سوال:
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے، تو یہ دعا فرماتے:
وَجَّهتُ وَجهيَ لِلَّذي فَطَرَ السَّماواتِ وَالأَرضَ حَنيفًا، وَما أَنا مِنَ المُشرِكينَ، إِنَّ صَلاتي وَنُسُكي وَمَحيايَ وَمَماتي لِلَّهِ رَبِّ العالَمينَ، لا شَريكَ لَهُ، وَبِذلِكَ أُمِرتُ وَأَنا مِنَ المُسلِمينَ،اللَّهُمَّ أَنتَ المَلِكُ لا إِلهَ إِلَّا أَنتَ، أَنتَ رَبِّي، وَأَنا عَبدُكَ،ظَلَمتُ نَفسي، وَاعترَفتُ بِذَنبي، فاغفِر لي ذُنوبِي جَميعًا،إِنَّهُ لا يَغفِرُ الذُّنوبَ إِلَّا أَنتَ، وَاهدِني لِأَحسَنِ الأَخلاقِ،لا يَهدِي لِأَحسَنِها إِلَّا أَنتَ، وَاصرِف عَنِّي سَيِّئَها، لا يَصرِفُ عَنِّي سَيِّئَها إِلَّا أَنتَ، لَبَّيكَ وَسَعدَيكَ، وَالخَيرُ كُلُّهُ فى يَدَيكَ، وَالشَّرُّ لَيسَ إِلَيكَ،أَنا بِكَ وَإِلَيكَ، تَبارَكتَ وَتَعالَيتَ، أَستَغفِرُكَ وَأَتوبُ إِلَيكَ.
میں اپنے چہرے کو اس ذات کی طرف متوجہ کرتا ہوں، جس نے آسمان و زمین پیدا کیے، خالص توحید کے ساتھ، اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت اللہ رب العالمین کے لیے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے، اور میں پہلا مسلمان ہوں۔ اے اللہ! تو ہی بادشاہ ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو میرا رب ہے، اور میں تیرا بندہ ہوں، میں نے اپنی جان پر ظلم کیا، اور اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں، میرے تمام گناہ معاف فرما، کیونکہ گناہ صرف تو ہی معاف کرتا ہے۔ مجھے بہترین اخلاق کی ہدایت فرما، کیونکہ بہترین اخلاق کی ہدایت صرف تو ہی کرتا ہے۔ مجھ سے برے اخلاق کو دور کر، کیونکہ برے اخلاق سے صرف تو ہی بچاتا ہے۔ میں تیری خدمت میں حاضر ہوں، تمام خیر تیرے دونوں ہاتھوں میں ہے، اور شر تیری طرف منسوب نہیں۔ میں تیرے سہارے ہوں اور تیری طرف لوٹنے والا ہوں، تو بابرکت اور بلند و بالا ہے، میں تجھ سے مغفرت مانگتا ہوں اور تیری طرف رجوع کرتا ہوں۔
(صحيح مسلم: 771)
جب ہر خیر اور شر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، تو پھر شر کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کیوں نہیں کر سکتے؟
جواب:
بلا شبہ ہر خیر اور شر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ وہ اس کے ارادے کے بغیر نہیں ہوتا۔ زمین میں ہونے والی ہر اچھی اور بری چیز کو اس نے تقدیر میں پہلے ہی لکھ دیا ہے، لیکن دعا کے آداب میں شامل ہے کہ شر کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف نہ کی جائے، بلکہ اسے اپنی کوتاہی اور کمزوری کی طرف منسوب کیا جائے اور خیر کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے۔ یہ عاجزی اور انکساری کی بہترین صورت ہے۔