنِّیْ بَرِیٓئٌ مِّنْکَ اِِنِّیْ اَخَافُ اللّٰہَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ ﴾ [الحشر: 16 ]
“(ان منافقوں کی مثال) شیطان کی سی ہے جب وہ انسان سے کہتا ہے: کفر کر۔ پھر جب وہ کفر کر لیتا ہے تو کہتا ہے: میں تجھ سے بری ہوں، میں تو اللہ ربّ العالمین سے ڈرتا ہوں۔”

﴿ اِنْ یَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اِنٰثًا وَ اِنْ یَّدْعُوْنَ اِلَّا شَیْطٰنًا مَّرِیْدًا٭ لَّعَنَہُ اللّٰہُ﴾ [ النساء : ۱۱۷ ۔ ۱۱۸]
“وہ اللہ کو چھوڑ کر صرف عورتوں (یعنی مؤنث نام والے معبودوں) کو پکارتے ہیں اور دراصل وہ ایک سرکش شیطان ہی کو پکارتے ہیں، جس پر اللہ نے لعنت کی ہے۔”

حضرت نوح علیہ السلام کی قوم میں شرک کا آغاز شیطان کے وسوسے سے ہوا؛ صالحین وَدّ، سُوَاع، یَغُوث، یَعُوق، نَسْر کی یادگاریں بعد والی نسلوں نے معبود بنا لیں۔ [ بخاری : ۴۹۲۰ ]

ابنِ جریر نے محمد بن قیس رحمہما اللہ سے نقل کیا کہ پہلے تصاویر وعظ و تذکیر کے لئے بنیں، پھر ابلیس نے بعد کی نسل کو پوجا پر آمادہ کیا۔ [ تفسیر الطبری ۲۳/۶۳۹ ]

آج بھی قبروں پر نذر و نیاز، غیر اللہ کے سامنے جھکنا، اموات سے امیدیں وابستہ کرنا—یہ سب اسی فتنۂ شرک کے مظاہر ہیں۔

② گناہوں کو مزین کرنا اور دعوتِ معصیت

﴿قَالَ رَبِّ بِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاُزَیِّنَنَّ لَھُمْ فِی الْاَرْضِ وَ لَاُغْوِیَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَ ٭ اِلَّا عِبَادَکَ مِنْھُمُ الْمُخْلَصِیْنَ ﴾ [الحجر:39]
“(ابلیس نے) کہا: اے میرے رب! جس طرح تو نے مجھے گمراہ کیا ہے، میں ضرور ان کے لیے زمین میں (گناہوں کو) خوشنما بنا دوں گا اور میں ان سب کو بہکا کر رہوں گا، سوائے تیرے اُن بندوں کے جو ان میں سے خالص کیے گئے ہیں (یعنی مخلص بندے)۔”

آغاز ہی سے آدمؑ و حوّا کو جنتی درخت کے بارے میں وسوسہ دیا:
﴿ فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطَانُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَا وُرِيَ عَنْهُمَا مِن سَوْآتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَٰذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّا أَن تَكُونَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ ‎۝٢١‎ وَقَاسَمَهُمَا إِنِّي لَكُمَا لَمِنَ النَّاصِحِينَ ‎﴾ [ الأعراف :۲۰۔۲۱]
“پھر شیطان نے ان دونوں کے دل میں وسوسہ ڈالا تاکہ ان کی شرمگاہیں جو ان سے چھپائی گئی تھیں، ان پر ظاہر کر دے، اور کہا: تمہارے رب نے تمہیں اس درخت سے صرف اس لیے روکا ہے کہ تم فرشتے نہ بن جاؤ یا ہمیشہ زندہ نہ رہو۔ اور اس نے ان دونوں سے قسم کھائی کہ ‘میں تمہارا سچا خیر خواہ ہوں۔’”

اور کہا: ﴿یٰٓاٰدَمُ ھَلْ اَدُلُّکَ عَلٰی شَجَرَۃِ الْخُلْدِ وَ مُلْکٍ لَّا یَبْلٰی﴾ [طہ : 20]
“اے آدم! کیا میں تمہیں ہمیشہ کی زندگی کے درخت اور ایسی بادشاہت کی طرف نہ بتاؤں جو کبھی فنا نہ ہو؟”

پھر قابیل کو بھائی کے قتل پر آمادہ کیا (قصہ سورۃ المائدہ میں)؛ اس کے بعد شرک کو مزین کیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی:
( أَلاَ إِنَّ الشَّیْطَانَ قَدْ أَیِسَ أَن یُّعْبَدَ فِی بَلَدِکُمْ ہٰذَا أَبَدًا وَلٰکِنْ سَتَکُونُ لَہُ طَاعَۃٌ فِی بَعْضِ مَا تَحْتَقِرُوْنَ مِنْ أَعْمَالِکُمْ فَیَرْضَی بِہَا ) [ ترمذی : ۲۱۵۹ ، ابن ماجۃ : ۳۰۵۵۔ صححہ الألبانی]
“خبردار! شیطان اس بات سے مایوس ہو چکا ہے کہ تمہارے اس ملک (یعنی جزیرۃ العرب) میں کبھی اس کی عبادت کی جائے، لیکن وہ ان چھوٹے چھوٹے اعمال میں تمہاری اطاعت سے خوش ہوگا جنہیں تم معمولی سمجھتے ہو، اور وہ انہی پر راضی ہو جائے گا۔”

آج لوگوں نے بہت سے ’’حقیر‘‘ سمجھے جانے والے کبائر (نماز میں سستی، زکاۃ میں کوتاہی، سود، جوا، موسیقی، نشہ، رشوت، والدین کی نافرمانی وغیرہ) کو معمول سمجھ لیا ہے۔

③ شراب و جوا سے عداوت پیدا کرنا اور دین سے روکنا

﴿اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَ الْبَغْضَآئَ فِی الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَ یَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَ عَنِ الصَّلٰوۃِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَھُوْنَ ﴾ [المائدۃ:19 ]
“شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے، اور تمہیں اللہ کے ذکر اور نماز سے روک دے۔ تو کیا تم (اب) باز آؤ گے؟”

شراب و قمار اجتماعی نفرت، ذِکر اور نماز سے غفلت کا ذریعہ بنتے ہیں—یہی شیطانی منصوبہ ہے۔

④ عبادت میں خلل ڈالنا

عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کو نمازی وسوسوں سے شک میں مبتلا کرنے والے شیطان خنزب کے بارے میں ہدایت:
( ذَاکَ شَیْطَانٌ یُقَالُ لَہُ خِنْزِبٌ ، فَإِذَا أَحْسَسْتَہُ فَتَعَوَّذْ بِاللّٰہِ مِنْہُ وَاتْفُلْ عَلٰی یَسَارِکَ ثَلَاثًا ) [ مسلم : ۲۲۰۳]
“یہ ایک شیطان ہے جسے خنزب کہا جاتا ہے۔ جب تم اسے محسوس کرو (یعنی نماز میں وسوسہ آئے) تو اللہ کی پناہ مانگو اس سے، اور اپنے بائیں جانب تین مرتبہ ہلکا سا تھوک دو (یعنی پھونک مارو)۔”

اذان پر بھاگنا، اقامت پر پھر بھاگنا، نماز میں خیالات ڈالنا: [ بخاری : ۱۲۳۱ ]

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز میں خلل ڈالنے کی کوشش پر قابو: [ البخاری : ۳۲۸۴]

نماز میں ادھر ادھر دیکھنا: ( ہُوَ اخْتِلَاسٌ… ) [ البخاری : ۳۲۹۱]

⑤ تمناؤں اور آرزوؤں میں مگن رکھنا اور خلقتِ الٰہی میں تبدیلی پر اکسانا

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَ قَالَ لَاَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِکَ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا٭ وَّ لَاُضِلَّنَّھُمْ وَ لَاُمَنِّیَنَّھُمْ وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَیُبَتِّکُنَّ اٰذَانَ الْاَنْعَامِ وَ لَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰہِ وَ مَنْ یَّتَّخِذِ الشَّیْطٰنَ وَ لِیًّا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِیْنًا٭ یَعِدُھُمْ وَ یُمَنِّیْھِمْ وَ مَا یَعِدُھُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا٭ اُولٰٓئِکَ مَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ وَلَایَجِدُوْنَ عَنْھَا مَحِیْصًا﴾ [النساء : ۱۱۸۔ ۱۲۱]
“اور (شیطان نے) کہا: میں ضرور تیرے بندوں میں سے ایک مقرر حصہ اپنا بنا لوں گا، اور میں انہیں ضرور گمراہ کروں گا، اور انہیں جھوٹی امیدیں دلاؤں گا، اور میں انہیں حکم دوں گا تو وہ چوپایوں کے کان چیر دیں گے، اور میں انہیں حکم دوں گا تو وہ اللہ کی بنائی ہوئی ساخت (فطرت) کو بدل ڈالیں گے۔ اور جو شخص اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا دوست بنائے گا تو یقیناً وہ کھلا نقصان اٹھانے والا ہے۔ وہ (شیطان) ان سے وعدے کرتا ہے اور انہیں امیدیں دلاتا ہے، حالانکہ شیطان ان سے جو وعدے کرتا ہے وہ محض فریب اور دھوکا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ جہنم ہے، اور وہ اس سے بچنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے۔”

ان آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیطان انسانوں کو لمبی تمناؤں میں الجھا کر غفلت میں ڈالتا ہے۔ انسان دن رات دنیاوی خواہشات اور آرزوؤں میں مگن ہو کر آخرت کو بھول جاتا ہے۔

اسی طرح یہ بھی واضح ہے کہ شیطان انسان کو اللہ کی پیدا کردہ صورت بدلنے کی ترغیب دیتا ہے۔ جو مرد داڑھی منڈواتے یا خواتین چہرے کے بال زائل کراتی اور مصنوعی خوبصورتی کے لیے دانتوں میں کشادگی کراتی ہیں، وہ دراصل اللہ کی خلقت میں تبدیلی کر کے شیطان کو خوش کرتی ہیں۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
( لَعَنَ اللّٰہُ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُوْتَشِمَاتِ ، وَالنَّامِصَاتِ وَالْمُتَنَمِّصَاتِ ، وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ ، اَلْمُغَیِّرَاتِ خَلْقَ اللّٰہِ ) [ البخاری : ۴۸۸۶ ، مسلم : ۲۱۲۵]
یعنی ’’اللہ تعالیٰ نے گودنے والی، گدوانے والی، چہرے کے بال اکھاڑنے والی، اکھڑوانے والی، خوبصورتی کے لیے دانتوں میں فاصلہ پیدا کرنے والی اور اللہ کی تخلیق بدلنے والی عورتوں پر لعنت کی ہے۔‘‘

⑥ مسلمانوں کے باہمی تعلقات کو خراب کرنا

﴿وَ قُلْ لِّعِبَادِیْ یَقُوْلُوا الَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَنْزَغُ بَیْنَھُمْ اِنَّ الشَّیْطٰنَ کَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِیْنًا ﴾ [ الاسراء : ۵۳]
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا کہ وہ ہمیشہ نرم اور اچھی بات کہا کریں کیونکہ شیطان برے الفاظ کے ذریعے ان کے درمیان فساد ڈال دیتا ہے۔ آج دنیا میں اختلاف، حسد، بدگمانی اور بغض و عداوت انہی وساوس کی مرہونِ منت ہیں۔

⑦ اللہ تعالیٰ کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنا

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
( یَأْتِی الشَّیْطَانُ أَحَدَکُمْ فَیَقُولُ : مَنْ خَلَقَ کَذَا؟ مَنْ خَلَقَ کَذَا؟ حَتّٰی یَقُولُ : مَنْ خَلَقَ رَبَّکَ؟ فَإِذَا بَلَغَہُ فَلْیَسْْتَعِذْ بِاللّٰہِ وَلْیَنْتَہِ ) [ البخاری : ۳۲۷۶]
’’شیطان تم میں سے کسی کے پاس آتا ہے اور سوال کرتا ہے کہ یہ چیز کس نے بنائی؟ یہاں تک کہ پوچھتا ہے کہ تمہارے رب کو کس نے پیدا کیا؟ پس جب کوئی ایسی وسوسہ خیز حد تک پہنچ جائے تو وہ فوراً اللہ کی پناہ مانگے اور ایسے خیال سے رک جائے۔‘‘

⑧ رات کے آغاز میں شیاطین کا پھیل جانا

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ جب رات کا سایہ پڑنے لگے تو اپنے بچوں کو باہر نہ جانے دو کیونکہ اسی وقت شیاطین پھیلتے ہیں۔ جب کچھ دیر رات گزر جائے تو پھر چھوڑ دو۔ اپنے دروازے، چراغ، مشکیزے اور برتن بسم اللہ پڑھ کر بند کر دو۔ ‘‘ [ البخاری : ۳۲۸۰]

یہ ہدایات نہ صرف حفاظتِ ایمان بلکہ جان و مال کے تحفظ کے لیے بھی ہیں۔

⑨ ڈراؤنے خواب دکھا کر پریشان کرنا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
( اَلرُّؤْیَا الصَّالِحَۃُ مِنَ اللّٰہِ ، وَالْحُلْمُ مِنَ الشَّیْطَانِ ، فَإِذَا حَلَمَ أَحَدُکُمْ حُلْمًا یَخَافُہُ فَلْیَبْصُقْ عَنْ یَّسَارِہِ وَلْیَتَعَوَّذْ بِاللّٰہِ مِنْ شَرِّہَا فَإِنَّہَا لَنْ تَضُرَّہُ ) [ البخاری : ۳۲۹۲]
’’نیک خواب اللہ کی طرف سے اور ڈراؤنا خواب شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔ جب کوئی شخص ایسا خواب دیکھے تو وہ بائیں طرف ہلکا تھوک دے اور اللہ سے پناہ مانگے، وہ اسے نقصان نہیں دے گا۔‘‘

⑩ پیدائش کے وقت بچے کو چبھو دینا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
( کُلُّ بَنِی آدَمَ یَطْعَنُ الشَّیْطَانُ فِی جَنْبِہِ بِأُصْبُعَیْہِ حِیْنَ یُوْلَدُ ، غَیْرَ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ ذَہَبَ یَطْعَنُ فَطَعَنَ فِی الْحِجَابِ ) [ البخاری : ۳۲۹۲]
’’ہر انسان کی پیدائش کے وقت شیطان اپنی انگلیاں اس کے پہلو میں چبھوتا ہے، سوائے عیسیٰ بن مریم کے جن کے معاملے میں اس نے صرف پردے کو چھوا۔‘‘

⑪ غصہ دلانا اور ایک دوسرے سے لڑوانا

حضرت سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
( إِنِّی لَأعْلَمُ کَلِمَۃً لَوْ قَالَہَا ذَہَبَ عَنْہُ مَا یَجِدُ ، لَوْ قَالَ : أَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ ذَہَبَ عَنْہُ مَا یَجِدُ ) [ البخاری : ۳۲۸۲]
’’میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ اگر غصے والا شخص اسے کہہ دے تو اس کا غصہ ختم ہو جائے گا: اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم۔‘‘

⑫ موسیقی اور لغویات میں مگن کرنا

﴿ وَ اسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْھُمْ بِصَوْتِکَ وَ اَجْلِبْ عَلَیْھِمْ بِخَیْلِکَ وَ رَجِلِکَ وَ شَارِکْھُمْ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِ وَ عِدْھُمْ وَ مَا یَعِدُھُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا ﴾ [الإسراء: 64]
’’اور تو اپنی آواز سے جسے بہکا سکتا ہے بہکا لے، اپنے سواروں اور پیادوں سے ان پر چڑھ دوڑ، ان کے مال و اولاد میں شریک ہو جا، اور ان سے وعدے کر—شیطان کے وعدے محض دھوکہ ہیں۔‘‘

علماء نے فرمایا کہ "صوتک” یعنی شیطان کی آواز سے مراد گانا اور موسیقی ہے، جس کے ذریعے وہ انسانوں کو بہکاتا ہے۔ آج کا معاشرہ اسی فریب میں گم ہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں شیطان مردود کے تمام فتنوں سے محفوظ رکھے اور ایمان پر ثابت قدمی عطا فرمائے۔

شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے، جس کا مقصد آدم کی اولاد کو گمراہ کرنا اور جہنم کا ایندھن بنانا ہے۔
اب دوسرے حصے میں قرآن و سنت کی روشنی میں وہ عملی تدابیر بیان کی جاتی ہیں جن سے مؤمن بندہ اس دشمن کے شر سے محفوظ رہ سکتا ہے۔

شیطان کی کمزور چال

سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ شیطان کی چال فطری طور پر کمزور ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿اِنَّ کَیْدَ الشَّیْطٰنِ کَانَ ضَعِیْفًا﴾ [النساء: 67]
’’یقیناً شیطان کی چال کمزور ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ مزید فرماتا ہے:

﴿ اِنَّہٗ لَیْسَ لَہٗ سُلْطٰنٌ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ ٭ اِنَّمَا سُلْطٰنُہٗ عَلَی الَّذِیْنَ یَتَوَلَّوْنَہٗ وَ الَّذِیْنَ ھُمْ بِہٖ مُشْرِکُوْنَ﴾ [النحل:۹۹۔۱۰۰]
’’شیطان کا ان پر کوئی اختیار نہیں جو ایمان لائے اور اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔ اس کا اختیار صرف ان پر ہے جو اسے اپنا دوست بناتے اور شرک کرتے ہیں۔‘‘

اور مزید ارشاد فرمایا:
﴿اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْھِمْ سُلْطٰنٌ وَ کَفٰی بِرَبِّکَ وَکِیْلًا﴾ [الإسراء: 65]
’’میرے بندوں پر تیرا کوئی زور نہیں، اور تیرا رب ان کے لیے کافی کارساز ہے۔‘‘

مضبوط ایمان — شیطان کے مقابلے کی ڈھال

جتنا مضبوط مومن کا ایمان ہوگا، اتنا ہی وہ شیطان کے وسوسوں سے محفوظ رہے گا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:

( وَالَّذِیْ نَفْسِی بِیَدِہِ مَا لَقِیَکَ الشَّیْطَانُ قَطُّ سَالِکًا فَجًّا إِلَّا سَلَکَ فَجًّا غَیْرَ فَجِّکَ ) [ البخاری : ۳۲۹۴]
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جب شیطان تجھے کسی راستے پر چلتے دیکھتا ہے تو وہ اس راستے کو چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔‘‘

شیطان سے بچنے کی بارہ (12) مؤثر تدابیر

① اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرنا

﴿وَ اِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ اِنَّہٗ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ﴾ [الأعراف: ۲۰۰]
’’اور اگر شیطان کا کوئی وسوسہ آپ کو بہکانے لگے تو اللہ کی پناہ مانگ لیجئے۔‘‘

اللہ کی پناہ سب سے مؤثر ڈھال ہے، کیونکہ اللہ ہی پناہ دینے والا اور شیطان سے بچانے والا ہے۔

② ذکرِ الٰہی میں مشغول رہنا

شیطان کے دو اوصاف بیان ہوئے: "الوسواس الخناس” یعنی وسوسے ڈالنے والا اور پیچھے ہٹ جانے والا۔
جب بندہ اللہ کا ذکر کرتا ہے تو وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے، اور جب غافل ہوتا ہے تو حملہ آور ہوتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
( لَا یَحْرِزُ نَفْسَہُ مِنَ الشَّیْطَانِ إِلَّا بِذِکْرِ اللّٰہِ ) [مسند احمد، صحیح الجامع: ۱۷۲۴]
’’بندہ شیطان سے اپنی حفاظت صرف اللہ کے ذکر کے ذریعے کر سکتا ہے۔‘‘

اسی مفہوم کی حدیث میں آیا ہے کہ:
( یَعْقِدُ الشَّیْطَانُ عَلٰی قَافِیَۃِ رَأْسِ أَحَدِکُمْ … فَإِنْ ذَکَرَ اللّٰہَ اِنْحَلَّتْ عُقْدَۃٌ … ) [ البخاری :۱۱۴۲ ، مسلم : ۷۷۶]
’’جب کوئی شخص سوتا ہے تو شیطان اس کی گدی پر تین گرہیں لگاتا ہے، اور جب وہ بیدار ہو کر اللہ کا ذکر کرتا ہے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے۔‘‘

③ سورۃ البقرۃ کی تلاوت

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
( لَا تَجْعَلُوا بُیُوتَکُمْ مَقَابِرَ، فَإِنَّ الشَّیْطَانَ یَنْفِرُ مِنَ الْبَیْتِ الَّذِیْ تُقْرَأُ فِیْہِ سُورَۃُ الْبَقَرَۃِ ) [مسلم : ۷۸۰]
’’اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ، کیونکہ جس گھر میں سورۃ البقرۃ پڑھی جاتی ہے وہاں سے شیطان بھاگ جاتا ہے۔‘‘

④ باجماعت نماز کی پابندی

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(مَا مِنْ ثَلَاثَۃٍ فِی قَرْیَۃٍ… إِلَّا قَدِ اسْتَحْوَذَ عَلَیْہِمُ الشَّیْطَانُ فَعَلَیْکَ بِالْجَمَاعَۃِ فَإِنَّمَا یَأْکُلُ الذِّئْبُ الْقَاصِیَۃَ) [ابو داؤد : ۵۴۷، نسائی : ۸۴۷]
’’جب تین آدمی کسی بستی میں ہوں اور باجماعت نماز ادا نہ کریں تو شیطان ان پر غالب آجاتا ہے۔‘‘

⑤ قیام اللیل (تہجد)

جو رات کو عبادت کے لیے نہیں اٹھتا، اس پر شیطان قابو پاتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
( ذَاکَ رَجُلٌ بَالَ الشَّیْطَانُ فِی أُذُنِہِ ) [البخاری : ۱۱۴۴]
’’وہ شخص جس نے ساری رات سو کر گزاری، شیطان نے اس کے کان میں پیشاب کیا۔‘‘

⑥ جمائی کے وقت منہ بند رکھنا

( اَلتَّثَاؤُبُ مِنَ الشَّیْطَانِ … فَإِذَا قَالَ: ہَا، ضَحِکَ الشَّیْطَانُ ) [البخاری : ۳۲۸۹]
’’جمائی شیطان کی طرف سے ہے، لہٰذا جب جمائی آئے تو اسے روکنے کی کوشش کرے، کیونکہ جب کوئی ’ہا‘ کہتا ہے تو شیطان ہنس پڑتا ہے۔‘‘

⑦ مسنون دعاؤں کا اہتمام

1. گھر سے نکلتے وقت:
( بِسْمِ اللّٰہِ، تَوَکَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ، لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ )
“اللہ کے نام سے (نکلتا ہوں)، میں نے اللہ پر بھروسہ کیا، اللہ کے سوا نہ کوئی طاقت ہے اور نہ کوئی قوت (کسی کام کی)۔”
حدیث: [ابوداود : ۵۰۹۵، ترمذی : ۳۴۲۶]

پڑھنے والے کو ہدایت، حفاظت اور کفایت کی ضمانت دی جاتی ہے، اور شیطان دور ہو جاتا ہے۔

2. مسجد میں داخل ہوتے وقت:
( اَعُوذُ بِاللّٰہِ الْعَظِیْمِ وَبِوَجْھِہِ الْکَرِیْمِ وَسُلْطَانِہِ الْقَدِیْمِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ ) [ابوداود : ۴۶۶]
“میں پناہ مانگتا ہوں اللہِ عظیم کی، اور اُس کے عزت والے چہرے کی، اور اُس کی قدیم (یعنی ہمیشہ سے قائم) سلطنت کی، شیطانِ مردود سے۔”

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو یہ دعا پڑھتا ہے، شیطان کہتا ہے: یہ شخص آج کے دن مجھ سے محفوظ ہو گیا۔

3. فجر کے بعد ذکر:
( لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ) — 100 مرتبہ
“اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہی ہے اور اسی کے لیے تمام تعریفیں ہیں، اور وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔”
[بخاری : ۶۴۰۳، مسلم : ۲۶۹۱]
صبح سے شام تک شیطان سے حفاظت کی ضمانت۔

4. سونے سے پہلے آیت الکرسی:
( فَاقْرَأْ آیَۃَ الْکُرْسِیِّ … لَنْ یَّزَالَ مِنَ اللّٰہِ حَافِظٌ وَلَا یَقْرَبَکَ شَیْطَانٌ حَتّٰی تُصْبِحَ ) [بخاری :۲۳۱۱]
“(جب تم سونے لگو تو) آیت الکرسی پڑھ لیا کرو … اللہ کی طرف سے ایک محافظ تمہارے ساتھ رہتا ہے، اور صبح تک شیطان تمہارے قریب نہیں آتا۔”

5. بوقتِ جماع:
( بِسْمِ اللّٰہِ، اَللّٰھُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ وَجَنِّبِ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا ) [بخاری : ۳۲۷۱]
“اللہ کے نام سے (شروع کرتا ہوں)، اے اللہ! ہمیں شیطان سے بچا، اور جو تو ہمیں رزق عطا کرے (یعنی اولاد)، اسے بھی شیطان سے محفوظ رکھ۔”

اگر اس عمل کے نتیجے میں بچہ پیدا ہو تو شیطان اسے نقصان نہیں پہنچا سکتا۔

6. صبح و شام کے اذکار:
ان اذکار میں سے خصوصاً معوذتین (سورۃ الفلق اور سورۃ الناس) کو تین مرتبہ پڑھنا، شیطان کے وساوس کے خلاف قلعہ ہے۔

مضمون کا خلاصہ 

❖ شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے جس نے اللہ سے عہد کیا ہے کہ وہ آدم کی اولاد کو گمراہ کرے گا۔
❖ اس کی چال کمزور ہے مگر ایمانِ کمزور والوں پر اس کا اثر غالب ہوتا ہے۔
❖ مومن اگر ذکر، دعا، نماز، تلاوت، جماعت، تقویٰ اور اللہ پر توکل کے ساتھ زندگی گزارے تو شیطان کے حملے اس پر بے اثر ہو جاتے ہیں۔

نتیجہ

شیطان کے خلاف اصل ہتھیار ایمان، ذکر، تقویٰ اور اتباعِ سنت ہیں۔
جو بندہ اپنے اعمال میں اخلاص لاتا اور اللہ سے مضبوط تعلق رکھتا ہے، وہ اس دشمنِ ازلی کے فریب سے محفوظ رہتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اور تمام مسلمانوں کو شیطان کے شر سے محفوظ رکھے، اپنے دین پر استقامت اور خاتمہ بالخیر نصیب فرمائے۔
آمین یا رب العالمین۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے