شرعی اصولوں کے مطابق مسجد کی تعمیر کا فتویٰ
ماخوذ : فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری جلد نمبر 1، صفحہ نمبر 184

باب تعمیر المساجد کی وضاحت

سوال:

باب "تعمیر المساجد” کی وضاحت فرمائیں۔

جواب:

الحمد للہ، والصلاة والسلام علی رسول اللہ، أما بعد!

درج بالا سوال کے جواب میں مختصر مگر واضح بات یہ ہے کہ:

  • مسجد کی تعمیر، چاہے وہ عمر کرے یا بکر، یا کوئی زاہد (پرہیزگار) شخص انجام دے، اس وقت شرعاً درست نہیں ہوگی جب وہ زمین غصب شدہ ہو۔
  • زمین کے مالک اگر خالد ہیں، تو ان کی اجازت کے بغیر اس زمین پر کسی صورت مسجد تعمیر نہیں کی جا سکتی۔

غصب شدہ زمین پر مسجد کی تعمیر کا حکم

  • ◈ اگر مسجد کی تعمیر بغیر اجازت کی گئی ہو، تو وہ زمین مغصوبہ (غصب شدہ) قرار پائے گی۔
  • ◈ فقہ کی روایت کے مطابق:

"ويجب ….. فى مكان غصبه”
(کذا فى كنز الدقائق وغيره من كتب الفقه والدرالمختار)

اس کے مطابق مغصوبہ زمین پر تعمیر کی گئی مسجد شرعی طور پر مسجد نہیں بنتی۔

مالکِ زمین کا اختیار

  • ◈ اگر زید یا دیگر افراد زمین واپس کر دیں تو بہتر ہے۔
  • ◈ لیکن اگر وہ زمین واپس نہ کریں تو خالد (مالک زمین) کو مکمل حق حاصل ہے کہ وہ اس تعمیر شدہ مسجد کو منہدم (مسمار) کر دے۔
  • ◈ اس عمل پر شرعی طور پر کوئی اختلاف نہیں ہوتا کیونکہ:
    • ❀ وہ مسجد، مسجد شرعی نہیں
    • ❀ اس کی بنیاد غصب شدہ زمین پر ہے
    • ❀ ایسی مسجد حرام اور خبیث جگہ پر تعمیر ہوئی ہے
    • ❀ اللہ تعالیٰ ایسی چیز کی طرف متوجہ نہیں ہوتے، بلکہ وہ صرف طیب (پاکیزہ) چیز کو قبول فرماتے ہیں

حدیث مبارکہ

"من أخذ شبراً من الارض ظلما، فإنه يطوقه يوم القيامة سبع أرضين”
(رواه البخارى – کتاب بدء الخلق باب ماجاء فی سبع ارضین 3/74، کتاب المظالم باب اثم من ظلم شیئا من الارض 2؍100)

یعنی: جس نے ایک بالشت زمین بھی ناحق لی، وہ قیامت کے دن سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا۔

نتیجہ

لہٰذا ایسی مسجد شرعاً درست اور معتبر نہیں ہے جو غصب شدہ زمین پر تعمیر کی گئی ہو، اور مالک کو مکمل اختیار حاصل ہے کہ اسے منہدم کر دے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1