شہداء کی نماز جنازہ کے متعلق سوال و جواب
سوال
شہداء کی نماز جنازہ کے بارے میں کیا حکم ہے؟
بخاری شریف میں روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہید کی نماز جنازہ نہیں پڑھی۔
(بخاری شریف، جلد نمبر1، صفحہ179، باب الصلوٰۃ علی الشہید)
حدیث کے الفاظ مندرجہ ذیل ہیں:
"ولم يغسلوا ولم يصل عليهم”
"اور نہ انھیں غسل دیا گیا اور نہ ان کی نماز پڑھی گئی”
اس کے بعد دوسری روایت میں یہ ذکر ہے:
"خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ….. الخ”
(آپ ایک دن نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل اُحد پر وہ نماز پڑھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہونے والوں پر پڑھتے تھے۔ الخ)
پہلی روایت میں واضح طور پر بیان ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہداء کی نماز جنازہ نہیں پڑھی اور نہ اس کا حکم دیا۔
لیکن دوسری روایت میں یہ ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن نکلے اور اہل اُحد کے لیے دعا فرمائی۔
تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہاں "فَصَلَّى” کے الفاظ سے نماز جنازہ ثابت ہوتی ہے؟
(ایک سائل)
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
وضاحت
◈ شہداء کی نماز جنازہ نہ پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی شہادت کے فوراً بعد، اسی دن نماز جنازہ نہیں پڑھی تھی۔
◈ جبکہ جس دوسری روایت میں نماز پڑھنے کا ذکر آیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو دوسرے دن یا آٹھ سال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر نماز جنازہ پڑھی۔
◈ لہٰذا ان دونوں روایات میں کوئی تعارض نہیں ہے۔
(ماخذ: شہادت، مارچ 2001)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب