اس مضمون میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک عظیم جامع حدیث کی شرح پیش کی جا رہی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار بنیادی امور کو نہایت وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے:
➊ گناہوں کو مٹانے والے اعمال (الکفّارات)
➋ درجات میں بلندی کا سبب بننے والے اعمال (الدرجات)
➌ نجات دینے والے اعمال (المنجیات)
➍ ہلاکت کا سبب بننے والے اعمال (المہلکات)
یہ مختصر مگر انتہائی وسیع معانی رکھنے والی حدیث ہر مسلمان کے لیے ایک مکمل اصلاحی نصاب فراہم کرتی ہے۔ اس مضمون میں ہم اس حدیث کے ہر حصے کی تفصیلی وضاحت کریں گے، متعلقہ دیگر احادیث اور قرآنی آیات کے ساتھ۔
حدیث
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( ثَلَاثٌ کَفَّارَاتٌ ، وَثَلَاثٌ دَرَجَاتٌ ، وَثَلَاثٌ مُنْجِیَاتٌ ، وَثَلَاثٌ مُہْلِکَاتٌ ))
“تین چیزیں گناہوں کا کفارہ ہیں، تین چیزیں درجات میں بلندی کا ذریعہ ہیں، تین چیزیں نجات دینے والی ہیں اور تین چیزیں ہلاکت کا سبب بنتی ہیں۔”
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی وضاحت فرمائی:
❶ الکفّارات
(( فَأَمَّا الْکَفَّارَاتُ : فَإِسْبَاغُ الْوُضُوْءِ فِی السَّبَرَاتِ ، وَانْتِظَارُ الصَّلَاۃِ بَعْدَ الصَّلَاۃِ ، وَنَقْلُ الْأَقْدَامِ إِلَی الْجَمَاعَاتِ ))
“گناہوں کا کفارہ بننے والے امور یہ ہیں:
➊ شدید سردی میں مکمل وضو کرنا
➋ ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا
➌ جماعت کے ساتھ نماز کے لیے قدم اٹھانا”
❷ الدرجات
(( وَأَمَّا الدَّرَجَاتُ فَإِطْعَامُ الطَّعَامِ ، وَإِفْشَاءُ السَّلَامِ ، وَالصَّلَاۃُ بِاللَّیْلِ وَالنَّاسُ نِیَامٌ ))
“اور درجات بلند کرنے والے اعمال یہ ہیں:
➊ کھانا کھلانا
➋ سلام کو عام کرنا
➌ رات کے وقت نماز پڑھنا جبکہ لوگ سو رہے ہوں”
❸ المنجیات
(( وَأَمَّا الْمُنْجِیَاتُ فَالْعَدْلُ فِی الْغَضَبِ وَالرِّضَا، وَالْقَصْدُ فِی الْفَقْرِ وَالْغِنَی، وَخَشْیَۃُ اللّٰہِ فِی السِّرِّ وَالْعَلَانِیَۃِ ))
“نجات دینے والے اعمال یہ ہیں:
➊ غصے اور رضامندی دونوں حالتوں میں عدل کرنا
➋ فقر اور غنا دونوں حالتوں میں میانہ روی اختیار کرنا
➌ خلوت و جلوت ہر حال میں اللہ سے ڈرنا”
❹ المہلکات
(( وَأَمَّا الْمُہْلِکَاتُ فَشُحٌّ مُطَاعٌ ، وَہَوًی مُتَّبَعٌ ، وَإِعْجَابُ الْمَرْءِ بِنَفْسِہ ))
“اور ہلاکت کا سبب بننے والے اعمال یہ ہیں:
➊ وہ لالچ جس کی اطاعت کی جائے
➋ وہ خواہش جس کی پیروی کی جائے
➌ انسان کا اپنی ذات پر فریفتہ ہونا (خود پسندی)”
رواہ البزار، وقال الألبانی فی صحیح الترغیب والترہیب: 453 حسن لغیرہ
احادیث کے تراجم
اب ذیل میں ہر عربی حدیث کا صحیح ترجمہ دیا جاتا ہے، یعنی ترجمہ کہیں بھی نہیں چھوڑا جائے گا۔
● حدیث کا ترجمہ (جلالت کے ساتھ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“تین چیزیں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں، تین چیزیں درجات کو بلند کرتی ہیں، تین چیزیں نجات دینے والی ہیں اور تین چیزیں انسان کو ہلاک کر دینے والی ہیں۔”
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“گناہوں کے کفارے یہ ہیں: سخت سردی میں اچھی طرح وضو کرنا، ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا، اور جماعت کے ساتھ نماز کے لیے چل کر جانا۔
درجات بلند کرنے والے اعمال یہ ہیں: کھانا کھلانا، سلام کو عام کرنا، اور رات میں نماز پڑھنا جبکہ لوگ سو رہے ہوں۔
نجات دینے والے اعمال یہ ہیں: غصہ اور خوشی دونوں میں عدل کرنا، فقر اور غنا دونوں میں میانہ روی اختیار کرنا، اور خلوت و جلوت میں اللہ کا خوف رکھنا۔
اور ہلاکت میں ڈالنے والے اعمال یہ ہیں: ایسا لالچ جس کی پیروی کی جائے، ایسی خواہش جس کے پیچھے انسان لگ جائے، اور اپنی ذات پر فریفتگی۔”
کفّارات — گناہوں کو مٹانے والے اعمال
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث میں گناہوں کے کفارے بننے والے تین عظیم اعمال کا ذکر فرمایا:
➊ سخت سردی میں مکمل وضو کرنا
➋ ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا
➌ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے مسجد کی طرف پیدل جانا
یہ وہ اعمال ہیں جن کے بارے میں آسمان کے مقرب فرشتے بھی باہم گفتگو کرتے ہیں اور ان اعمال پر عمل کرنے والوں کے لیے رحمت و مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔
▣ فرشتوں کی باہمی گفتگو والی حدیث
(( أَتَانِی اللَّیْلَۃَ رَبِّیْ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی فِیْ أَحْسَنِ صُوْرَۃٍ ۔ قَالَ : أَحْسِبُہُ فِی الْمَنَامِ ۔ فَقَالَ : یَا مُحَمَّدُ ! ہَلْ تَدْرِیْ فِیْمَ یَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلٰی ؟ ))
…
(( یَا مُحَمَّدُ ! ہَلْ تَدْرِیْ فِیْمَ یَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَی؟ ))
…
(( وَالْکَفَّارَاتُ : الْمُکْثُ فَی الْمَسَاجِدِ بَعْدَ الصَّلَوَاتِ ، وَالْمَشْیُ عَلَی الْأَقْدَامِ إِلَی الْجَمَاعَاتِ ، وَإِسْبَاغُ الْوُضُوْءِ فِی الْمَکَارِہِ ))
…
(( وَمَنْ فَعَلَ ذَلِکَ عَاشَ بِخَیْرٍ وَمَاتَ بِخَیْرٍ ، وَکَانَ مِنْ خَطِیْئَتِہٖ کَیَوْمِ وَلَدَتْہُ أُمُّہُ ))
ترجمہ
“میری رات میرے رب تبارک و تعالیٰ بہترین صورت میں میرے پاس آیا (راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ خواب میں)، اور فرمایا: اے محمد! کیا آپ جانتے ہیں کہ بلند درجے والے فرشتے کس چیز میں بحث کر رہے ہیں؟
میں نے عرض کیا: نہیں۔
اللہ نے اپنا ہاتھ میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھا جس کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے میں محسوس کی، اور مجھے آسمان و زمین کی ساری چیزوں کا علم عطا کر دیا۔ پھر اللہ نے دوبارہ فرمایا: اے محمد! کیا آپ جانتے ہیں کہ بلند مرتبہ فرشتے کس چیز میں گفتگو کر رہے ہیں؟
میں نے عرض کیا: جی ہاں… کفّارات اور درجات کے بارے میں۔
اور کفارات یہ ہیں:
— نمازوں کے بعد مسجد میں بیٹھے رہنا
— جماعت کی طرف قدم اٹھانا
— سخت تکلیف یا سردی میں اچھی طرح وضو کرنا
پھر فرمایا: جو شخص ان اعمال کو ہمیشہ کرے گا وہ بھلائی کے ساتھ زندگی گزارے گا اور بھلائی ہی پر اس کی موت آئے گی، اور وہ اپنے گناہوں سے اس دن کی طرح پاک ہو جائے گا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔”
جامع الترمذی 3233، 3234 — وصححہ الألبانی
▣ دعا جو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو سکھائی
(( اَللّٰہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ، وَتَرْکَ الْمُنْکَرَاتِ، وَحُبَّ الْمَسَاکِیْنَ، وَإِذَا أَرَدْتَّ بِعِبَادِکَ فِتْنَۃً فَاقْبِضْنِی إِلَیْکَ غَیْرَ مَفْتُونٍ ))
ترجمہ
“اے اللہ! میں تجھ سے نیک اعمال کی توفیق، برائیوں کو چھوڑنے کی توفیق، اور مسکینوں سے محبت مانگتا ہوں، اور جب تو اپنے بندوں کے لیے کسی فتنے کا ارادہ کرے تو مجھے (اس فتنہ میں پڑنے سے پہلے) اپنی طرف اٹھا لے جبکہ میں فتنے میں مبتلا نہ ہوا ہوں۔”
▣ کفارات نہ صرف گناہ مٹاتے ہیں بلکہ نیکیاں بڑھاتے بھی ہیں
حدیثِ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ
(( أَلَا أَدُلُّکُمْ مَا یُکَفِّرُ اللّٰہُ بِہِ الْخَطَایَا وَیَزِیْدُ بِہِ فِی الْحَسَنَاتِ ؟ ))
…
(( إِسْبَاغُ الْوُضُوْءِ عَلَی الْمَکَارِہِ، وَکَثْرَۃُ الْخُطَا إِلَی ہٰذِہِ الْمَسَاجِدِ، وَانْتِظَارُ الصَّلَاۃِ بَعْدَ الصَّلَاۃِ ))
…
(( اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لَہُ، اَللّٰہُمَّ ارْحَمْہ ))
ترجمہ
“کیا میں تمہیں وہ اعمال نہ بتاؤں جن کے ذریعے اللہ گناہوں کو مٹاتا ہے اور نیکیوں میں اضافہ فرماتا ہے؟
(یہ تین اعمال ہیں:)
— سخت سردی یا مشکل وقت میں اچھی طرح وضو کرنا
— مسجدوں کی طرف زیادہ قدم اٹھانا
— ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا
اور جو شخص مسجد میں نماز پڑھ کر دوسری نماز کے انتظار میں بیٹھا رہتا ہے، فرشتے اس کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں:
‘اے اللہ! اسے بخش دے، اے اللہ! اس پر رحم فرما’”
مسند احمد 11007 — وصححہ الأرنؤوط
▣ کفارات کے ذریعے جہاد کی تیاری
حدیثِ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ
(( أَلَا أَدُلُّکُمْ عَلٰی مَا یَمْحُو اللّٰہُ بِہِ الْخَطَایَا وَیَرْفَعُ بِہِ الدَّرَجَاتِ ؟ ))
…
(( إِسْبَاغُ الْوُضُوْءِ عَلَی الْمَکَارِہِ ، وَکَثْرَۃُ الْخُطَا إِلَی الْمَسَاجِدِ ، وَانْتِظَارُ الصَّلَاۃِ بَعْدَ الصَّلَاۃِ ، فَذَلِکُمُ الرِّبَاطُ، فَذَلِکُمُ الرِّبَاطُ، فَذَلِکُمُ الرِّبَاطُ ))
ترجمہ
“کیا میں تمہیں ایسے اعمال نہ بتاؤں جن سے اللہ گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور درجات بلند کرتا ہے؟
(یہ تین اعمال ہیں:)
— مشکل وقت میں اچھی طرح وضو کرنا
— مسجدوں کی طرف زیادہ قدم اٹھانا
— ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا
پھر فرمایا: یہی رباط (جہاد کی تیاری) ہے، یہی رباط ہے، یہی رباط ہے۔”
صحیح مسلم 251، جامع الترمذی 51، سنن النسائی 143
وضو کی فضیلت گناہوں کا زوال اور نورِ قیامت
▣ حدیث: جسم سے گناہوں کا نکل جانا
(( مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوْءَ ، خَرَجَتْ خَطَایَاہُ مِنْ جَسَدِہٖ حَتّٰی تَخْرُجَ مِنْ تَحْتِ أَظْفَارِہ ))
صحیح مسلم: 245
اردو ترجمہ
“جو شخص اچھی طرح وضو کرتا ہے اس کے جسم سے گناہ نکل جاتے ہیں، یہاں تک کہ اس کے ناخنوں کے نیچے سے بھی خارج ہو جاتے ہیں۔”
▣ حدیث: مکمل وضو سے پچھلے گناہ معاف
(( مَنْ تَوَضَّأَ ہٰکَذَا غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ ، وَکَانَتْ صَلَاتُہُ وَمَشْیُہُ إِلَی الْمَسْجِدِ نَافِلَۃً ))
صحیح مسلم: 229
ترجمہ
“جو شخص میرے وضو کی طرح وضو کر لے، اس کے پچھلے گناہ بخش دیے جاتے ہیں، اور اس کی نماز اور مسجد کی طرف چل کر جانا نفل عبادت شمار ہوتا ہے۔”
▣ حدیث: قیامت کے دن اہلِ وضو کے چہرے چمکتے ہوں گے
(( أَنْتُمُ الْغُرُّ الْمُحَجَّلُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنْ إِسْبَاغِ الْوُضُوْءِ ، فَمَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ فَلْیُطِلْ غُرَّتَہُ وَتَحْجِیْلَہ ))
صحیح مسلم: 246
ترجمہ
“مکمل وضو کرنے کی وجہ سے تم قیامت کے دن چمکتے ہوئے چہروں اور روشن ہاتھ پاؤں کے ساتھ اٹھو گے، لہٰذا جسے استطاعت ہو وہ اپنی چمک کو زیادہ کرے۔”
مسجد میں باجماعت نماز اور وہاں قدم بڑھانے کے فضائل
▣ مسجد تک اٹھایا گیا ہر قدم درجہ بلند کرتا ہے
(( صَلَاۃُ الرَّجُلِ فِیْ جَمَاعَۃٍ تَزِیْدُ عَلیٰ صَلاَتِہٖ فِیْ بَیْتِہٖ وَصَلاَتِہٖ فِیْ سُوْقِہٖ بِضْعًا وَّعِشْرِیْنَ دَرَجَۃ ))
…
(( فَلَمْ یَخْطُ خُطْوَۃً إِلَّا رُفِعَ لَہُ بِہَا دَرَجَۃٌ ، وَحُطَّ عَنْہُ بِہَا خَطِیْئَۃٌ ))
صحیح بخاری: 2119، صحیح مسلم: 649
ترجمہ
“آدمی کی جماعت کے ساتھ نماز اُس کی گھر اور بازار کی نماز سے بیس سے زیادہ درجات بڑھ جاتی ہے۔
اور جب مسلمان اچھی طرح وضو کر کے صرف نماز کی نیت سے مسجد آتا ہے، تو اس کے ہر قدم پر ایک درجہ بلند کر دیا جاتا ہے اور ایک گناہ مٹا دیا جاتا ہے۔”
▣ نماز کے انتظار میں بیٹھے رہنے والے کے لیے فرشتوں کی دعا
(( وَالْمَلَائِکَۃُ یُصَلُّوْنَ عَلیٰ أَحَدِکُمْ مَادَامَ فِیْ مَجْلِسِہِ الَّذِیْ صَلّٰی فِیْہِ
یَقُوْلُوْنَ : اَللّٰہُمَّ ارْحَمْہُ ، اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لَہُ ، اَللّٰہُمَّ تُبْ عَلَیْہ ))
ترجمہ
“اور جب تک وہ اپنی جگہ نماز کے انتظار میں بیٹھا رہتا ہے، فرشتے اس کے لیے مسلسل دعا کرتے رہتے ہیں:
‘اے اللہ! اس پر رحم فرما۔
اے اللہ! اسے بخش دے۔
اے اللہ! اس کی توبہ قبول فرما۔’”
✦ مسجد کی طرف بار بار جانا — جنت میں خاص مہمان نوازی
حدیث
(( مَنْ غَدَا إِلَی الْمَسْجِدِ أَوْ رَاحَ ، أَعَدَّ اللّٰہُ لَہُ فِی الْجَنَّۃِ نُزُلًا ، کُلَّمَا غَدَا أَوْ رَاحَ ))
صحیح بخاری: 662، صحیح مسلم: 669
ترجمہ
“جو شخص صبح یا شام مسجد کی طرف جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں مہمان نوازی تیار کرتا ہے، ہر مرتبہ جب وہ جاتا ہے — صبح یا شام۔”
✦ باجماعت نماز کی فضیلت — درجہ میں 27 گنا اضافہ
رسول اللہ ﷺ کی احادیث سے ثابت ہے کہ باجماعت نماز تنہا نماز سے ستائیس گنا افضل ہے۔
یہ فضیلت وضو، چل کر مسجد آنے، اور نماز کے انتظار کے پورے عمل کو فضائل کے ایک سلسلے میں تبدیل کر دیتی ہے۔
الدرجات — درجات میں بلندی کے اعمال
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث میں تین اعمال کو انسان کے درجے بلند کرنے کا ذریعہ قرار دیا:
➊ اطعام الطعام (کھانا کھلانا)
➋ افشاء السلام (سلام کو عام کرنا)
➌ قیام اللیل (رات کی نماز)
یہ تینوں اعمال نہ صرف آخرت میں درجات بلند کرتے ہیں بلکہ دنیا میں بھی محبت، تعلق، رحمت اور تقویٰ کا سبب بنتے ہیں۔
❖ پہلا عمل: کھانا کھلانا (إطعام الطعام)
اسلام میں دوسروں کو کھلانا انتہائی عظیم نیکی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے متعدد مواقع پر اس عمل کو جنت کا راستہ قرار دیا۔
▣ حدیث: سلام پھیلانا اور کھانا کھلانا — محبت کا ذریعہ
(( وَالَّذِیْ نَفْسِی بِیَدِہِ لَا تَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ حَتّٰی تُؤْمِنُوْا ، وَلَا تُؤْمِنُوْا حَتّٰی تَحَابُّوْا ، أَوَلَا أَدُلُّکُمْ عَلٰی شَیْئٍ إِذَا فَعَلْتُمُوْہُ تَحَابَبْتُمْ ؟ أَفْشُوا السَّلَامَ بَیْنَکُمْ ))
صحیح مسلم: 54
ترجمہ
“قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم جنت میں داخل نہ ہو گے جب تک ایمان نہ لے آؤ، اور تمہارا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا جب تک تم ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔ کیا میں تمہیں ایسا عمل نہ بتاؤں جسے کرو گے تو آپس میں محبت پیدا ہو جائے گی؟ اپنے درمیان سلام کو عام کرو۔”
▣ حدیث: اطعام الطعام اور قیام اللیل — جنت میں سلامتی سے داخلہ
(( یَا أَیُّہَا النَّاسُ! أَفْشُوْا السَّلَامَ، وَأَطْعِمُوْا الطَّعَامَ، وَصِلُوا الْأَرْحَامَ، وَصَلُّوْا بِاللَّیْلِ وَالنَّاسُ نِیَامٌ، تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ بِسَلَامٍ ))
سنن ابن ماجہ: 1334، 3251 — وصححہ الألبانی
ترجمہ
“اے لوگو! سلام پھیلاؤ، لوگوں کو کھانا کھلاؤ، رشتہ داری جوڑو، اور رات کو اس وقت نماز پڑھو جب لوگ سو رہے ہوں — (اگر یہ کام کرو گے) تو سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔”
▣ حدیث: جنت کے شفاف محلات — کن کے لیے؟
(( إِنَّ فِیْ الْجَنَّۃِ غُرَفًا یُرٰی ظَاہِرُہَا مِنْ بَاطِنِہَا، وَبَاطِنُہَا مِنْ ظَاہِرِہَا، أَعَدَّہَا اللّٰہُ لِمَنْ أَطْعَمَ الطَّعَامَ، وَأَلَانَ الْکَلَامَ، وَتَابَعَ الصِّیَامَ، وَصَلَّی بِاللَّیْلِ وَالنَّاسُ نِیَامٌ ))
مسند احمد، ابن حبان؛ صحیح الجامع: 2123
ترجمہ
“جنت میں ایسے کمرے ہیں جن کا اندر باہر سے اور باہر اندر سے نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ان لوگوں کے لیے تیار کیا ہے جو کھانا کھلاتے ہیں، نرم گفتگو کرتے ہیں، مسلسل روزے رکھتے ہیں، اور رات کو اس وقت نماز پڑھتے ہیں جب لوگ سو رہے ہوں۔”
❖ دوسرا عمل: سلام کو عام کرنا (إفشاء السلام)
سلام محبت بڑھاتا، دل صاف کرتا، اور تکبر ختم کرتا ہے۔ حدیث میں سلام کی فضیلت اتنی زیادہ ہے کہ اسے ایمان کی تکمیل تک قرار دیا گیا ہے۔
▣ سلام کے الفاظ بڑھانے سے نیکیاں بڑھتی ہیں
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
ایک آدمی نے کہا: السلام علیکم — آپ ﷺ نے فرمایا: “دس نیکیاں”
دوسرے نے کہا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ — آپ ﷺ نے فرمایا: “بیس نیکیاں”
تیسرے نے کہا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ — آپ ﷺ نے فرمایا: “تیس نیکیاں”
جامع الترمذی: 2689، ابو داود: 5195 — وصححہ الألبانی
ترجمہ
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ سلام کے الفاظ جتنے زیادہ بڑھاؤ گے، ثواب اسی قدر بڑھتا جائے گا — 10، پھر 20، پھر 30 نیکیاں۔
❖ تیسرا عمل: قیام اللیل (رات کی نماز)
رات کے وقت جب لوگ غفلت کی نیند سو رہے ہوتے ہیں، اللہ کے بندے اٹھ کر رب کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ عبادت ایمان والوں کے لیے قربِ الٰہی کا عظیم ذریعہ ہے۔
▣ قیام اللیل — نیکوں کی عادت
(( عَلَیْکُمْ بِقِیَامِ اللَّیْلِ، فَإِنَّہُ دَأْبُ الصَّالِحِیْنَ قَبْلَکُمْ، وَہُوَ قُرْبَۃٌ إِلَی رَبِّکُمْ، وَمُکَفِّرٌ لِلسَّیِّئَاتِ، وَمَنْہَاۃٌ لِلْآثَامِ ))
جامع الترمذی: 3549 — وحسنہ الألبانی
ترجمہ
“قیام اللیل کو لازم پکڑو، کیونکہ یہ تم سے پہلے نیک لوگوں کا طریقہ تھا۔ یہ تمہارے رب کا قرب عطا کرتا ہے، گناہوں کا کفارہ بنتا ہے، اور گناہوں سے روکنے کا ذریعہ ہے۔”
❖ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی مثال — ایک دن میں چار اعلیٰ اعمال
نبی ﷺ نے پوچھا:
“آج تم میں سے کس نے روزہ رکھا؟”
ابو بکرؓ نے کہا: میں نے۔
“کس نے جنازے میں شرکت کی؟”
ابو بکرؓ نے کہا: میں نے۔
“کس نے مسکین کو کھانا کھلایا؟”
ابو بکرؓ نے کہا: میں نے۔
“کس نے مریض کی عیادت کی؟”
ابو بکرؓ نے کہا: میں نے۔
پھر آپ ﷺ نے فرمایا:
(( مَا اجْتَمَعْنَ فِی امْرِیٍٔ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّۃَ ))
صحیح مسلم: 1028
ترجمہ
“یہ چار عمل جس شخص میں ایک ہی دن جمع ہو جائیں وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا۔”
المنجیات — نجات دینے والے اعمال
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین اعمال ایسے ہیں جو انسان کو دنیا و آخرت میں تباہی سے بچاتے اور نجات دیتے ہیں:
➊ العدل فی الغضب و الرضا — غصہ اور خوشی دونوں میں عدل
➋ القصد فی الفقر و الغنی — فقر اور غنی دونوں میں میانہ روی
➌ خشیت اللہ فی السر والعلانیۃ — خلوت و جلوت میں اللہ کا خوف
یہ تینوں اوصاف انسان کے اخلاق، کردار، معاملات اور عبادت کو کامل بناتے ہیں اور اسے ظالم، بے قابو، ہوس پرست، اور غافل انسان بننے سے بچاتے ہیں۔
➊ غصہ اور رضا دونوں میں عدل وانصاف
انسان جب غصے میں ہوتا ہے تو اکثر حد سے تجاوز کر بیٹھتا ہے، اور جب خوشی میں ہوتا ہے تو حد سے آگے بڑھ جاتا ہے۔
شریعت کا حکم یہ ہے کہ انسان ہر حالت میں عدل قائم رکھے — نہ شدت کے وقت ظلم کرے، نہ خوشی میں کسی کو اس کے حد سے زیادہ مقام دے۔
▣ آیت: دشمنی بھی عدل چھوڑنے نہ دے
﴿ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا کُونُوا قَوَّامِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلٰی أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا ہُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ﴾
المائدۃ 5:8
ترجمہ
“اے ایمان والو! اللہ کی خاطر مضبوطی سے قائم رہنے والے اور عدل کے ساتھ گواہی دینے والے بنو۔ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر نہ اُبھارے کہ تم عدل کو چھوڑ دو۔ عدل کیا کرو، یہی تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔”
▣ آیت: حق والدین، رشتہ داروں اور خود اپنے خلاف بھی عدل
﴿ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا کُونُوا قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَاءَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰی أَنْفُسِکُمْ أَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالْأَقْرَبِیْنَ … ﴾
النساء 4:135
ترجمہ
“اے ایمان والو! انصاف پر مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے اللہ کے لیے گواہی دیا کرو، خواہ یہ گواہی تمہارے اپنے خلاف ہو، یا والدین کے خلاف یا قرابت داروں کے خلاف۔ چاہے کوئی امیر ہو یا فقیر، اللہ ان دونوں کا زیادہ خیر خواہ ہے۔ پس خواہش نفس کی پیروی کرتے ہوئے عدل کو نہ چھوڑو۔”
▣ آیت: اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے
﴿ وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ﴾
الحجرات 49:9
ترجمہ
“اور انصاف کیا کرو، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔”
▣ حدیث: عدل کرنے والوں کے لیے نور کے منبر
(( إِنَّ الْمُقْسِطِیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ عَلٰی مَنَابِرَ مِن نُّوْرٍ عَنْ یَمِیْنِ الرَّحْمٰنِ… ))
صحیح مسلم: 1827
ترجمہ
“بے شک انصاف کرنے والے اللہ تعالیٰ کے ہاں نور کے منبروں پر ہوں گے جو رحمٰن کے دائیں جانب ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے فیصلوں میں، اپنے اہل و عیال میں اور اپنے ماتحت لوگوں میں انصاف کرتے ہیں۔”
➋ غربت اور مالداری دونوں میں میانہ روی (القصد)
اسلام انسان کو نہ تو فضول خرچی کی اجازت دیتا ہے، نہ کنجوسی کی۔
چاہے انسان غریب ہو یا مالدار — دونوں حالتوں میں اعتدال لازم ہے۔
▣ آیت: خرچ میں نہ اسراف، نہ بخل
﴿ وَالَّذِیْنَ إِذَا أَنْفَقُوا لَمْ یُسْرِفُوا وَلَمْ یَقْتُرُوا وَکَانَ بَیْنَ ذَلِکَ قَوَامًا ﴾
الفرقان 25:67
ترجمہ
“اور وہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ کنجوسی، بلکہ ان کا خرچ ان دونوں کے درمیان ہوتا ہے (یعنی اعتدال کے ساتھ)۔”
▣ آیت: بخل بھی نہیں، اسراف بھی نہیں
﴿ وَلَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُولَۃً إِلٰی عُنُقِکَ وَلَا تَبْسُطْہَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا ﴾
الإسراء 17:29
ترجمہ
“اور نہ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا رکھو (یعنی بخل کرو)، اور نہ اسے بالکل کھول دو (یعنی اسراف کرو)، ورنہ تم ملامت زدہ اور تھکے ہارے ہو کر بیٹھ جاؤ گے۔”
➌ خلوت و جلوت میں اللہ کا خوف (خشیت اللہ)
ایمان کی سچائی اسی وقت ثابت ہوتی ہے جب انسان تنہائی میں بھی وہی ڈرے جیسے سب کے سامنے۔
▣ آیت: اللہ ہر وقت نگرانی کر رہا ہے
﴿ إِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیبًا ﴾
النساء 4:1
ترجمہ
“بے شک اللہ تم پر نگران ہے۔”
▣ آیت: جو لوگ خلوت میں اللہ سے ڈرتے ہیں
﴿ إِنَّ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَیْبِ لَہُمْ مَغْفِرَۃٌ وَّأَجْرٌ کَبِیْرٌ ﴾
الملک 67:12
ترجمہ
“بے شک جو لوگ غائبانہ (یعنی تنہائی میں بھی) اپنے رب سے ڈرتے ہیں، ان کے لیے مغفرت اور بہت بڑا اجر ہے۔”
▣ حدیث: اللہ کے عرش کے سائے تلے وہ شخص جس نے تنہائی میں روتے ہوئے اللہ کو یاد کیا
(( وَرَجُلٌ ذَکَرَ اللّٰہَ خَالِیًا فَفَاضَتْ عَیْنَاہُ ))
صحیح بخاری: 660، صحیح مسلم: 923
ترجمہ
“اور وہ شخص جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے — (ایسے سات خوش نصیبوں میں سے ہے جنہیں اللہ قیامت کے دن اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا)۔”
المُہلکات — ہلاکت کا سبب بننے والے اعمال
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( فَشُحٌّ مُطَاعٌ ، وَہَوًی مُتَّبَعٌ ، وَإِعْجَابُ الْمَرْءِ بِنَفْسِہ ))
“ہلاکت کا سبب تین چیزیں ہیں:
➊ وہ لالچ جس کی اطاعت کی جائے
➋ وہ خواہش جس کی پیروی کی جائے
➌ انسان کا اپنی ذات پر فریفتہ ہونا (خود پسندی)”
صحیح الترغیب: 453
یہ تینوں اخلاقی بیماریاں انسان کو ایمان، عقل اور انسانیت تینوں سے محروم کر دیتی ہیں۔
➊ شُحّ — لالچ جس کی اطاعت کی جائے
شُحّ کے معنی ہیں:
◈ ایسی حرص کہ انسان وہ چیز مانگے جو اس کے پاس نہیں
◈ ایسی کنجوسی کہ انسان وہ چیز بھی نہ دے جو اس کے پاس ہے
◈ مال کے معاملے میں حرص + بخل دونوں بدترین شکل میں جمع ہو جائیں
یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺ نے سب سے پہلے اسے مہلک قرار دیا۔
▣ حدیث: لالچ پچھلی امتوں کی ہلاکت کا سبب بنا
(( اِتَّقُوا الظُّلْمَ فَإِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، وَاتَّقُوا الشُّحَّ فَإِنَّ الشُّحَّ أَہْلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ، حَمَلَہُمْ عَلٰی أَنْ سَفَکُوا دِمَاءَہُمْ، وَاسْتَحَلُّوا مَحَارِمَہُمْ ))
صحیح مسلم: 2578
ترجمہ
“ظلم سے بچو، کیونکہ ظلم قیامت کے دن تاریکیوں کا سبب ہو گا۔
اور لالچ سے بھی بچو، کیونکہ لالچ ہی نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا — لالچ نے انہیں لوگوں کا خون بہانے پر آمادہ کیا اور ان کی حرمتوں کو حلال قرار دینے پر مجبور کیا۔”
▣ حدیث: لالچ انسان کو کنجوسی، قطع رحمی اور گناہوں میں دھکیل دیتا ہے
(( إِیَّاکُمْ وَالشُّحَّ ، فَإِنَّمَا ہَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ بِالشُّحِّ ، أَمَرَہُمْ بِالْبُخْلِ فَبَخِلُوا ، وَأَمَرَہُمْ بِالْقَطِیْعَۃِ فَقَطَعُوا ، وَأَمَرَہُمْ بِالْفُجُورِ فَفَجَرُوا ))
سنن أبی داود: 1700 — وصححہ الألبانی
ترجمہ
“لالچ سے بچو، کیونکہ تم سے پہلے لوگ اسی لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔
لالچ نے انہیں کنجوسی کا حکم دیا تو وہ کنجوس بن گئے،
لالچ نے انہیں قطع رحمی کا حکم دیا تو انہوں نے رشتہ توڑ دیا،
اور لالچ نے انہیں فجور (گناہوں) کا حکم دیا تو وہ گناہوں میں پڑ گئے۔”
▣ حدیث: ایمان اور لالچ ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتے
(( لَا یَجْتَمِعُ الشُّحُّ وَالْإِیْمَانُ فِی قَلْبِ عَبْدٍ أَبَدًا ))
سنن النسائی: 3110 — وصححہ الألبانی
ترجمہ
“کسی بندے کے دل میں ایمان اور لالچ دونوں کبھی جمع نہیں ہو سکتے۔”
▣ آیت: جو اپنے اندر کے لالچ سے بچا لیا گیا — وہی کامیاب
﴿ وَمَنْ یُّوقَ شُحَّ نَفْسِہ فَأُولٰئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴾
التغابن 64:16
ترجمہ
“اور جس شخص کو اپنے نفس کے لالچ سے بچا لیا گیا — وہی لوگ کامیاب ہیں۔”
➋ خواہشِ نفس کی پیروی — (ہَوًی مُتَّبَع)
لالچ اندر کی بیماری ہے، اور خواہشِ نفس اس کی عملی شکل۔
جس انسان کی عقل پر نفس بیٹھ جائے، وہ حیوان بن جاتا ہے، بلکہ قرآن نے فرمایا “جانوروں سے بھی بدتر”۔
▣ آیت: جس نے اپنی خواہش کو اپنا خدا بنا لیا
﴿ أَرَأَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلٰہَہُ ہَوَاہُ أَفَأَنْتَ تَکُونُ عَلَیْہِ وَکِیلًا أَمْ تَحْسَبُ أَنَّ أَکْثَرَہُمْ یَسْمَعُونَ أَوْ یَعْقِلُونَ ۚ إِنْ ہُمْ إِلَّا کَالْأَنْعَامِ بَلْ ہُمْ أَضَلُّ سَبِیلًا ﴾
الفرقان 25: 43-44
ترجمہ
“کیا آپ نے اسے دیکھا جس نے اپنی خواہش ہی کو اپنا معبود بنا لیا ہے؟
کیا آپ ایسے شخص کے ذمہ دار بن سکتے ہیں؟
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ان میں سے اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں؟
یہ تو جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ!”
▣ آیت: خواہش کی پیروی کرنا سب سے بڑی گمراہی
﴿ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ہَوَاہُ بِغَیْرِ ہُدًی مِنَ اللّٰہِ ﴾
القصص 28:50
ترجمہ
“اور اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہو سکتا ہے جو اللہ کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے لگ جائے؟”
▣ آیت: جو خواہش کو روک لے — جنت اس کا ٹھکانا
﴿ وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوَی فَإِنَّ الْجَنَّۃَ ہِیَ الْمَأْوَی ﴾
النازعات 79: 40-41
ترجمہ
“اور جس نے اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے کا خوف رکھا، اور اپنے نفس کو خواہش سے باز رکھا — اس کا ٹھکانا جنت ہے۔”
➌ خود پسندی — (إعجابُ المرءِ بنفسہ)
یہ سب سے خطرناک بیماری ہے۔
سب سے پہلے جس نے اس کا ارتکاب کیا وہ ابلیس تھا — جس نے آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ کرنے سے انکار کیا۔
▣ آیت: ابلیس کی تباہی — خود پسندی کی وجہ سے
﴿ أَنَا خَیْرٌ مِنْہُ ﴾
الاعراف 12
ترجمہ
“میں اس سے بہتر ہوں۔”
یہی وہ جملہ تھا جس نے اسے ہمیشہ کے لیے مردود بنا دیا۔
﴿ فَاخْرُجْ مِنْہَا فَإِنَّکَ رَجِیمٌ ﴾
الحجر 15:34
ترجمہ
“پس تو (جنت) سے نکل جا، یقیناً تو مردود ہے۔”
❖ باغ والے مغرور شخص کا انجام — سورۂ کہف
اللہ تعالیٰ نے بے شمار نعمتیں دی تھیں، مگر خود پسندی نے اسے برباد کر دیا۔
﴿ أَنَا أَکْثَرُ مِنْکَ مَالًا وَأَعَزُّ نَفَرًا ﴾
الکہف 34:18
ترجمہ
“میں تجھ سے زیادہ مالدار ہوں اور زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔”
پھر انجام دیکھو:
﴿ وَأُحِیطَ بِثَمَرِہ فَأَصْبَحَ یُقَلِّبُ کَفَّیْہِ عَلٰی مَا أَنْفَقَ فِیہَا… ﴾
الکہف 42-43
ترجمہ
“اور اس کے باغ کے پھلوں کو گھیر لیا گیا (یعنی تباہ کر دیا گیا) اور وہ اس پر خرچ کیے ہوئے مال پر ہاتھ ملتا رہ گیا۔ باغ اپنی چھتوں پر الٹا گرا پڑا تھا، وہ کہنے لگا: کاش میں نے اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنایا ہوتا۔ اللہ کے سوا کوئی جماعت اس کی مدد نہ کر سکی، اور نہ وہ خود کسی نقصان کو روک سکا۔”
❖ حدیث: خود پسندی پر سزا — زمین میں دھنسا دیا گیا
(( بَیْنَمَا رَجُلٌ یَمْشِی فِی حُلَّۃٍ تُعْجِبُہُ نَفْسُہُ، مُرَجِّلٌ جُمَّتَہُ، إِذَا خَسَفَ اللّٰہُ بِہ فَہُوَ یَتَجَلْجَلُ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃ ))
صحیح بخاری: 5789، صحیح مسلم: 2088
ترجمہ
“ایک آدمی خوبصورت لباس پہنے، اپنے لمبے بال سنوارے ہوئے، خود پسندی کے ساتھ چل رہا تھا کہ اللہ نے اسے زمین میں دھنسا دیا — وہ قیامت تک زمین میں دھنستا چلا جائے گا۔”
✦ نتیجہ
◈ ہمیں چاہیے کہ اپنے معمولاتِ زندگی میں ان چاروں حصوں کو شامل کریں۔
◈ کفارات سے گناہوں کی صفائی ہو گی،
◈ درجات سے نیکیاں اور مقام بلند ہوں گے،
◈ منجیات سے انسان آزمائشوں اور گمراہیوں سے محفوظ رہے گا،
◈ مہلکات سے بچ کر ایمان کی حفاظت ہوگی۔
◈ عدل، میانہ روی، اور خشیتِ الٰہی انسانی کردار کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔
◈ لالچ، خواہش پرستی اور خود پسندی اخلاقی بربادی کی جڑ ہیں۔
ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ رب العزت ہمیں وہ تمام اعمال کرنے کی توفیق دے جو نجات اور کامیابی کا ذریعہ ہیں،
اور ہمیں ہر اُس عمل سے بچا لے جو تباہی اور بربادی کا سبب بنتا ہے۔
آمین یا رب العالمین۔