شرک کی مذمت اور انبیائے کرام کی دعوت توحید: قرآن و حدیث کی روشنی میں
تحریر: ابو الاسجد محمد صدیق رضا

الحمد لله رب العالمين والصلوة والسلام على رسوله الأمين، أما بعد:
شرک انتہائی مذموم عمل ہے، اللہ تعالیٰ نے شرک سے جس قدر کراہت و نا پسندیدگی کا اظہار فرمایا شاید ہی کسی دوسرے مذموم عمل پر اس قدر کراہت و نا پسندیدگی کا اظہار کیا ہو، اور اللہ رب العالمین نے ہر قوم کی طرف انبیاء ورسل مبعوث فرمائے جن میں سے ہر رسول کی اساسی و بنیادی اور اولین دعوت توحید کے واضح اعلان اور شرک کی قطعی مذمت پر مبنی ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ﴾
”اور یقیناً ہم نے ہر امت میں رسول بھیجے (اس دعوت کے ساتھ ) کہ اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت سے بچو ۔“ (یعنی شرک و شیطان سے بچو) [النحل: 36]
اور فرمایا:
﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ﴾
”ہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اُسے یہی وحی کی کہ میرے علاوہ کوئی معبود نہیں پس میری ہی بندگی کرو۔“ [الأنبياء: 25]
قرآن مجید میں مختلف انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے تذکارہائے جمیلہ ملاحظہ کیجئے آپ ہر نبی کو دعوت توحید دینے والا اور شرک کی مذمت کرنے والا پائیں گے ۔

نوح علیہ السلام کی دعوت:

﴿لَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ﴾
”ہم نے نوح (علیہ السلام) کو انکی قوم کی طرف بھیجا، انھوں نے کہا: اے میری قوم ! تم اللہ کی عبادت کرو، اُس کے سوا تمھارا کوئی الہ نہیں ہے۔ “ [الأعراف: 59]

ہود علیہ السلام کی دعوت:

﴿وَإِلَىٰ عَادٍ أَخَاهُمْ هُودًا ۗ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ﴾
”اور ہم نے (قوم) عاد کی طرف اُن کے بھائی ہود (علیہ السلام) کو بھیجا، انھوں نے کہا: اے میری قوم ! تم اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں ۔“ [الأعراف: 65]

صالح علیہ السلام کی دعوت:

﴿وَإِلَىٰ ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ۗ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ﴾
”اور ہم نے ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح (علیہ السلام ) کو بھیجا، انھوں نے کہا: اے میری قوم ! تم اللہ کی بندگی کرو اُس کے سوا کوئی تمھارا معبود نہیں۔“ [الأعراف: 73]

شعیب علیہ السلام کی دعوت:

﴿وَإِلَىٰ مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ۗ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ﴾
”اور ہم نے مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب (علیہ السلام) کو بھیجا انھوں نے کہا: اے میری قوم ! تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں۔“ [الأعراف: 85]

ابراہیم علیہ السلام کی دعوت:

﴿وَإِبْرَاهِيمَ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاتَّقُوهُ﴾
”اور ابراہیم (علیہ السلام) نے جب اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کی عبادت کرو اور اسی سے ڈرتے رہو۔“ [العنكبوت: 16]
اور شرک کی مذمت کرتے ہوئے سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا:
﴿إِنَّمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا وَتَخْلُقُونَ إِفْكًا ۚ إِنَّ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوا عِندَ اللَّهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوهُ وَاشْكُرُوا لَهُ ۖ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ﴾
”تم تو اللہ کے علاوہ اوثان (بتوں) کی عبادت کرتے ہو اور جھوٹی باتیں گھڑ لیتے ہو (سنو!) جن کی تم عبادت کرتے ہو یقینا وہ تمھارے رزق کے مالک نہیں، پس تم اللہ ہی سے رزق طلب کرو اور اُسی کی عبادت کرو اور اُسی کی شکر گزاری کرو اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔ “ [العنكبوت: 17]

يوسف علیہ السلام کی دعوت:

﴿يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ ‎. مَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِهِ إِلَّا أَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوهَا أَنتُمْ وَآبَاؤُكُم مَّا أَنزَلَ اللَّهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ ۚ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۚ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ.﴾
”اے میرے قید خانے کے ساتھیو! کیا متفرق (کئی ایک ) پروردگار بہتر ہیں یا ایک اللہ زبردست طاقتور؟ اُس کے سوا تم جن جن کی عبادت کر رہے ہو وہ صرف چند نام ہیں جو تم نے اور تمھارے باپ دادا نے خود رکھ لئے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اس کی کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی حکم فرمانروائی تو صرف اللہ ہی کے لئے ہے۔ اس کا حکم ہے کہ تم سب اُس کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہ کرو، یہی دین قیم ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ “ [يوسف: 39، 40]

عيسى علیہ السلام کی دعوت:

﴿وَقَالَ الْمَسِيحُ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۖ إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ﴾
”اور مسیح (علیہ السلام ) نے کہا: اے بنی اسرائیل ! اللہ ہی کی عبادت کرو جو میرا رب اور تمھارا رب ہے، بے شک جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے اللہ نے اُس پر جنت حرام کر دی ہے اور اُس کا ٹھکانا جہنم ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔“ [المائدة: 72]
الغرض! تمام کے تمام انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی اولین اور مرکزی دعوت توحید کی دعوت ہوتی ہے، وہ سب سے پہلے توحید کی دعوت دیتے اور روشن دلائل کے ساتھ شرک کی مذمت کرتے اور اس کے خطرناک انجام سے آگاہ کرتے ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ تقریباً ہر وہ اُمت جن کے درمیان کوئی نبی یا انبیائے علیہم السلام مبعوث ہوئے اور وہ لوگ اُس نبی علیہ السلام پر ایمان کے مدعی ہیں تو اُن میں کم از کم زبانی کلام توحید کا دعوی بھی پایا جاتا ہے اور شرک بھی ایک عظیم گناہ اور مذموم عمل سمجھا جاتا ہے۔
حتی کہ یہود ونصاری جو اپنے زعمِ باطل میں سیدنا عزیر علیہ السلام وسیدنا عیسی علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دیئے ہوئے تھے (نعوذ باللہ) وہ بھی اس قبیح ترین عقیدہ کے باوجود توحید پر ایمان اور شرک سے انکاری ہونے کے مدعی تھے۔ قرآن مجید میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتا ہے:
﴿قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ ۚ فَإِن تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ﴾
” (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب! آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان برابر ہے (وہ یہ ) کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں نہ ہی اس کے ساتھ کسی کو شریک بنائیں نہ اللہ تعالیٰ کے سوا آپس میں ایک دوسرے کو اپنا رب بنائیں پس اگر وہ اس سے منہ پھیر لیں تو تم کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مسلم ہیں ۔ “ (یعنی فرمانبردار ہیں) [آل عمران: 64]
اب دیکھئے قرآن مجید کا اس بات کو ﴿كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ﴾ ، بتلانا واضح کرتا ہے کہ اہل کتاب کے ہر دو گروہ یعنی یہودی اور عیسائی بھی زبانی کلامی عقیدہ توحید پر ایمان اور شرک سے بیزار و بری ہونے کے مدعی تھے، جبکہ قرآن مجید ہی سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ وہ اپنی عملی زندگی میں شرک کی اتھاہ گہرائیوں میں جا پڑے تھے، اللہ عزوجل نے فرمایا:
﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَٰهًا وَاحِدًا ۖ لَّا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ﴾
”انھوں نے اللہ کے سوا اپنے علماء اور درویشوں کو رب بنا لیا تھا اور مریم کے بیٹے مسیح (علیہما السلام) کو بھی حالانکہ انھیں صرف اکیلے اللہ ہی کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ پاک ہے اس سے جو وہ شریک ٹھہراتے ہیں۔ “ [التوبة: 31]
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زبانی کلامی توحید کے دعوئی کے باوجود وہ شرک میں مبتلا ہو چکے تھے۔ ﴿سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ﴾ اس پر واضح دلیل ہے۔

شرک کی مذمت:

اللہ رب العالمین نے قرآن مجید میں جگہ جگہ شرک کی مذمت فرمائی چند آیات ملاحظہ کیجئے:
﴿إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ﴾
”بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔“ [لقمان: 13]
ظلم کے معنی کیا ہیں؟ علامہ راغب اصفہانی فرماتے ہیں:
«الظلم عنداهل اللغة وكثير من العلماء وضع الشيء فى غير موضعه المختص به إما بنقصان أو بزيادة ، واما بعدول عن وقته او مكانه»
” اہل لغت اور بہت سے علماء کے نزدیک ظلم کہتے ہیں کسی شے کو اُس کی مخصوص جگہ سے ہٹا کر نقصان یا زیادتی کے ساتھ یا وقت یا جگہ بدل کر بے جگہ رکھ دینے کو۔ “ (المفردات فی غریب القرآن ص 318)
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے شرک کو ”ظلم“ فرمایا ہے۔ چونکہ شرک کرنے والا اپنی عبادت و نیازمندی جو کہ صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے اُسے اللہ تعالیٰ کے بجائے کسی اور کے سامنے لٹاتا پھرتا ہے، پس یہ ”ظلم“ ہے اور ایسا کرنے والا ظالم ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ﴾
”اللہ تعالیٰ ظالموں کو پسند نہیں فرماتا۔“ [آل عمران:57]
اور فرمایا: ﴿أَلَا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ﴾
”خبردار! ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔“ [هود:18]
اور فرمایا: ﴿وَالظَّالِمِينَ أَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا﴾
”اور ظالموں کے لئے اُس نے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔“ [الإنسان:31]
شرک کرنے والا بھی ظالم ہے بلکہ وہ ظالم تو سب سے بڑا ظالم ہے کہ اللہ کے حق میں ڈاکہ ڈالتا ہے، اسی لئے شرک کرنے والے سے نہ تو اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے نہ اُسے پسند کرتا ہے بلکہ اُس پر لعنت فرما کر اُسے اپنی رحمت سے دور کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ایسے ظالموں کے لئے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔

مشرک کی مغفرت نہیں ہے

شرک سے نفرت اور اُس کی مذمت میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:
﴿إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَىٰ إِثْمًا عَظِيمًا﴾
”بلاشبہ اللہ مغفرت نہیں کرتا یہ کہ اُس کے ساتھ شرک کیا جائے ، اس کے علاوہ جسے چاہے وہ معاف کر دے اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے اُس نے بہت بڑا بہتان باندھا۔ “ [النساء: 48]
رحمت الہی کی وسعتوں پر غور کیجئے فرمایا:
﴿وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ﴾
”میری رحمت ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔ “ [الأعراف: 156]
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إن الله تعالى خلق ، يوم خلق السموات والأرض مائة رحمة ، كل رحمة طباق مابين السماء والأرض ، فجعل منها فى الأرض رحمة فبها تعطف الوالدة على ولدها ، والوحش والطير بعضها على بعض، فإذا كان يوم القيمة ، أكملها بهذه الرحمة»
اللہ تعالیٰ نے جس دن زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا (اُس دن ) سو رحمتیں پیدا فرمائیں ، ہر رحمت زمین و آسمان کے خلا کو بھر دے، پھر اُن رحمتوں میں سے ایک رحمت کو اللہ تعالیٰ نے زمین پر رکھ دیا، پس اُسی (ایک رحمت ) کی وجہ سے ماں اپنے بچے پر اور وحشی درندے اور پرندے ایک دوسرے پر شفقت کرتے ہیں، پس جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کو (یعنی بقیہ نانوے رحمتوں کو ) اس ایک رحمت کے ساتھ ملا کر مکمل فرمائے گا، (اور پھر اپنے بندوں پر ان کے ساتھ رحم فرمائے گا)، «يرحم بها عباده يوم القيامة» (صحیح مسلم: 2752، دارالسلام: 1974، 1977)
اس ایک رحمت پر غور کیجئے ! اُس کی وسعتوں کو شمار میں لانا ممکن ہی نہیں، دنیا میں کتنے انسان ہیں کتنے وحشی جانور و دیگر جانور کتنے پرندے اور زمین و آسمان کے پیدا ہونے سے لے کر آج تک اور پھر قیامت تک کتنے ہی ہوں گے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ماں ہمیشہ اپنے بچوں کے لئے شفقت رکھتی ہے، وہ ماں خواہ انسان کی ہو یا کسی پرندے، جانور حتی کہ وحشی درندے ہی کی ماں کیوں نہ ہو اپنے بچوں کے لئے ممتا کے شفقت بھرے جذبات اُس کے دل میں موجود ہوتے ہیں، بس یہ تو صرف ایک رحمت ہے کہ جس کو ہم شمار میں نہیں لا سکتے اگر سو رحمتیں جمع ہو جائیں تو کس قدر رحمتوں کی برسات ہونگی اور کتنے ہی انسان بخشے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ تو ماں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ اپنے بندوں سے محبت فرماتا ہے لیکن وائے بدبختی ! شرک کرنے والے شخص کی کہ جو شرک سے توبہ کئے بغیر مر گیا تو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ واضح اعلان فرما دیا کہ اُس کی مغفرت و بخشش نہیں ہوگی۔ اُس کو قطعاً معافی
نہیں ملے گی ، اس پر کسی قسم کا رحم نہیں کیا جائے گا، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لما خلق الله الخلق ، كتب فى كتاب فهو عنده فوق العرش: إن رحمتي تغلب غضبي»
جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو اُس نے اپنی اس کتاب میں جو اُس کے پاس عرش پر ہے اُس میں لکھ دیا کہ ”میری رحمت میرے غضب پر غالب ہوگی۔“ (صحیح بخاری: 7404)
لیکن اس بے پناہ رحمت میں ”شرک“ کرنے والوں کے لئے کوئی حصہ نہیں۔ وہ الرحمن بھی الرحیم بھی الودود بھی الغفور اور الغفار بھی لیکن آخرت میں مشرک کے لئے اسکے ہاں ان صفات میں سے کوئی حصہ نہیں !

مشرک کے لئے دعائے مغفرت کی ممانعت:

شرک سے توبہ کئے بغیر مر جانے والے کی اللہ تعالیٰ بخشش و مغفرت نہیں فرمائے گا، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اُن کے لئے دعائے مغفرت سے بھی منع کیا اور فرمایا:
﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ﴾
”نبی (کریم صلی اللہ علیہ وسلم) اور ایمان والوں کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ مشرکین کے لئے مغفرت طلب کریں اگرچہ وہ (ان کے) قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، اس امر کے ظاہر ہو جانے کے بعد کہ یہ لوگ جہنمی ہیں۔“ [التوبة: 113]
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا اور قرآن مجید میں فرمایا:
﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ﴾
”اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔ “ [الأنبياء: 107]
لیکن اس کے باوجود اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شرک کرنے والوں کے لئے دعائے مغفرت سے منع فرما دیا، سورۃ توبہ کی مذکورہ بالا آیت کا شانِ نزول کچھ اس طرح ہے کہ جب ابو طالب (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا) کی موت (سکرات) کا وقت آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے ، اُس وقت ابو جہل اور عبداللہ بن ابی اُمیہ بھی موجود تھے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«أى عم قل لا إله إلا الله، أحاج بها عند الله»
اے میرے چچا! آپ «لا اله الا الله» کہہ دیں، تاکہ میں اللہ کے ہاں آپ کے لئے حجت پیش کر سکوں ، تو ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا: ”اے ابو طالب ! کیا عبدالمطلب کے مذہب سے منہ پھیر لو گے؟ (اسی حال میں اُس کی موت واقع ہوئی ) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لأستغفرن لك ما لم أنه عنك» میں ضرور آپ کے لئے استغفار کرتا رہوں گا، جب تک کہ آپ سے متعلق مجھے (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) روک نہیں دیا جاتا، تب یہ آیت نازل ہوئی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اہل ایمان کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ مشرکوں کے لئے دعائے مغفرت کریں اگرچہ وہ ان کے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔ (صحیح البخاری: 2675)
حالانکہ ابوطالب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بڑی شفقت کا معاملہ کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت ساتھ دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر انتہائی مشقتیں اور مصائب برداشت کئے ، اپنی قوم سے دشمنی مول لی حتی کہ جب مشرکین مکہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سوشل بائیکاٹ کیا تو اُس وقت بھی ابو طالب آپ کے ساتھ ہی رہے، اب غور کیجئے! ایک طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تمام جہان والوں کے لئے رحمتہ للعالمین ہونا اور دوسری طرف آپ کے چچا کا آپ کے ساتھ انتہائی محبت و شفقت کا معاملہ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرک کے لئے دعائے مغفرت سے روک دیا۔ اسی طرح جملہ اہل ایمان کو بھی اللہ تعالیٰ نے اس کام سے روکا اور منع فرمایا خواہ شرک پر مرنے والے ان کے عزیز ترین رشتہ دار ہوں یا دوست و احباب ہوں ، اپنا لخت جگر اپنی اولاد ہو یا مشفق باپ ہو یا اپنی اولاد سے بہت زیادہ شفقت برتنے والی محبت کرنے والی ممتا بھری پیاری ماں ہی کیوں نہ ہو اگر وہ شرک میں مبتلا ہوں تو اُن کے لئے مغفرت کی دعا مانگنا ہرگز جائز نہیں ، کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم اور اٹل قانون بیان فرما چکا ہے کہ مشرک پر جنت حرام اور جہنم لازم ہے۔

مشرک پر جنت حرام ہے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ﴾
جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے گا تو اللہ تعالیٰ نے اُس پر جنت حرام کر دی ہے اُس کا ٹھکانا جہنم ہے، اور ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔ [المائدة: 72]
اس آیت مبارکہ سے شرک کرنے والے ہر انسان کا انجام واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُس پر جنت حرام کر دی ہے، اور اُس کا ٹھکانا جہنم ہے، اس سے بچانے کے لئے مشرک کا کوئی بھی مددگار نہیں ہوگا، اگرچہ دنیا میں اُس نے ہزاروں مددگار چن رکھے ہوں اور اس کا زعم ہو کہ اللہ کے یہ پیارے دنیا کے مصائب و پریشانیوں میں میری مدد کریں گے میری بگڑی بنائیں گے، دنیا سنواریں گے اور آخرت میں بھی مجھے اپنے دامن میں پناہ دیں گے، میری سفارش کر کے بخشش کروائیں گے اور جہنم سے آزاد کروائیں گے، اپنے ساتھ جنت میں لے جائیں گے۔
لیکن اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنا محکم اور اٹل فیصلہ وقانون واضح کر دیا کہ مشرک پر جنت حرام ہے اُس کا ٹھکانا جہنم ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ سب باتیں شرک کر نے والوں کی خام خیالیاں اور خوش فہمیاں ہیں ۔ جب اللہ نے اپنا قانون واضح کر دیا اور اہل ایمان کو دنیا میں ہی شرک کر نے والوں کے لئے دعائے مغفرت سے منع فرما دیا تو آخرت میں اللہ کے پیارے اور نیک صالح بندے کس طرح اللہ کے ساتھ شرک کرنے والوں کی سفارش کر سکتے ہیں اور بارگاہ صمدیت میں کس طرح ان کیلئے بخشش کی عرضی پیش کر سکتے ہیں؟

نیک لوگوں کی مشرکین سے بیزاری

روزِ محشر اور انبیاء علیہم السلام اور صالحین رحمہم اللہ بھی شرک کر نے والوں سے بیزاری کا اعلان کر دیں گے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن مجید میں اس کا ایک منظر پیش کرتے ہوئے فرمایا:
﴿وَإِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّهِ ۖ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ ۚ إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ۚ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ . مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۚ وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ ۖ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أَنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنتَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ .‏ إِن تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ ۖ وَإِن تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ.﴾
”اور جب اللہ (تعالیٰ) فرمائے گا کہ اے عیسی ابن مریم ! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو اللہ کے علاوہ معبود بنا لو؟ تو عیسی (علیہ السلام) کہیں گے کہ پاک ہے تیری ذات، میرے لئے کسی طرح یہ مناسب نہیں کہ میں ایسی بات کہوں جس کے کہنے کا مجھے کچھ حق نہیں، اگر میں نے ایسا کہا ہوتا تو ضرور جانتا اور تو میرے دل کی بات بھی جانتا ہے اور میں جو کچھ تیرے علم میں ہے اُس کو نہیں جانتا بے شک تمام ترغیبوں کا جاننے والا تو ہی ہے۔ میں نے ان سے کچھ نہیں کہا مگر صرف وہی جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا یہ کہ تم اللہ ہی کی بندگی اختیار کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمھارا بھی رب ہے، میں ان پر گواہ رہا جب تک میں ان کے درمیان رہا، جب تو نے مجھے اُٹھا لیا تو تو ہی ان پر مطلع رہا، اور تو ہر چیز پر باخبر ہے۔ اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انھیں معاف کر دے تو تو زبر دست حکمت والا ہے۔ “ [المائدة: 116 تا 118]
ان آیات میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بڑے عمدہ پیرائے میں مشرکین کی غلط فہمیوں ، خام خیالیوں اور خوش فہمیوں کا ابطال فرمایا ، تمام اہل اسلام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ جل مجدہ تمام ظاہر و پوشیدہ باتوں کا بخوبی علم رکھتا ہے ذرہ ذرہ کی خبر رکھتا ہے، کوئی چیز اس کے علم سے مخفی نہیں ہے۔ اس کے باوجود اللہ کا یہ سوال کرنا کہ اے عیسی (علیہ السلام ) کیا آپ نے انھیں اپنی اور اپنی والدہ محترمہ کی عبادت کا حکم دیا تھا؟ کیا معنی رکھتا ہے؟ اس سوال کا مقصد کیا ہے؟ تو غور کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ کروڑ ہا لوگ جو سیدنا عیسی علیہ السلام اور سیدہ مریم علیہا السلام کی ”محبت“ میں غلو کا شکار ہو کر انھیں عبدیت کے مقام سے اٹھا کر معبودیت کے مقام پر لے آئے تھے ، اُن کی تعلیمات کے برعکس اُن کی اندھی محبت میں مبتلا ہو گئے تھے۔ وہ لوگ خود انھیں مقدس ہستیوں کی زبانی، انھیں کی گواہی کی روشنی میں اپنی واضح غلطی کو جان اور سمجھ لیں کہ یہ ان کی تعلیمات نہ تھیں ، ہم کس قدر کھلی غلطی میں مبتلا تھے۔
اور آج یہ ہم سے بیزاری کا اعلان کر رہے ہیں ہمارا کچھ ساتھ دینے کو تیار نہیں ، اندازہ کیجئے ! اس موقع پر ایسے نادان انسان کو کس قدر پچھتاوا اور حسرت و یاس کا سامنا ہوگا کہ جن کی محبت میں اندھے ہو کر وہ تمام حدود پھلانگ چکے تھے، وہی آج ہم سے بیزار ہیں ، وہی ہمارے خلاف گواہ ہیں۔ دردناک عذاب تو ہوگا ہی لیکن یہ پچھتاوا اور حسرت زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہو کر ان کے عذاب میں مزید شدت پیدا کر دے گا، (اعاذنا اللہ منہ) واضح رہے کہ اس سے انبیائے کرام علیہم السلام اور صالحین کی شان میں کچھ حرف نہیں آتا، کیونکہ وہ تو بخوبی شرک کی مذمت کر چکے تھے اور اس کے بدانجام سے بھی بخوبی آگاہ کر گئے تھے۔ اب جو اُن کی تعلیمات سے یکسر غافل ہو کر اپنی مرضی سے اس غلطی کے مرتکب ہوئے تو وہی پورے پورے قصور وار ٹھہرتے ہیں، وہی مجرم ٹھہرتے ہیں ایک ایسے جرم کے مرتکب جس کے لئے کسی قسم کی کوئی معافی نہ ملنے کا خود اللہ رب العالمین واضح اعلان فرما چکا ہے۔ رہا سیدنا مسیح علیہ السلام کا یہ فرمانا کہ ”اگر تو انھیں معاف کر دے تو تو غالب حکمت والا ہے“ تو یہ ان مشرکین کے حق میں کوئی سفارش یا شفاعت نہیں بلکہ اللہ رب العالمین کے اختیار کا اظہار ہے کہ وہ ﴿فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيۡدُ﴾ ہے۔
اس سلسلے میں مزید چند آیات ملاحظہ کیجئے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَيَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِينَ أَشْرَكُوا مَكَانَكُمْ أَنتُمْ وَشُرَكَاؤُكُمْ ۚ فَزَيَّلْنَا بَيْنَهُمْ ۖ وَقَالَ شُرَكَاؤُهُم مَّا كُنتُمْ إِيَّانَا تَعْبُدُونَ ‎. فَكَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ إِن كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغَافِلِينَ .﴾
”اور جس دن ہم ان سب کو جمع کر دیں گے پھر ہم اُن لوگوں سے کہیں گے جنھوں نے شرک کیا کہ تم اور تمھارے شرکاء (جنھیں تم نے شریک ٹھہرایا) اپنی جگہ ٹھہرے رہو پھر ہم اُن کے درمیان اختلاف برپا کر دیں گے۔ تو ان کے شرکاء کہیں گے کہ تم ہماری عبادت نہیں کرتے تھے، سو ہمارے اور تمھارے درمیان بطور گواہ اللہ کافی ہے کہ ہم تو تمھاری اس عبادت سے بے خبر (غافل) تھے۔ “ [يونس: 28، 29]
نیز فرمایا: ﴿وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ . إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ ۚ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ .﴾
”اور جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تو کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے برابر بھی اختیار نہیں رکھتے ، اگر تم انھیں پکارو تو وہ تمھاری پکار نہ سنیں اگر (بالفرض) سن بھی لیں ! تو تمھاری فریادرسی نہیں کریں گے اور قیامت کے دن وہ تمھارے اس شرک کا انکار کر دیں گے اور (اللہ ) خبیر کی طرح تمھیں قطعا خبر دار نہ کرے گا۔ “ [فاطر: 13، 14]
ان آیات مبارکہ سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہو جاتی ہے کہ قیامت کے دن شرک کرنے والے ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہوگا ، اور وہ نیک لوگ بھی جنھیں پوجا گیا ، ان سے بیزاری کا اعلان کر دیں گے۔ جیسا کہ سیدنا عیسی علیہ السلام سے متعلق قرآن مجید میں بیان ہوا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے