شرعی وراثت کی تقسیم اور حصوں کی وضاحت
ماخوذ : فتاویٰ راشدیہ، صفحہ نمبر 624

سوال

کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ حاجی حمل کا انتقال ہوگیا، جس نے ورثاء میں چھوڑے:

◄ ایک بیوی بنام وسندی،
◄ ایک بہن بنام آدن،
◄ ایک ماں کی طرف سے بھائی،
◄ اور ایک کزن اسمعیل۔

مزید یہ کہ مسمات وسندی کو اپنے والدین کی طرف سے 14 بڑے جانور ملے ہوئے ہیں۔ وضاحت فرمائیں کہ شریعت محمدی ﷺ کے مطابق کس کو کتنا حصہ ملے گا؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ:

➊ سب سے پہلے مرحوم کی ملکیت سے اس کے کفن و دفن کا خرچ نکالا جائے۔
➋ پھر اگر کوئی قرض ہے تو وہ ادا کیا جائے۔
➌ اس کے بعد اگر اس نے کوئی جائز وصیت کی ہے تو وہ کل مال کے تیسرے حصے تک پوری کی جائے۔
➍ اس کے بعد جو کچھ بچے، خواہ وہ منقول ہو یا غیر منقول، اسے ایک روپیہ مان کر ورثاء میں تقسیم کیا جائے۔

تقسیمِ وراثت

فوت ہونے والے حاجی حمل کی کل ملکیت: 1 روپیہ

بیوی وسندی → 4 آنے
بہن آدن → 8 آنے
ماں کی طرف سے بھائی → 2 آنے 8 پائی
چچازاد کزن (اسمعیل) → 1 آنہ 4 پائی

وسندی کو والدین کی طرف سے ملے ہوئے جانور

مسمات وسندی کو اپنے ماں باپ کی طرف سے ذاتی طور پر جو 14 بڑے جانور ملے ہیں، وہ صرف اور صرف وسندی کی ذاتی ملکیت ہیں۔ ان میں کسی دوسرے کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔

اہم نوٹ

اگر سوال بالکل اسی طرح ہے جیسا بیان کیا گیا ہے تو یہ جواب درست ہے۔ لیکن اگر سوال غلط لکھوایا گیا ہے تو پھر یہ جواب لاگو نہیں ہوگا۔

جدید اعشاریہ نظام میں تقسیم

کل ملکیت: 100

بیوی → 25 (یعنی 1/4)
اخیافی بھائی (ماں کی طرف سے بھائی) → 16.66 (یعنی 1/6)
بہن → 50 (یعنی 1/2)
چچازاد کزن (عصبہ) → 8.34

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے