سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بحث کے بارے میں جو اس وقت پورے ملک میں شریعت بل کے متعلق جاری ہے؟ جیسا کہ اخبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شریعت بل حتمی اور آخری نہیں ہے۔ نہ ہی اس کو حقیقی شریعت کہا جا سکتا ہے۔ اس بل کی مخالفت کرنے والے کو کافر، منافق یا فاسق وغیرہ کہا جاتا ہے۔ اس بل کی مخالفت یا حمایت کس انداز میں ہونی چاہیے؟
مزید یہ کہ کچھ علمائے کرام کے بیانات مختلف ہیں۔ مثال کے طور پر:
◄ ایک اہلحدیث عالم فرماتے ہیں کہ سو سال تک انگریز کا قانون برداشت کر لیا تھا تو کچھ عرصے کے لیے فقہ حنفی کو کیوں برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
◄ ایک اور کہتے ہیں کہ ہم نے اس سے فقہ کو نکال دیا ہے۔
◄ ایک اور عالم کا کہنا ہے کہ اتنی سی فقہ سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
◄ ایک دیوبندی عالم فرماتے ہیں کہ ہم مکمل طور پر قرآن و حدیث پر عمل نہیں کر سکتے۔
لہٰذا سوال یہ ہے کہ اس شریعت بل کی حمایت یا مخالفت کس پہلو سے کرنی چاہیے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شریعت بل میں کئی امور ایسے ہیں جو براہِ راست شریعت سے متصادم ہیں، لہٰذا ان امور کی تائید یا حمایت درست نہیں ہے۔
◄ انگریز کا قانون انگریز ہی کا قانون تھا اور ہے۔ نہ کسی حنفی نے اور نہ کسی جعفری نے اسے آج تک اسلام سمجھا اور نہ ہی ان شاء اللہ آئندہ کبھی سمجھا جائے گا۔
◄ لیکن فقہ حنفی یا فقہ جعفری کو اسلام سمجھنے والے ہمیشہ موجود رہے ہیں اور اب بھی ہیں، حالانکہ حقیقت میں وہ اسلام نہیں ہیں۔
◄ البتہ بعض پہلوؤں میں ان قوانین کے اندر اسلامی تعلیمات بھی شامل کر لی گئی ہیں۔
◄ انگریزی قانون عوام پر بزورِ طاقت نافذ کیا گیا تھا اور اب بھی نافذ ہے، لیکن شریعت بل یا فقہ حنفی یا فقہ شیعی کے بارے میں عوام کی رائے لی جا رہی ہے اور دی جا رہی ہے۔
◄ لہٰذا فقہ حنفی یا جعفری کو انگریزی قانون پر قیاس کرنا بالکل درست نہیں ہے۔
کچھ حضرات کا یہ کہنا کہ ہم نے حنفیت یا جعفریت کو شریعت بل سے نکال دیا ہے، صحیح نہیں۔ آپ شریعت بل دوبارہ غور سے پڑھیں، ان شاء اللہ حقیقت واضح ہو جائے گی۔
آپ نے لکھا ہے:
ایک دیوبندی عالم کہتے ہیں کہ ہم پوری طرح سے قرآن وحدیث پر نہیں چل سکتے۔
ان بزرگوں سے پوچھا جائے کہ اگر ایسا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے ہمیں قرآن و حدیث پر چلنے کا حکم کیوں دیا ہے؟
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{لاَ یُکَلِّفُ اﷲُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَہَا}
[البقرۃ ۲۸۶ پ۳]
یعنی "اللہ کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔”
مزید ان سے پوچھا جائے کہ کیا وہ پوری طرح فقہ حنفی پر عمل کر رہے ہیں یا کر سکتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ اس دوسرے سوال کا جواب نفی میں ہوگا۔ تو پھر انہیں فقہ حنفی کے نفاذ کا مطالبہ بھی چھوڑ دینا چاہیے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب