شرعی طور پر ناجائز بیع کی چار وجوہات قرآن و حدیث سے
ماخوذ : احکام و مسائل، خرید و فروخت کے مسائل، جلد 1، صفحہ 388

سوال

ہمارے علاقے میں ایک خاص قسم کی بیع (خرید و فروخت) رائج ہے، جس کی تفصیل کچھ یوں ہے: زید کے پاس 10 بکریاں ہیں جن کی قیمت دس ہزار (10000) روپے ہے۔ زید یہ بکریاں عمرو کو دے دیتا ہے، اور یہ طے کیا جاتا ہے کہ عمرو یہ رقم (10000) روپے زید کو ان بکریوں کے نر بچے بیچ کر ادا کرے گا۔ اس کے بعد یہ معاہدہ ہوتا ہے کہ ان بکریوں اور ان کے پیدا ہونے والے بچوں میں سے آدھی تعداد زید کی ہوگی اور آدھی عمرو کی۔ مثلاً اگر بکریوں کی تعداد بڑھ کر 20 ہو جائے تو زید کے پاس 10 بکریاں ہوں گی اور عمرو کے پاس بھی 10 بکریاں ہوں گی۔

اس بیع کی شرعی حیثیت قرآن و حدیث کی روشنی میں واضح فرمائیں۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ نے جس بیع کی صورت کے بارے میں سوال کیا ہے، اس بیع کی شکل شرعاً ناجائز اور حرام ہے، اور اس کی حرمت کی بنیاد چار شرعی وجوہات پر ہے:

پہلی وجہ: جاہلیت کی بیع "حبل الحبلۃ” سے مشابہت

    • اس بیع میں یہ شرط رکھی گئی ہے کہ:

"ان کی رقم (10000) عمرو زید کو ان کے نر بکرے جو ہوں گے، ان کو بیچ کر ادا کرے گا”

  • یہ شرط جاہلیت کی بیع "حبل الحبلۃ” سے مشابہ ہے، جس سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے۔

حدیث:

"نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ بَيْعِ حَبَلِ الْحَبَلَةِ”
(صحیح بخاری، صحیح مسلم)

دوسری وجہ: ایک بیع میں دو شرطیں موجود ہیں

  • پہلی شرط: نر بکرے فروخت کر کے رقم ادا کی جائے گی۔
  • دوسری شرط: بکریوں اور ان کے بچوں میں سے آدھا حصہ زید کو ملے گا۔

حدیث:

"نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ بَيْعٍ فِيهِ شَرْطَانِ”
(سنن ابی داود، سنن ترمذی، سنن نسائی)
یعنی رسول اللہ ﷺ نے ایسی بیع سے منع فرمایا جس میں دو شرطیں ہوں۔

تیسری وجہ: ایک بیع میں دو بیعیں شامل ہیں

  • اس معاہدہ میں دو بیعیں موجود ہیں:
    1. نقد قیمت پر بیع (10000 روپے میں بکریاں)
    2. ادھار مع منافع (بکریاں + ان کے بچے، جن میں نصف حصہ زید کا ہوگا)
  • رسول اللہ ﷺ نے ایک ہی بیع میں دو بیعیں کرنے سے منع فرمایا ہے۔

حدیث:

"مَنْ بَاعَ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ فَلَهُ أَوْكَسُهُمَا أَوِ الرِّبَا”
(سنن ابی داود)
یعنی "جو ایک بیع میں دو بیعیں کرتا ہے، اس کے لیے دونوں میں سے کم قیمت ہے یا وہ سود ہے۔”

چوتھی وجہ: یہ معاملہ سود پر مشتمل ہے

  • دس ہزار روپے بکریوں کی قیمت طے کی گئی، مگر کچھ عرصہ بعد عمرو زید کو نہ صرف دس ہزار روپے دے گا بلکہ بکریوں کے بچوں میں سے نصف حصہ بھی دے گا۔
  • یہ زائد منافع سود کے زمرہ میں شامل ہوتا ہے۔

حدیث:

"مَنْ بَاعَ بَيْعَتَيْنِ فِیْ بَيْعَةٍ فَلَهُ أَوْکَسُهُمَا أَوِ الرِّبَا”
(سنن ابی داود)

نتیجہ:

  • شرعاً ناجائز
  • حرام
  • اور سود پر مبنی ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیکی اور شریعت کی پیروی کی توفیق عطا فرمائے۔

آمین یا رب العالمین

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے