سوال:
بعض کہتے ہیں کہ اگر شق قمر ہوا تھا، تو اسے متواتر نقل کیوں نہ کیا گیا، حالانکہ چاند ساری زمین پر دو ٹکڑوں میں دکھایا گیا؟
جواب:
شق قمر کا ثبوت قرآن، احادیث صحیحہ اور اجماع امت سے ملتا ہے۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت بڑا معجزہ ہے۔ یہ تواتر کے ساتھ منقول ہے۔
❀ حافظ بیہقی رحمہ اللہ (458ھ) فرماتے ہیں:
دلائل النبوة كثيرة والأخبار بظهور المعجزات ناطقة، وهى وإن كانت فى آحاد أعيانها غير متواترة ففي جنسها متواترة متظاهرة من طريق المعنى؛ لأن كل شيء منها مشاكل لصاحبه فى أنه أمر مزعج للخواطر ناقض للعادات، وهذا أحد وجوه التواتر الذى يثبت بها الحجة وينقطع بها العذر.
دلائل نبوت بہت زیادہ ہیں، احادیث نے بول بول کر معجزات کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ اگرچہ یہ بیان کے اعتبار سے احاد ہیں، غیر متواتر ہیں، لیکن معنی کے اعتبار سے یہ تواتر کی جنس سے ہیں، کیونکہ یہ خارق عادت اور عقل کو حیران کر دینے والے ہیں اور بیان کرنے والے کے حافظے میں سما جاتے ہیں۔ یہ تواتر کی ایک وجہ ہے، جس سے حجت ثابت ہوتی ہے اور عذر ختم ہوتا ہے۔
(الاعتقاد: 255)
❀ علامہ طیبی رحمہ اللہ (743ھ) فرماتے ہیں:
قال الإمام فخر الدين الرازي: إنما ذهب المنكر إلىٰ ما ذهب؛ لأن الإنشقاق أمر هائل، ولو وقع لعم وجه الأرض وبلغ مبلغ التواتر. والجواب: أن الموافق قد نقله وبلغ مبلغ التواتر، وأما المخالف فربما ذهل أو حسب أنه نحو الخسوف، والقرآن أولىٰ دليل وأقوىٰ شاهد، وإمكانه لا شك فيه، وقد أخبر عنه الصادق، فيجب اعتقاد وقوعه.
امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ منکرین نے اس کا انکار کیا، کیونکہ شق قمر ایک حیران کن واقعہ ہے، اگر اس کا وقوع ہوتا، تو ساری دھرتی پر نظر آتا اور اس کے متعلق متواتر خبریں دی جاتیں۔ جواب یہ ہے کہ جس نے اس کی حقیقت کو مانا، اس نے اس واقعے کو نقل کیا اور یہ نقل حد تواتر تک پہنچ گئی۔ اس کی مخالفت کرنے والا یا تو اس سے غافل رہا یا اس نے اسے چاند گرہن جیسا سمجھا۔ جبکہ قرآن سب سے بڑی اور قوی دلیل ہے۔ شق قمر کے امکان میں کوئی شک نہیں، اس کی خبر صادق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے، لہذا اس پر ایمان لانا ضروری ہے۔
(شرح المشكاة : 3731/12)