شرعی اصولوں کے مطابق وراثت کی تقسیم: بیٹے، بیٹی اور پوتے پوتیاں
ماخوذ : فتاویٰ راشدیہ، صفحہ نمبر 663

سوال

کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص وجیہ الدین وفات پا گیا، جس نے اپنے پیچھے وارث چھوڑے:

✿ دو بیٹے: رب رکھا اور سائیں رکھا
✿ ایک بیٹی: حور
✿ چھ پوتے اور چھ پوتیاں

بتائیں کہ شریعت محمدی کے مطابق ہر ایک وارث کو کتنا حصہ ملے گا؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

معلوم ہونا چاہیے کہ سب سے پہلے مرحوم وجیہ الدین کی ملکیت میں سے درج ذیل ترتیب اختیار کی جائے گی:

➊ سب سے پہلے کفن دفن کا خرچ نکالا جائے۔
➋ پھر اگر مرحوم پر قرض ہو تو اسے ادا کیا جائے۔
➌ اس کے بعد اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی تھی تو مکمل جائیداد کے ثلث (تیسرے) حصے تک سے ادا کی جائے۔
➍ ان امور کے بعد باقی رہ جانے والی متحرک و غیر متحرک ملکیت کو ایک روپیہ فرض کر کے ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا۔

تقسیمِ میراث

مرحوم وجیہ الدین کی ملکیت = 1 روپیہ

وارث پائیاں آنے
بیٹا رب رکھا 04 06
بیٹا سائیں رکھا 04 06
بیٹی حور 02 03
چھ پوتے محروم
چھ پوتیاں محروم

نوٹ: باقی 2 پائیاں بچ گئیں۔ ان کے 5 حصے کر کے ہر بیٹے کو 2 حصے اور بیٹی کو 1 حصہ دیا جائے گا۔

جدید اعشاریہ فیصد طریقہ تقسیم

کل ملکیت = 100

2 بیٹے (عصبہ) = 80 → فی کس 40
1 بیٹی (عصبہ) = 20
6 پوتے = محروم
6 پوتیاں = محروم

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے