شرعی وراثت کا حکم: بیوی، بیٹی اور بھتیجے کے حصے کی وضاحت
ماخوذ : فتاویٰ راشدیہ، صفحہ نمبر 621

سوال

علماء دین کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ مسئلہ درپیش ہے کہ محمد ہاشم نے اپنے دادا کی جائیداد تقسیم کر کے اپنا حصہ لے لیا تھا۔ بعد ازاں ان کا چچا محمد کا انتقال ہوگیا۔ مرحوم نے وارث کے طور پر چھوڑے: ایک بیوی، ایک بیٹی، بھتیجا محمد ہاشم، ایک بھتیجی، ایک چچازاد (میر حسن) اور بہن کی اولاد۔ اب یہ دریافت کرنا ہے کہ شریعتِ محمدی کی روشنی میں ہر ایک کو کتنا حصہ ملے گا؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سب سے پہلے یہ بات جاننا ضروری ہے کہ میت کی جائیداد کی تقسیم سے پہلے چند امور کو انجام دینا واجب ہے:

کفن دفن کے اخراجات: سب سے پہلے مرحوم کی ملکیت سے کفن دفن کا خرچ نکالا جائے۔
قرض کی ادائیگی: اس کے بعد اگر مرحوم پر کوئی قرض ہو تو اسے ادا کیا جائے۔
وصیت کا نفاذ: پھر اگر مرحوم نے کوئی وصیت کی ہو تو کل ترکے کے ایک تہائی حصے تک اسے پورا کیا جائے۔

ان مراحل کے بعد جو منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد بچے گی، اسے ایک روپیہ فرض کر کے شرعی اصولوں کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔

مرحوم محمد کی کل جائیداد = 1 روپیہ

ورثاء اور ان کے حصے

وارث پائیاں آنے
بیوی 00 2
بیٹی 00 8
بھتیجا 00 6
بھتیجی محروم
چچازاد محروم
بہن کی اولاد محروم

جدید طریقہ تقسیم (فیصد اور اعشاریہ نظام)

کل جائیداد = 100 فیصد

بیوی: 1/8 = 12.5%
بیٹی: 1/2 = 50%
بھتیجا (عصبہ): 37.5%
بھتیجی: محروم
چچازاد: محروم
بہن کی اولاد: محروم

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے