شرکیہ کتابوں کی اشاعت اور اولیاء اللہ کے صحیح مفہوم
ماخوذ : فتاویٰ علمائے حدیث

سوال

جو جماعتیں کفریہ اور شرکیہ واقعات پر مشتمل کتابیں شائع کرتی ہیں، ان کے اس عمل کی کیا حیثیت ہے؟ کیا یہ خود شرک کے مترادف شمار ہوگا؟ کیونکہ شرکیہ عقائد رکھنے والے لوگ ان کتابوں سے تقویت حاصل کرتے ہیں۔ مثلاً کراماتِ اہلحدیث، ص: 90، 91 اور دیگر بہت سی کتابیں موجود ہیں۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پہلے آپ ان کفریہ اور شرکیہ واقعات پر مشتمل عبارات نقل کریں تاکہ ان پر بصیرت کے ساتھ جواب دیا جا سکے۔ کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کتاب پڑھنے والا یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ یہ عبارت کفریہ یا شرکیہ ہے، حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔

جہاں تک یہ بات ہے کہ شرکیہ نظریات رکھنے والے لوگ بعض دلائل سے تقویت حاصل کرتے ہیں، تو وہ تو قرآنِ مجید کی متعدد آیات اور رسول اللہ ﷺ کی ثابت شدہ احادیث سے بھی اپنے باطل عقائد کو تقویت دیتے ہیں۔ مثلاً:

قرآنی دلائل جن سے اہلِ شرک استدلال کرتے ہیں

﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللَّـهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ (٦٤)﴾ (الأنفال)
’’اے نبیﷺ! آپ کے لیے اور ان مومنوں کے لیے جو آپ کے حکم پر چلتے ہیں، اللہ ہی کافی ہے۔‘‘

﴿ وَمَا نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْنَاهُمُ اللَّـهُ وَرَ‌سُولُهُ مِن فَضْلِهِ ۚ (٧٤)﴾ (التوبة)
’’یہ صرف اسی بات کا انتقام لے رہے ہیں کہ انہیں اللہ نے اپنے فضل سے اور اس کے رسول نے دولت مند کردیا۔‘‘

﴿فَسَيَرَ‌ى اللَّـهُ عَمَلَكُمْ وَرَ‌سُولُهُ﴾ (التوبة)
’’اللہ، اس کا رسول اور سب مومن تمہارے عمل کو دیکھ لیں گے۔‘‘

﴿النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ ۖ﴾ (الأحزاب)
’’پیغمبر مومنوں پر خود ان سے بھی زیادہ حق رکھنے والے ہیں۔‘‘

﴿وَفِيكُمْ رَ‌سُولُهُ ۗ﴾ (آل عمران)
’’اور تم میں اس کا رسول ہے۔‘‘

﴿ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُ‌وا اللَّـهَ وَاسْتَغْفَرَ‌ لَهُمُ الرَّ‌سُولُ﴾ (النسآء)
’’اور اگر یہ لوگ جب انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، تیرے پاس آجاتے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے لیے استغفار کرتے۔‘‘

﴿ لِأَهَبَ لَكِ غُلَامًا زَكِيًّا (١٩) ﴾ (مریم)
’’تاکہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا دوں۔‘‘

احادیث جن سے استدلال کیا جاتا ہے

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «إِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللّٰہُ مُعْطِیْ»
’’جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ دے دیتا ہے اور دینے والا تو اللہ ہی ہے۔ میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اور یہ امت ہمیشہ اللہ کے امر پر قائم رہے گی۔ جو ان کی مخالفت کرے گا وہ ان کو نقصان نہ دے سکے گا۔ تاآنکہ اللہ کا حکم (قیامت) آجائے۔‘‘ \[صحیح بخاری/ کتاب العلم / باب من یرد اللہ به خیرا یفقهه/ کتاب فرض الخمس/باب قول اللّٰہ تعالیٰ ﴿فَأَنَّ لِلّٰہِ خُمُسه وَلِلرَّسُوْلِ ﴾ \[الانفال:۴۱]]

ایک اور حدیث میں فرمایا:
’’ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جس شخص نے میرے کسی دوست سے دشمنی کی، میرا اس سے اعلانِ جنگ ہے۔ میں نے بندے پر جو چیزیں فرض کی ہیں ان سے زیادہ مجھے کوئی چیز محبوب نہیں جس سے وہ میرا قرب حاصل کرے۔ (یعنی فرائض کے ذریعے سے میرا قرب حاصل کرنا، مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے۔) اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے سے (بھی) میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے۔ حتی کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں اور جب میں اس سے ( اس کے ذوق عبادت ، فرائض کی ادائیگی اور نوافل کے اہتمام کی وجہ سے) محبت کرتا ہوں تو ( اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ) میں اس کے وہ کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے ، اس کی وہ آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے ، اس کا وہ ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کاوہ پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ اور اگر وہ مجھ سے کسی چیز کاسوال کرے تو میں اسے وہ ضرور عطا کرتا ہوں اور اگر کسی چیز سے پناہ طلب کرے تو میں اسے ضرور اس سے پناہ دیتا ہوں۔‘‘ (صحیح بخاري/ کتاب الرقاق/ باب التواضع)

تو اب سوچنے کی بات ہے کہ قرآنِ مجید اور کتبِ حدیث کے شائع کرنے کے بارے میں کیا کہا جائے؟

وضاحت

اہلِ بدعت اور اہلِ شرک اس حدیث کو اپنے باطل عقائد کی تائید میں پیش کرتے ہیں، حالانکہ حدیث کا وہ مفہوم ہرگز نہیں جو وہ گھڑتے اور پھر اس پر فاسد استدلال کرتے ہیں۔

حدیث کا سیدھا اور واضح مفہوم یہ ہے کہ:
◈ جب بندہ فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ نوافل کا اہتمام کرتا ہے تو اللہ کا خاص محبوب بن جاتا ہے۔
◈ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی خاص مدد و نصرت عطا فرماتا ہے۔
◈ اللہ تعالیٰ اپنے ولی کو اپنی حفاظت میں لیتا ہے اور اس کے اعضاء کی نگرانی فرماتا ہے۔
◈ وہ کانوں سے صرف وہی سنتا ہے جو اللہ کو پسند ہے، آنکھوں سے وہی دیکھتا ہے، ہاتھوں سے وہی پکڑتا ہے اور قدم صرف اسی طرف بڑھتے ہیں جس میں اللہ کی رضا شامل ہوتی ہے۔
◈ ایسے مقام پر پہنچنے کے بعد اللہ تعالیٰ اس کی دعاؤں کو بھی قبول فرماتا ہے۔

ولی کی اصل پہچان

◈ ولی وہ نہیں جسے کسی خاص وضع و ہیئت، گدی نشینی، مجذوبیت یا نیم پاگل پن کی بنیاد پر کہا جائے۔
◈ اور نہ ہی وہ ہے جو خود ساختہ طریقوں پر عبادت کرے۔
بلکہ اللہ کا ولی وہ ہے جو:
➊ فرائض کا پابند ہو۔
➋ نوافل میں رغبت رکھتا ہو۔
➌ اور زندگی کے ہر پہلو میں اطاعتِ الٰہی پر قائم ہو۔

اولیاء اللہ کی حقیقت

◈ ایسے اولیاء اللہ کی صحبت اللہ کی رضا کا ذریعہ ہے۔
◈ اور ان سے دشمنی اللہ کی شدید ناراضگی اور غضب کو دعوت دیتی ہے۔

فرائض اور نوافل کی ترتیب

◈ نوافل کا اہتمام یقیناً اللہ کے قرب کا ذریعہ ہے۔
◈ لیکن یہ قرب صرف اس وقت حاصل ہوگا جب فرائض اور سنن کی پابندی کی جائے۔
◈ اگر کوئی شخص فرائض و سنن کی ادائیگی نہیں کرتا تو اس کے نوافل کی کوئی حیثیت نہیں۔
◈ فرائض اور سنن کی ادائیگی کے بغیر اللہ کے قرب کی آرزو محض ایک خام خیالی اور باطل گمان ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے