شرعاً یتیم کی عمر
بچہ اس وقت تک یتیم خیال کیا جائے گا جب تک وہ بالغ نہ ہو جائے۔
بلوغت کی علامتیں، جن سے اس کی پہچان ہو جاتی ہے، حسب ذیل ہیں:
(1) نیند یا بیداری کی حالت میں شہوت کے ساتھ منی کا نکلنا۔
(2) لڑکا ہو کہ لڑکی، زیر ناف سخت بال اگ آنا۔
(3) لڑکی ہو تو ان علامات کے ساتھ ماہواری کا آنا۔
اگر ان علامات بلوغت میں سے کسی بھی علامت کا ظہور نہ ہو تو علما کے صحیح قول کے مطابق پندرہ سال مکمل ہو جانے پر بچہ بالغ ہو جائے گا، کیونکہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ ان کو غزوۂ احد کے دن آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا، اس وقت ان کی عمر 14 سال تھی، آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت نہ دی، پھر خندق کے دن ان کو آپ کے سامنے لایا گیا، تب ان کی عمر 15 برس تھی تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت مرحمت فرما دی۔
مطلب یہ ہے کہ ان کو اور دیگر چھوٹے بچوں کو سامنے لایا گیا کہ دیکھا جائے کہ ان میں سے کس کی بلوغت ظاہر ہو چکی ہے تاکہ اس کو جنگ کے لیے اجازت دی جائے اور جو بالغ نہیں ہوا اس کو اجازت نہ دی جائے۔ جب ابن عمر کو 14 سال کی عمر میں واپس کر دیا گیا اور پندرہ سال کی عمر میں اجازت دے دی گئی تو یہ اس کی دلیل ہے کہ بلوغت کی عمر 15 برس ہے۔
[اللجنة الدائمة: 4992]