1۔ استعاذہ:
استعاذہ کا مطلب ہے، اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنا اور اس کی بارگاہ میں رجوع کرنا تا کہ ہر قسم کے شر و برائی، مکرو فریب اور جنات اور شیاطین کی چالوں سے بچا جا سکے۔
استعاذہ کے مقامات:
اولاً: جب بھی دل میں کوئی شیطانی وسوسہ یا اکساؤ محسوس ہو تو فوراً اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنی چاہیے۔
﴿وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ﴾
[الأعراف: 200]
اور اگر کبھی شیطان کی طرف سے کوئی اکساہٹ تجھے ابھار ہی دے تو اللہ کی پناہ طلب کر، بیشک وہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
ثانیاً: قرآن مجید کی تلاوت کے وقت۔
﴿فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ﴾
[النحل: 98]
اور جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے پناہ مانگ لیا کرو۔
ثالثاً: جب انسان بیت الخلاء میں داخل ہو۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت الخلاء میں داخل ہوتے تو یہ دعا پڑھتے:
﴿اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ﴾
اے اللہ! میں خبیث جنوں اور خبیث جنتیوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔
❀ علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس دعا کی تشریح میں بہت سارے علماء نے لکھا ہے کہ اس میں شیطان مردوں اور عورتوں سے پناہ مانگی گئی ہے۔
[البداية والنهاية (61/1)]
رابعاً: مسجد میں داخل ہوتے وقت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مسجد میں داخل ہوتے تو یہ دعا کیا کرتے تھے:
﴿أَعُوذُ بِاللَّهِ الْعَظِيمِ وَبِوَجْهِهِ الْكَرِيمِ وَسُلْطَانِهِ الْقَدِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ﴾
میں پناہ مانگتا ہوں شیطان مردود سے عظمت والے اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رخ زیبا کی اور اس کے ازلی اقتدار کی۔
عقبہ نے کہا: بس اتنا ہی؟ میں نے کہا: ہاں۔
عقبہ نے کہا: جب کوئی یہ کلمات کہتا ہے تو شیطان کہتا ہے کہ اب وہ میرے شر سے تمام دن کے لیے محفوظ ہو گیا۔
[سنن أبي داؤد (446)]
خامساً: نماز شروع کرتے وقت:
﴿اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ﴾
[صحيح ابن ماجة (808)]
اے اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں شیطان مردود سے، اس کے وسوسے، اس کی پھونک اور اس کے تھوک سے۔
سادساً: نماز میں:
حضرت عثمان بن ابو العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا:
یا رسول اللہ! شیطان میری نماز اور قراءت کے درمیان حائل ہو گیا اور مجھ پر نماز میں شک ڈالتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اس شیطان کو خناس کہا جاتا ہے۔ جب تو ایسی بات محسوس کرے تو اس سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کر اور اپنی بائیں جانب تین مرتبہ تھوک دیا کر۔
پس میں نے ایسے ہی کیا تو شیطان مجھ سے دور ہو گیا۔
[مسلم (2203)]
سابعاً: نیند میں گھبراہٹ کے وقت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب تم میں سے کوئی شخص اچھا خواب دیکھے تو وہ اللہ کی طرف سے ہے، اس پر الحمد للہ کہے اور اسے بیان کرے، اور ایسا خواب صرف اس سے بیان کرے جس سے اس کو محبت ہو۔ اور جب ناپسندیدہ [یا ڈراؤنا] خواب دیکھے تو وہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے، پس شیطان اور اس کے شر سے پناہ مانگے اور اس خواب کو کسی کے سامنے بیان نہ کرے، بیشک وہ اسے نقصان نہیں دے گا۔
[البخاري (6115)، مسلم (2610)]
ثامناً: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو آدمی آپس میں ایک دوسرے پر غصہ ہو رہے تھے۔ ایک کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا، اور اس کی رگیں پھول رہی تھیں۔ تو ان میں سے ایک نے کہا:
میں ایک کلمہ جانتا ہوں، اگر یہ انسان وہ کلمہ کہہ دے تو اس کا غصہ اور تکلیف جاتی رہے۔ وہ کلمہ یہ ہے:
﴿أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ﴾
پڑھے تو اس کا غصہ ختم ہو جائے۔
[البخاري (3303)، مسلم (2729)]
تاسعاً: جب کتا بھونکنے اور گدھا رینکنے کی آواز سنو:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب تم گدھے کے رینکنے کی آواز سنو تو شیطان سے پناہ مانگو، اس لیے کہ گدھا شیطان کو دیکھ کر رینگتا ہے۔
[البخاري (3303)، مسلم (2729)]
❀ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
رات کو جب تم کتے کے بھونکنے کی یا گدھے کے رینکنے کی آواز سنو تو شیطان سے اللہ کی پناہ مانگو، بیشک وہ ایسی چیزیں دیکھتے ہیں جو کہ تم نہیں دیکھتے، یعنی شیطان کو دیکھتے ہیں۔
[أبو داؤد (5103)، مسند أحمد (306/3)]
مطلب ہے کہ: ﴿أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ﴾ پڑھو۔
2 . معوذتین (سورۃ الفلق اور سورۃ الناس) کی تلاوت:
﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ﴾
﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نظر بد اور شیطان سے پناہ مانگا کرتے تھے، یہاں تک کہ معوذتین نازل ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی وظائف چھوڑ کر ان کو اپنا وظیفہ بنالیا۔
[صحيح الترمذي (2058)]
3 . آیت الکرسی پڑھنا:
﴿أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ﴾
﴿اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ﴾
[البقرة: 255]
میں پناہ مانگتا ہوں اللہ تعالیٰ کی، شیطان مردود سے: اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ ہمیشہ سے زندہ ہے اور کائنات کی ہر چیز کو قائم رکھنے والا ہے۔ نہ اس پر اونگھ غالب آتی ہے اور نہ نیند۔ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اسی کا ہے۔ کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے حضور سفارش کر سکے؟ جو کچھ لوگوں کے سامنے ہے وہ اسے بھی جانتا ہے اور جو ان سے اوجھل ہے اسے بھی جانتا ہے۔ یہ لوگ اللہ کے علم میں سے کسی چیز کا بھی ادراک نہیں کر سکتے مگر اتنا ہی جتنا وہ خود چاہے۔ اس کی کرسی آسمانوں اور زمین کو محیط ہے اور ان دونوں کی حفاظت اسے تھکاتی نہیں۔ وہ بلند و برتر اور عظمت والا ہے۔
جو شخص صبح کے وقت آیت الکرسی پڑھے وہ شام تک جنوں سے محفوظ ہو جاتا ہے، اور جو اسے شام کے وقت پڑھے وہ صبح تک ان سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
[حاكم: 562/1، البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے، الترغيب والترهيب: 1/457] اور اسے نسائي اور طبراني کی طرف منسوب کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی سند جید ہے۔
4 . سورۃ البقرہ کی تلاوت:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
﴿لا تجعلوا بيوتكم مقابر إن الشيطان ينفر من البيت الذى يقرأ فيه سورة البقرة﴾
اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ، بے شک جس گھر میں سورۃ البقرہ پڑھی جاتی ہے وہاں سے شیطان بھاگ جاتا ہے۔
[مسلم (780)]
شیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس مقصد کے لیے ٹیپ ریکارڈ پر سورۃ البقرہ کی تلاوت بھی لگائی جا سکتی ہے۔
5۔ سورۃ البقرہ کی آخری دو آیات کی تلاوت:
﴿آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ﴾
[البقرة: 285-286]
رسول پر جو کچھ اس کے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا، اس پر وہ خود بھی ایمان لایا اور سب مومن بھی ایمان لائے۔ یہ سب اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے رسولوں میں سے کسی میں بھی تفریق نہیں کرتے۔ نیز وہ کہتے ہیں کہ: ہم نے اللہ کے احکام سنے اور ان کی اطاعت قبول کی۔ اے ہمارے پروردگار! ہم تیری مغفرت مانگتے ہیں اور ہمیں تیری طرف ہی لوٹ کر جانا ہے۔ اللہ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ اگر کوئی شخص اچھا کام کرے گا تو اسے اس کا اجر ملے گا اور اگر برا کام کرے گا تو اس کا وبال بھی اسی پر ہے۔ ایمان والو! اللہ سے یوں دعا کرو: اے ہمارے پروردگار! اگر ہم سے بھول چوک ہو جائے تو اس پر گرفت نہ کرنا۔ اے ہمارے پروردگار! ہم پر اتنا بھاری بوجھ نہ ڈال جتنا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا۔ اے ہمارے پروردگار! جس بوجھ کو اٹھانے کی ہمیں طاقت نہیں، وہ ہم سے نہ اٹھانا۔ ہم سے درگزر فرما، ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما۔ تو ہی ہمارا مولیٰ ہے، لہذا کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔
جو کوئی رات کو سورۃ البقرہ کی یہ آخری دو آیتیں پڑھ لے تو اس کے لیے صبح تک ہر برائی سے حفاظت میں کافی ہو جاتی ہیں۔
[البخاري (5009)، مسلم (808)]
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بیشک اللہ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے دو ہزار سال پہلے ایک کتاب تحریر کی تھی اور ان میں سے دو آیتیں نازل کی ہیں جن پر سورۃ البقرہ ختم ہوتی ہے۔ یہ دو آیات جس گھر میں تین راتوں تک پڑھی جائیں تو شیطان اس کے قریب نہیں جائے گا۔
[صحيح الترمذي (2882)]
6 . ایک یا دس بار کلمہ توحید پڑھنا:
﴿لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو انسان صبح کے وقت یہ کلمہ پڑھ لے:
﴿لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾
اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہی ہے، اور اسی کے لیے تمام تر تعریف ہے، وہ ہر ایک چیز پر قادر ہے۔
وہ شیطان سے امان میں رہتا ہے یہاں تک کہ شام ہو جائے۔ اور اگر شام کے وقت یہ کلمات پڑھ لے تو وہ صبح ہونے تک شیطان سے امان میں رہتا ہے۔
بخاری اور مسلم کی ایک روایت میں ہے: سو بار یہ کلمات پڑھے۔
[البخاري (6403)، مسلم (2691)]
7 . غصے کے وقت وضو کرنا:
غصے کے وقت انسان کو چاہیے کہ وضو کر لے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بیشک غصہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے، اور شیطان کو آگ سے پیدا کیا گیا ہے۔ اور بیشک آگ کو پانی سے بجھایا جاتا ہے۔ پس جب تم میں سے کسی ایک کو غصہ آئے تو اسے چاہیے کہ وضو کر لے۔
[سنن أبي داؤد (4784)، أحمد (226/4) حسن]
8۔ نظر کی حفاظت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
اے علی! نظر کے پیچھے نظر نہ لگایا کرو، بیشک پہلی نظر تمہیں معاف ہے، دوسری نظر معاف نہیں۔
[صحيح أبي داؤد (2148)]
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
کوئی بھی نظر نہیں اٹھتی مگر شیطان کی اس میں طبع ہوتی ہے۔
9 . اذان:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب بھی نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان پیٹھ پھیر کر پھیاں (گوز) مارتے ہوئے بھاگ جاتا ہے۔
[صحيح البخاري (608)]
صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے:
جب مؤذن اذان دیتا ہے تو شیطان پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا ہے، اور اس کی ہوا خارج ہو رہی ہوتی ہے۔
[مسلم (857)]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب سرکش شیطان رنگ بدل بدل کر ظاہر ہو رہے ہوں تو ان کو بھگانے کے لیے اذان دیا کرو۔
[أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف (95/6)، وصحح إسناده الحافظ ابن حجر في الفتح (396/6)]
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے غیلان یعنی جادوگر جنات کا ذکر کیا گیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ان میں سے کوئی ایک بھی اپنی اس شکل و صورت کو تبدیل نہیں کر سکتا جس پر اللہ تعالیٰ نے اس کو پیدا کیا ہے، لیکن وہ بنی آدم کے جادوگروں کی طرح کے جادوگر ہیں۔ جب تم ان میں سے کسی ایک کو دیکھو تو اذان دینے لگ جاؤ۔
[قال الحافظ ابن حجر رحمہ اللہ: أخرجه النسائي ورجاله ثقات، ديكهو: الفتوحات الربانية (171/0)]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
زید بن اسلم سے روایت ہے کہ انہیں [ایک بستی] معادن
معادن، آج کل اسے مہد الذہب کہا جاتا ہے۔ مدینہ سے اڑھائی سو کلومیٹر مشرق کی طرف واقع ہے۔
پر نگران بنایا گیا۔ تو لوگوں نے وہاں پر جنات کی کثرت کی شکایت کی۔ تو آپ نے حکم دیا کہ وہاں پر ہر وقت اذان دی جائے، اور کثرت کے ساتھ ایسا کیا جائے۔ اس کے بعد انہیں کوئی ایسی چیز نظر نہیں آئی۔
[الكلم الطيب (ص 53)]
حضرت سہیل سے روایت ہے کہ مجھے میرے والد نے بنی حارثہ کی طرف بھیجا، میرے ساتھ میرا ایک ساتھی تھا، تو اس کو ایک پکارنے والے نے اس کا نام لے کر پکارا اور میرے ساتھی نے دیوار پر دیکھا تو کوئی چیز نہ تھی۔ میں نے یہ بات اپنے باپ کو بتائی تو انہوں نے کہا: اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تمہارے ساتھ یہ واقعہ پیش آنے والا ہے تو میں تمہیں نہ بھیجتا۔ لیکن جب تم ایسی آواز سنو تو اذان دیا کرو۔
میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب اذان دی جاتی ہے تو شیطان پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہے اور وہ گوز مار رہا ہوتا ہے۔
[مسلم (389)]
10 . قرآن کی تلاوت اور شیطان سے حفاظت:
مطلق طور پر قرآن مجید کی تلاوت شیطان کے شر سے حفاظت کا ذریعہ ہے۔
﴿وَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ جَعَلْنَا بَيْنَكَ وَبَيْنَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ حِجَابًا مَسْتُورًا﴾
[الإسراء: 45]
آپ جب قرآن پڑھتے ہیں تو ہم آپ کے اور ان لوگوں کے درمیان جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے ایک پوشیدہ حجاب ڈال دیتے ہیں۔
11 . کثرت کے ساتھ اللہ کا ذکر:
﴿وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا﴾
[الأحزاب: 35]
بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے اور ذکر کرنے والیاں، ان سب کے لیے اللہ تعالیٰ نے وسیع مغفرت اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔
﴿وَاذْكُرْ رَبَّكَ كَثِيرًا وَسَبِّحْ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ﴾
[آل عمران: 41]
اور آپ اپنے رب کا ذکر کثرت سے کیجیے اور صبح شام اس کی تسبیح بیان کرتے رہیے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے راستے میں چل رہے تھے۔ آپ ایک پہاڑ پر سے گزرے جسے جمدان کہا جاتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
چلتے رہو، یہ جمدان ہے، مفردون آگے بڑھ گئے۔
صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مفردون کون ہیں؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور عورتیں۔
[مسلم (2676)]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے یحییٰ بن زکریا علیہ السلام کو پانچ چیزوں کا حکم دیا کہ خود بھی ان پر عمل کریں اور بنی اسرائیل کو بھی حکم دیں کہ ان پر عمل پیرا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پانچ چیزیں شمار کیں اور پھر فرمایا:
میں تمہیں اللہ تعالیٰ کے ذکر کی تلقین کرتا ہوں، اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جس کے دشمن اس کے تعاقب میں ہوں اور وہ بھاگ کر ایک قلعے میں گھس جائے اور ان لوگوں سے اپنی جان بچا لے۔ اس طرح کوئی بندہ خود کو شیطان سے اللہ کے ذکر کے علاوہ کسی چیز سے نہیں بچا سکتا۔
[مسلم (373)]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
﴿يعقد الشيطان على قافية رأس أحدكم إذا هو نام ثلاث عقد يضرب كل عقدة مكانها عليك ليل طويل فارقد فإن استيقظ فذكر الله انحلت عقدة فإن توضأ انحلت عقدة فإن صلى انحلت عقده كلها فأصبح نشيطا طيب النفس وإلا أصبح خبيث النفس كسلان﴾
تم میں سے ہر ایک کی گدی پر سونے کی حالت میں شیطان تین گرہیں باندھ دیتا ہے۔ اور ہر گرہ پر پھونک دیتا ہے کہ ابھی بہت رات پڑی ہے، ابھی سو جاؤ۔ جب وہ شخص بیدار ہو کر اللہ کو یاد کرتا ہے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے۔ پھر اگر وہ وضو کرے تو دوسری بھی کھل جاتی ہے، اور اگر وہ نماز پڑھے تو تمام گرہیں کھل جاتی ہیں اور اس کی صبح فرحت و انبساط اور شگفتہ خاطری سے نمودار ہوتی ہے، اور نہ کبیدہ خاطری اور کسل مندی سے دوچار رہتا ہے۔
[البخاري (3269)]