شہداء کی بیواؤں سے نکاح اور میدانِ جہاد کی فضیلت حدیث کی روشنی میں
یہ اقتباس شیخ مبشر احمد ربانی کی کتاب احکام و مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں سے ماخوذ ہے۔

سوال :

جو شخص اللہ کی راہ میں جان دے کر شہید ہو جائے تو کیا ہم اسے شہید کہ سکتے ہیں، اسی طرح اس کی بیوی سے نکاح کا کیا حکم ہے؟ کیا تاریخ اسلام میں ایسے افراد کی بیواؤں سے نکاح کی مثالیں ملتی ہیں؟

جواب :

اللہ تعالی کی راہ میں جان و مال لے کر نکلنا بہت بڑی فضیلت والا عمل ہے، جو شخص اخلاص کے ساتھ ، دل کی پختگی سے اعلائے کلمۃ اللہ کی خاطر جان دے دیتا ہے وہ عند اللہ شہید ہے، لیکن ہمیں کسی کے دل کے حالات معلوم نہیں، ہم اس کے ظاہر کا اعتبار کریں گے ۔ بعض لوگ حمیت کی خاطر بعض دنیادی شان و شوکت کے لیے اور بعض اللہ کی رضا کے لیے لڑتے ہیں، جو شخص اللہ کی رضا کے لیے لڑتا ہے وہ فی سبیل اللہ ہے اور اگر اس نے لڑتے لڑتے جان دے دی تو ہم اس کو شہید کہتے وقت ان شاء اللہ کہیں گے. یا مقتول کہہ دیں گے ، جیسا کہ صحیح بخاری (قبل الحدیث 2898) میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ذکر فرمایا ہے۔
ایسے مقتولین کی بیوائیں اگر عقد ثانی کرنا چاہیں تو عدت گزارنے کے بعد انھیں حق حاصل ہے، مناسب رشتہ ملنے پر سلسلہ ازدواج میں منسلک ہونا کوئی برا کام نہیں ہے۔ تاریخ اسلام میں اس کی ان گنت مثالیں موجود ہیں۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب (الاصابة في تمييز الصحابة) میں کئی صحابیات کا تذکرہ کیا ہے، جنھوں نے بیوہ ہونے کے بعد عقد ثانی کیا۔ مثال کے طور پر عاتکہ بنت زید رضی اللہ عنہا ہیں جن کی پہلی شادی عبداللہ بن ابو بکر رضی اللہ عنہما سے ہوئی تھی۔ ان کا شوہر ان سے بڑی محبت کرتا تھا ، وہ انتہائی خوب رو اور خوبصورت تھیں، عبداللہ بن ابو بکر رضی اللہ عنہما نے اپنے والد ماجد کے کہنے پر انھیں طلاق دے ڈالی، تو بعد میں انھوں نے اپنی بیوی کی جدائی پر چند اشعار کہے جو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے سن لیے اور اپنے بیٹے کو رجوع کرنے کی اجازت مرحمت فرما دی۔ اس کے بعد طائف میں انھیں تیر لگا اور وہ شدید زخمی ہو کر مدینہ طیبہ میں وفات پاگئے، تو ان کی وفات کے بعد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے شادی کر لی اور وہ جنگ یمامہ میں شہید ہو گئے، ان کی شہادت کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے شادی کی ، جب عمر رضی اللہ عنہ بھی شہید ہو گئے تو زبیر بن اعوام رضی اللہ عنہ نے ان سے نکاح کر لیا۔ اس طرح عاتکہ رضی اللہ عنہا کئی شہداء کے عقد میں یکے بعد دیگرے رہیں۔
اسی طرح اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نکاح کیا، ان کی شہادت کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے نکاح کر لیا۔ جب ابو بکر رضی اللہ عنہ وفات پا گئے تو بعد میں علی رضی اللہ عنہ نے ان سے نکاح کر لیا۔
اسی طرح ام کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ عنہا جیسی مہاجرہ صحابیہ تھیں، ان سے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے نکاح کیا۔ غزوہ موتہ میں جب زید رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے تو انھوں نے زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ سے نکاح کر لیا۔ ان سے نباہ نہ ہو سکا، طلاق ہو گئی تو عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے نکاح میں آگئیں، جب ان کی وفات ہو گئی تو عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے ان سے نکاح کر لیا۔ الغرض تاریخ اسلام ایسے روشن اور تاباں واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ہمارے معاشرے میں لوگ مطلقہ یا بیوہ عورت سے نکاح کو معیوب سمجھنے لگے ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ خود نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے بیواؤں سے نکاح کر کے اپنی امت کی راہنمائی کر دی ہے۔ آپ کی ازواج مطہرات میں سے صرف سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے سوا کوئی بھی کنواری اور یا کرو نہ تھی۔ عصر حاضر میں میدان جہاد میں جان دینے والے نوجوانان اسلام کی بیواؤں سے نکاح کرنا ایک مستحسن امر ہے۔ جس بھائی کے لیے ایسا رشتہ مل رہا ہو تو اسے معیوب نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ خوشدلی سے اسے قبول کرنا چاہیے۔ اللہ برکت دینے والا اور تمام امور کا والی ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے