ستاره پرستی
شرک کا ایک ذریعہ ستارہ پرستی بھی ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر اس سے منع کر دیا :
(لَا تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَ لَا لِلْقَمَرِ)
(حم السجده : ۳۷)
’’تم سورج اور چاند کو سجدہ مت کرو۔‘‘
اس لیے کہ ستارے بھی تمہاری طرح ایک مخلوق ہیں، اللہ کے ساتھ اختیارات میں شریک نہیں ہیں ۔ اہل عرب کا یہ خیال تھا کہ ستاروں کی ایک منزل کے گرنے اور دوسری کے اُبھرنے کے ساتھ بارش ہوتی ہے ۔ چنانچہ وہ انہی منازل کی طرف بارش کی نسبت کیا کرتے تھے، اور کہا کرتے تھے :
((مُطِرُنَا بِنَوءِ كَذَا))
’’ہمیں فلاں ستارے یا فلاں منزل ( پخھتر ) سے بارش دی گئی ہے ۔‘‘
تيسير العزيز الحميد، ص: ٤٥١۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے رد میں فرمایا:
(وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ)
(الواقعه : ۸۲)
’’اور تم اپنے حصے میں یہی لیتے ہو کہ جھٹلاتے پھرو۔‘‘
یعنی تم اپنے شکر کا اظہار اس صورت میں کرتے ہو کہ تم تکذیب کرتے ہو۔اس آیت کریمہ کی یہ تفسیر رسول اللہ ﷺ سے منقول ہے۔ چنانچہ سیدنا علیؓ سے مروی ہے کہ تعلیم رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمُ يَقُولُ شُكْرَكُمْ أَنَّكُمُ تُكَذِّبُونَ، يَقُولُونَ مُطِرْنَا بِنَوْءِ كَذَا وَكَذَا وَبِنَجْمِ كَذَا وَكَذَا .))
سنن ترمذی ، کتاب التفسير ، رقم : ۳۲۹۵- مسند أحمد: ۱۰۸/۱ ، رقم : ۸۵۰،۸٤۹۸ – ۲ ۸۰-
شیخ شعیب الأرناؤوط نے اسے ’’حسن لغیر‘‘ کہا ہے۔ ابن کثیر: ۲۹۹/۴ اور ابن حجر (الفتح ۵۲۲٫۲) نے اسے صحیح کہا ہے۔
یعنی اس آیت میں ’’رزق‘‘ بمعنی ’’شکر‘‘ ہے۔ چنانچہ معنی یوں ہوگا کہ :
’’تم اللہ کی نعمتوں کے مقابلہ میں اظہاری شکر کا یہ طریقہ اپناتے ہو کہ تم اس نعمت کا من جانب اللہ ہونے کا انکار کرتے ہو ( اور کہتے ہو ) کہ ہمیں فلاں ستارے یا فلاں پخھتر سے بارش دی گئی ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ سے واضح ہوا کہ بارش کی نسبت اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ستاروں وغیرہ کی طرف کرنا اسباب شرک میں سے ہے۔
سید نا ابو مالک الاشعریؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((أَرْبَعٌ فِي أُمَّتِي مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ لَا يَتْرُكُونَهُنَّ ،الْفَخْرُ بِالأحْسَابِ وَالطَّعُنُ فِي الْأَنْسَابِ وَالْإِسْتِسْقَاهُ بِالنُّجُومِ وَالنِّيَاحَةُ، وَقَال :النَّائِحَةُ إِذَا لَمْ تَتُبُ قَبْلَ مَوْتِهَا تُقَامُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَعَلَيْهَا سِرُبَالٌ مِنْ قَطِرَانٍ وَدِرْعٌ مِنْ جَرُبٍ))
صحیح مسلم، کتاب الجنائز، رقم : ٩٣٤۔
میری اُمت میں جاہلیت کی چار باتیں ایسی ہیں جنہیں وہ کبھی بھی نہ چھوڑیں گے:
اپنے حسب نسب پر فخر ، دوسروں کے نسب پر طعنہ زنی ، ستاروں سے بارش کا اعتقاد رکھنا، نوحہ خانی۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا:
نوحہ کرنے والی عورت اگر موت سے پہلے تو بہ نہ کر سکی تو اسے قیامت کے دن اس حال میں کھڑا کیا جائے گا کہ اس پر تارکول کا کرتا اور خارش کی زرہ لپٹی ہو گی۔
رسول اللہ ﷺ جب حدیبیہ میں تشریف لے گئے تو ایک رات بارش ہو گئی۔ صبح کو رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھائی اور لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے:
((هَلْ تَدْرُونَ مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِى مُؤْمِنٌ بِى وَكَافِرٌ فَأَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرُنَا بِفَضْلٍ بی اللَّهِ وَرَحْمَتِهِ فَذَلِكَ مُؤْمِنٌ بِي وَكَافِرٌ بِالْكَوْكَبِ ، وَأَمَّا مَنْ قَالَ بِنَوْءِ كَذَا وَكَذَا فَذَلِكَ كَافِرٌ بِي وَمُؤْمِنْ بِالْكَوْكَبِ.))
صحیح بخاری، کتاب الاستسقاء رقم : ۱۰۳۸ – صحیح مسلم ، کتاب الايمان، رقم : ٦٧.
کیا تمہیں معلوم ہے کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا:
اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
میرے بندوں میں کچھ نے ایمان لاتے ہوئے اور کچھ نے کفر اختیار کرتے ہوئے آج صبح کی ہے۔ جس شخص نے یہ کہا کہ ہمیں اللہ کے فضل و رحمت سے یہ بارش دی گئی ہے تو وہ مجھ پر ایمان لے آیا اور ستاروں کے تصرف کا انکاری ہو گیا، اور جس نے یوں کہا کہ ہمیں فلاں اور فلاں ستارے سے بارش دی گئی ہے تو اس نے میرے ساتھ کفر کیا اور ستارے پر ایمان لے آیا۔
اس حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ نے بارش کے تعلق سے دو قسم کے ذہن پیش کیے ہیں ۔ کچھ تو اس بارش کے نزول کو اللہ تعالیٰ کا فضل اور رحمت قرار دیتے ہیں اور اپنے عقیدے اور اپنے ایمان کو بربادی سے محفوظ کر لیتے ہیں، جب کہ کچھ لوگ اس بارش کو ستاروں کی طرف منسوب کر دیتے ہیں جس سے کفرانِ نعمت کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو غیر اللہ کی طرف منسوب کرنے کا گناہ لازم آتا ہے۔
واضح ہو کہ حدیث زیر بحث اور اس معنی کی دوسری احادیث کے مطالعہ اور ان کے اسلوب پر غور و فکر سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ستاروں کو محض سبب قرار دینا کفر ہے ، اگر ایسے شخص کا عقیدہ یہ ہو کہ بارش برسانے والا در حقیقت اللہ تعالیٰ ہی ہے ، یہ کفر اصغر ہے ، جب کہ یہ عقیدہ رکھنا کہ ستارے ہی بارش برسانے والے ہیں، کفر اکبر ہے۔ بعض لوگ اس حدیث کا محل یہی قرار دیتے ہیں کہ اس حدیث میں بارش کا خالق ستاروں کو ماننے والا کافر جتلایا گیا ہے، لیکن یہ حمل غلط ہے، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو کافروں کا قول یوں نقل کیا جاتا کہ فلاں ستارے نے ہم پر بارش نازل کی۔ حالانکہ حدیث کے الفاظ ہیں کہ ”فلاں ستارے کے سبب سے ہمیں بارش دی گئی، جس کا معنی یہ ہے کہ وہ ستاروں کو بارش کا صرف سبب قرار دیتے تھے،
خالق اور مالک اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہی قرار دیتے تھے ۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان کے اس اعتقاد پر کفر کا اطلاق فرمایا۔ ثابت ہوا کہ بارش کے نزول کو اللہ تعالیٰ کی تخلیق سمجھنے والا اگر اس بارش کی نسبت ستارے کی طرف کر دے تو اس نے کفر کا ارتکاب کیا ، لیکن یہ شرک اصغر ہے، جب کہ ستاروں ہی کو بارش کا خالق و فاعل ماننا کفر اکبر ہے۔
تيسير العزيز الحميد، ص : ٤٥٨ – ٤٥٩ – توحيد اله العالمين، ص : ٥١٠/١۔
یہ دونوں صورتیں ستارہ پرستی میں شامل ہیں ، جو کہ شرک اور کفر ہیں۔