سوال
علماء دین کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ مسئلہ درپیش ہے کہ محمد ہاشم نے اپنے دادا کی جائیداد تقسیم کر کے اپنا حصہ لے لیا تھا۔ بعد ازاں ان کا چچا محمد کا انتقال ہوگیا۔ مرحوم نے وارث کے طور پر چھوڑے: ایک بیوی، ایک بیٹی، بھتیجا محمد ہاشم، ایک بھتیجی، ایک چچازاد (میر حسن) اور بہن کی اولاد۔ اب یہ دریافت کرنا ہے کہ شریعتِ محمدی کی روشنی میں ہر ایک کو کتنا حصہ ملے گا؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سب سے پہلے یہ بات جاننا ضروری ہے کہ میت کی جائیداد کی تقسیم سے پہلے چند امور کو انجام دینا واجب ہے:
➊ کفن دفن کے اخراجات: سب سے پہلے مرحوم کی ملکیت سے کفن دفن کا خرچ نکالا جائے۔
➋ قرض کی ادائیگی: اس کے بعد اگر مرحوم پر کوئی قرض ہو تو اسے ادا کیا جائے۔
➌ وصیت کا نفاذ: پھر اگر مرحوم نے کوئی وصیت کی ہو تو کل ترکے کے ایک تہائی حصے تک اسے پورا کیا جائے۔
ان مراحل کے بعد جو منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد بچے گی، اسے ایک روپیہ فرض کر کے شرعی اصولوں کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔
مرحوم محمد کی کل جائیداد = 1 روپیہ
ورثاء اور ان کے حصے
وارث | پائیاں | آنے |
---|---|---|
بیوی | 00 | 2 |
بیٹی | 00 | 8 |
بھتیجا | 00 | 6 |
بھتیجی | محروم | – |
چچازاد | محروم | – |
بہن کی اولاد | محروم | – |
جدید طریقہ تقسیم (فیصد اور اعشاریہ نظام)
کل جائیداد = 100 فیصد
✿ بیوی: 1/8 = 12.5%
✿ بیٹی: 1/2 = 50%
✿ بھتیجا (عصبہ): 37.5%
✿ بھتیجی: محروم
✿ چچازاد: محروم
✿ بہن کی اولاد: محروم
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب