سوال کا مفصل بیان
ایک شخص نے مجھ سے اس شرط پر اپنی بیٹی کا نکاح کیا کہ میں اپنی بہن کی شادی اس کے بیٹے سے کروا دوں۔ میں نے اس شرط کو قبول کر لیا اور دونوں نکاح (یعنی اپنی بہن کی شادی اس شخص کے بیٹے سے اور میری شادی اس کی بیٹی سے) شرعی طریقے سے انجام دیے۔
دونوں نکاحوں میں حق مہر چودہ چودہ گائیں مقرر کی گئیں، اور ایک بکری اس پر مزید بطور زیادتی رکھی گئی۔
اب میری آپ سے گزارش ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں عربی زبان میں اس سوال کا جواب عنایت فرمائیں:
❀ کیا یہ نکاح شریعت کے مطابق درست ہے یا نہیں؟
❀ اگر درست نہیں تو کیا دونوں نکاح فسخ ہوں گے یا صرف ایک؟
❀ اگر صرف ایک فسخ ہوگا تو وہ کس کا – میرا یا میری بہن کا؟
❀ اگر دونوں نکاح فسخ قرار پاتے ہیں تو کیا بعد میں ان نکاحوں کو دوبارہ تجدید کیا جا سکتا ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
فَقَدِ اضْطَرَبَتْ كَلِمَاتُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي صُورَةِ الشِّغَارِ الَّتِي سَأَلْتَنِي عَنْهَا، فَكَلِمَةُ بَعْضِهِمْ أَنَّهَا تَجُوزُ، وَكَلِمَةُ بَعْضِهِمْ أَنَّهَا لَا تَجُوزُ، وَالْأَرْجَحُ مِنْ أَقْوَالِهِمْ أَنَّهَا لَا تَجُوزُ، فَالنِّكَاحَانِ مَفْسُوخَانِ، بَلْ لَمْ يَنْعَقِدْ مِنْ أَصْلِهِمَا لِأَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَهَى عَنِ الشِّغَارِ، وَقَالَ: لَا شِغَارَ. وَالنَّهْيُ يَقْتَضِي الْفَسَادَ. وَالْخَبَرُ يَسْتَدْعِي عَدَمَ الْوُقُوعِ.
والله أعلم
وضاحت
❀ شغار کی اس صورت میں جس کا آپ نے سوال کیا ہے، اہل علم کے اقوال مختلف ہیں:
◈ بعض علماء کے نزدیک یہ جائز ہے۔
◈ جبکہ بعض علماء کے نزدیک یہ ناجائز ہے۔
❀ راجح (زیادہ مضبوط) قول یہی ہے کہ یہ ناجائز ہے۔
نتیجہ
❀ دونوں نکاح فسخ ہیں بلکہ:
◈ وہ نکاح ابتداءً منعقد ہی نہیں ہوئے۔
❀ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شغار سے منع فرمایا ہے اور فرمایا:
"لا شغار”
❀ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے نہی (ممانعت) اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ یہ معاملہ باطل ہے۔
❀ اور حدیث اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ایسے نکاح واقع ہی نہیں ہوئے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب