شرعی اصولوں کے مطابق وراثت کی تقسیم
ماخوذ : فتاویٰ راشدیہ، صفحہ نمبر 607

سوال

کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ:

محمد عثمان فوت ہوگیا اور وارث چھوڑے:

◄ ایک بیٹا محمد صدیق
◄ ایک بیٹی

اس کے بعد محمد صدیق فوت ہوگیا، جس نے وارث چھوڑے:

◄ دو بیویاں: ست بائی اور خیربانو
◄ ایک بیٹا: سکندر
◄ ایک بہن

بتائیں کہ شریعت محمدی کے مطابق ہر ایک کو کتنا حصہ ملے گا؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ سب سے پہلے فوت ہونے والے کی ملکیت سے درج ذیل ترتیب میں تصرف کیا جائے گا:

➊ سب سے پہلے مرحوم کے کفن دفن کا خرچ نکالا جائے۔
➋ پھر اگر کوئی قرض ہے تو وہ ادا کیا جائے۔
➌ اس کے بعد اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہے تو وہ اس کے مال کے ایک تہائی (1/3) تک پوری کی جائے۔

اس کے بعد باقی مال کو مرحوم کی میراث مان کر تقسیم کیا جائے گا۔

پہلی تقسیم (محمد عثمان کی میراث)

فوت ہونے والے محمد عثمان کی کل ملکیت: 1 روپیہ

◄ بیٹا محمد صدیق = 10 آنے 8 پائیاں
◄ بیٹی = 5 آنے 4 پائیاں

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿لِلذَّكَرِ‌ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ﴾

دوسری تقسیم (محمد صدیق کی میراث)

محمد صدیق اپنے والد سے حصہ لے کر فوت ہوا۔ اس کی ملکیت تھی: 8 پائیاں 10 آنے

اس کے وارث ہیں:

◄ بیوی ست بائی = 8 پائی
◄ بیوی خیربانو = 8 پائی
◄ بیٹا سکندر = 9 آنے 4 پائی
◄ بہن = محروم

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ﴾

جدید اعشاریہ نظام تقسیم

محمد عثمان کی کل ملکیت: 100

◄ بیٹا (محمد صدیق) = عصبہ 66.66
◄ بیٹی = عصبہ 33.34

محمد صدیق کی کل ملکیت: 66.66

◄ دو بیویاں (مجموعہ 1/8 = 8.332)
• فی کس = 4.166
◄ بیٹا (سکندر) = عصبہ 58.328
◄ بہن = محروم

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے