شرعی فیصلہ: تین طلاق اور خلع کے بعد عدت مکمل ہونے پر نکاح کا حکم
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، جلد 1، صفحہ 853

سوال

رپورٹ کے مطابق محمد اسلم ولد سراج دین قوم راجپوت ساکن شہزادہ اسٹریٹ سید پور ملتان روڈ لاہور کا نکاح غزالہ یاسمین دختر غلام الدین قوم راجپوت ساکن سید پور ملتان روڈ لاہور کے ساتھ شریعت محمدی کے مطابق بعوض حق مہر مبلغ بیس ہزار روپے عرصہ تقریباً ساڑھے چھ سال قبل ہوا تھا۔
اس نکاح سے چار بچے پیدا ہوئے جن میں سے ایک فوت ہو چکا ہے جبکہ تین زندہ ہیں۔

بعد ازاں گھریلو ناچاقی کی بنا پر محمد اسلم نے مورخہ 9 اکتوبر 1988ء کو شیخ محمد احسن اسٹام فروش ضلع کچہری لاہور سے 25 روپے کا اسٹام، سیریل نمبر 3566 خریدا، اور اسی اسٹام پر مورخہ 31 اکتوبر 1989ء کو اپنی بیوی غزالہ یاسمین کو تین طلاقیں یعنی "طلاق، طلاق، طلاق مغلظہ” دے کر نکاح سے آزاد کر دیا۔

مورخہ یکم فروری 1990ء تک اس طلاق کو 94 دن (یعنی 3 ماہ اور 4 دن) گزر چکے تھے۔

سوال:

➊ کیا یہ طلاق شرعاً موثر ہوکر نکاح کو ختم کر چکی ہے یا نہیں؟
➋ اگر نکاح ختم ہو چکا ہے تو کیا غزالہ یاسمین دختر غلام الدین کسی دوسرے مسلمان سے شرعاً نکاح کر سکتی ہے؟
➌ یہ بات بھی واضح رہے کہ غزالہ یاسمین نے بطور خلع مہر کی رقم 20,000 روپے اپنے سابق شوہر محمد اسلم کو چھوڑ دی ہے۔
اس صورت میں شرعی فتویٰ صادر فرمایا جائے۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحتِ سوال اور بشرط صحتِ واقعہ، مذکورہ صورتِ حال میں واضح ہے کہ مسمات غزالہ یاسمین دختر غلام الدین راجپوت کا نکاح ٹوٹ چکا ہے۔
کیونکہ بیان کے مطابق 31-10-1989ء کو طلاق دی گئی اور آج 1-2-1990ء ہے، یعنی طلاق کو 94 دن (3 ماہ 4 دن) گزر چکے ہیں۔

طلاق کی عدت — اگر عورت خالی گود (بغیر حمل کے) ہو — تین حیض ہے، اور فیملی لا پاکستان کے مطابق نوّے (90) دن۔
لہٰذا عدت مکمل ہونے کی وجہ سے یہ طلاق شرعاً اور قانوناً مؤثر ہو چکی ہے، اور نکاح کالعدم ہو گیا ہے۔
اب غزالہ یاسمین اپنے سابق شوہر محمد اسلم ولد سراج دین کے نکاح سے آزاد ہو چکی ہے۔

قرآنی دلیل

﴿ وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ …﴿٢٢٨﴾…البقرة ﴾
“طلاق یافتہ عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں۔”

اس آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ خالی گود مطلقہ عورت کی عدت صرف تین حیض ہے۔
لہٰذا اس آیت کے مطابق غزالہ یاسمین کی عدت مکمل ہو چکی اور نکاح ختم ہو گیا۔
اب وہ اپنے مستقبل کے فیصلے میں آزاد ہے۔

چونکہ اس معاملے میں خلع بھی واقع ہو چکی ہے (کیونکہ مہر کی رقم بیس ہزار روپے طلاق کے عوض میں چھوڑ دی گئی ہے)،
لہٰذا خلع کی صورت میں عدت صرف ایک حیض ہے۔

(ملاحظہ ہو: فتاویٰ نذیریہ، جلد 3، صفحہ …)

لہٰذا طلاق اور خلع دونوں کی بنا پر عدت مکمل ہو جانے کے بعد نکاح ختم ہو چکا ہے۔

مزید وضاحت

جب نکاح ختم ہو چکا ہے، تو اہلِ حدیث، احناف اور شیعہ سب کے نزدیک نکاح ٹوٹ چکا شمار ہوتا ہے۔
لہٰذا غزالہ یاسمین اب ولی کی اجازت سے کسی شریف مسلمان مرد سے نکاح کرنے کی شرعاً حق دار ہے۔

مزید قرآنی دلیل

﴿ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ… ﴿٢٢٩﴾…البقرة ﴾
“طلاق دو مرتبہ ہے، اس کے بعد یا تو اچھے طریقے سے روک لینا ہے یا احسن طریقے سے رخصت کر دینا ہے۔”

امام ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں رقم فرماتے ہیں:

أي إذا طلقتها واحدة أو اثنتين فأنت مخير فيها ما دامت عدتها باقية بين أن تردها إليك ناوياً الإصلاح بها والإحسان إليهاوبين أن تتركها حتى تنقضي عدتها فتبين منك.
(تفسیر ابن کثیر، جلد 1، صفحہ 272)

یعنی اگر شوہر نے ایک یا دو طلاقیں دی ہیں، تو عدت باقی رہنے تک رجوع کا حق حاصل ہے،
مگر اگر عدت گزر جائے، تو بیوی عقدِ نکاح سے آزاد ہو جاتی ہے۔

یہ فتویٰ اہلِ حدیث کے مسلک کے مطابق لکھا گیا ہے،
جن کے نزدیک قرآن و حدیث کے مطابق تین طلاقیں ایک رجعی طلاق شمار ہوتی ہیں۔
جبکہ احناف کے نزدیک اکٹھی تین طلاقیں تینوں واقع ہو جاتی ہیں،
لہٰذا ان کے نزدیک عدت کے اندر بھی رجوع جائز نہیں۔

فیصلہ

بشرط صحت سوال و واقعہ،
مندرجہ بالا آیاتِ قرآنیہ اور دلائلِ شرعیہ کی روشنی میں:

یہ طلاق شرعاً اور قانوناً مؤثر ہو چکی ہے۔
عدت مکمل ہونے کی وجہ سے نکاح ختم ہو گیا ہے۔
مسمات غزالہ یاسمین اب اپنے مستقبل کے فیصلے کی شرعاً مجاز ہے۔
✿ وہ ولی کی اجازت سے کسی مسلمان مرد سے نکاح کرنے کا حق رکھتی ہے۔

مفتی کسی بھی قانونی پیچیدگی کا ذمہ دار نہیں ہوگا۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے