إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:
معجزات اور خصوصیات مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم
قال الله تعالى: ﴿مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا﴾ (الفتح: 29)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے لیے بڑے سخت ہیں اور آپس میں نہایت مہربان ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں رکوع اور سجدہ کرتے دیکھتے ہیں وہ لوگ اللہ کی رضا اور اس کے فضل کی جستجو میں رہتے ہیں۔“
وقال الله تعالى: ﴿مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا﴾ (الأحزاب: 40)
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم لوگوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں وہ تو اللہ کے رسول اور انبیاء کے سلسلے کو ختم کرنے والے ہیں اور اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔“
وقال الله تعالى: ﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾ (سبا: 28)
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور ہم نے آپ کو تمام بنی نوع انسان کے لیے خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے ہیں۔“
حدیث: 1
«عن أبى هريرة رضي الله عنه قال رسول الله صلى الله عليه وسلم مثلي ومثل الأنبياء كمثل قصر أحسن بنيانه ترك منه موضع لبنة فطاف به النظار يتعجبون من حسن بنيانه إلا موضع تلك اللبنة لا يعيبون سواها فكنت أنا سددت»
صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب صفة النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، رقم: 3535۔ صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب ذکر کونه خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ، رقم: 2286۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری اور دوسرے انبیاء کی مثال اس بہترین محل کی سی ہے جس کی عمارت بڑے اچھے طریقے پر بنائی گئی (مگر) اس میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی گئی۔ دیکھنے والوں نے اس کے اردگرد چکر لگائے انہیں اس (محل) کی خوبصورت عمارت سے (بہت) تعجب ہوتا تھا سوائے اس اینٹ والی جگہ کے (جسے خالی چھوڑ دیا گیا تھا) وہ کسی چیز میں عیب نہیں نکالتے تھے۔ میں وہ ہوں جس نے اس اینٹ والی جگہ کو بھر دیا (میرے ساتھ اس عمارت کی تعمیر کا خاتمہ ہوا اور میرے ساتھ ہی رسولوں کا سلسلہ ختم ہوا)۔“
حدیث: 2
«وعن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما قال أن النبى صلى الله عليه وسلم قال أعطيت خمسا لم يعطهن أحد قبلي نصرت بالرعب مسيرة شهر وجعلت لي الأرض مسجدا وطهورا فأيما رجل من أمتي أدركته الصلاة فليصل وأحلت لي المغانم ولم تحل لأحد قبلي وأعطيت الشفاعة وكان النبى يبعث إلى قومه خاصة وبعثت إلى الناس عامة»
صحیح بخاری، کتاب التیمم، رقم: 335، صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب المساجد ومواضع الصلاة، رقم: 521۔
اور سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے پانچ چیزیں (ایسی) دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں۔ (دشمنوں پر) میری مدد ایک مہینے کی مسافت کے رعب سے کی گئی ہے اور میرے لیے (ساری ) زمین کو مسجد اور طہور (پاک اور پاک کرنے والی) بنایا گیا ہے۔ پس میری امت میں سے جس آدمی کی نماز کا وقت ہو جائے وہ نماز پڑھ لے اور میرے لیے (جہاد کی )غنیمتیں حلال کر دی گئی ہیں مجھ سے پہلے یہ کسی کے لیے حلال نہیں کی گئیں۔ اور مجھے شفاعت بخشی گئی (میں اپنی امت کی شفاعت کروں گا)۔ اور مجھ سے پہلے ہر نبی اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا جب کہ مجھے تمام لوگوں کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہے۔“
حدیث: 3
«وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال قام رسول الله صلى الله عليه وسلم حين أنزل الله ﴿وَ اَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ﴾ قال يا معشر قريش أو كلمة نحوها اشتروا أنفسكم لا أغني عنكم من الله شيئا يا بني عبد مناف لا أغني عنكم من الله شيئا يا عباس بن عبد المطلب لا أغني عنك من الله شيئا ويا صفية عمة رسول الله لا أغني عنك من الله شيئا ويا فاطمة بنت محمد سليني ما شئت من مالي لا أغني عنك من الله شيئا»
صحیح بخاری، کتاب التفسیر، سورة الشعراء، رقم: 4771، صحیح مسلم، رقم: 206۔
اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آیت ﴿وَ اَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ﴾ نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور فرمایا: ”اے قریش کی جماعت یا اسی طرح کی کوئی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی (ایمان اور اعمال صالحہ کے ساتھ) اپنی جانوں کا سودا کرو میں تمہیں اللہ سے نہیں بچا سکوں گا۔ اے بنی عبد مناف ! میں تمہیں اللہ سے نہیں بچا سکوں گا۔ اے میرے چچا عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ میں تجھے اللہ سے نہیں بچا سکوں گا۔ اور اے (میری بیٹی) فاطمة بنت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) مجھ سے میرا جو کچھ مال ہے مانگ لے میں تجھے اللہ سے نہیں بچا سکوں گا۔“
حدیث: 4
«وعنه رضي الله عنه وقال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أنا سيد ولد آدم يوم القيامة وأول من ينشق عنه القبر وأول شافع وأول مشفع»
صحیح مسلم، کتاب الفضائل، رقم: 5940
اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں قیامت کے دن اولاد آدم کا سردار ہوں گا اور سب سے پہلے میری قبر پھٹے گی اور سب سے پہلے میں شفاعت کروں گا اور سب سے پہلے میری شفاعت قبول کی جائے گی۔“
حدیث: 5
«وعن جبير بن مطعم رضي الله عنه قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إن لي أسماء أنا محمد وأنا أحمد وأنا الماحي الذى يمحى بي الكفر وأنا الحاشر الذى يحشر الناس على عقبي وأنا العاقب والعاقب الذى ليس بعده نبي»
صحیح بخاری، کتاب المناقب، رقم: 3532، صحیح مسلم، کتاب الفضائل، رقم: 2354۔
اور سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”میرے (بہت سے) نام ہیں۔ میں احمد ہوں محمد ہوں میں ماحی (مٹانے والا) ہوں میرے ساتھ اللہ کفر کو مٹائے گا اور میں حاشر (اکٹھا کرنے والا) ہوں لوگ (قیامت کے دن) میرے قدموں پر اکٹھے ہوں گے اور میں العاقب ہوں جس کے بعد کوئی نبی (پیدا) نہ ہو۔“
جسمانی و اخلاقی اوصاف مصطفی ﷺ
قال الله تعالى: ﴿فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ ﴾ (آل عمران: 159)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”آپ محض اللہ کی رحمت سے ان لوگوں کے لیے نرم ہوئے ہیں اور اگر آپ بد مزاج اور سخت دل ہوتے تو وہ آپ کے پاس سے چھٹ جاتے پس آپ انہیں معاف کر دیجیے اور ان کے لیے مغفرت طلب کیجیے اور معاملات میں ان سے مشورہ لیجیے پس جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پختہ ارادہ کر لیجیے تو اللہ پر بھروسہ کیجیے اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔“
وقال الله تعالى: ﴿ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ﴾ (الأنبياء: 107)
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور ہم نے آپ کو سارے جہان والوں کے لیے سراپا رحمت بنا کر بھیجا ہے۔“
وقال الله تعالى: ﴿فَلْيَضْحَكُوا قَلِيلًا وَلْيَبْكُوا كَثِيرًا جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ﴾ (التوبة: 82)
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”پس وہ تھوڑا ہنسیں اور زیادہ روئیں۔“
حدیث: 6
«وعن على رضي الله عنه قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليس بالطويل ولا بالقصير ضخم الرأس واللحية ششن الكفين مشرب حمرة ضخم الكراديس طويل المسربة إذا مشى تكفى تكفيا كأنما ينحط من صبب لم أر قبله ولا بعده مثله»
سنن ترمذی، ابواب المناقب، رقم: 3637، شمائل ترمذی، رقم: 5، محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
اور سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ تو بہت لمبے تھے اور نہ چھوٹے قد کے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر اور داڑھی بڑی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلیاں سخت اور موٹی تھیں (آپ کا رنگ) سرخی مائل (اور سفید) تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہڈیوں کے جوڑ بڑے تھے۔ سینے کے نیچے لمبے بال تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے تو آگے کی طرف جھک کر (تیز) چلتے گویا کہ کوئی اوپر سے نیچے اتر رہا ہے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کوئی نہیں دیکھا نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اور نہ بعد میں۔“
حدیث: 7
«وعن أنس رضي الله عنه قال ما شممت رائحة قط مسكة ولا عنبرة أطيب من رائحة رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا مست شيئا خرة ولا حريرة ألين من كف رسول الله صلى الله عليه وسلم»
صحیح بخاری، کتاب الصوم، رقم: 1973، صحیح مسلم، کتاب الفضائل، رقم: 6053۔
اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کے جسم مبارک) کی خوشبو سے زیادہ نہ مشک کستوری سونگھی ہے اور نہ مشک عنبر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی سے زیادہ ملائم نہ ریشم چھوا نہ اس سے ملائم جلد والا کوئی اور کپڑا۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو سب سے زیادہ اچھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلیاں سب سے زیادہ ملائم تھیں۔ )“
حدیث: 8
«وعنه رضي الله عنه قال خدمت النبى صلى الله عليه وسلم عشر سنين وأنا غلام ليس كل أمر كما يشتهي صاحبي أن يكون فما قال لي أف لم فعلت هذا أو ألا فعلت هذا»
سنن ابوداود، کتاب الادب، رقم: 4774، محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ”میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سال خدمت کی ہے اور میں ایک (چھوٹا) لڑکا تھا جو اپنے ساتھی (اور سر پرست) کی ہر بات تو اسی طرح نہیں کرتا جیسا کہ وہ چاہتا ہے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی مجھ سے یہ نہیں کہا: اوئے تو نے یہ کیوں کیا ہے اور یہ کیوں نہیں کیا؟“
حدیث: 9
«وعن عائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم قالت ما خير رسول الله صلى الله عليه وسلم فى أمرين إلا أخذ أيسرهما ما لم يكن إثما فإن كان إثما كان أبعد الناس منه وما انتقم رسول الله صلى الله عليه وسلم لنفسه إلا أن تنتهك حرمة الله فينتقم لله بها»
صحیح بخاری، کتاب المناقب، رقم: 3560، صحیح مسلم، کتاب الفضائل، رقم: 6045، مؤطا مالک، رقم: 902/2۔
اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ نے فرمایا: ”جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو کاموں میں سے (ایک کا )اختیار دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسان کام ہی اختیار کیا جب تک کہ اس میں (کوئی )گناہ نہیں تھا اور اگر گناہ کا کام ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ اس سے دور ہوتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے کبھی انتقام نہیں لیا الا یہ کہ اگر اللہ تعالیٰ کی حرمت کو توڑا جاتا تو آپ اللہ کی خاطر اس کا انتقام لیتے تھے۔“
حدیث: 10
«وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال قيل يا رسول الله ادع على المشركين قال إني لم أبعث لعانا وإنما بعثت رحمة»
صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، باب النهي عن لعب الدواب وغيرها، رقم: 6613۔
اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا گیا: ”اے اللہ کے رسول آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکوں کے لیے بددعا کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا بلکہ مجھے صرف رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔“
حدیث: 11
«وعن أبى سعيد الخدري رضي الله عنه ويقول كان رسول الله صلى الله عليه وسلم أشد حياء من العذراء فى خدرها وكان إذا كره شيئا عرفناه فى وجهه»
صحیح البخاری، کتاب الأدب، رقم: 6119، صحیح مسلم، کتاب الفضائل، رقم: 6032۔
اور سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پردہ نشین کنواری سے بھی زیادہ حیا والے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز کو ناپسند کرتے تو اس ناپسندیدگی کا اثر ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے دیکھ لیتے تھے۔“
حدیث: 12
«وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال كان النبى صلى الله عليه وسلم أجود الناس بالخير وكان أجود ما يكون فى رمضان حين يلقاه جبريل وكان جبريل عليه السلام يلقاه كل ليلة فى رمضان حتى ينسلخ يعرض عليه النبى صلى الله عليه وسلم القرآن فإذا لقيه جبريل عليه السلام كان أجود بالخير من الريح المرسلة»
صحیح بخاری، کتاب الصوم، باب أجود ما كان النبي ﷺ يكون في رمضان، رقم: 1902، صحیح مسلم، کتاب الفضائل، رقم: 6009۔
اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ارشاد فرماتے تھے کہ بھلائی کے کاموں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ سخی تھے جب رمضان میں جبریل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے تو آپ بہت زیادہ سخی ہو جاتے تھے۔ جبریل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رمضان کے آخر تک ہر رات تشریف لاتے تھے۔ جب جبریل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے تو آپ تیز ہوا سے بھی زیادہ سخی ہو جاتے تھے۔“
حدیث: 13
«وعن عمرة قالت قيل لعائشة ماذا كان يعمل رسول الله صلى الله عليه وسلم فى بيته قالت كان بشرا من البشر يفلي ثوبه ويحلب شاته ويخدم نفسه»
الشمائل ترمذی، رقم: 344، صحیح ابن حبان، رقم: 5675، ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے۔
اور سیدہ عمرہ (بنت عبد الرحمن تابعیہ رحمہ اللہ ) سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں کیا کام کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسانوں میں سے ایک انسان تھے۔ اپنے کپڑے کو صاف کرتے اپنی بکری کا دودھ دوہتے اور اپنے کام خود کرتے تھے۔“
حدیث: 14
«وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم اللهم اجعل رزق آل محمد قوتا»
صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب كيف كان عيش النبي وأصحابه، رقم: 6460، صحیح مسلم، کتاب الزكاة، باب في الكفاف والقناعة، رقم: 1055
اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ تو آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے گزارے والا رزق بنا (تا کہ وہ آخرت سے غافل نہ ہو جائیں)۔“
حدیث: 15
«وعنه وقال قال النبى صلى الله عليه وسلم والذي نفسي بيده لو تعلمون ما أعلم لبكيتم كثيرا ولضحكتم قليلا»
مسند احمد، رقم: 313۔ 312/2، احمد شاکر نے اسے صحیح الإسناد کہا ہے۔
اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جو میں جانتا ہوں اگر تم جانتے تو بہت زیادہ روتے اور بہت کم ہنستے۔“
حدیث: 16
«وعن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال عذبت امرأة فى هرة سجنته حتى ماتت فدخلت النار لا هي أطعمته ولا سقته إذ حبسته ولا هي تركته تأكل من خشاش الأرض»
صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، رقم: 6675
اور سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک عورت بلی کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کی گئی اس نے بلی کو قید کیا اسے کھانا نہ دیا نہ پینا اور نہ ہی اسے آزاد کیا کہ زمین سے کیڑے مکوڑے کھا لیتی اللہ تعالیٰ نے اسے جہنم میں ڈال دیا۔“
حدیث: 17
«وعن على بن أبى طالب رضي الله عنه فى بناء الكعبة قال لما رأوا النبى صلى الله عليه وسلم قد دخل قالوا قد جاء الأمين»
مجمع الزوائد، رقم: 13880۔
”اور سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کعبہ شریف کی تعمیر کے جھگڑے میں جب اہل مکہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو (اگلی صبح سب سے پہلے) حرم شریف میں داخل ہوتے دیکھا تو (خوشی سے) پکار اٹھے امین آ گیا۔ “
پیغمبر اطہر ﷺ کی طہارت
قال الله تعالى: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ ۚ وَإِن كُنتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ ۚ مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَجٍ وَلَٰكِن يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾ (المائدة: 6)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اے ایمان والو جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک دھولو اور اپنے سروں کا مسح کرلو اور اپنے پاؤں دو ٹخنوں تک دھولو اور اگر تم ناپاک ہو تو پاکی حاصل کرو اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت کر کے آئے یا تم نے بیویوں سے مباشرت کی ہو اور پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کرلو پس اپنے چہروں اور اپنے دونوں ہاتھوں پر اس سے مسح کر لو اللہ تعالیٰ تمہیں کسی تنگی میں ڈالنا نہیں چاہتا ہے بلکہ تمہیں پاک کرنا چاہتا ہے اور تمہارے اوپر اپنی نعمت کو تمام کرنا چاہتا ہے تاکہ تم اس کا شکر ادا کرو۔“
حدیث: 18
«وعن حمران مولى عثمان أخبره أن عثمان بن عفان دعا بوضوء فتوضأ فغسل كفيه ثلث مرات ثم مضمض واستنشر ثم غسل وجهه ثلث مرات ثم غسل يده اليمنى إلى المرفق ثلث مرات ثم غسل يده اليسرى مثل ذلك ثم مسح رأسه ثم غسل رجله اليمنى إلى الكعبين ثلث مرات ثم غسل اليسرى مثل ذلك ثم قال رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم توضأ نحو وضوئي هذا ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من توضأ نحو وضوئي هذا ثم قام فركع ركعتين لا يحدث فيهما نفسه غفر له ما تقدم من ذنبه»
صحیح بخاری، کتاب الصيام، باب سواك الرطب واليابس للصيام، رقم: 1934، صحیح مسلم، کتاب الطهارة، باب صفة الوضوء، رقم: 226، سنن أبو داود، رقم: 106۔
اور سیدنا حمران حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو دیکھا انہوں نے وضو کیا تو اپنے ہاتھوں پر تین دفعہ پانی بہا کر انہیں دھویا۔ پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور اپنا چہرہ تین دفعہ دھویا۔ اور (پھر) اپنا دایاں ہاتھ کہنی تک تین دفعہ دھویا۔ پھر بایاں بھی اسی طرح دھویا پھر سر کا مسح کیا۔ پھر اپنا دایاں پاؤں تین دفعہ دھویا۔ پھر بایاں اسی طرح دھویا۔ پھر فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ نے میری طرح وضو کیا تھا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے میری طرح وضو کیا پھر دو رکعتیں پڑھیں (اس کے پہلے) اپنے آپ سے (غیر ضروری) بات نہ کی تو اس کے پہلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔“
مسواک اور دائیں سمت سے محبت
قال الله تعالى: ﴿إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ﴾ (البقرة: 222)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”بے شک اللہ توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور پاکیزگی حاصل کرنے والوں سے۔“
وقال الله تعالى: ﴿وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا ﴾ (الإسراء: 79)
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور رات کے کچھ حصے میں نماز تہجد میں قرآن پڑھیے یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے زائد نماز ہوگی۔ امید ہے کہ آپ کا رب آپ کو (مقام محمود) پر پہنچا دے گا۔“
حدیث: 19
«وعن حذيفة رضي الله عنه أن النبى صلى الله عليه وسلم كان إذا قام للتهجد من الليل يسوك فاه بالسواك»
صحیح بخاری، کتاب التهجد، باب قول الإمام في صلوة الليل، رقم: 1136، صحیح مسلم، کتاب الطهارة، رقم: 593۔
اور سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو تہجد کے لیے کھڑے ہوتے تو مسواک سے اپنا منہ خوب صاف کرتے تھے۔“
حدیث: 20
«وعن عائشة رضي الله عنها قالت كان النبى صلى الله عليه وسلم لا يحب التيمن ما استطاع فى شأنه كله فى ظهوره وترجله وتنعله»
صحیح بخاری ، کتاب الصلوۃ ، باب التیمن فی دخول المسجد وغیرہ ، رقم 426، صحیح مسلم ، کتاب الطھارۃ ، رقم 617
اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام کاموں میں دائیں طرف سے شروع کرنے کو پسند فرماتے تھے (مثلا) وضو کنگھی کرنا اور جوتا پہننا وغیرہ۔“
پیارے رسول ﷺ کی پیاری نماز
قال الله تعالى: ﴿وَأَقِمِ الصَّلَاةَ ۖ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ﴾ (العنكبوت: 45)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور نماز قائم کیجیے بے شک نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے۔“
حدیث: 21
«وعن أبى عبد الحميد يعني ابن جعفر اخبرني محمد بن عمرو بن عطاء، قال: سمعت ابا حميد الساعدي فى عشرة من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم منهم ابو قتادة، قال ابو حميد: انا اعلمكم بصلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالوا: فلم فوالله؟ ما كنت باكثرنا له تبعا ولا اقدمنا له صحبة، قال: بلى، قالوا: فاعرض، قال: ” كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قام إلى الصلاة يرفع يديه حتى يحاذي بهما منكبيه، ثم يكبر حتى يقر كل عظم فى موضعه معتدلا، ثم يقرا، ثم يكبر فيرفع يديه حتى يحاذي بهما منكبيه، ثم يركع ويضع راحتيه على ركبتيه، ثم يعتدل فلا يصب راسه ولا يقنع، ثم يرفع راسه، فيقول: سمع الله لمن حمده، ثم يرفع يديه حتى يحاذي بهما منكبيه معتدلا، ثم يقول: الله اكبر، ثم يهوي إلى الارض فيجافي يديه عن جنبيه، ثم يرفع راسه ويثني رجله اليسرى فيقعد عليها ويفتح اصابع رجليه إذا سجد ويسجد، ثم يقول: الله اكبر، ويرفع راسه ويثني رجله اليسرى فيقعد عليها حتى يرجع كل عظم إلى موضعه، ثم يصنع فى الاخرى مثل ذلك، ثم إذا قام من الركعتين كبر ورفع يديه حتى يحاذي بهما منكبيه كما كبر عند افتتاح الصلاة، ثم يصنع ذلك فى بقية صلاته حتى إذا كانت السجدة التى فيها التسليم اخر رجله اليسرى وقعد متوركا على شقه الايسر”، قالوا: صدقت، هكذا كان يصلي»
سنن ابوداود، ابواب تفريع استفتاح الصلوٰة، رقم: 730، صحیح ابن خزیمہ، رقم: 587-588، صحیح ابن حبان، رقم: 442، 491، 492۔ ابن خزیمہ، ابن حبان اور محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور سیدنا ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ نے دس صحابہ رضی اللہ عنہم جن میں سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کو تم میں سے سب سے زیادہ جانتا ہوں۔ تو انہوں نے کہا: وہ کیوں؟ آپ نہ تو ہم سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے والے ہیں اور نہ ہم سے پہلے آپ کی صحبت اختیار کی ہے۔ (ابو حمید رضی اللہ عنہ) نے کہا: جی ہاں۔ انہوں نے کہا: پس (اپنی بات) پیش کریں۔ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو رفع یدین کرتے حتیٰ کہ آپ کے دونوں ہاتھ آپ کے کندھوں کے برابر ہو جاتے۔ پھر آپ تکبیر کہتے حتیٰ کہ ہر ہڈی اپنی جگہ اعتدال کے ساتھ ٹھہر جاتی۔ پھر قراءت کرتے، پھر تکبیر کہتے اور کندھوں تک رفع یدین کرتے۔ پھر رکوع کرتے اور اپنی دونوں ہتھیلیاں اپنے گھٹنوں پر رکھتے پھر نہ سر (بہت) جھکاتے نہ (بہت) بلند رکھتے (بلکہ) اعتدال اختیار کرتے پھر سر اٹھاتے تو کہتے سمع الله لمن حمده پھر اعتدال کے ساتھ کندھوں تک رفع یدین کرتے پھر کہتے الله اكبر پھر زمین کی طرف (سجدے کے لیے) جھکتے تو اپنے ہاتھوں کو پہلوؤں سے دور رکھتے پھر سر اٹھاتے اور بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھ جاتے۔ اور جب سجدہ کرتے تو پاؤں کی انگلیاں کھلی رکھتے پھر (دوسرا) سجدہ کرتے پھر الله اكبر کہتے ہیں اور اٹھتے اور بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھ جاتے حتی کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر پہنچ جاتی پھر دوسری رکعت میں ایسا ہی کرتے پھر جب دو رکعتیں پڑھ کر اٹھے تو تکبیر کہتے اور کندھوں تک رفع یدین کرتے جیسے کہ شروع نماز میں کیا تھا پھر اس طرح باقی نماز کرتے حتی کہ وہ سجدہ ہوتا (اس سجدے سے مراد رکعت ہے) جس میں سلام ہوتا ہے تو بائیں پاؤں کو پیچھے کر کے (ایک طرف کو) نکالتے اور دائیں حصے پر تورک کی حالت میں بیٹھ جاتے۔ ان سب نے کہا: اپ نے سچ کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح نماز پڑھتے تھے.“
لوگوں کی خبرگیری
قال الله تعالي: ﴿وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ﴾ (الشعراء: 80)
اللہ تعالی نے فرمایا: ”اور جب میں بیمار پڑتا ہوں تو وہ مجھے شفا دیتا ہے۔“
حدیث: 22
«وعن أنس رضى الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا دخل على مريض قال: أذهب الباس رب الناس، واشف أنت الشافي، لا شافي إلا أنت شفاء لا يغادر سقما»
سنن نسائی فی الکبریٰ، رقم: 10881، عمل الیوم واللیلة، رقم: 1042، صحیح بخاری ، کتاب الطب ، رقم: 5750 عن عائشہ
”اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مریض کے پاس (عیادت کے لیے) جاتے تو دعا فرماتے: اے لوگوں کے رب! (اس کی) بیماری دور کر دے اور تو (اسے) شفا دے دے۔ تو شفا دینے والا ہے۔ تیرے سوا (دوسرا) کوئی شفا دینے والا نہیں، ایسی شفا دے کہ بیماری باقی نہ رہے۔ “
لباس مصطفی ﷺ
حدیث: 23
«وعن جابر رضى الله عنه قال: دخل النبى صلى الله عليه وسلم مكة عام الفتح، وعليه عمامة سوداء»
سنن ترمذی، کتاب اللباس، رقم: 1735، سنن ابوداود، کتاب اللباس، رقم: 4076۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
اور سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فتح والے سال مکہ میں داخل ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم (کے سر) پر سیاہ رنگ کا عمامہ تھا۔
حدیث: 24
«وعن عبد الله بن جعفر رضى الله عنه أن النبى صلى الله عليه وسلم كان يتختم فى يمينه»
سنن ترمذی، کتاب اللباس، رقم: 1744، ابن ماجہ، کتاب اللباس، رقم: 3647۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
اور سیدنا عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں ہاتھ (کی انگلی) میں انگوٹھی پہنتے تھے۔
حدیث: 25
«وعن عائشة رضي الله عنها قالت: إنما كان فراس رسول الله صلى الله عليه وسلم الذى ينام عليه، من أدم حشوه ليف»
سنن ترمذی، کتاب اللباس، رقم: 1761، صحیح مسلم ، کتاب الباس والزینۃ، رقم 5447، صحیح بخاری ، کتاب الرقاق ، رقم 6456
”اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس بستر پر سوتے تھے، وہ چمڑے کا تھا، اس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ “
رہبر انسانیت ﷺ کا کھانا پینا
قال الله تعالي: ﴿يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا ۖ إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ ﴾ (المؤمنون: 51)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اے میرے پیغمبرو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو، بے شک میں تمہارے کرتوتوں کو خوب جانتا ہوں۔“
حدیث: 26
«وعن أبى جحيفة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا أكل متكئا»
صحیح بخاری، کتاب الأطعمة، رقم: 5398
اور سیدنا ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں ٹیک لگا کر کھانا نہیں کھاتا۔“
حدیث: 27
«وعن أبى هريرة رضى الله عنه قال: ما عاب النبى صلى الله عليه وسلم طعاما قط، إن اشهتها أكله وإلا تركه»
صحیح بخاری، کتاب المناقب، رقم: 3563، صحیح مسلم، کتاب الأطعمة، رقم: 5380
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کھانے میں نقص نہیں نکالا۔ اگر طلب ہوتی تو کھا لیتے ورنہ اسے چھوڑ دیتے تھے۔ “
حدیث: 28
«وعن أم سلمة رضي الله عنها: أنها قربت إلى النبى صلى الله عليه وسلم جنبا مشويا، فأكل منه ثم قام إلى الصلاة وما توضأ»
سنن ترمذی ، کتاب الاطمعہ ، رقم 1829، شمائل للترمذی، رقم 163۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے (بکری کی) پہلدستی کا بھنا ہوا گوشت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کھایا، پھر نماز کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور (دوبارہ )وضو نہیں کیا۔
حدیث: 29
«وعن أنس بن مالك رضى الله عنه قال: كان النبى صلى الله عليه وسلم يعجبه الدباء، فأتي بطعام ودعي له، فجعلت أتتبعه، فأضعه بين يديه لما أعلم أنه يحبه»
شمائل ترمذی ، رقم 960 ، مسند احمد: 177/3 ، 274، 279، احمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کدو پسند کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کھانے کی دعوت دی گئی تو میں کدو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ رہا تھا، کیونکہ میں جانتا تھا کہ آپ اسے پسند فرماتے ہیں۔ “
حدیث: 30
«وعنه رضي الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يتنفس فى الشراب ثلاثا، ويقول: إنه أروي وأبرأ وأمرأ. قال أنس: وأنا أتنفس فى الشراب ثلاثا»
صحیح مسلم، کتاب الأشربة، رقم: 5287
”اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین سانسوں میں پانی پیتے تھے، اور فرماتے: یہ زیادہ پیاس بجھانے والا اور نفع بخش ہے۔ “
حدیث: 31
«وعن عائشة رضي الله عنها قالت: كان يستعذب لرسول الله صلى الله عليه وسلم من السقيا، والسقيا من طرف الحرة، عند أرض بني فلان»
ابو الشیخ ، ص 288، شرح السنۃ ، رقم 3050، سنن ابوداود، کتاب الأشربة، رقم: 3735 ، المشکاۃ رقم 4284۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حرہ کی طرف بنو فلان کی زمین کے کنویں سے (پینے کا پانی) نکالا جاتا تھا۔
پاکباز پیغمبر ﷺ کی ازدواجی زندگی
«وعن ابن عباس رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قبض عن تسع نسوة، وكان يقسم منهن لثمان»
کتاب الام للشافعی: 110/5 ، صحیح بخاری، کتاب النكاح، رقم: 5067 ، صحیح مسلم ، کتاب الرضاع ، رقم 3633
اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب وصال ہوا تو آپ کی نو بیویاں تھیں، اور (سودہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ) آٹھ کی باریاں مقرر تھیں۔
حدیث: 33
«وعن عائشة رضي الله عنها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أراد سفرا أقرع بين نسائه، فأيتهن خرج سهمها خرج بها معه، وكان يقسم لكل امرأة منهن يومها وليلتها، غير أن سودة بنت زمعة رضي الله عنها وهبت يومها وليلتها لعائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم تبتغي بذلك رضا رسول الله صلى الله عليه وسلم»
صحیح بخاری ، کتاب الھبۃ رقم 2593، صحیح مسلم، کتاب التوبۃ ، رقم: 2770
”اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کا ارادہ فرماتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ ڈالتے تھے۔ جس کا قرعہ نکل آتا وہ آپ کے ساتھ جاتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر بیوی کے لیے ایک دن اور رات کی باری مقرر کر رکھی تھی۔ سوائے سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا کے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی کے لیے اپنا دن اور رات سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو دے رکھا تھا۔ “
معطر پیغمبر ﷺ کا عطر و خوشبو
حدیث: 34
«وعنها رضي الله عنها قالت: كنت أطيب النبى صلى الله عليه وسلم بأطيب ما نجد، حتي أجد وبيص الطيب فى رأسه ولحيته»
صحیح بخاری، کتاب اللباس، رقم: 5923 ، صحیح مسلمم ، کتاب الحج رقم 1190
”اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہترین خوشبو لگاتی تھی حتیٰ کہ میں خوشبو کی چمک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر اور داڑھی میں دیکھتی تھی۔ “
سفر کے لیے روانگی اور واپسی
حدیث: 35
«وعن كعب بن مالك رضى الله عنه كان يقول: لقلما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخرج إذا خرج فى سفر إلا يوم الخميس»
صحیح بخاری، کتاب الجهاد والسیر، رقم: 2949
”اور سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعرات کے علاوہ سفر کے لیے بہت کم ہی نکلتے تھے۔ “
وصال مصطفی ﷺ
قال الله تعالي: ﴿ إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ﴾ (الزمر: 30)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اے میرے نبی! آپ بھی فوت ہو جائیں گے اور یہ لوگ بھی مر جائیں گے۔“
حدیث: 36
«وعن عائشة رضي الله عنها رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو بالموت وعنده قدح فيه ماء وهو يدخل يده فى القدح، ثم يمسح وجهه بالماء ثم يقول: اللهم أعني على غمرات الموت، أو سكرات الموت»
سنن ترمذی، کتاب الجنائز، رقم: 978 ، شمائل ترمذی، رقم 388، امام ترمذی نے اسے حسن صحیح کہا ہے۔
”اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو موت کے وقت دیکھا۔ آپ کے پاس پانی کا ایک پیالہ (برتن) تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیالے میں ہاتھ داخل کرتے، اپنے چہرے پر پھیرتے، پھر فرماتے: اے اللہ! موت کی سختیوں پر میری مدد کر۔ “
حدیث: 37
«وعنها رضي الله عنها أنها سمعت النبى صلى الله عليه وسلم وأصغت إليه قبل أن يموت، وهو مسند إلى ظهره يقول: اللهم اغفر لي وارحمني وألحقني بالرفيق»
صحیح بخاری، کتاب المغازی، رقم: 4440، صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابۃ ، رقم 2444
”اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ ان کے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال سے پہلے عائشہ رضی اللہ عنہا ان کی طرف جھک گئی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: اے اللہ! مجھے بخش دے، اور مجھ پر رحم کر، اور رفیق اعلیٰ کے ساتھ مجھے ملا دے۔ “
محبت مصطفی ﷺ کے فضائل
قال الله تعالي: ﴿قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ﴾ (التوبة: 24)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”آپ کہیے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا خاندان، اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس کی کساد بازاری سے تم ڈرتے ہو، اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کر لو، یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ لے کر آجائے، اور اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ “
حدیث: 38
«وعن أنس رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: ثلاث من كن فيه وجد حلاوة الإيمان: من كان الله ورسوله أحب إليه مما سواهما، ومن أحب عبدا لا يحبه إلا لله، ومن يكره أن يعود فى الكفر بعد إذ أنقذه الله كما يكره أن يلقي فى النار»
صحیح بخاری، کتاب الإیمان، رقم: 21، صحیح مسلم کتاب الایمان رقم 166
اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین چیزیں جس کے اندر ہوں، اس نے ایمان کی مٹھاس پالی: (1) جسے اللہ اور رسول سب سے زیادہ محبوب ہوں۔ (2) جو کسی بندے سے صرف اللہ کے لیے محبت کرے۔ اور (3) جو شخص کفر سے نجات کے بعد اس میں لوٹنے کو اتنا ناپسند کرے جیسا کہ آدمی آگ میں گرنا ناپسند کرتا ہے۔“
حدیث: 39
«وعن عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنهما النبى صلى الله عليه وسلم قال: لا يؤمن أحدكم حتي يكون هواه تبعا لما جئت به»
شرح السنۃ رقم 104، اربعین نووی ، رقم 41، امام نووی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کی خواہشات اس (دین) کے تابع نہ ہو جائیں جو میں لے کر آیا ہوں۔ “
خواب میں زیارت مصطفی ﷺ
حدیث: 40
«وعن أنس رضى الله عنه قال: رسول الله صلى الله عليه وسلم أن: من رآني فى المنام فقد رآني، فإن الشيطان لا يتمثل بي، رؤيا المؤمن جزء من ستة وأربعين جزءا من النبوة»
صحیح بخاری، کتاب التعبیر، رقم: 6994
”اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے مجھے خواب میں دیکھا اس نے مجھے (ہی) دیکھا ہے، کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کر سکتا۔ اور فرمایا: مسلمان کا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔ “
وصلي الله تعالي على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين