سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص بنام عبدالحق وفات پا گیا جس نے درج ذیل ورثاء چھوڑے:
◄ باپ
◄ ماں
◄ ایک بیوی
◄ ایک بیٹا
◄ دو بیٹیاں
بتائیں کہ شریعتِ محمدی کے مطابق ہر ایک کو کتنا حصہ ملے گا؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ جاننا ضروری ہے کہ میت کی ملکیت میں سے سب سے پہلے اس کا کفن و دفن کا خرچ نکالا جائے۔ اس کے بعد اگر مرحوم پر قرض تھا تو اسے ادا کیا جائے۔ پھر اگر وصیت کی تھی تو وصیت جائیداد کے تیسرے حصے تک پوری کی جائے۔ ان تمام امور کے بعد مرحوم کی مکمل ملکیت (منقولہ اور غیر منقولہ دونوں) کو ایک روپیہ فرض کر کے اس طرح تقسیم کی جائے گی:
ورثاء کے حصے
◄ باپ → چھٹا حصہ: ۲ آنے ۸ پائی
◄ ماں → چھٹا حصہ: ۲ آنے ۸ پائی
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ…﴾ (النساء)
◄ بیوی → آٹھواں حصہ: ۲ آنے
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ﴾
◄ باقی حصہ (۸ آنے ۸ پائی) تین حصوں میں تقسیم ہوگا:
➊ دو حصے بیٹے کو
➋ ایک حصہ دو بیٹیوں کو (یعنی دونوں بیٹیاں ایک حصے کی شراکت دار ہوں گی)
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿يُوصِيكُمُ اللَّـهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ﴾
جدید اعشاریہ فیصد کے حساب سے تقسیم
◄ کل ملکیت = 100 فیصد
◈ باپ → 1/6 = 16.66%
◈ ماں → 1/6 = 16.66%
◈ بیوی → 1/8 = 12.5%
◈ باقی (یعنی بیٹا اور دو بیٹیاں) = 54.18%
➊ بیٹا = 27.09%
➋ ہر بیٹی = 13.54%
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب