مسلمانوں کے خلاف کفار کی مدد: ایک سنگین گناہ اور کفر
مشرکین کی حمایت اور ان کی طرف سے مسلمانوں سے جنگ کرنا
**مظاہرۃ المشرکین ومعاونتھم علی المسلمین**
مسلمانوں کے خلاف مشرکوں کی حمایت کرنا، ان سے مدد لینا یا انہیں کسی بھی شکل میں تقویت دینا **صریح کفر** ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
**”يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَىٰ أَوْلِيَاءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ”** *(المائدہ ۵۱)*
’’اے ایمان والو! تم یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ۔ یہ تو آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ تم میں سے کسی نے ان کو دوست بنایا تو وہ بھی انہی میں سے ہے ظالموں کو اللہ تعالیٰ ہرگز راہ راست نہیں دکھاتا۔‘‘
**”يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِّن دُونِكُمْ”** *(آل عمران ۱۱۸)*
’’اے ایمان والو! تم ایمان والوں کے سوا کسی اور کو اپنا راز دار نہ بناؤ۔‘‘
یہ آیات واضح کرتی ہیں کہ کفار کو اپنا دوست یا رازدار بنانا ایمان کے خلاف ہے۔
کافروں کی مدد: مال، جان، رائے اور جنگ کے ذریعہ
کفار کی مدد کسی بھی صورت میں ہو:
– مال سے
– جسمانی قوت سے
– آراء و مشورے سے
– مسلمانوں کے خلاف جنگ میں شرکت
– کافروں کا دفاع کرنا زبان یا ہتھیار سے
یہ سب اعمال ایمان کے خلاف ہیں اور **ناجائز و حرام** ہیں۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
– مکہ مکرمہ کے کچھ مسلمان جنگ بدر میں مشرکین کے ساتھ شریک ہوئے۔
– مسلمانوں کی تلوار یا تیروں سے مارے گئے تو صحابہ کو رنج ہوا۔
اس پر یہ آیت نازل ہوئی:
**”إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنتُمْ ۖ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ ۚ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا ۚ فَأُولَـٰئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا”** *(النساء ۹۷)*
"جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں جب فرشتے ان کی روح قبض کرتے ہیں پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم زمین میں کمزور اور مغلوب تھے۔ فرشتے کہتے ہیں کیا اللہ کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم ہجرت کر جاتے، یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ پہنچنے کی بری جگہ ہے۔”
(بخاری: ۴۵۹۶)
مسلمانوں کی جاسوسی اور کفار کو راز دینا: کھلا کفر
– مسلمانوں کی معلومات کفار تک پہنچانا
– مسلمانوں کے خلاف سازش کرنا
– کفار کو مسلمانوں پر غالب کرنے کی کوشش کرنا
یہ سب **صریح کفر** ہے اور ان اعمال کے بعد کوئی شخص **دائرہ اسلام سے خارج** ہو جاتا ہے۔
شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے انکار: کفر
**من اعتقد أن بعض الناس يسعه الخروج عن شريعة محمد صلى الله عليه وسلم كما وسع الخضر الخروج عن شريعة موسى عليه السلام فهو كافر**
جس نے یہ عقیدہ رکھا کہ بعض لوگ شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی پابندی سے آزاد ہیں تو وہ کافر ہے۔
حدیثِ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے ایک خط کھینچا، دائیں اور بائیں طرف دو اور کھینچے، درمیان والے پر فرمایا:
**”یہ اللہ کا راستہ ہے”**
دیگر خطوط کے بارے میں فرمایا:
**”یہ راستے شیطان کے ہیں”**
پھر یہ آیت تلاوت کی:
**”وَأَنَّ هَـٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ”** *(الانعام ۱۵۳)*
’’اور یہ کہ یہی میری سیدھی راہ ہے لہذا اسی پر چلتے رہو اور دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کر دیں گی۔‘‘
(مسند احمد۔ ابن ماجہ۔ المقدمہ۱۱ شیخ البانی نے صحیح کہا)
حدیثِ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
**”میری امت کے سب لوگ جنت میں جائیں گے، سوائے اس کے جو انکار کرے”**
صحابہ نے پوچھا: "یا رسول اللہ! انکار کون کرے گا؟”
فرمایا:
**”جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں جائے گا، جس نے میری نافرمانی کی، اس نے انکار کیا”**
**(بخاری: ۷۲۸۰)**
خود ساختہ فرق بین شریعت و طریقت
کچھ لوگ شریعت اور طریقت کو جدا تصور کرتے ہیں:
عام لوگوں پر شریعت لازم لیکن جو "ولی” بن جائے، اس پر شریعت کا اطلاق نہیں یہ عقیدہ **کفر** ہے کیونکہ:
اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر کوئی شخص جنتی نہیں ہو سکتا شریعت سے آزادی کا تصور باطل ہے
حضرت خضر اور حضرت موسیٰ علیہما السلام کا واقعہ
بعض لوگ شریعت محمدی سے انکار کو خضر اور موسیٰ علیہما السلام کے واقعے سے دلیل بناتے ہیں، جو کہ **غلط** ہے:
خضر علیہ السلام پر موسیٰ علیہ السلام کی اطاعت فرض نہ تھی
کیونکہ موسیٰ علیہ السلام صرف **بنی اسرائیل** کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے تھے
روایت:
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
خضر علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا:
**”میں اس علم پر ہوں جو اللہ نے مجھے سکھایا اور تم اس پر ہو جو اللہ نے تمہیں سکھایا”**
**(بخاری: ۳۴۰۱، مسلم: ۲۳۸۰)**
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمومی نبوت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں کے لیے رسول بنا کر بھیجے گئے:
**”قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا”** *(الاعراف ۱۵۸)*
’’آپ کہہ دیجیے کہ اے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا رسول ہوں۔‘‘
ان کی شریعت کو چھوڑ کر کسی اور طریقے سے نجات ممکن نہیں۔
امت کی دو اقسام
1. **امتِ اجابت**:
– وہ جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے ہیں
2. **امتِ دعوت**:
– وہ جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرتے ہیں
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے اقوال
ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
بعض لوگ کہتے ہیں: شریعت ان پر لازم ہے جنہیں معرفت نہیں جو "عارف” بن چکے ہوں، ان پر شریعت لازم نہیں
یہ بات **باطل** ہے، اور ایسے لوگ:
– فاسق
– مرتد
– منافق
– یا **کافر** ہیں
خضر اور موسیٰ علیہما السلام سے دلیل لینا غلط کیوں؟
**دو بڑی وجوہات:**
1. خضر علیہ السلام اللہ کی مشیت سے واقف تھے، اس لیے شریعت موسیٰ علیہ السلام پر عمل نہ کیا یہ تصور **کفر اور جہالت** ہے
2. بعض کہتے ہیں:
اللہ کے بعض ولیوں کو "کشف” کے ذریعے شریعت سے مستثنیٰ ہونے کی اجازت ہے اور ان کو نبیوں سے افضل سمجھتے ہیں
یہ خیالات **کفر، نفاق اور گمراہی** ہیں۔
رسالت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمہ گیریت
– محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں کے لیے رسول ہیں
– تمام انبیاء بھی آپ کی اتباع کریں گے
– عیسیٰ علیہ السلام جب واپس آئیں گے، تو شریعت محمدی کے پابند ہوں گے
"کان النبی یبعث إلی قومہ خاصة، وبعثت إلی الناس عامة” **(بخاری: ۳۳۵، مسلم: ۵۲۱)**
نتیجہ
– کوئی شخص بھی شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے مستثنیٰ نہیں
– جو ایسا گمان رکھے وہ **کافر** ہے
– حضرت خضر اور موسیٰ علیہما السلام کا واقعہ **استثنا نہیں، دلیل نہیں**
– اللہ تعالیٰ نے شریعت محمدی کو قیامت تک کے لیے لازم قرار دیا ہے