شرک کا ایک چور دروازہ اتباع متشابہات بھی ہے

یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی اور حافظ محمود الخضری کی کتاب شرک کے چور دروازے سے ماخوذ ہے۔

اتباع متشابہات

شرک کا ایک چور دروازہ اتباع متشابہات بھی ہے ۔ سیدنا نعمان بن بشیرؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

((الْحَلَالُ بَيْنٌ، وَالْحَرَامَ بَيْنٌ، وَبَيْنَهُمَا أُمُورٌ مُشْتَبِهَةٌ، فَمَنْ تَرَكَ مَا شُبِّهَ عَلَيْهِ مِنَ الْإِثْمِ كَانَ لِمَا اسْتَبَانَ أَتْرَكَ، وَمَنِ اجْتَرَأَ عَلَى مَا يَشْكُ فِيهِ مِنَ الْإِثْمِ أَو شَكَ أَن يُوَاقِعَ مَا اسْتَبَانَ، وَالْمَعَاصِي حِمَى اللَّهِ، وَمَنْ يَرْتَعَ حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَن يُوَاقِعَهُ.))
صحیح بخاری، کتاب البيوع، رقم: ٢٠٥١.

’’حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی ظاہر ہے، لیکن ان دونوں کے درمیان کچھ شبہ کی چیزیں ہیں۔ پس جو شخص ان چیزوں کو چھوڑے جن کے گناہ ہونے یا نہ ہونے میں شبہ ہے، وہ ان چیزون کو تو ضرور ہی چھوڑ دے گا ، جن کا گناہ ہونا ظاہر ہے، لیکن جو شخص شبہ کی چیزوں کے کرنے کی جرات کرے گا تو قریب ہے کہ وہ ان گناہوں میں بھی مبتلا ہو جائے جو بالکل واضح طور پر گناہ ہیں ۔ ( لوگو یاد رکھو! ) گناہ اللہ تعالی کی چراگاہ ہے جو ( جانور بھی ) چراگاہ کے اردگرد چرے گا اس کا چراگاہ کے اندر چلا جانا غیر ممکن نہیں ۔‘‘

مذکور حدیث میں معاصی کو اللہ تعالی کی چراگاہ بتلایا گیا ہے، جو معاصی سے دور رہنے کے لئے ایک انتہائی تنبیہہ ہے۔ ان سے بچنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ حلال اور حرام کے درمیان جو امور مشتیبات ہیں، ان سے اجتناب کیا جائے ، ایسا نہ ہو کہ ان کے ارتکاب سے فعل حرام ہی کا ارتکاب ہو جائے ، اور حرام امور میں سے شرک بھی ہے، لہذا جو شخص مشتببات سے بچ گیا وہ شرک و بدعت سے سلامت رہا محرمات کو اللہ کی چراگاہوں سے تشبیہ دینا زجر و توبیخ کے لئے ہے کہ جس طرح امراء و زمیندار لوگوں کی مخصوص چراگاہوں میں داخل ہو جائے والے اور اپنے جانوروں کو وہاں جگانے والوں کو انتہائی سنگین سزا دی جاسکتی ہے، ایسے ہی جو لوگ حدود اللہ کو توڑتے اور اللہ کی چراگاہ یعنی امور حرام میں واقع ہو جاتے ہیں۔ وہ آخرت میں سخت ترین سزا کے مستحق ہوں گے۔ اور افعال مشتبہات سے پر ہیز بھی اسی بنا پر ضروری ہے کہ مبادا کوئی شخص امور حرام اور شرک کا مرتکب ہو کر عذاب الیم کا مستحق نہ ہو جائے۔

مشتبہ اشیاء سے اجتناب کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا وطیرہ ملاحظہ فرمائیے گا، امام بخاری اپنی صحیح میں باب باندھتے ہیں:

((بَابُ مَا يُنَزَّهُ مِنَ الشُّبُهَاتِ))

’’باب مشتبه چیزوں سے پرہیز کرنا‘‘

اور اس کے تحت سیدنا انسؓ سے مروی حدیث لاتے ہیں کہ؛

((مَرَّا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَمْرَةٍ مَسْقَوْطَةٍ فَقَالَ: لَوْ لَا أَن تَكُونَ صَدَقَةٌ لأكَلْتُهَا .))
رقم الحديث: ٢٠٥٥.

’’نبی کریم ﷺ ایک گری ہوئی کھجور پر گذرے، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر اس کے صدقہ ہونے کا شبہ نہ ہوتا تو میں اسے کھا لیتا۔‘‘

حسان بن ابی سنان فرماتے ہیں:

((مَا رَأَيْتُ شَيْئًا أَهْوَنَ مِنَ الْوَرُع، دَعُ مَا يُرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيْبُكَ.))
صحيح بخاري، كتاب البيوع، باب تفسير المشتبهات.

’’ورع (پر ہیز گاری) سے زیادہ آسان کوئی چیز میں نے نہیں دیکھی ، بس شبہ کی چیزوں کو چھوڑو اور وہ راستہ اختیار کرو جس میں کوئی شبہ نہ ہو۔‘‘

امام غزالی فرماتے ہیں:

’’متقین کا ورع اور تقویٰ یہ ہے کہ ایسی چیزوں کو بھی چھوڑ دینا جن کی حالت میں کوئی شبہ نہیں، مگر خطرہ ہے کہ ان کو عمل میں لانے سے کہیں حرام تک نوبت نہ پہنچ جائے ، اور صالحین کا ورع یہ ہے کہ ایسی اشیاء سے دور رہنا جن میں حرمت کے احتمال کے لئے کوئی بھی موقعہ نکل سکتا ہے۔‘‘
فتح البارى ٢٩٥/٤، طبع دار المعرفة، بيروت.

قرآن کریم جس کی نظیر قیامت تک نہیں پائی جائے گی ، کا ایک حصہ صریح اور واضح احکام پر مشتمل ہے، جیسے حلال و حرام، حدود، عبادات اور عبرتوں والی آیات، اور ایک حصہ ایسی آیتوں پر مشتمل ہے جن کا علم اور جن کی حقیقت اللہ کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں ، یا جن میں ایک سے زیادہ معانی کا احتمال پایا جاتا ہے، جیسے سورتوں کی ابتداء میں حروف مقطعات، غیبی امور اور عیسیٰؑ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان؟

(وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَىٰ مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِّنْهُ)

(النساء : ۱۷۱)

’’کہ وہ اللہ کا کلمہ ہیں جسے اس نے مریم کی طرف ڈال دیا، اور اس کی طرف سے ایک روح ۔‘‘

لیکن جن کے دلوں میں کفر، شرک اور نفاق ہے وہ متشابہ آیتوں کے در پے ہوتے ہیں، تا کہ لوگوں کو شبہات میں مبتلا کر سکیں ، اپنے باطل عقائد ونظریات پر فاسد تاویلات کے ذریعہ ان سے استدلال کر سکیں، اور اسلام میں شرک اور بدعات کو رواج دے سکیں ، اور جن کا ایمان اور علم راسخ ہوتا ہے وہ ان متشابہات کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ بھی اللہ تعالی کی آیات ہیں، ان کا جو معنی و مفہوم دیگر قرآنی آیات، احادیث نبویہ اور عربی زبان کے مطابق سمجھ میں نہیں آتا ہے وہ لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں، لیکن اس کی حقیقت اور کنہیات کی کرید میں نہیں پڑتے ، اس لیے کہ اصحاب عقل و دانش کے لئے محکم آیتیں ہی کافی اور وافی ہوتی ہیں۔ اور بیمار عقل والے ہمیشہ ہی متشابہ آیتوں کی تلاش میں ہوتے ہیں، تا کہ اپنے باطل اور شرکیہ افکار کی تائید میں کوئی دلیل لاسکیں، اور مسلمانوں میں شر اور فتنہ شرک و بدعت پھیلا سکیں ۔

(هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ ۗ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ ۗ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ)

(ال عمران : ٧)

’’اُسی نے آپ پر کتاب اُتاری ہے، جس میں محکم آیتیں ہیں جو اس کتاب کی اصل ہیں، اور کچھ دوسری آیتیں متشابہ ہیں، پس جن لوگوں کے دلوں میں کھوٹ ہوتا ہے دو فتنہ انگیزی کی غرض سے اور ( اپنی خواہش نفس کے مطابق ) تاویل کی غرض سے انہی متشابہ آیتوں کے در پے ہوتے ہیں، حالانکہ ان کی تاویل (تفسیر) اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، اور راسخ علم والے کہتے ہیں کہ ہم اُن پر ایمان لے آئے ، سب ہمارے رب کی طرف سے ہیں، اور نصیحت تو صرف عقل مند حاصل کرتے ہیں ۔‘‘

قرآن مجید نے یہ ایک ایسا اصول اور ضابطہ مقرر کر دیا ہے جس کے سمجھ لینے سے اختلافات کا فیصلہ ہو سکتا ہے، امت محمدیہ میں جو لوگ متشابہات کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں وہ یہود و نصاری کی پیروی کرتے ہیں، کیوں کہ انہوں نے بھی کتب الہی کے محکم اصولوں کو ترک کر کے متشابہات کی پیروی کی اور انبیاء کرام کے معجزات کی حقیقت کو سمجھنے میں دھوکا کھایا۔ انہی کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے (سورۃ آل عمران کی مذکورہ آیت تلاوت کرنے کے بعد) فرمایا:

(( فَإِذَا رَأَيْتُمُ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ، فَأُولَئِكَ الَّذِينَ سَمَّى الله، فَاحْذَرُوهُم ))
سنن ابو داؤد، کتاب السنة، رقم : ٠٤٥٩٨ ٤٥٩٨، علامہ البانیؒ نے اس کو صیح ابوداؤد میں ذکر کیا ہے۔

’’جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو متشابہات کو بطور دلیل کے پیش کرتے ہیں تو سمجھ لو یہ وہی لوگ ہیں جن کا نام اللہ نے (آیت میں) لیا ہے (کہ ان کے دلوں میں کجی ہے) پس تم ان سے بچتے رہنا ۔‘‘

((رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا )) آمین!

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!

جزاکم الله خیرا و احسن الجزاء