شب معراج کا تحفہ نماز اور سورہ بقرہ کی آخری آیات: ایک تفصیلی مطالعہ
یہ اقتباس حافظ صلاح الدین یوسف کی کتاب واقعہ معراج اور اس کے مشاہدات سے ماخوذ ہے۔

اب ہم واقعہ معراج کو صحیح احادیث کی روشنی میں بیان کرتے ہیں۔ حسن اتفاق سے اصل واقعے کی بیشتر تفصیلات صحیحین (بخاری و مسلم) میں بیان ہوئی ہیں۔ صحیح بخاری میں چار مقامات پر یہ واقعہ تفصیل سے بیان ہوا ہے:
كتاب الصلاة، باب كيف فرضت الصلاة في الإسراء، حديث: 349
كتاب بدء الخلق، باب ذكر الملائكة، حديث: 3207
كتاب مناقب الأنصار، باب المعراج، حديث: 3887
كتاب التوحيد، باب ما جاء في قوله عز وجل: ﴿وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَىٰ تَكْلِيمًا﴾ ، حديث: 7515
علاوہ ازیں دیگر مقامات پر اس کی کچھ جزئیات بیان ہوئی ہیں، جیسے:
كتاب مناقب الأنصار، باب حديث الإسراء، حديث: 3886
كتاب أحاديث الأنبياء، باب قول الله تعالى: ﴿وَهَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَىٰ﴾ ‎ حديث: 3394-336
كتاب التفسير، باب أسرى بعبده ليلاً من المسجد الحرام ، حديث: 4709-4710
تفسير سورة النجم، حديث: 4855-4858
صحیح مسلم، كتاب الإيمان، باب الإسراء برسول الله ﷺ إلى السموات وفرض الصلوات
یہ روایات مختلف راویوں سے ہیں، اس لیے ان کی بیان کردہ بعض تفصیلات ایک دوسرے سے مختلف ہیں جیسا کہ اس سے قبل اس طرف ہم اشارہ کر آئے ہیں۔ اور ایک عظیم واقعے کی تفصیلات جب مختلف لوگ بیان کرتے ہیں تو بالعموم ایسا ہوتا ہے، اس لیے اگر إسراء و معراج کے راویوں کے بیانات میں بھی بعض اختلافات اور کچھ اوہام پائے جاتے ہیں تو اس کی وجہ سے نفس واقعہ کی اسنادی حیثیت پر اثر نہیں پڑتا۔ ائمہ حدیث اور شارحین حدیث نے ان اختلافات و اوہام کی وضاحت بھی کر دی ہے اور جن کے درمیان جمع و تطبیق ممکن تھی، ان کا حل بھی پیش کر دیا ہے جس کے بعد اصل واقعہ واضح اور بے غبار ہو جاتا ہے۔
اب ہم صحیح بخاری کی اس روایت کا ترجمہ پیش کرتے ہیں جو حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں: حضرت مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اس رات کی بابت بتلایا جس میں آپ کو معراج کرائی گئی، آپ نے فرمایا: ”میں ایک وقت حطیم میں (بعض دفعہ آپ نے فرمایا، حجر میں) لیٹا ہوا تھا، (حطیم اور حجر ایک ہی جگہ کا نام ہے، یہ وہ حصہ ہے جو قریش نے سرمایے کی کمی کی وجہ سے بیت اللہ کے طول میں چھوڑ دیا تھا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تعمیر کردہ بیت اللہ میں شامل تھا )کہ ایک آنے والا میرے پاس آیا اور اس نے میرا پیٹ سینے سے ناف تک چاک کیا اور میرا دل باہر نکالا، پھر میرے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا جو ایمان و حکمت سے بھرا ہوا تھا۔ میرے دل کو دھویا گیا اور اسے (ایمان و حکمت سے) بھر کر پھر اپنی جگہ لوٹا دیا گیا، پھر ایک سفید جانور لایا گیا جو خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا، وہ براق تھا، وہ اپنا قدم وہاں رکھتا تھا جہاں اس کی نگاہ کی آخری حد ہوتی۔ مجھے اس پر سوار کر دیا گیا اور جبریل علیہ السلام مجھے اپنے ساتھ لے چلے یہاں تک کہ پہلے آسمان (آسمان دنیا) پر ہم پہنچ گئے۔ جبریل نے دروازہ کھولنے کو کہا، پوچھا گیا: کون ہے؟ کہا: میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: اور تمھارے ساتھ کون ہے؟ جبریل علیہ السلام نے کہا: محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں۔ پوچھا گیا: کیا انھیں پیغام دے کر بلوایا گیا ہے؟ جبریل علیہ السلام نے کہا: ہاں! کہا گیا: انھیں خوش آمدید! کیا ہی مبارک آنے والے ہیں وہ۔ اور (دربان نے) دروازہ کھول دیا۔ جب میں نے آسمان پر قدم رکھا تو دیکھا وہاں آدم (علیہ السلام) ہیں۔ جبریل نے کہا: یہ آپ کے باپ آدم ہیں، انھیں سلام کریں۔ میں نے ان کو سلام کیا۔ انھوں نے سلام کا جواب دیا اور کہا: خوش آمدید! نیک بیٹے اور نیک پیغمبر!
پھر جبریل (علیہ السلام) مجھے لے کر دوسرے آسمان پر چڑھے اور اس کا دروازہ کھولنے کو کہا۔ کہا گیا: کون ہے؟ کہا: میں جبریل ہوں۔ کہا گیا تمھارے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں۔ پوچھا گیا: کیا انھیں پیغام دے کر بلوایا گیا ہے؟ جبریل (علیہ السلام) نے کہا: ہاں! کہا گیا: خوش آمدید! پس آنے والا، جو آیا، کیا اچھا ہے؟ اور دروازہ کھول دیا۔ جب میں اندر داخل ہوا تو وہاں یحییٰ اور عیسیٰ (علیہ السلام) تھے جو دونوں خالہ زاد ہیں۔ جبریل( علیہ السلام) نے کہا: یہ یحییٰ اور عیسیٰ (علیہ السلام )ہیں، انھیں سلام کریں۔ میں نے انھیں سلام کیا۔ ان دونوں نے سلام کا جواب دیا اور کہا: خوش آمدید! برادر صالح اور پیغمبر صالح!
پھر جبریل علیہ السلام مجھے تیسرے آسمان پر لے کر چڑھے اور دروازہ کھولنے کو کہا۔ پوچھا گیا: کون ہے؟ کہا: میں جبریل ہوں۔ کہا گیا اور تمھارے ساتھ کون ہیں؟ کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ کہا گیا: کیا انھیں پیغام دے کر بلوایا گیا ہے؟ جبریل علیہ السلام نے کہا: ہاں! کہا گیا: خوش آمدید! پس آنے والا جو آیا، کیا اچھا ہے؟ اور دروازہ کھول دیا گیا۔ جب میں وہاں پہنچا تو وہاں یوسف علیہ السلام تھے۔ جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ یوسف علیہ السلام ہیں، انھیں سلام کریں۔ میں نے انھیں سلام کیا۔ انھوں نے جواب دیا اور کہا: خوش آمدید! برادر صالح اور پیغمبر صالح!
پھر جبریل علیہ السلام مجھے لے کر چڑھے یہاں تک کہ چوتھے آسمان پر آگئے۔ پس دروازہ کھولنے کو کہا۔ پوچھا گیا: کون ہے؟ کہا: میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: اور تمھارے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ کہا گیا: کیا انھیں پیغام دے کر بلوایا گیا ہے؟ جبریل علیہ السلام نے کہا: ہاں! کہا گیا: خوش آمدید! پس آنے والا جو آیا، کیا اچھا ہے؟ اور دروازہ کھول دیا گیا۔ جب میں اندر داخل ہوا تو وہاں ادریس علیہ السلام تھے۔ جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ ادریس علیہ السلام ہیں، انھیں سلام کریں۔ میں نے انھیں سلام کیا۔ انھوں نے سلام کا جواب دیا اور کہا: خوش آمدید! برادر صالح اور پیغمبر صالح!
پھر جبریل علیہ السلام مجھے لے کر چڑھے حتیٰ کہ پانچویں آسمان پر پہنچ گئے۔ تب انھوں نے دروازہ کھولنے کو کہا۔ کہا گیا: کون ہے؟ کہا: میں جبریل ہوں۔ کہا گیا: اور تمھارے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ کہا گیا: کیا انھیں پیغام دے کر بلوایا گیا ہے؟ جبریل علیہ السلام نے کہا: ہاں! کہا گیا: خوش آمدید، پس آنے والا جو آیا، کیا اچھا ہے؟ جب میں اندر داخل ہوا تو وہاں ہارون علیہ السلام تھے۔ جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ ہارون علیہ السلام ہیں، انھیں سلام کریں۔ میں نے انھیں سلام کیا۔ انھوں نے سلام کا جواب دیا اور کہا: خوش آمدید! برادر صالح اور پیغمبر صالح!
پھر جبریل علیہ السلام مجھے لے کر چڑھے حتیٰ کہ چھٹے آسمان پر آگئے۔ تب انھوں نے دروازہ کھولنے کو کہا۔ کہا گیا: کون ہے؟ کہا: میں جبریل ہوں۔ کہا گیا تمھارے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ کہا گیا: کیا انھیں پیغام دے کر بلوایا گیا ہے؟ جبریل علیہ السلام نے کہا: ہاں! کہا: خوش آمدید! پس آنے والا جو آیا، کیا اچھا ہے؟ جب میں اندر پہنچا تو وہاں موسیٰ علیہ السلام تھے۔ جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ موسیٰ علیہ السلام ہیں، انھیں سلام کریں۔ میں نے انھیں سلام کیا۔ انھوں نے جواب دیا اور کہا: خوش آمدید! برادر صالح اور پیغمبر صالح!
جب میں وہاں سے آگے گیا تو موسیٰ علیہ السلام رو پڑے۔ ان سے پوچھا گیا: آپ کیوں روتے ہیں؟ انھوں نے کہا: میں اس لیے روتا ہوں کہ یہ لڑکا جو میرے بعد نبی بنا کر بھیجا گیا، اس کی امت کے لوگ میری امت سے زیادہ (تعداد میں) جنت میں جائیں گے۔
پھر جبریل علیہ السلام مجھے ساتویں آسمان پر لے کر چڑھے اور انھوں نے دروازہ کھولنے کو کہا، پوچھا گیا: کون ہے؟ کہا: میں جبریل ہوں۔ کہا گیا: اور تمھارے ساتھ کون ہے؟ جبریل علیہ السلام نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ کہا گیا: کیا ان کی طرف (یہاں آنے کا) پیغام بھیجا گیا تھا؟ کہا: ہاں! کہا: خوش آمدید اور کیا اچھا ہے آنے والا جو آیا۔ جب میں اندر پہنچا تو وہاں ابراہیم علیہ السلام تھے۔ جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ آپ کے باپ ہیں، انھیں سلام کریں۔ میں نے انھیں سلام کیا۔ انھوں نے سلام کا جواب دیا اور کہا: خوش آمدید! نیک بیٹے اور نیک پیغمبر!
پھر مجھے سدرة المنتہٰی کی طرف اُٹھایا گیا تو اس کا پھل (بیری) هجر شہر کے مٹکوں جیسا تھا اور اس کے پتے ہاتھیوں کے کانوں جیسے تھے۔ جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ سدرة المنتہٰی ہے۔
وہاں چار نہریں تھیں، دو نہریں (جنت کے) اندر اور دو نہریں باہر۔ میں نے پوچھا: اے جبریل! یہ دو نہریں کیا ہیں؟ جبریل علیہ السلام نے کہا: دو باطنی نہریں، وہ جنت میں ہیں اور جو دو نہریں ظاہر ہیں، وہ نیل اور فرات ہیں۔
پھر میرے لیے بیت المعمور بلند کیا گیا، پھر میرے لیے تین برتن لائے گئے ایک شراب کا، دوسرا دودھ کا، تیسرا شہد کا۔ میں نے ان میں سے دودھ کا پیالہ لے لیا تو جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ وہ فطرت ہے جس پر آپ اور آپ کی امت ہے۔
پھر مجھ پر ایک (رات اور) دن میں پچاس نمازیں فرض کر دی گئیں۔ جب میں واپس لوٹا اور دوبارہ موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انھوں نے پوچھا: آپ کو کیا حکم دیا گیا ہے؟ (میں نے) کہا: مجھے ہر روز پچاس نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔
موسیٰ علیہ السلام نے کہا: آپ کی امت روزانہ پچاس نمازیں نہیں پڑھ سکے گی۔ اللہ کی قسم! میں آپ سے پہلے لوگوں کا تجربہ کر چکا ہوں اور بنو اسرائیل کو خوب اچھی طرح آزما چکا ہوں۔ پس آپ اپنے رب کے پاس دوبارہ جائیں اور اس سے اپنی امت کے لیے تخفیف کا سوال کریں، چنانچہ میں دوبارہ واپس آیا تو اللہ نے مجھ پر دس نمازیں کم کر دیں۔ جب میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انھوں نے پھر پہلی والی باتیں کیں، چنانچہ میں پھر واپس گیا، تو اللہ نے دس نمازیں اور کم کر دیں۔ میں پھر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انھوں نے پھر وہی باتیں کیں۔ میں پھر واپس گیا تو مجھے روزانہ دس نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا۔ میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انھوں نے پھر وہی باتیں کیں۔ میں پھر واپس گیا تو مجھے پانچ نمازیں روزانہ پڑھنے کا حکم دیا گیا۔ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انھوں نے پوچھا: اب آپ کو کیا حکم دیا گیا ہے؟ میں نے کہا: مجھے پانچ نمازیں روزانہ پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔
موسیٰ علیہ السلام نے کہا: آپ کی امت روزانہ پانچ نمازیں بھی نہیں پڑھ سکے گی۔ میں آپ سے پہلے لوگوں کا تجربہ کر چکا ہوں اور میں بنو اسرائیل کو خوب آزما چکا ہوں، پس آپ اپنے رب کے پاس جائیں اور اس سے اپنی امت کے لیے مزید تخفیف کا سوال کریں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں بار بار اپنے رب سے سوال کر بیٹھا ہوں حتیٰ کہ اب مجھے شرم آرہی ہے۔ اس لیے اب میں اسی پر راضی ہوں اور اسے ہی تسلیم کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: جب میں کچھ آگے گیا تو ایک منادی نے بہ آواز بلند کہا: میں نے اپنا فریضہ جاری کر دیا اور اپنے بندوں سے تخفیف کر دی۔
صحیح البخاری ، مناقب النصار ، باب المعراج ، حدیث 3887

حدیث کی توضیح، راویوں کے اختلافات کا حل اور جشن معراج کی حقیقت

➊ یہ معراج کب ہوئی؟ اس میں خاصا اختلاف ہے (جیسا کہ پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے) اس کی بابت دس سے زیادہ اقوال ہیں، تاہم زیادہ مشہور رجب کی ستائیسویں شب ہے اور یہ ہجرت سے چند (دو تین) سال قبل کا واقعہ ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ عہد رسالت و عہد صحابہ و تابعین میں، جو اسلام کے سب سے بہترین ادوار ہیں، (اسی لیے حدیث میں ان تینوں ادوار کو خیر القرون سے تعبیر کیا گیا ہے)، کسی بھی قسم کا جشن منانے کا رواج نہیں تھا کیونکہ اسلامی تعلیمات میں اس قسم کی باتوں کا کوئی تصور نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معراج کی تاریخ وقوع میں اتنا اختلاف ہے۔ اگر خیر القرون میں جشن معراج یا جشن شب معراج وغیرہ منایا جاتا تو اس کی تاریخ میں قطعاً اختلاف نہ ہوتا۔ اور اسی طرح خصوصی عبادت کا اہتمام کرنا بھی درست نہیں۔
➋ جب فرشتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو لینے کے لیے آئے، اس وقت آپ کہاں تھے؟ بعض روایات میں ہے کہ آپ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ ام ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر پر تھے۔ بعض روایات میں ہے کہ آپ نے فرمایا، میرے گھر کی چھت کھلی۔ بعض میں حجر یا حطیم میں ہونے کا ذکر ہے۔ حجر یا حطیم تو ایک ہی جگہ کے دو نام ہیں اور یہ خانہ کعبہ کے اس حصے کو کہا جاتا ہے جو قریش مکہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تعمیر کردہ بیت اللہ کا حصہ، طول میں، سرمائے کی وجہ سے چھوڑ دیا تھا۔ آپ ام ہانی کے گھر سوئے ہوئے تھے۔ ام ہانی ہی کے گھر کو آپ نے اپنا گھر اس لیے کہا کہ آپ وہیں سکونت پذیر تھے۔ وہاں فرشتہ آیا اور آپ کو وہاں سے خانہ کعبہ لے گیا جہاں آپ لیٹ گئے۔
➌ اسی طرح بعض روایات میں ہے کہ آپ سوئے ہوئے تھے اور بعض میں سونے اور جاگنے کے درمیان ہونے کا ذکر ہے۔ نائم ”سوئے ہوئے ہونا“ کا ذکر صرف شریک کی روایت میں ہے جسے اس کے اوہام میں شمار کیا گیا ہے۔ اس لیے صحیح بات یہ ہے جو سب راوی بیان کرتے ہیں کہ آپ لیٹے ہوئے تھے، ابھی سوئے نہیں تھے۔ سونے کی نیت سے لیٹے ہوئے تھے۔ اسی بات کو ”سونے اور جاگنے کے درمیان“ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
➍ اس روایت میں بیت المقدس کا ذکر نہیں ہے جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ براق ہی پر آپ کو آسمانوں پر لے جایا گیا لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ دوسری روایات میں صراحت ہے کہ پہلے آپ براق پر مسجد حرام سے مسجد اقصٰی تشریف لے گئے۔ وہاں آپ نے براق کو اسی کھونٹی وغیرہ سے باندھ دیا جس میں دوسرے انبیاء اپنی سواریاں باندھا کرتے تھے۔
صحیح مسلم الایمان باب الاسراء برسول اللہ ﷺ ، حدیث 162
آسمانوں سے آپ پھر بیت المقدس واپس آئے اور اسی براق کے ذریعے سے مکہ تشریف لائے۔ بعض صحیح روایات میں یہ اضافہ ہے: جب سواری کے لیے براق آپ کے پاس لایا گیا تو وہ شوخی کرنے لگا۔ حضرت جبریل علیہ السلام نے اس سے کہا: کیا تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس طرح کر رہا ہے؟ (فما ركبك أحد أكرم على الله منه) تجھے معلوم نہیں کہ اس سے پہلے تجھ پر کوئی آدمی ایسا سوار نہیں ہوا جو اللہ کے ہاں ان سے زیادہ معزز ہو۔ براق یہ بات سن کر پسینے پسینے ہو گیا۔
جامع الترمذی ، تفسیر القرآن ، باب ومن سورہ بنی اسرائیل ، حدیث 3131
علاوہ ازیں مسجد حرام سے مسجد اقصٰی تک کے سفر کے لیے سواری کا انتظام، یہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اعزاز و تکریم کے لیے تھا، ورنہ اللہ تعالیٰ اس کے بغیر بھی اس بات پر قادر تھا کہ وہ آپ کو بیت المقدس پہنچا دیتا، فرشتے کے ذریعے سے یا زمین کا فاصلہ سمیٹ کر یا کسی اور طریقے سے۔ لیکن سواری بھیج کر آپ کو وہاں لے جانے میں آپ کا شرف و اعجاز تھا جیسے بادشاہ کسی معزز شخصیت کو اپنے دربار میں بلاتا ہے تو وہ اس کی شخصیت کے احترام و اعزاز میں اسی قسم کا اہتمام کرتا ہے۔
یہی حکمت آپ کے شق صدر (سینہ چاکی) میں ہے کہ پیٹ چیر کر آپ کا دل دھویا گیا، پھر اسے ایمان و حکمت سے بھر دیا گیا، حالانکہ اللہ تعالیٰ اس کے بغیر بھی آپ کے دل کو ایمان و حکمت سے بھر سکتا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ معجزہ دکھلا کر کہ سینہ چاک کر کے دل باہر نکال دیا گیا لیکن آپ کی موت واقع ہوئی نہ کوئی تکلیف۔ اس سے حکمت و ایمان میں اضافے کے ساتھ آپ کی قوت یقین میں بھی اضافہ ہوا اور آپ کے اندر یہ اعتماد پیدا ہوا کہ اللہ تعالیٰ ہر پر خطر مقام پر آپ کا محافظ، مددگار اور دست گیر ہوگا۔ اس یقین و اعتماد علی اللہ نے آپ کو أشجع الناس ”سب سے زیادہ بہادر“ بنا دیا تھا۔
فتح الباري ، ج 7، ص: 258
➎ بیت المقدس میں آپ نے دو رکعت نماز ادا کی۔ تمام انبیاء علیہم السلام نے بھی آپ کی امامت میں آپ کے پیچھے نماز پڑھی۔ بعض ائمہ کی رائے میں آپ نے بیت المقدس میں نماز آسمان سے واپسی پر پڑھی۔ انبیاء علیہم السلام بھی آپ کے ساتھ ہی آسمانوں سے اترے اور آپ کی اقتدا میں نماز پڑھی۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اسی دوسری رائے کو ترجیح دی ہے، جب کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے نزدیک پہلی بات زیادہ قرین قیاس ہے۔ لکھتے ہیں:
والأظهر أن صلاته بهم ببيت المقدس كان قبل العروج، والله أعلم
فتح البارى باب المعراج : 262/7
➏ انبیاء علیہم السلام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز کس طرح پڑھی؟ ان کی روحوں نے نماز پڑھی یا اللہ نے ارواح سمیت ان کے اجساد کو وہاں حاضر کیا تھا؟ دونوں باتیں ممکن ہیں۔ فتح البارى، باب مذکور، ج 7، ص: 262 اللہ کے لیے کوئی بات مشکل نہیں۔ یہی دونوں باتیں انبیاء علیہم السلام کے ساتھ آسمانی ملاقاتوں میں ممکن ہیں کیونکہ اللہ کے لیے کوئی بات ناممکن نہیں۔ تاہم پہلی صورت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام مستثنیٰ ہوں گے کیونکہ وہ تو زندہ ہی آسمان پر موجود ہیں۔ انھیں ابھی موت ہی نہیں آئی (جیسا کہ مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے)۔ تاہم زیادہ واضح بات یہی ہے کہ ملاقاتیں صرف روحوں کے ساتھ نہیں ہوئیں بلکہ اللہ نے اپنی قدرت سے مذکورہ انبیاء علیہم السلام کو ان کے جسموں سمیت حاضر کیا تھا۔ اسی طرح نماز بھی صرف روحوں نے نہیں بلکہ ارواح سمیت ان کے جسموں نے ہی پڑھی ہو گی۔ اس اشکال کا جواب بھی کہ انبیاء علیہم السلام کے جسم تو قبروں میں ہیں، پھر آسمانوں میں ان سے ملاقات کس طرح ہوئی؟ یہی دیا گیا ہے کہ یا تو ان کی روحوں کو جسموں کی صورت میں ڈھال دیا گیا تھا یا ان کے جسموں کو آسمانوں پر حاضر کر دیا گیا تھا۔ فتح الباري ، ج 7، ص: 263 اللہ کے لیے دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت بھی نا ممکن نہیں، وہ ہر طرح کرنے پر قادر ہے۔
➐ صحیح بخاری کی جس حدیث معراج کا ترجمہ ہم نے پیش کیا ہے، اس میں ہے کہ سدرة المنتہٰی پر آپ کی خدمت میں تین برتن پیش کیے گئے جن میں شراب، دودھ اور شہد تھا۔ جبکہ صحیح مسلم کی یہ روایت (جس میں بیت المقدس کا ذکر ہے) میں ہے کہ میں دو رکعت نماز پڑھ کر جب باہر نکلا تو حضرت جبریل علیہ السلام میرے پاس دو برتن لے کر آئے، ایک شراب کا اور دوسرا دودھ کا۔ میں نے دودھ کا برتن پسند کر لیا جس پر جبریل علیہ السلام نے کہا: آپ نے فطرت کو پسند کیا۔
صحيح مسلم، باب الإسراء برسول الله حديث : 162
اور صحیح بخاری کے بھی ایک دوسرے مقام پر ہے: إسراء والی رات ”ایلیا “(بیت المقدس کا پرانا نام) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دو پیالے پیش کیے گئے۔ ایک میں شراب تھی دوسرے میں دودھ تھا۔ آپ نے دونوں کی طرف دیکھا اور دودھ والا پیالہ لے لیا۔ جبریل علیہ السلام نے کہا: تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے آپ کو فطرت والی بات اختیار کرنے کی ہدایت دے دی۔ اگر آپ شراب کا پیالہ لے لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی۔
صحیح بخارى، تفسير سورة الإسراء،حديث: 4709
اور صحیحین کے علاوہ دیگر کتب حدیث کی بعض روایات میں پانی کے برتن کا بھی ذکر ہے۔ یوں گویا چار چیزوں کے برتن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیے گئے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان کے درمیان اس طرح تطبیق دی ہے کہ ایک راوی نے جو بات بیان کی وہ دوسرے نے بیان نہیں کی جس کی وجہ سے کسی روایت میں دو برتنوں کا، کسی میں تین کا اور کسی میں چار کا بیان ہے۔ مجموعی طور پر پانی، شراب، دودھ اور شہد کے چار برتن آپ کی خدمت میں پیش کیے گئے اور یہ برتن دو مقامات پر پیش کیے گئے ایک مرتبہ بیت المقدس میں جہاں آپ کو پیاس محسوس ہوئی اور دوسری مرتبہ آسمانوں میں سدرة المنتہٰی کے مقام رفیع پر۔
اور طبری کی روایت میں ہے: سدرة المنتہٰی کی جڑوں سے چار نہریں نکلتی ہیں:
❀ ایسے پانی کی جو متغیر نہیں ہوتا۔
❀ ایسے دودھ کی جس کا ذائقہ نہیں بدلتا۔
❀ ایسی شراب کی جو پینے والوں کے لیے لذیذ ہے۔
❀ اور ایسے شہد کی جو صاف شفاف ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ یہ روایت نقل کر کے لکھتے ہیں: ”شاید ہر نہر میں سے ایک ایک پیالہ آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا ہو۔“
فتح الباري، ج 7، ص: 270
➑ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شقِ صدر کتنی مرتبہ ہوا، اس میں اختلاف ہے۔ بعض علماء دو مرتبہ کے اور بعض چار مرتبہ کے قائل ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ چار مرتبہ مانتے ہیں۔ بہر حال معراج کے موقع پر جو شق صدر ہوا اور اس کے بعد آپ کے دل کو زمزم کے پانی سے دھو کر اسے ایمان و حکمت سے بھر دیا گیا۔ اس کی ایک حکمت یہ بھی تھی کہ اس رات آپ جن انوار و تجلیات سے بہرہ ور ہونے والے تھے، آپ کا قلب اطہر ان کا تحمل آسانی سے کر سکے۔ اسی لیے اس رات کے مشاہدات و تجلیات کے بارے میں فرمایا گیا ہے: ﴿مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَىٰ﴾ ”نگاہ کج ہوئی، نہ اس نے سرکشی کی۔“ النجم : 17
➒ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے بیت المقدس لے جایا گیا اور وہاں سے آسمانوں پر۔ آپ کو مکے ہی سے آسمانوں پر کیوں نہیں لے جایا گیا؟ اس کی حکمت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس طرح آپ کی سیر آسمانی کا ماننا لوگوں کے لیے آسان ہو گیا کیونکہ جب آپ نے یہ بتلایا کہ میں آج رات کو اس کے تھوڑے سے حصے میں بیت المقدس ہو کر آیا ہوں تو لوگوں کو معلوم تھا کہ آپ پہلے کبھی بیت المقدس نہیں گئے ہیں، چنانچہ انھوں نے بیت المقدس کی جزئیات آپ سے پوچھیں تو آپ نے اللہ کی مدد سے کہ اس نے اسے آپ کے سامنے کر دیا، ان کے سارے سوالات کے صحیح صحیح جواب دے دیے تو اہل کفر نے تو خیر مانا ہی نہ تھا لیکن اس سے اہل ایمان کے ایمان و یقین میں اضافہ ہو گیا، پھر آسمانی سیر کا تسلیم کرنا تو ان کے لیے ذرا مشکل نہ رہا۔
فتح الباري الإسراء، باب مناقب الانصار، ج 7، ص : 252
➓ بعض روایات میں حضرت آدم علیہ السلام سے ملاقات کے ذکر میں یہ اضافہ ہے کہ جبریل علیہ السلام نے کہا یہ آدم علیہ السلام ہیں اور یہ ان کے دائیں اور بائیں جانب پر چھائیاں، ان کی اولاد کی روحیں ہیں۔ ان میں سے دائیں جانب والے جنتی اور بائیں جانب والے جہنمی ہیں۔ جب آدم علیہ السلام اپنی دائیں جانب دیکھتے تو (خوشی سے) ہنستے اور اپنی بائیں جانب دیکھتے تو (غم کی وجہ سے) رو پڑتے۔
صحيح البخاري، الصلاة، حديث: 349
⓫ حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں اضافہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: موسیٰ علیہ السلام دراز قد (یا بقول بعض ہلکے پھلکے، دونوں ہی باتیں ہو سکتی ہیں، ان میں تضاد نہیں) کھلے بالوں والے تھے گویا کہ وہ شنوءه قبیلے کے فرد ہیں۔ عیسیٰ علیہ السلام درمیانے قد کے حامل اور سرخ و سپید رنگ والے تھے (صفائی پسند اتنے تھے، معلوم ہوتا تھا) گویا وہ غسل خانے سے نکلے ہیں اور میں ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے سب سے زیادہ ابراہیم علیہ السلام کے مشابہ ہوں۔
صحيح البخاري، أحاديث الأنبياء، حديث : 3394
⓬ حضرت موسیٰ علیہ السلام، یہ سوچ کر کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لوگ میری امت کے مقابلے میں زیادہ (تعداد میں) جنت میں جائیں گے، رو پڑے تھے۔ علماء نے لکھا ہے کہ یہ رونا حسد کی وجہ سے نہیں تھا کیونکہ عالم بالا و عالم آخرت میں دل حسد، بغض، کینہ وغیرہ رذائل سے پاک کر دیے جاتے ہیں۔ رونے کی وجہ صرف حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم بنو اسرائیل کا وہ معاندانہ و مخالفانہ رویہ تھا جو اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بابت اختیار کیا تھا جس کی وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ اندیشہ تھا کہ وہ اتنے ارفع درجات کے حامل نہیں ہوں گے جتنے وہ بنو اسرائیل کی اطاعت گزاری اور وفاشعاری کی صورت میں ہو سکتے تھے۔ کیونکہ ایک نبی کے جتنے صحیح پیروکار ہوں گے، ان سب کی نیکیوں کا اجر اس پیغمبر کو بھی ملے گا۔ اس اعتبار سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار بہت زیادہ ہوں گے۔ ایک تو آپ کی نبوت کا وقت قیامت تک ہے۔ دوسرے آپ کی امت، امت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے میں آپ کی متبع بھی زیادہ ہے۔ یوں آپ کو اجر و صلہ بھی تمام انبیاء علیہم السلام سے زیادہ ملے گا جو آپ سے زیادہ سے زیادہ رفع درجات کا باعث ہوگا۔
⓭ ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ملاقات کے ضمن میں اضافہ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیت المعمور میرے سامنے بلند کیا گیا۔ میں نے (اس کی بابت) جبریل علیہ السلام سے پوچھا تو انھوں نے کہا: یہ بیت المعمور ہے، فرشتوں کی عبادت گاہ۔ اس میں روزانہ ستر ہزار فرشتے نماز پڑھتے ہیں، پھر نکلتے ہیں تو دوبارہ ان کی باری نہیں آتی۔
صحيح البخاري، بدء الخلق، حديث : 3207
⓮ حضرت یوسف علیہ السلام سے ملاقات کے ضمن میں صحیح مسلم میں یہ اضافہ ہے:
وإذا هو قد أعطي شطر الحسن
میں نے یوسف علیہ السلام کو دیکھا، انھیں آدھا حسن دیا گیا تھا۔
صحيح مسلم، الإيمان، باب الإسراء برسول الله ﷺ ، حدیث : 162
[شطر] کے معنی نصف (آدھے) کے ہوتے ہیں، یعنی دنیا میں جتنا حسن ہے اس کا نصف حصہ اللہ تعالیٰ نے یوسف علیہ السلام کو عطا فرمایا تھا۔ [شطر] کے معنی حصے کے بھی ہوتے ہیں، اس معنی کے اعتبار سے مطلب ہوگا، حسن کا ایک حصہ انھیں دیا گیا تھا، اس کا مطلب بھی حسن و جمال کی فراوانی ہی ہوگا۔ گویا شطر کو نصف کے معنی میں لیا جائے یا حصے کے معنی میں، دونوں صورتوں میں مطلب حضرت یوسف علیہ السلام کے ظاہری حسن و جمال میں امتیازی مقام کو واضح کرنا ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے انھیں سرفراز فرمایا تھا۔
⓯ ایک حدیث میں ”داروغہ جہنم“ (مالک) سے بھی ملاقات کا ذکر ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب میں (بیت المقدس سے امامت کر کے) نماز سے فارغ ہوا تو کسی نے کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! یہ مالک، ”داروغہ جہنم“ ہے، اسے سلام کریں۔ میں اس کی طرف مڑا تو اس نے پہل کر کے مجھے سلام کر دیا۔
صحیح مسلم، الإيمان، باب ذكر المسيح ابن مريم والمسيح الدجال، حدیث: 172
⓰ اکثر روایات میں ہے کہ ساتویں آسمان پر مجھے سدرة المنتہٰی کے قریب کر دیا گیا۔ بعض روایات میں سدرة المنتہٰی چھٹے آسمان پر بتلایا گیا ہے۔ اگر یہ الفاظ محفوظ ہوں تو اس کی توجیہ یہ کی گئی ہے کہ ممکن ہے اس کا اصل تنا چھٹے آسمان پر ہو اور اس کا زیادہ پھیلاؤ ساتویں آسمان ہی پر ہو۔ بہر حال یہ ایک بیری کا درخت ہے جو تجلیات الہی کا مظہر ہے۔ [منتهٰي] کا مطلب ہے مقام انتہا، زمین سے اوپر آنے والی چیزوں کی بھی آخری حد یہی ہے۔ ان کو یہاں وصول کیا جاتا ہے اور جو اس کے اوپر سے، یعنی اللہ کی طرف سے نیچے اترتا ہے، اس کی حد بھی یہی ہے۔ یہیں سے احکام الہی کو وصول کیا جاتا ہے۔
صحيح مسلم ، الإيمان، باب فى ذكر سدرة المنتهى، حديث : 173
صحیح مسلم کی ایک اور روایت میں ہے:
فلما غشيها من أمر الله ما غشي تغيرت، فما أحد من خلق الله يستطيع أن ينعتها من حسنها
”جب اللہ کا حکم اپنے خصوصی انداز سے اس کو ڈھانپتا ہے تو وہ اس طرح بدل جاتا ہے کہ مخلوق میں کوئی ایسا شخص نہیں جو اس کے حسن و رعنائی کی منظر کشی کر سکے۔“
صحيح مسلم، الإيمان، باب الاسراء برسول اللہ ﷺ حديث: 162
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث مسلم میں ہے: قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے: ﴿إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَىٰ﴾ جب اس بیری کے درخت پر چھا رہا تھا جو چھا رہا تھا۔ سے مراد ہونے کے پروانے ہیں جو اس بیری کے گرد منڈلاتے اور اس کے حسن و رعنائی میں اضافہ کرتے ہیں۔
امام بیضاوی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ان پروانوں کو تمثیل کے طور پر سونے کا کہا گیا ہے جیسے سونا صاف اور چمک دار ہوتا ہے، یہ پروانے بھی اپنے صاف شفاف رنگ اور چمک دمک میں ایسے ہیں جیسے سونا ہوتا ہے، لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ بھی ممکن ہے کہ بیری کے گرد منڈلانے والے پروانے واقعتاً اور حقیقتاً سونے ہی کے ہوں اور اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے ان کے اندر اڑنے کی صفت پیدا کر دی ہو۔ اس کے لیے ایسا کرنا کوئی مشکل نہیں۔
فتح البارى، ج : 7 ، ص : 267 مطبوعه دارالسلام – الرياض
قرآن کی رو سے اسی سدرة المنتہٰی کے پاس جنت ہے: ‏ ﴿عِندَ سِدْرَةِ الْمُنتَهَىٰ﴾ اسی کے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات کو حضرت جبریل علیہ السلام کو دوسری مرتبہ ان کی اصل شکل میں دیکھا تھا: ‏ ﴿وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ ‎.‏ عِندَ سِدْرَةِ الْمُنتَهَىٰ﴾ . (النجم: 13-14) اس پر مزید آگے آئے گی۔

⓱ شب معراج کا سب سے اہم عطیہ، نماز پنجگانہ

بہر حال یہی وہ سدرة المنتہٰی ہے جو آخری حد ہے۔ اس سے آگے کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ فرشتوں کو وحی کے ذریعے سے اپنے احکام سے نوازتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی لیلة المعراج کو اس مقام سے آگے نہیں گئے۔ اللہ تعالیٰ نے یہیں آپ کو وحی کے ذریعے سے نماز کی فرضیت سے آگاہ فرمایا: ﴿فَأَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَىٰ﴾ (النجم: 10) ”پس اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کی طرف وحی کی جو وحی کی۔“
اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے اپنے پیغمبر کو بتلایا کہ میں نے آپ کی امت پر پچاس نمازیں فرض کی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم معراج کا یہ تحفہ لے کر واپس پلٹے تو موسیٰ علیہ السلام نے تخفیف کرانے کا مشورہ دیا اور ان کے کہنے پر آپ متعدد مرتبہ تخفیف کے لیے بارگاہ الہی میں درخواست گزار ہوئے۔
اس کے لیے آپ کتنی مرتبہ بارگاہ الہی میں عرض گزار ہوئے؟ اس سلسلے میں بھی روایات میں اختلاف ہے۔ علماء نے ان کے درمیان تطبیق کی دو صورتیں بیان کی ہیں۔ یا تو دس دس کر کے چار مرتبہ اور آخری چکر میں پانچ نمازیں معاف ہوئیں۔ یا پھر پانچ پانچ کر کے معاف ہوئیں۔ اس طرح پہلی صورت میں پانچویں مرتبہ میں اور دوسری صورت میں نویں مرتبہ میں 45 نمازیں معاف ہو کر صرف پانچ رہ گئیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے دوسری صورت کو راجح قرار دے کر دوسری روایات کو اس پر محمول کیا ہے۔
فتح البارى، ج 1، ص 600
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (هن خمس وهن خمسون)” یہ پانچ ہیں اور پچاس ہیں۔“ صحيح البخاري، الصلاة، باب كيف فرضت الصلاة فى الإسراء حديث : 349 یعنی عمل کے اعتبار سے گنتی میں یہ پانچ ہیں اور اجر و ثواب کے اعتبار سے یہ پچاس شمار ہوں گی۔ دوسری روایت کے الفاظ ہیں:
إنه لا يبدل القول لدي كما فرضت عليك فى أم الكتاب، قال: فكل حسنة بعشر أمثالها، فهي خمسون فى أم الكتاب، وهى خمس عليك
”میرے ہاں بات تبدیل نہیں ہوتی،( یہ اس طرح ہی ہے) جیسے میں نے آپ پر لوح محفوظ میں فرض کی تھیں۔ پس ہر نیکی، دس نیکیوں کے برابر ہے، اس اعتبار سے یہ آپ کے لیے پانچ ہیں اور لوح محفوظ میں پچاس ہیں۔“
صحيح البخاري، التوحيد، حديث: 7517

⓲ شب معراج میں فرضیت نماز کی حکمت

اللہ تعالیٰ نے شب معراج میں نماز کیوں فرض کی؟ اس کی ایک حکمت علماء نے یہ بیان کی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو آسمانوں کی سیر کرائی تو وہاں فرشتوں کی عبادت کا منظر بھی دکھایا گیا کہ کوئی فرشتہ حالت قیام میں مصروف عبادت ہے، وہ بیٹھتا نہیں۔ کوئی حالت رکوع میں ہے، وہ سجدے میں نہیں جاتا اور کوئی سجدے کی حالت میں ہے، اس سے اٹھتا ہی نہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی اس عبادت کی مناسبت سے امت محمدیہ پر نماز کی صورت میں ایسی عبادت مقرر فرما دی جس میں بیک وقت یہ ساری ہی صورتیں آجاتی ہیں۔ اس میں قیام بھی ہے اور رکوع و سجود بھی۔
فتح البارى، ج 7 ، ص : 270
ایک دوسری حکمت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ظاہر و باطن کو آب زمزم سے پاک صاف کر کے جس طرح مقدس و مطہر کر دیا گیا تھا اور ایمان و حکمت سے آپ کو نوازا گیا تھا۔ ایسے ہی نماز کے لیے بھی ضروری ہے کہ پہلے ہر قسم کی ظاہری و باطنی غلاظت سے اپنے آپ کو پاک کیا جائے۔ اس مناسبت سے اس موقع پر نماز کی فرضیت کو اہمیت دی گئی۔ علاوہ ازیں اس طرح آپ کے شرف و فضل کو فرشتوں پر بھی واضح کرنا تھا جو بلا واسطہ نماز کے حکم سے فرشتوں پر آشکارا ہو گیا۔
فتح الباري، الصلاة ، ج:1 ، ص: 596
معراج سے قبل نماز کی کوئی متعین یا غیر متعین صورت تھی یا نہیں؟ بعض علماء کی رائے ہے کہ صرف رات کو بغیر کسی تعین یا حد کے نماز پڑھی جاتی تھی۔ بعض کہتے ہیں کہ صبح و شام صرف دو دو رکعتیں پڑھی جاتی تھیں۔ بعض کہتے ہیں کہ رات کے کچھ حصے کا قیام فرض تھا۔
فتح البارى، ج 1، ص 603
⓳ بعض روایات میں ہے کہ میں ایسے بلند مقام پر پہنچا جہاں مجھے قلموں کے چلنے کی آوازیں سنائی دیتی تھیں: (أسمع فيه صريف الأقلام) یہ جگہ بھی سدرة المنتہٰی کے آس پاس ہی ہے جہاں فرشتے لوح محفوظ سے اللہ کے فیصلے نقل کرتے ہیں اور یہ اتنی بڑی تعداد میں ہیں کہ ان کی قلموں کے بہ یک وقت چلنے سے آوازوں کی ایک کہکشاں سج جاتی ہے۔
صحيح البخاري، الصلاة، حدیث : 349
(20)حدیث میں سدرة المنتہٰی پر چار نہریں دیکھنے کا بھی بیان ہے۔ دو جنت کے اندر اور دو باہر۔ باہر والی دو نہریں نیل اور فرات ہیں اور صحیح مسلم کی روایت میں دوسری دو نہروں کے نام سيحان اور جيحان بتلائے گئے ہیں اور ان کی بابت بھی یہ کہا گیا ہے کہ وہ جنت سے ہیں، یعنی اس میں چاروں نہروں کو (كل من أنهار الجنة) کہا گیا ہے۔
صحیح مسلم حدیث : 2839
اس سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان نہروں کے سوتے جنت میں ہیں، چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس حدیث میں ہے کہ نیل اور فرات کی اصل جنت سے ہے اور یہ دونوں سدرة المنتہٰی کی اصل سے نکلتی ہیں، پھر جہاں اللہ چاہتا ہے وہاں وہ چلتی ہیں، پھر زمین پر اترتی ہیں، پھر اسی پر چلتی ہیں اور اسی میں سے نکلتی ہیں اور ایسا ہونا عقل کے خلاف نہیں۔ حدیث کا ظاہر بھی اسی بات کا شاہد ہے۔ اس لیے یہی معتمد علیہ بات ہے۔
فتح الباري، مناقب الأنصار، باب المعراج، ج 7، ص 268
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:” خلاصہ یہ ہے کہ سدرة المنتہٰی کی اصل جنت ہے اور یہ دونوں نہریں اولاً اس کی اصل سے نکلتی ہیں، پھر چلتی ہیں، یہاں تک کہ زمین میں استقرار حاصل کر لیتی ہیں، پھر یہیں سے اس کے سوتے نکلتے ہیں۔ “ (حوالہ مذکور)
شیخ البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”ان نہروں کے جنت سے ہونے سے مراد شاید یہ ہے کہ ان کی اصل جنت سے ہے جیسے انسان کی اصل جنت سے ہے، پس یہ حدیث اس بات کے منافی نہیں ہے جو ان نہروں کی بابت مشہور و معلوم ہے کہ یہ نہریں زمین کے معروف سرچشموں سے پھوٹتی ہیں۔ پس اگر اس کے یہ یا اس سے ملتے جلتے معنی نہیں ہیں تو یہ حدیث امور غیب سے متعلق ہے جن پر ایمان رکھنا اور جو خبر دی گئی ہے اس کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔“
الصحيحه: 178,177/1 ، حدیث : 112,111
﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾ (النساء:65)
(21)سدرة المنتہٰی پر پہنچنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ثم أدخلت الجنة فإذا فيها جنابذ اللؤلؤ، وإذا ترابها المسك
”پھر مجھے جنت میں لے جایا گیا تو اس میں موتیوں کے قبے ہیں اور اس کی مٹی کستوری ہے۔“
صحيح مسلم، الإيمان، باب الاسراء برسول اللہ ﷺ ، حديث : 163

(22) سدرة المنتہٰی کے مزید دو تحفے

سدرة المنتہٰی میں جہاں نماز کا تحفہ ملا، وہاں دو تحفے اور بھی ملے، حدیث میں ہے:
فأعطي رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاثا: أعطي الصلوات الخمس، وأعطي خواتيم سورة البقرة، وغفر لمن لم يشرك بالله من أمته شيئا المقحمات
”پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین چیزیں عطا کی گئیں: ➊ پانچ نمازیں، ➋ سورة البقرہ کی آخری آیتیں ➌ اور آپ کی امت میں سے اس شخص کے کبیرہ گناہوں کی معافی جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا۔“
صحيح مسلم، الإيمان، باب فى ذكر سدرة المنتهى ، حديث : 173

سورة البقرہ کی آخری آیتوں سے مراد آخری دو آیتیں ہیں

‏ ﴿آمَنَ الرَّسُولُ﴾ سے تا آخر جیسا کہ ایک اور حدیث میں ان کی فضیلت بیان کی گئی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الآيتان من آخر سورة البقرة، من قرأهما فى ليلة كفتاه
”سورة البقرہ کی آخری دو آیتوں کی یہ فضیلت ہے کہ جو ان کو رات کے وقت پڑھتا ہے، وہ اس کو کافی ہو جاتی ہیں۔“
صحيح مسلم، صلاة المسافرين، باب في فضل الفاتحة وخواتيم سورة البقرة ، حديث: 807
کس سے کافی ہو جاتی ہیں؟ اس کی بابت امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
بعض کہتے ہیں: قیام اللیل (نماز تہجد) سے یعنی رات کو ان دو آیتوں کا پڑھ لینا، نماز تہجد کے قائم مقام ہو جاتا ہے۔ اور بعض کہتے ہیں: شیطان سے کافی ہو جاتی ہیں، یعنی ان کے پڑھ لینے سے شیطان سے بچاؤ ہو جاتا ہے۔ اور بعض کہتے ہیں: تمام آفات سے بچاؤ کا سبب ہیں۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ احتمال ہے کہ یہ تمام ہی باتوں کے لیے کافی ہو جاتی ہوں۔
شرح نووی، ج 6، ص : 91، 92 مكتبة الغزالي، دمشق
ایک اور حدیث میں ہے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ایک دفعہ جبریل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے اپنے اوپر سے دروازہ کھلنے کی سی آواز سنی۔ آپ نے اپنا سر مبارک اوپر اٹھایا تو جبریل علیہ السلام نے کہا: ”یہ آسمان کا دروازہ ہے جو آج کھولا گیا ہے۔ آج سے پہلے یہ کبھی نہیں کھولا گیا، اس سے ایک فرشتہ اترا ہے۔ اور کہا: یہ ہے وہ فرشتہ جو زمین پر اترا ہے آج سے پہلے یہ فرشتہ بھی کبھی نہیں اترا۔“
پس اس فرشتے نے سلام کیا اور کہا:” آپ کو دو نوروں کی خوشخبری ہو جو آپ کو عطا کیے گئے ہیں۔ آپ سے پہلے یہ دو نور کسی نبی کو نہیں دیے گئے۔ ایک سورة الفاتحة اور دوسرا سورة البقرہ کی آخری آیتیں۔ ان میں سے جو حرف بھی آپ پڑھیں گے اس کا اجر آپ کو دیا جائے گا۔ “
صحيح مسلم صلاة المسافرين، حديث: 806
[مقحمات، مقحمة] کی جمع ہے، یہ (تقحم) سے ہے جس کے معنی ہلاکت میں پڑنے کے ہیں۔ اس اعتبار سے (مقحمات) کے معنی ہوں گے، ایسے بڑے گناہ جو ہلاکت میں ڈالنے والے اور جہنم میں لے جانے والے ہیں، یعنی کبیرہ گناہ اور کبیرہ گناہوں کی بابت اہل سنت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ وہ توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوں گے الا یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنا خصوصی فضل و کرم کسی پر فرمادے۔
اس حدیث معراج میں جو فرمایا گیا ہے کہ کبیرہ گناہوں کی مغفرت کا تحفہ بھی مجھے عطا کیا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میری امت کے وہ لوگ جو دنیا میں کبیرہ گناہوں کے مرتکب ہوتے رہے اور توبہ کی توفیق بھی انھیں میسر نہیں آئی حتیٰ کہ اسی حالت میں وہ دنیا سے چلے گئے۔ ایسے لوگ اگر جہنم میں جائیں گے تو وہاں وہ ہمیشہ نہیں رہیں گے جیسے مشرکین اور کفار ہمیشہ جہنم ہی میں رہیں گے بلکہ وہ اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد جہنم سے نکال لیے جائیں گے اور جنت میں داخل کر دیے جائیں گے، یعنی (مقحمات) کی مغفرت کا مطلب بالآخر مغفرت ہے، یہ نہیں کہ وہ جہنم میں جائیں گے ہی نہیں۔ ان کا سزا بھگتنے کے لیے عارضی طور پر جہنم میں جانا، مغفرت ذنوب کے منافی نہیں ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے