سوال
کیا فرماتے ہیں علماءِ دین اس مسئلہ میں: آنحضرت ﷺ کا شقِ صدر کن کن مواقع پر اور کتنی مرتبہ ہوا؟ احادیثِ نبویہ کی روشنی میں واضح فرمائیں۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
**اقول وبالله التوفيق!** شقِ صدر کے متعلق احادیث و روایات کے تتبع اور مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ آنحضرت ﷺ پر شقِ صدر کی کیفیت **پانچ مرتبہ** واقع ہوئی بتلائی گئی ہے۔ محدثین اور سیرت نگاروں نے ان روایات کو مع جرح و تعدیل اپنی اپنی تالیفات میں نقل کیا ہے۔ طالبِ تفصیل کو **مواہب، زرقائی، مسند احمد، ابو داؤد، طیالسی، دارمی، دلائل ابو نعیم، دلائل بیہقی، ابن عساکر، سنن دارمی، مجمع الزوائد، زاد المعاد، فتح الباری، طبقات ابن سعد، سیرت ابن ہشام، رود الانف، کنزالعمال** کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ **اردو خواں حضرات** کے لیے *سیرت النبی ﷺ از سید سلیمان ندوی، جلد 3* کا مطالعہ مفید ہے۔ ذیل میں قدرے تفصیل پیش کی جاتی ہے:
شقِ صدر کے مذکورہ مواقع (روایات کے مطابق)
1) پہلی مرتبہ: عمرِ مبارک **پانچ سال**، مائی حلیمہ سعدیہ کے پاس پرورش کے دوران۔
2) دوسری مرتبہ: عمرِ مبارک **دس برس**۔
3) تیسری مرتبہ: عمرِ مبارک **بیس برس**۔
4) چوتھی مرتبہ: **آغازِ نبوت** کے ایام میں۔
5) پانچویں مرتبہ: **معراج** کی رات۔
> دوسری، تیسری اور چوتھی دفعہ والی احادیث **انتہائی کمزور** ہیں اور اربابِ جرح و تعدیل نے ان پر نقد کیا ہے۔ پھر بھی وضاحتاً دس سال والی روایت ملاحظہ ہو:
دس برس کی عمر والی روایت (سند اور متن)
((عن أبي بن كعب عن أبي هريرة قال يا رسول الله ما أول ما رأيت من أمر النبوة فاستوى رسول الله صلى الله عليه وسلم جالسا وقال لقد سألت يا أبا هريرة إني لفي صحراء ابن عشرين سنة وأشهر إذا بكلام فوق رأسي وإذا برجل يقول لرجل أهو هو فاستقبلاني بوجوه لم أرها لخلق قط وثياب لم أرها على أحد قط فأقبلا إلى يمشيان حتى أخذ كل واحد منهما بعضدي لا أجد لأخذهما مسا فقال أحدهما لصاحبه أضجعه فأضجعاني بلا قصر ولا هصر أي من غير إتعاب فقال أحدهما لصاحبه أفلق صدره ففلقه فيما أرى بلا دم ولا وجع فقال له أخرج الغل والحسد فأخرج شيئا كهيئة العلقة ثم نبذها فطرحها فقال له أدخل الرأفة والرحمة فإذا مثل الذي أخرج أي ليدخله شبه الفضة ثم نقر إبهام رجلي اليمنى وقال أغد واسلم فرجعت أغدو بها رأفة على الصغير ورحمة على الكبيررواه عبد الله ورجاله ثقات وثقهم ابن حبان ))(مجمع الزوائد)
**ترجمانیِ مفہوم:** حضرت ابی بن کعب سے روایت ہے کہ نبوت کے ابتدائی نشان کے بارے میں آنحضرت ﷺ نے حضرت ابوہریرہ کے سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ میں دس برس اور چند مہینے کا تھا، میدان میں تھا کہ سر کے اوپر سے آواز آئی۔ دو فرشتے نمودار ہوئے، خوش شکل و خوش لباس۔ انہوں نے بازوؤں سے تھاما، زمین پر لٹا دیا، سینہ چاک کیا؛ نہ خون نکلا نہ تکلیف۔ ایک نے کہا: حسد و کینہ نکالو؛ خون کے لوتھڑے جیسا کچھ نکال کر پھینکا۔ دوسرے نے کہا: اس کی جگہ رحمت و رأفت داخل کرو؛ چاندی سی چیز ڈال دی۔ پھر دائیں پاؤں کے انگوٹھے پر ٹھوکی اور کہا: اٹھو اور سلامت رہو۔ اس کے بعد مجھ میں چھوٹوں پر شفقت اور بڑوں پر رحمت کی کیفیت غالب ہوگئی۔
سندی حیثیت پر کلام:
اس روایت کی **سند** کو ابن حبان نے ثقہ کہا ہے۔ سلیمان لکھتے ہیں: *زوائد مسند احمد، ابن حبان، حاکم، ابن عساکر اور ابو نعیم* میں یہ حدیث موجود ہے؛ مگر ان کتابوں کی **مرکزی سند** یہ ہے:
**معاذ بن محمد بن معاذ بن محمد بن ابی کعب عن ابيه محمد عن جده معاذ بن محمد عن ابي كعب – کنز الاعمال ص 96، ج6 ، باب الاعلام النبوۃ**
یہ سند **سخت ضعیف** اور **مجہول راویوں** پر مشتمل ہے۔ محدث **علی بن مدینی** *کتاب العلل* میں فرماتے ہیں:
’’حديث مدنى واسناده مجهول كله لانعرف معاذ ولا اباه ولا جده ‘‘.
یعنی پوری سند مجہول راویوں سے ہے؛ معاذ، اس کے والد محمد اور اس کے دادا معاذ — تینوں **نامعلوم**۔
اور **ابو نعیم** نے لکھا ہے:
**هذا الحديث تفرد به معاذ بن محمد و تفرد بذكر السند الذى شق فيه عن قلبه(دلائل النبوة ص:71)**
یعنی دس سال والی شقِ صدر کی روایت **صرف معاذ بن محمد** سے منفرد ہے۔
*کنزالاعمال* میں بھی اسے **ضعیف** لکھا گیا؛ اس لیے یہ روایت **صحیح ثابت نہ ہوسکی**۔
بیس برس کی عمر والی روایت
بیس برس میں شقِ صدر کے واقعات بھی **ضعیف** ہیں، اور ان کی **مرکزی سند** پھر یہی **معاذ بن محمد بن معاذ** ہے (کنزالاعمال میں مذکور)۔ سید سلیمان کے مطابق محدثین اور اربابِ سیر کے نزدیک یہ روایت **صحیح نہیں**۔
آغازِ وحی کے موقع پر شقِ صدر — روایات کا جائزہ
*دلائل ابو نعیم، دلائل بیہقی، مسند حارث اور مسند طیالسی* میں حضرت **عائشہ رضی اللہ عنہا** سے منقول کچھ روایات میں آغازِ وحی کے وقت بھی شقِ صدر مذکور ہے؛ مگر یہ بوجوہ **قابلِ قبول نہیں**:
وجہ 1
آغازِ وحی کی حدیث **صحیح بخاری، صحیح مسلم، مسند احمد** میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سب سے **مفصل، صحیح اور محفوظ** آئی ہے، جن میں غارِ حراء میں پہلی آمد کے وقت **شقِ صدر کا ذکر نہیں**۔ پس اصح روایت میں ذکر نہ ہونا اس دعویٰ کی **بے اعتباری** پر دلالت کرتا ہے۔
وجہ 2
ان روایات کی **مرکزی سند** *ابوعمران الجونی* ہے جو **سخت ضعیف** ہے۔ پوری سند یہ ہے:
**ابو داؤد قال حماد بن سلمة قال اخبرني ابو عمران الجوني عن رجال عن عائشة رضى الله عنها ان رسول الله صلي الله عليه وسلم اعتكف هو وخديجة شهرا بحراء فوافق شهر رمضان….. نحبط جبريل الي الارض وبقيٰ ميكائيل بين السماء والارض قال فاخذني جبريل فصلقني علاوة القفاشق عن بطني فاخرج منه ماشاء الله ثم غسله في طست من ذهب ثم كفاني كما يكفأ الاناء ثم ختم في ظهري حتي وجدت مس الخاتم.( طيالسي ص:215، 216، مرويات عائشة)**
یہاں *ابوعمران الجونی* کے شیخ **مجہول** ہیں۔ بعض نسخوں میں ان کے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے درمیان **یزید بن بانیوس** مذکور ہے (مسند ابو داؤد طیالسی ص217، دلائل ابو نعیم ص69)؛ اگر یہ وہی ہیں تو وہ **سخت شیعہ** اور **قاتلِ حضرت علی ** بتائے گئے ہیں۔ *میزان الاعتدال* میں ہے:
**ما حدث عنه سوى ابي عمران الجوني قال الدولابى وهون من الشيعة الذين قاتلوا علياً ونقل ابن القطان هذا القول عن البخاري فيه قال ابوداؤد كان شيعياً قال ابن عدى احاديثه مشاهير وقال الدارقطنى لابأس به. (دلائل النبوة ص:71)**
جرح **مقدم** ہے؛ اس بنا پر آغازِ وحی پر شقِ صدر والا واقعہ **صحیح نہیں**۔
حضرت حلیمہ سعدیہ کے ہاں (عہدِ طفولیت) — روایات و اسناد
اس باب میں آٹھ سندیں مختلف طریق سے صحابہ کرام تک پہنچی ہیں؛ ان میں **دو سندیں صحیح** اور **بقیہ ضعیف** ہیں۔
الف) پہلی سند اور اس کی حقیقت
سند: **جہم بن ابی جہم**، **عبداللہ بن جعفر**، اور پھر **حلیمہ سعدیہ**۔ یہ *ابن اسحاق* اور *دلائل ابو نعیم* میں ہے۔ یہاں **جہم** مجہول، **عبداللہ بن جعفر** کی حلیمہ سے **ملاقات ثابت نہیں**، اور **ابن اسحاق** نے **ارسال/شک** ظاہر کیا: “عبداللہ بن جعفر نے خود کہا یا کسی ذریعہ سے کہا”۔ ابو نعیم میں شک نہیں، مگر نیچے کے راوی **مجروح** ہیں۔ (سیرت النبی سید سلیمان ندوی ص:334، ج3، البدایہ والنہایہ، ج2 ص:273، سیرت ابن ہشام، ص:164.)
**1….قال ابن إسحاق حدثني جهم ابن أبي الجهم مولى لامرأة من بني تميم ، كانت عند الحارث بن حاطب ، وكان يقال : مولى الحارث بن حاطب ، قال : حدثني من سمع عبد الله بن جعفر بن أبي طالب يقول : حدثت عن حليمة**
ب) دوسری سند (واقدی)
ابن سعد نے یوں بیان کیا:
**”اخبرنا محمد بن عمر عن اصحابه مكث عنهم سنقين حتي فطم وكانه ابن اربع سنين”**
وجہ اول (جرح راوی)
**محمد بن عمر الواقدی** ضعیف، بلکہ بعض کے نزدیک **کذاب**:
**قال احمد بن حنبل هو كذاب يقلب الاحاديث قال ابن معين ليس بثقة وقال مرةلايكتب حديثه قال البخارى وابوحاتم متروك وقال ابو حاتم ايضاً والنسائى يضع الحديث. (ميزان الاعتدال ج:3ص:663، تحفة الاحوذى)**
وجہ دوم (انقطاع)
واقدی نے “**عن اصحابہ**” کہہ کر **اوپر کی سند گول** کر دی؛ لہٰذا سند **منقطع**۔
ج) ابو نعیم کی ایک اور سند
**عبدالصمد بن محمد السعدی** اپنے باپ سے، وہ اپنے باپ سے، اور وہ **حلیمہ کی بکریاں چرانے والے ایک شخص** سے — پوری کڑی **مجہول**۔ (سیرت النبی، ص:334، ج:3)
د) ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت
ابن عساکر اور بیہقی کی سند میں **محمد بن زکریا الغلابی** — **وضاع**، **قصہ گو**۔ (سیرت النبی ص:232، ج:3)
ہ) شداد بن اوسؓ سے طویل قصہ
*البدایہ والنہایہ* (2/276) میں اس کی **غُرْبَۃ** کی تصریح۔ سند میں **بے نام راوی**، اور **ابوالعجفاء** پر اعتراض:
**” ابن سيرين عن ابى العجفاء عن ابيه فى حديثه نظر."(تاریخ صغیر امام بخاری ص:13، طبع الہ آباد۔ میزان الاعتدال ص155 ج4، ابو العجفاء السلمی یقال اسمہ الہرم قال ابو احمدالحاکم لمن حدیثہ بالغائم، میزان الاعتدال ص55، ج4۔‘‘**
مکحول شامی کی روایت میں **انقطاع** (مکحول نے شداد کا زمانہ نہیں پایا، اور وہ **مدلس** تھے) — غالب ہے کہ ساقط راوی یہی **ابوالعجفاء** ہو؛ مکحول نے ضعف کے باعث **حذف** کیا۔ (سیرت النبی، ص:335، ج:3)
صحیح روایات (طفولیت اور معراج)
((عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ : أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” أَتَاهُ جِبْرِيلُ وَهُوَ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ ، فَأَخَذَهُ فَصَرَعَهُ ، فَشَقَّ عَنْ قَلْبِهِ ، فَاسْتَخْرَجَ الْقَلْبَ ، فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ عَلَقَةً ، فَقَالَ : هَذَا حَظُّ الشَّيْطَانِ مِنْكَ ، ثُمَّ غَسَلَهُ فِي طَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ بِمَاءِ زَمْزَمَ ، ثُمَّ لأَمَهُ ، ثُمَّ أَعَادَهُ فِي مَكَانِهِ ، وَجَاءَ الْغِلْمَانُ يَسْعَوْنَ إِلَى أُمِّهِ يَعْنِي ظِئْرَهُ ، فَقَالُوا : إِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ قُتِلَ ، فَاسْتَقْبَلُوهُ وَهُوَ مُنْتَقِعُ اللَّوْنِ ” ، قَالَ أَنَسٌ : وَكُنْتُ أَرَى أَثَرَ الْمِخْيَطِ فِي صَدْرِهِ .))
اس حدیث میں شقِ صدر **کا ذکر ہے** مگر **حکمت** کی صراحت نہیں۔
حکمت کی توضیح اسی راوی انس سے **صحیح بخاری** کی ذیل کی حدیث میں ملتی ہے:
((عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ : كَانَ أَبُو ذَرٍّ يُحَدِّثُ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهِ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : فُرِجَ سَقْفُ بَيْتِي وَأَنَا بِمَكَّةَ ، فَنَزَلَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلامُ ، فَفَرَجَ صَدْرِي ، ثُمَّ غَسَلَهُ مِنْ مَاءِ زَمْزَمَ ، ثُمَّ جَاءَ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مُمْتَلِئٍ حِكْمَةً وَإِيمَانًا ، فَأَفْرَغَهَا فِي صَدْرِي ، ثُمَّ أَطْبَقَهُ….. الخ))
**نتیجۂ تحقیق:** کتبِ حدیث و سیرت کے مجموعی مطالعہ سے بادی النظر میں تو پانچ مرتبہ کا تاثر ملتا ہے، مگر **صحیح** یہ ہے کہ شقِ صدر **دو مرتبہ** ثابت ہے:
1. **عہدِ طفولیت** (مائی حلیمہ سعدیہ کے پاس)
2. **معراج** کی رات۔
باقی مواقع کی روایات اصولِ روایت کے معیار پر **پوری نہیں** اترتیں۔
ہم نے شقِ صدر کی تفصیل اس لیے لکھی کہ قارئین کے سامنے تصویر واضح رہے، اور **منکرینِ حدیث** کے زاویۂ فکر کا اندازہ بھی ہو کہ انکارِ حدیث کے پس منظر میں قرآنِ عظیم کی کون سی خدمت(!) کی جا رہی ہے۔
منکرینِ حدیث کے اعتراضات اور جوابات
اعتراض اول
**“جب بچپن میں حضور ﷺ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے تو حضرت انس کہاں تھے؟ آپ ایک ایسے واقعہ کے عینی شاہد بن رہے ہیں جو آپ کی پیدائش سے تقریباً چھتیس برس پہلے پیش آیا تھا۔”** (دو اسلام ص:75)
جواب اول
بچپن والے شقِ صدر کے واقعات **حضرت انس ** کے علاوہ **حضرت ابن عباس، شداد بن اوس، عتبہ بن عبد سلمی** وغیرہ صحابہ کرام سے بھی وارد ہیں (سنن دارمی، البدایہ والنہایہ، مجمع الزوائد، ابو یعلیٰ، ابن عساکر وغیرہ)۔ اگرچہ انفرادی اسناد میں کمزوریاں ہیں، مگر جب انہیں **حضرت انس** کی **صحیح روایت** کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو **مؤید قرائن** پیدا ہو جاتے ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
جواب ثانی
یہ اعتراض سرسری مطالعہ کا نتیجہ ہے۔ حدیثِ انس میں **انسؓ نے چشم دید ہونے کا دعویٰ نہیں کیا**؛ وہ صرف **واقعہ بیان** کرتے ہیں۔ ممکن ہے یہ انہیں **براہِ راست رسول اللہ ﷺ** سے یا **کسی صحابی** سے ملا ہو اور نام **اختصاراً حذف** ہو گیا ہو۔ اصولِ حدیث میں اسے **“مرسل صحابی”** کہتے ہیں، اور **مرسلِ صحابی** بالاتفاق **حجت** ہے۔ (نزہۃ النظر، تدریب الراوی، الفیہ عراقی، کفایۃ بغدادی، مقدمہ ابن الصلاح)
اعتراض ثانی
**“دل تو گوشت کا لوتھڑا ہے، احساس نہیں کرتا؛ خیالات و جذبات کا مرکز دماغ ہے۔ اگر منبعِ شر دور کرنا مقصود تھا تو دماغ چیرنا چاہیے تھا، دل کیوں؟”** (دو اسلام، ص:75–76)
جواب
* **حیاتیاتی حقیقت:** انسانی **حیات کا سرمایہ دل** ہے؛ دل کی حرکت رک جائے تو فوراً **موت** واقع ہوتی ہے۔ عملاً دیکھا جاتا ہے کہ **دماغ فیل** ہو جائے تو بھی **دل چلتا** رہتا ہے؛ برعکس ممکن نہیں۔ (علم الابدان، ص:192، بحوالہ تفہیم الاسلام مولانا مسعود احمد، کراچی)
* **قرآنی شہادت:** قرآنِ کریم میں متعدد مقامات پر وحی اور ادراک کا **مہبط “قلب”** بتایا گیا ہے، **دماغ** نہیں۔
نصوصِ قرآنی (بعینہٖ):
﴿مَن كانَ عَدُوًّا لِجِبريلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلى قَلبِكَ بِإِذنِ اللَّهِ مُصَدِّقًا لِما بَينَ يَدَيهِ وَهُدًى وَبُشرى لِلمُؤمِنينَ ﴿٩٧﴾… سورة البقرة
﴿إِنَّ اللَّهَ عَليمٌ بِذاتِ الصُّدورِ﴾
﴿لَهُم قُلوبٌ لا يَفقَهونَ بِها وَلَهُم أَعيُنٌ لا يُبصِرونَ بِها…﴿١٧٩﴾… سورة الأعراف
﴿أَفَلَم يَسيروا فِى الأَرضِ فَتَكونَ لَهُم قُلوبٌ يَعقِلونَ بِها أَو ءاذانٌ يَسمَعونَ بِها فَإِنَّها لا تَعمَى الأَبصـرُ وَلـكِن تَعمَى القُلوبُ الَّتى فِى الصُّدورِ ﴿٤٦﴾…سورة الحج
ان آیاتِ بینات سے واضح ہے کہ **مرکزِ ادراک و ایمان “قلب”** ہے جو **سینے** میں ہے؛ لہٰذا **دل کا آپریشن** ہی حکمت کے عین مطابق تھا۔
**اشعار:**
ناصحا، اتنا تو سمجھ دل میں اپنے کہ ہم
لاکھ ناداں ہونگے تو کیاتجھ سے بھی ناداں ہونگے
ہر کسی کو والد کے نام سے پکارا جائے گا — مسئلہ کی تفصیل
گزشتہ شمارے کے ایک استفتاء کے جواب میں ذکر ہوا تھا کہ قیامت کے دن ہر شخص کو **اس کے والد کے نام** سے پکارا جائے گا۔ یہاں مزید توضیح پیش ہے۔
ماؤں کے نام سے پکارے جانے کے قائلین کے دلائل اور جوابات
دلیل 1: روایتِ طبرانی
**”عن ابن عباس ان الله يدعوا الناس يوم القيامة بامهاتهم سترا سنه علي عباده”**
جواب: یہ حدیث **سخت ضعیف** ہے۔ حافظ ابن حجر : **’’ سندہ ضعیف جدا‘‘** (عون المعبود ص442، ج4، فتح الباری ص464، ج10)۔ حافظ ابن القیم نے بھی *سنن ابی داؤد* کے حاشیہ پر **ضعیف** کہا؛ ملا علی قاری حنفی نے **باطل** لکھا:
**” ومن ذالك حديث الناس يوم القيامة يدعون بامهتهم لابائهم هو باطل"(فتح الباری، ص:464، ج10)**
مزید یہ کہ یہ حدیث آگے آنے والی **صحیح احادیث** کے بھی خلاف ہے، اور بعض طرق میں **“بامامہم”** منقول ہے، نہ کہ **“بامہاتہم”**۔ اس وجہ سے بھی **قابلِ استدلال نہیں**۔
دلیل 2: حضرت عیسیٰؑ کا لحاظ
چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام **بغیر باپ** کے پیدا ہوئے، اس لیے سب کو **ماں کے نام** سے پکارا جائے گا۔
**جواب:** اس پر گزشتہ اشاعت میں **جواب** آ چکا ہے۔
دلیل 3: حضرت حسن و حسینؓ کی شرافتِ نسب
امام بغوی کی تجویز: **’’لشرف الحسن والحسین‘‘** — یعنی سیدہ فاطمہؓ کی نسبت کا لحاظ۔
**جواب:** یہ **من گھڑت** اور **بے دلیل** بات ہے۔ حسین کی شرافت میں **حضرت علی ** کی پدرانہ نسبت اور **ان کی اپنی تقویٰ و طہارت** بھی شامل ہے۔ مزید یہ کہ یہ **صحیح بخاری** کی صریح روایت کے بھی **خلاف** ہے۔
دلیل 4: اولادِ زنا کی پردہ پوشی
کہ ماں کے نام سے پکارنے میں **سترسازی** ہے۔
**جواب:** مقصود **تعریف و امتیاز** ہے، اور شناخت **باپ کے نام** سے زیادہ واضح ہوتی ہے۔ باپ کے نام سے پکارنے میں اگر کوئی رسوائی ہو تو وہ **زانی و مزنیہ** کے لیے ہوگی، بچے **بے قصور** ہیں۔ مزید یہ کہ یہ بات قاعدۂ **“الولد للفراش وللعاهر الحجر”** کے بھی خلاف نہیں۔
صحیح مؤقف اور دلائل
صحیح احادیث کی روشنی میں **ہر شخص کو اس کے باپ کے نام** سے پکارا جائے گا:
حدیثِ بخاری
**عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ الْغَادِرَ يُرْفَعُ لَهُ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُقَالُ هَذِهِ غَدْرَةُ فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ(صحیح البخاری:ص912، ج2)**
اس سے ظاہر ہے کہ **“فلاں بن فلاں”** کہہ کر **باپ کے نام** سے ندا دی جائے گی (نہ کہ **“فلاں بن فلانۃ”**)۔ محدث **ابن بطال**:
**” في هذا الحديث رد القول من زعم انهم لا يدعون الا بامهتهم سترا على آبائهم.(فتح البارى، ص:464،ج:10)**
اور مزید:
**” والدعاء بالآباء اشد فى التعريف، وابلغ فى التميز وفى الحديث جواز الحكم بظهر الامور”. (فتح البارى، ص:464، ج :10)**
حدیثِ ابو داؤد
**أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّكُمْ تُدْعَوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِأَسْمَائِكُمْ وَأَسْمَاءِ آبَائِكُمْ فَأَحْسِنُوا أَسْمَاءَكُمْ قَالَ أَبُو دَاوُد ابْنُ أَبِى زَكَرِيَّا لَمْ يُدْرِكْ أَبَا الدَّرْدَاءِ(عون المعبود شرح ابی داؤد، ص:442، ج:4، فتح الباری، ص:476، ج:10)**
اگرچہ امام ابو داؤد اور حافظ ابن حجر نے اسے **منقطع** کہا، مگر **ابن حبان** نے **صحیح** قرار دیا (فتح الباری ص:476، ج:10: *اخرجہ ابوداؤد وصححہ ابن حبان*).
**نتیجہ:** صحیح احادیث کے مطابق **سب کو ان کے باپوں کے نام** سے پکارا جائے گا؛ **حضرت عیسیٰ ** اس سے مستثنیٰ ہیں۔ ماں کے نام والی روایت **منکر/ضعیف** بلکہ ملا علی قاری کے بقول **موضوع** ہے۔ بعض نے تطبیق کی کہ بعض کو ماں کے نام سے پکارا جائے؛ مگر **حدیثِ ابن عمر** اور **تحقیقِ ابن القیم** کے مطابق راجح یہی کہ **اصل ندا باپ کے نام سے** ہوگی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب