شیعہ کتب میں بیسویں نہیں بلکہ سینکڑوں روایات ایسی ہیں جن میں ائمہ کی طرف خارق عادت معجزانہ صلاحیتیں منسوب کی گئی ہیں۔ حتٰی کہ کائنات میں کوئی چیز ایسی نہیں جو امام کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرتی ہو۔
شیعہ کے امام اکبر خمینی کا کہنا ہے:
”بلا شبہ امام کو ایسا مقام محمود ، بلند درجہ اور تکوینی خلافت حاصل ہوتی ہے جس کی ولایت اور غلبے کے تحت اس کائنات کا ذرہ ذرہ سرنگوں ہے۔“
[الحكومة الاسلامية: 105]
اور بعض روایات میں یہ اضافہ بھی ہے کہ انہیں اس اسم اعظم کی ملکیت بھی حاصل ہے جو کہ انبیاء و مرسلین کو بھی حاصل نہیں۔ بلکہ ان کے پاس ایسی چیزیں بھی ہیں ، جو کہ اللہ تعالی کے پاس موجود چیزوں سے بھی بڑی اور بڑھ کر ہیں۔
ان معجزات میں سے یہ بھی ہے کہ:
زمین پر زلزلہ ، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اسے روکنا:
اثنا عشری شیعہ مفسر علامہ کاشانی نے یہ قصہ روایت کیا ہے:
”حضرت فاطمہ السلام علیہا سے روایت ہے کہ ایک بار حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں زلزلہ آیا۔ لوگ حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی طرف گئے؟ تو دیکھا کہ وہ خوف کے مارے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف نکل چکے ہیں ، لوگ بھی ان کے پیچھے چل پڑے۔ حتی کہ وہ سب حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دروازے تک پہنچ گئے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ بے پرواہی کے عالم میں باہر نکلے۔ آپ چلتے گئے ، اور لوگ بھی آپ کے پیچھے چل پڑے حتی کہ ایک ٹیلے کے پاس پہنچ گئے اور اس ٹیلے پر بیٹھ گئے۔ اور لوگ بھی آپ کے ارد گرد بیٹھ گئے۔ اور آپ مدینہ کی دیواروں کو دیکھ رہے تھے کہ زلزلہ کی وجہ سے آگے پیچھے ہو ری ہیں۔ “
تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: گویا کہ جس منظر کو تم دیکھ رہے ہو؟ اس نے تمہیں خوف زدہ کر دیا ہے۔
تو لوگ کہنے لگے: ہم کیسے خوف زدہ نہ ہوں؟ جبکہ ہم نے ایسا منظر کبھی نہیں دیکھا۔
تو آپ نے اپنے ہونٹوں کو حرکت دی، اور اپنے ہاتھ سے مارا ، اور فرمانے لگے:
”ٹھہر جاؤ! تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ ۔ تو زمین اللہ کے حکم سے رک گئی۔
تو اس بات پر انہیں پہلے سے بھی زیادہ تعجب ہوا جب وہ یہ لوگ آپ کی طرف نکلے تھے۔ تو آپ نے ان سے کہا: کیا تم میرے اس کام پر تعجب کرتے ہو؟ ۔
کہنے لگے: جی ہاں!
تو آپ نے فرمایا: میں ہی وہ جوانمرد ہوں جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا (1) وَأَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا (2) وَقَالَ الْإِنسَانُ مَا لَهَا (3) يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا (4) [الزلزال: 1 – 4]
”جب زمین بھونچال سے ہلا دی جائے گی ، اور زمین اپنے اندر کے بوجھ نکال ڈالے گی۔ اور انسان کہے گا کہ اس کو کیا ہوا ہے؟ اس روز وہ اپنے حالات بیان کر دے گی۔ “
آپ نے فرمایا:
”میں وہ انسان ہوں جو زمین سے کہے گا کہ: تم کو کیا ہوا ہے؟ “
يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا
”اس روز وہ اپنے حالات بیان کر دے گی ۔“
زمین مجھ سے اپنے احوال بیان کرے گی ۔
[تفسير الصافي: 571]
کلینی نے اپنی سند سے ابو جعفر سے نقل کیا ہے، آپ نے فرمایا:
”اسم اعظم کے تہتر حروف ہیں اور بیشک ان میں سے ایک حرف آصف بن برخیا کے پاس تھا ، جو اس نے زبان پر لایا ، تو اس کی وجہ سے اس کی جگہ سے لیکر بلقیس کے عرش تک زمین دہنس گئی ، حتی کے اس نے اپنے ہاتھ سے تخت شاہی اٹھا لیا۔ اور پھر آنکھ جھپکنے سے قبل زمین اپنی پہلی حالت پر واپس چلی گئی۔ “
اور ہمارے پاس اسم اعظم کے بہتر حروف ہیں اور ایک حرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ جسے اس نے اپنے علم غیب کے ساتھ خاص کر رکھا ہے۔
لاحول و لا قوة إلا بالله
[الكافي: 230/1]
تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ائمہ کے پاس حروف کی تعداد اللہ تعالیٰ کے پاس موجود حروف کی تعداد سے زیادہ ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ اور بادلوں کی سواری:
مجلسی نے ایک لمبا قصہ نقل کیا ہے۔ اس قصہ میں ہے:
”حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بادل کے دو ٹکڑوں کی طرف اشارہ کیا۔ تو ان میں ہر ایک ٹکڑا ایسے ہو گیا جسے بچھائی ہوئی قالین ۔ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اکیلئے ایک بادل پر سوار ہو گئے۔ اور دوسرے بادل پر – جیسا کہ بعض روایات میں ہے – آپ کے چند دوسرے ساتھی حضرت سلیمان ، مقداد وغیرہ سوار ہو گئے ۔“
حضرت علی رضی اللہ عنہ جب بادل پر تھے تو آپ نے فرمایا:
میں اللہ تعالیٰ کا وہ نور ہوں جو کبھی بجھے گا نہیں۔ میں زمین میں اللہ تعالیٰ کی آنکھ ہوں اور میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں اس کی بولتی ہوئی زبان ہوں۔ اور میں اللہ تعالیٰ کا وہ دروازہ ہوں جس سے داخل ہوا جاتا ہے اور میں اس کے بندوں پر اس کی حجت ہوں ۔
[بحار الانوار: 34/27]
اور پھر اس قصہ میں بڑی عجیب و غریب باتیں نقل کی ہیں ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں نے آپ سے انبیائے کرام علیہم السلام کے معجزات کی بابت سوال کیا ، تو آپ نے فرمایا:
”میں تمہیں ان سب سے بڑا معجزہ دکھاؤں گا۔“
حتی کہ آپ نے فرمایا:
”اس ذات کی قسم جس نے دانے کو پچھاڑا ، اور جان کو پیدا کیا ، میں زمین اور آسمان کی اس بادشاہی کا مالک ہوں اگر اس میں تمہیں کچھ تھوڑا سا بھی مل جائے تو تمہارے اعضاء اس کو برداشت کرنے کی طاقت نہ رکھیں۔ اور بیشک ”اسم اعظم کے تہتر حروف ہیں۔ اور ان میں سے ایک حرف آصف بن برخیا کے پاس تھا ، جو اس نے زبان پر لایا ، تو اس کی وجہ سے اس کی جگہ سے لیکر بلقیس کے عرش تک زمین دہنس گئی ، حتٰی کے اس نے اپنے ہاتھ سے تخت شاہی اٹھا لیا۔ اور پھر آنکھ جھپکنے سے قبل زمین اپنی پہلی حالت پر واپس چلی گئی۔ “
اور اللہ کی قسم ! ہمارے پاس اسم اعظم کے بہتر حروف ہیں۔ اور ایک حرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ جسے اس نے اپنے علم غیب کے ساتھ خاص کر رکھا ہے۔“
[بحار الانوار: 37/27]
اگر یہ دعوے سچے ہیں ، تو ہمیں ائمہ کی زندگی میں ان کے اثرات ملاحظہ کرنے چاہیں۔
یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں۔ جنہوں نے تمہاری روایات کے مطابق انتہائی مقہور و مغلوب اور ذلیل ہو کر بیعت کی۔ اور یہ من گھڑت روایات آپ کی ایسی صورت بنا کر پیش کرتی ہیں جو کہ ان لوگوں کے ساتھ بھی شجاعت اور قوت ایمانی کے حساب سے مناسب نہیں جو کہ آپ سے بہت کم قوت ایمانی والے اور غیرت نفسانی والے لوگ تھے۔
رسی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گردن میں:
شیعہ روایات بتاتی ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گردن میں رسی ڈال کر آپ کو گھسیٹ کر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کے لیے لایا گیا۔ سلیم بن قیس ہلالی کی کتاب میں ایک ڈرامائی کہانی لکھی گئی ہے۔ جس میں یہ منظر پیش کیا گیا ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام قنفذ کو بھیجا کہ جا کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بیعت کے لیے بلا لائے ۔ مگر آپ تشریف نہیں لائے ۔ تو آپ نے دوبارہ یہ کہہ کر بھیجا کہ:
”جاؤ اور اس سے کہو کے چلا آئے ، ورنہ میں خود اس پر زبردستی کروں گا اور اگر پھر بھی نہ مانا تو میں اس کے گھر میں آگ لگا دوں گا۔ پھر وہ قفنذ ملعون اپنے ساتھیوں کے ساتھ گیا۔ اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ بغیر اجازت کے آپ کے گھر میں داخل ہو گیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس پر سخت غصہ میں آ گئے ۔ آپ اپنی تلوار اٹھانے کے لیے اٹھے ، مگر انہوں نے پہلے بڑھ کر تلوار اٹھالی۔ ان کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ بعض نے اپنی تلواریں نیام سے باہر نکال لی تھیں۔ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گردن میں رسی ڈال لی۔ گھر کے دروازے کے پاس ان کے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے درمیان حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آڑے آئیں تو قنفذ ملعون نے آپ کو کوڑا مارا۔ جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تو اس وقت ان کے بازو پر اس کوڑے کا نشان موجود تھا۔ پھر یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو گھسیٹتے ہوئے لیکر گئے ۔ حتٰی کہ لے جا کر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے سامنے کھڑا کر دیا۔ اس وقت آپ یہ کہہ رہے تھے ۔ ہاں اللہ کی قسم ! اگر میری تلوار میرے ہاتھ لگ جاتی تو تمہیں یہ پتہ چل جاتا کہ تم اس مقام تک کبھی بھی ہرگز نہ پہنچ پاتے۔
تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو جھڑکا۔ اور کہا: یہ باطل اور خرافات باتیں چھوڑ دو اور بیعت کرو۔ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: اگر میں ایسا نہ کروں تو تم میرے ساتھ کیا کرو گے؟ تو انہوں نے کہا: ہم آپ کو ذلیل و رسوا کر کے قتل کر دیں گے یہاں تک کہ ان سے کہا: اے ابو طالب کے بیٹے! اٹھو اور بیعت کرو۔ تو انہوں نے پھر کہا: اگر میں ایسا نہ کروں تو تم کیا کرو گے؟ تو کہا: پھر ہمیں اللہ کی قسم ! ہم تمہاری گردن مار دیں گے۔“
آپ نے تین بار ان سے احتجاج کیا۔ پھر آپ نے مٹھی بند کر کے ہاتھ آگے بڑھایا ۔ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اس پر اپنا ہاتھ مار کر ان سے ایسی بیعت ہی قبول کر لی۔ بیعت کرنے سے قبل حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گردن میں رسی ڈالی ہوئی تھی ، اور آپ چلا کر کہہ رہے تھے:
ابْنَ أُمَّ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي وَكَادُوا يَقْتُلُونَنِي [الاعراف: 150]
”میرے ماں جائے! پیشک قوم نے مجھے کمزور سمجھا اور قریب تھا کہ مجھے قتل کر دیتے ۔“
[كتاب سليم بن قيس الهلالي: 83 تا 89]
کیا یہ مناسب ہے کہ اس قسم کا قبیح جھوٹ گھڑ کر آپ کی طرف منسوب کیا جائے؟
حضرت علی رضی اللہ عنہ اور معجزات کا عدم استعمال:
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے معجزے استعمال کیوں نہ کئے؟
اول:
وہ خارق عادت قوتیں اپنی جان کی حفاظت اور اس دین کی نصرت کے لیے استعمال میں کیوں نہ لائے؟
دوم:
آپ ساری زندگی ان خلفائے ثلاثہ کے پیچھے نمازیں پڑھتے رہے۔
پھر یہی حال حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی رہا۔ کہ آپ کو ان کے مقابلہ میں فتح نصیب نہ ہوئی ، حالانکہ ان کے خلاف آپ نے تلوار بھی استعمال کی تھی۔
تم لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ امامت دین کے اصولوں میں سے ایک اصول ہے۔ اور جو کوئی اس کا اعتقاد نہ رکھے ، وہ کافر ہے۔ اور جو کوئی امامت کا انکار کرے ، وہ بھی کافر ہے۔
اور جو کوئی متعین ائمہ کے علاوہ کسی دوسرے کو امام مانے ، وہ بھی کافر ہے۔
تو پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کیسے اس بات پر راضی رہ سکتے ہیں کہ ساری امت کافر ہو جائے ، اور وہ خدائی اسلحہ لیکر بیٹھے رہیں۔ (اسے استعمال نہ کریں)
اگر تمہارا خیال یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے کرنے کا حکم نہیں دیا؟
تو ہم کہتے ہیں کہ: پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ حارق عادت قوتیں کس لیے عطا فرمائی تھیں؟ ۔ یہ صرف آپ کی تسلی کے لیے تھیں یا دین کی نصرت کے لیے؟
پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالٰی آپ کو خلافت کی گراں بار ذمہ داری تفویض کرتے ہیں ، اور خارق عادت مجزانہ توتوں سے مالا مال کرتے ہیں ، مگر پھر اس طاقت اور ان وسائل کے استعمال سے منع بھی کرتے ہیں؟
حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما اور معجزات کا عدم استعمال:
پھر حضرت حسن رضی اللہ عنہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں خلافت سے تنازل کرتے ہیں اور اس بات پر راضی ہوتے ہیں کہ آپ امیر معاویہ کے تابع اور ان کی امارت میں مامور بن کر رہیں۔ قطع نظر اس بات کے کہ ایک بڑا لشکر جس نے موت پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کی تھی، وہ بھی آپ کے ساتھ تھا۔ مگر پھر بھی آپ نے بھی اس کے بعد جنگ نہ کی۔ ان کے لشکر کی تعداد چالیس ہزار کے قریب تھی جیسا کہ طبری نے ذکر کیا ہے۔
تمہارے عقیدہ کے مطابق معاویہ رضی اللہ عنہ کافر ہے اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ ربانی اسلحہ کے مالک ہیں جس سے پورے عالم کو مغلوب کر سکتے ہیں تو آپ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر کو مغلوب نہیں کیا بلکہ خلافت ان کے حوالے کر دی۔ حالانکہ آپ معاویہ رضی اللہ عنہ کو مغلوب کرنے کی استعداد رکھتے تھے یہی نہیں بلکہ تمہارے عقیدہ کے مطابق تمام روئے زمین کو مغلوب کر سکتے تھے۔
پھر ان کے بعد حضرت حسین رضی اللہ عنہ آتے ہیں۔ انہیں ان کے شیعہ عراق بلاتے ہیں تا کہ آپ کی مدد کریں۔ اس کے برعکس آپ کو رسوا کرتے ہیں یزیدی لشکر آپ کا معاصرہ کر لیتا ہے اور آپ کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرتا ہے۔ مگر آپ انکار کرتے ہیں۔ آپ اپنے چھوٹے سے گروہ کے ساتھ اکیلے رہ جاتے ہیں۔ آپ کے ساتھ آپ کا پورا گھرانہ خواتین اور بچے موجود ہیں اور آپ کے پاس معجزہ جیسا بہت بڑا اسلحہ بھی ہے جیسا کہ شیعہ کا عقیدہ ہے۔ تو آپ نے یہ اسلحہ اپنی جان اور اہل خانہ کی حفاظت کیلئے کیوں نہ استعمال کیا؟
کیا یہ کہنا ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کے استعمال سے منع کر دیا؟
کیا عقل اس دعویٰ کو تسلیم کر سکتی ہے؟
پھر یہ دوسے ائمہ جو ان کے بعد آئے ۔ اور انہیں دین کا رکن رکین امامت وراثت میں ملی۔ وہ بحالت خوف کمزوی کی زندگی گزارتے ہیں جب کہ تمہارے عقیدہ کے مطابق ان کے پاس یہ عظیم الشان اسلحہ موجود ہے مگر اس سے نہ وہ اپنی ذات کے لئے فائدہ حاصل کرتے ہیں اور نہ ہی دین کے لئے !
تو پھر کیا عقل ایسے دعوے کو مان سکتی ہے؟
ملیونر ننگے پاؤں:
کیا آپ دیکھتے ہیں کہ آپ کو کوئی ایسا آدمی ملے جس کا لباس پھٹا ہوا رنگت اڑی ہوئی ہو ، نہ گھر بار نہ دوست یار، کھلے آسمان تلے رہتا ہو۔
پھر آپ اس کے بچوں کو دیکھیں وہ بھی فقیر اور والد کی طرح پراگندہ حال۔
اس کے پاس سے فقیر گزرتے ہوں اور وہ ان کے ساتھ بھی اچھا سلوک نہ کر سکتا ہو۔
اور آپ اسے صدقہ دینے کے لئے وہاں رک جائیں اور وہ آپ سے کہے مجھے مدد کی ضرورت نہیں۔ میرے پاس ہر قسم کا مال موجود ہے اور آپ اس سے پوچھیں!
تو پھر آپ اس مال سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے کہ اپنے لئے گھر بنا لو اپنے اہل خانہ کے ساتھ بھلائی کرو اور فقرا اور محتاجین پر بھی خرچ کرو؟ ۔
وہ آپ سے کہے کہ: میں اس دنیا سے زہد اختیار کر چکا ہوں۔ تو آپ اس صورت میں صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ یا تو یہ جھوٹا ہے کہ درحقیقت اس کے پاس کوئی مال نہیں یا پھر اس کی عقل میں قصور ہے۔ اس لئے کہ یہ کسی عاقل انسان کے لئے ممکن نہیں ہے کہ وہ مال کا مالک ہو پھر اس سے فائدہ حاصل کرنے سے اپنی ذات کو بھی محروم رکھے۔ اور اپنے اہل خانہ عزیز و اقارب اور محتاجوں کو محروم رکھ کر خزانوں میں مال کو محفوظ رکھے۔
یہ تو دنیا کا معاملہ ہے تو پھر دین کے معاملے میں کیا کہا جائے گا؟ کہ آئمہ جو کہ قدرات اور خزانے کے مالک ہیں اور وہ ذلت اور مغلوبیت کی زندگی گزار رہے ہیں؟ ۔
شیعہ روایات کے مطابق: ان کا مذہب نقص کا شکار ہے اور متروک ہو رہا ہے۔
ان کے ماننے والے مظلوم اور در بدری کی زندگی گزار رہے ہیں۔ مگر ان خارق عادت و تصور قوتوں سے فائدہ حاصل نہیں کر سکتے ۔ کیا یہ ان ائمہ کرام پر جھوٹ نہیں ہے؟
آئمہ کے متبعین نے یہ سوال کیوں نہیں اٹھایا؟
پھر تمہارے خیال کے مطابق ائمہ اپنے ماننے والوں کے سامنے ان چیزوں کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ اور ہر موقع پر انہیں وہ خارق عادت چیزیں دیکھاتے ہیں جن سے یہ لوگ دہشت میں آ جاتے ہیں اور آئمہ کی قدرت کا اظہار ہوتا ہے۔ مگر ان میں سے کوئی ایک بھی یہ پوچھنے کی جرات نہیں کرتا کہ: آپ کی ان طاقتوں اور توانائیوں کا کیا فائدہ جب کہ ہم اور آپ اور ہمارا دین ذلت اور رسوائی کا شکار ہیں۔
عقل یقینی طور پر یہ دو ٹوک الفاظ میں کہتی ہے کہ یہ روایات بھی جھوٹ گھڑ کر اہلِ بیت کی طرف ایسے منسوب کی گئی ہیں جیسے امامت کا دعوی منسوب کیا گیا ہے۔
آخری بات:
کیا یہ تنبیہات اس گروہ کی عقل کو بیدار کر سکتی ہیں؟
کیونکہ عقلمند کو جب یاد دلایا جائے تو اسے یاد آ جاتا ہے اور جب خبردار کیا جائے تو وہ خبردار ہو جاتا ہے۔
جبکہ بیوقوف اپنے نفس کو دھوکہ اور فریب میں رکھتا ہے اور اس پر حق قبول کرنا ناگوار گزرتا ہے لیکن!
اسے ندامت ضرور ہو گی مگر اس وقت کی ندامت کچھ کام نہ آئے گی۔