سوال
کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ محمد کریم شاہ کا انتقال ہوگیا ہے، جس کی ملکیت جائیداد، زیورات اور نقدی کی صورت میں بینک میں محفوظ ہے۔ اس کے ورثاء میں ایک بیٹی، چار بھائی اور دو بہنیں شامل ہیں۔ بیٹی کا کہنا ہے کہ والد نے اس ملکیت میں سے کچھ حصہ اسے بطور ہبہ دیا تھا۔ برائے کرم وضاحت فرمائیں کہ شریعت کے مطابق ہر ایک کا کتنا حصہ ہوگا؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مذکورہ جائیداد، خواہ منقولہ ہو یا غیر منقولہ، کو شرعی اصولوں کے مطابق اس طرح تقسیم کیا جائے گا:
تقسیم کا طریقہ:
فوت ہونے والی پوری ملکیت کو ایک روپیہ (یعنی ایک مکمل اکائی) فرض کرکے تقسیم کی جائے۔
فوت ہونے والا: محمد کریم شاہ – ملکیت: 1 روپیہ
ورثاء کے حصے:
◈ بیٹی: 50 پائی
◈ بھائی: 10 پائی
◈ بھائی: 10 پائی
◈ بھائی: 10 پائی
◈ بہن: 5 پائی
◈ بہن: 5 پائی
بیٹی کے ہبہ کے دعویٰ کے متعلق:
بیٹی نے جو یہ دعویٰ کیا ہے کہ والد نے کچھ ملکیت اسے ہبہ کی تھی، تو اس دعویٰ کے ثبوت کے لیے اسے گواہ پیش کرنے ہوں گے۔
◈ اگر گواہ پیش نہ کرسکے تو اس سے قسم لی جائے گی۔
◈ اگر وہ قسم کھا لے تو اس کے دعویٰ کے مطابق اسے وہ حصہ دیا جائے گا۔
اعشاری نظام میں تقسیم:
اگر کل ملکیت کو 100 فرض کیا جائے تو تقسیم یوں ہوگی:
◈ بیٹی: 50 (یعنی نصف حصہ)
◈ 4 بھائی: 40 (بطور عصبہ) → فی کس 10
◈ 2 بہنیں: 10 (بطور عصبہ) → فی کس 5
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب