شب برات
خاص پندرہ شعبان کی رات عبادت اور صبح کو روزہ رکھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین و ائمہ دین سے ثابت نہیں بلکہ بعض علماء نے اسے بدعت تک قرار دیا ہے اس رات عبادت کے قائلین کے دلائل کا جائزہ پیش خدمت ہے۔
دلیل نمبر 1۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
إذا كانت ليلة النصف من شعبان فقوموا ليلها وصوموا نهارها فإن الله ينزل فيها لغروب الشمس إلى سماء الدنيا فيقول ألا مستغفر لي فأغفر له ألا مسترزق فأرزقه ألا مبتلى فأعافيه ألا كذا ألا كذا حتى يطلع الفجر.
پندرہ شعبان کی رات قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو اس رات اللہ تعالیٰ غروب آفتاب کے فوراً بعد آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور کہتے ہیں کوئی معافی کا طلبگار ہے میں اسے معاف کر دوں کوئی رزق کا طلبگار ہے میں اسے رزق عطا کر دوں کوئی بیمار ہے میں اسے صحت وعافیت سے نواز دوں کوئی ایسا ہے کوئی ایسا ہے اللہ تعالیٰ طلوع فجر تک یہی فرماتے رہتے ہیں۔
(سنن ابن ماجه 1388 العلل المتناهية لابن الجوزي 71/2 ح 922)
روایت من گھڑت ہے۔
➊ ابوبکر بن عبداللہ بن محمد ابن ابی سبرہ کذاب اور وضاع ہے۔
❀ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
يضع الحديث.
احادیث گھڑتا تھا۔
(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم 306/7)
➋ ابراہیم بن محمد بن علی بن عباس مجہول الحال ہے اسے صرف امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اشتقات 4/6 میں ذکر کیا ہے۔
❀ حافظ نووی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔
(خلاصة الأحكام 617/1)
دلیل نمبر 2۔
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے۔
پندرہ شعبان کی ایک رات میری باری تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آرام فرما تھے آدھی رات ہوئی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بستر سے گم پایا مجھے ناگواری ہوئی یہ عورت کی فطرت ہے میں نے چادر اوڑھ لی اللہ کی قسم وہ چادر اون اور ریشم کی تھی نہ خام ریشم کی تھی نہ ہی ریشم کی تھی نہ ہی ریشمی کپڑے کی تھی جس کا تانا بانا ریشم کا ہوتا ہے نہ روئی کی تھی نہ ہی سنی کے کپڑے کی تھی پوچھا گیا وہ چادر کس چیز کی بنی ہوئی تھی فرمایا اس کا تانا بکری کے بالوں کا اور بانا اونٹ کے بالوں سے بنا ہوا تھا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیگر ازواج کے حجروں میں تلاش کیا وہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ملے میں اپنے حجرے میں واپس لوٹ آئی ناگہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تم پر ایک کپڑا تھا جو زمین پر گرا ہوا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم حالت سجدہ میں یہ دعا پڑھ رہے تھے۔
سجد لله سوادي وخيالي وآمن بك فؤادي هذه يدي وما جنيته بها على نفسي يا عظيم رجاء لكل عظيم اغفر الذنب العظيم سجد وجهي للذي خلقه وشق سمعه وبصره.
میرے وجود و ہستی نے اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ کیا میرا دل تجھ پر ایمان لایا یہ میرا ہاتھ اور میرے اعمال ہیں اے بڑے کاموں کی بڑی امید بڑے گناہ معاف فرما دے میرا چہرہ اس ذات کے سامنے سر بہ سجود ہے جس نے اسے پیدا کیا اور اس کے کانوں اور آنکھوں کے سوراخ بنائے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہو کر میرے ساتھ چادر میں داخل ہو گئے میرا سانس پھول چکا تھا مجھے کیا ہوا میں نے ایسا کیوں کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سانس کیوں پھول رہا ہے میں نے صورت حال سے آگاہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ مبارک میرے گھٹنوں پر پھیرنا شروع کیا اور فرمایا افسوس ہو ان گھٹنوں کا جو اس رات عبادت نہ کر سکیں اس رات اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر اترتے ہیں مشرک اور اپنے مسلمان بھائی سے بغض وعداوت رکھنے والے کے سوا تمام بندوں کی بخشش فرما دیتے ہیں۔
(النزول للدارقطني 134 الدعاء للطبراني 557 شعب الإيمان للبيهقي 3838)
سند ضعیف ہے۔
➊ سلیمان بن ابی کریمہ منکر روایات بیان کرتا ہے امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ اسے ضعیف کہتے ہیں۔
❀ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
عامة أحاديثه مناكير.
اس کی اکثر احادیث منکر ہیں۔
(الجرح والتعديل 138/4)
❀ امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
يحدثه بمناكير ولا يتابع على كثير من حديثه.
منکر روایات بیان کرتا ہے اس کی کثیر روایات پر متابعت نہیں کی گئی۔
(الكامل في ضعفاء الرجال 263/3)
❀ حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔
لين صاحب المناكير.
کمزور ہے منکر حدیثیں بیان کرتا ہے۔
(المغنى في الضعفاء 443/1)
➋ عمر و بن ہاشم بیروتی کی روایات میں کلام ہے۔
لہذا یہ حدیث ضعیف اور نا قابل عمل ہے۔
❀ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
هذا حديث لا يصح.
یہ حدیث ثابت نہیں۔
(العلل المتناهية 68/2)
❀ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
في إسناده سليمان بن أبى كريمة ضعفه ابن عدي فقال عامة أحاديثه مناكير.
اس کی سند میں سلیمان بن ابی کریمہ ہے اسے امام ابن عدی رحمہ اللہ ضعیف قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اس کی اکثر احادیث منکر ہوتی ہیں۔
(التلخيص الحبير 254/1)
اس حدیث کے اور طرق بھی ہیں۔
1۔ کتاب أحاديث النزول للدارقطني 135 فضائل الأوقات للبيهقي 26۔
سند ضعیف ہے نضر بن کثیر ضعیف ہے۔
(تقريب التهذيب لابن حجر 7147)
2۔ فضائل الأوقات للبيهقي 27 العلل المتناهية لابن الجوزي 918۔
سند ضعیف ہے۔
➊ سعید بن عبد الکریم واسطی کی توثیق نہیں۔
➋ ابو نعمان سعدی کے حالات زندگی نہیں ملے۔
❀ امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
في هذا الإسناد بعض من يجهل.
اس سند میں بعض راوی مجہول ہیں۔
(الدعوات الكبير 147/2 تحت الرقم 531)
3۔ شعب الإيمان للبيهقي 3554۔
سند ضعیف ومرسل ہے۔
➊ علاء بن حارث کا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سماع نہیں۔
➋ احمد بن عبد الرحمن بن وہب کی اپنے چچا عبداللہ بن وہب سے مروی بعض روایات میں کلام ہے۔
4۔ ميزان الاعتدال للذهبي 4/55 ترجمة محمد بن يحيى۔
سند ضعیف ہے محمد بن یحیی بن اسماعیل تمیمی تمار کے بارے میں امام دار قطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
ليس بالمرضي.
پسندیدہ نہیں ہے۔
(سؤالات حمزة السهمي للدار قطني 31)
❀ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
أتى بخبر منكر.
اس نے مذکورہ منکر حدیث بیان کی ہے۔
(میزان الاعتدال 55/4)
5۔ شعب الإيمان للبيهقي 3837۔
سند سخت ضعیف ہے سلام طویل متروک ہے۔
(تقريب التهذيب لابن حجر 2702)
سلام بن سلیمان مدائنی بھی ضعیف ہے۔
(تقريب التهذيب لابن حجر 2704)
نیز امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ضعیف کہا ہے۔
6۔ (معجم الشيوخ لأبي بكر الإسماعيلي 1/408 409)
سند جھوٹی ہے۔
➊ عباد بن احمد عرزمی کو امام دار قطنی رحمہ اللہ نے متروک کہا ہے۔
(سؤالات البرقانی 330)
➋ عباد کا چا محمد بن عبد الرحمن بن محمد عرزمی بھی متروک ہے محمد بن عبد الرحمن کا والد بھی متروک ہے۔
❀ امام دار قطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
محمد بن عبد الرحمن متروك وأبوه وجده.
محمد بن عبد الرحمن اس کا باپ اور دادا سب متروک ہیں۔
(سؤالات البرقاني 443)
7۔ العلل المتناهية لابن الجوزي 69/2 ح 919۔
من گھڑت ہے عطاء بن عجلان متروک و کذاب اور وضاع ہے ثابت ہوا کہ اس روایت کی ساری کی ساری سندیں ضعیف ہیں۔
دلیل نمبر 3۔
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے۔
ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بستر سے گم پایا آپ کی تلاش میں نکلی دیکھا کہ آپ بقیع میں ہیں اور سرمبارک آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے ہیں بعد ازاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آپ اندیشہ محسوس کرتی ہیں کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ پر ظلم کریں گے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے عرض کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایسی کوئی بات نہیں میرا گمان تھا کہ آپ کسی دوسری بیوی کے ہاں تشریف لے گئے ہوں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
إن الله عز وجل ينزل ليلة النصف من شعبان إلى السماء الدنيا فيغفر لأكثر من عدد شعر غنم كلب.
اللہ تعالیٰ پندرہ شعبان کی رات آسمان دنیا کی طرف نزول فرما کر کلب قبیلہ کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ انسانوں کی مغفرت فرماتے ہیں۔
(سنن الترمذي 739 سنن ابن ماجه 1389 مسند الإمام أحمد 238/6 كتاب أحاديث النزول للدارقطني 130 مسند عبد بن حمید 1507 شعب الإيمان للبيهقي 3824 العلل المتناهية لابن الجوزي 915)
سند ضعیف ہے۔
➊ حجاج بن ارطاۃ جمہور کے نزدیک ضعیف اور مدلس ہے۔
➋ یحیی بن ابی کثیر مدلس ہیں جو عن سے روایت کر رہے ہیں۔
➌ یحیی بن ابی کثیر رحمہ اللہ نے عروہ سے نہیں سنا۔
➍ حجاج بن ارطاۃ نے یحیی بن ابی کثیر سے سماع نہیں کیا۔
❀ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
سمعت محمدا يضعف هذا الحديث وقال يحيى بن أبى كثير لم يسمع من عروة والحجاج بن أرطاة لم يسمع من يحيى بن أبى كثير.
میں نے امام بخاری رحمہ اللہ کو اسے ضعیف قرار دیتے ہوئے سنا فرمایا یحیی بن ابی کثیر نے عروہ سے اور حجاج بن ارطاۃ نے یحیی بن ابی کثیر سے سماع نہیں کیا۔
(جامع الترمذي تحت الحديث 739)
دلیل نمبر 4۔
سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
من أحيا الليالي الخمس وجبت له الجنة.
جس نے پانچ دن شب بیداری کی اس کے لیے جنت واجب ہوگئی یہ ذوالحجہ عرفہ عید الفطر اور عید الاضحی کی اور پندرہ شعبان کی رات ہیں۔
(الترغيب والترهيب للأصبهاني 367)
جھوٹی روایت ہے۔
➊ عبد الرحمن بن زید بن اسلم بالاتفاق ضعیف ہے اس نے اپنے والد سے منسوب جھوٹی روایات بیان کی ہیں۔
❀ امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
روى عن أبيه أحاديث موضوعة.
اپنے باپ سے موضوع احادیث بیان کی ہیں۔
(المدخل إلى الصحيح ص 154)
یہ روایت بھی اس نے اپنے باپ سے بیان کی ہے لہذا موضوع من گھڑت ہے۔
➋ سوید بن سعید حد ثانی کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
صدوق فى نفسه إلا أنه عمي فصار يتلقن ما ليس من حديثه.
یہ صدوق تھا نابینا ہونے کے بعد تلقین قبول کر لیتا تھا۔
(تقريب التهذيب 2690)
دلیل نمبر 5۔
سیدنا ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
خمس ليال لا ترد فيهن الدعوة أول ليلة من رجب وليلة النصف من شعبان وليلة الجمعة وليلة الفطر وليلة النحر.
پانچ راتوں میں دعا نہیں ہوتی ان میں رجب کی پہلی رات پندرہ شعبان کی رات جمعہ کی رات عید الفطر کی رات اور عید الاضحیٰ کی رات۔
(تاريخ دمشق لابن عساكر 408/10 الغرائب المُلتقطة لابن حجر 403/4)
موضوع ومن گھڑت ہے۔
➊ ابراہیم بن ابی بیچی اسلامی ضعیف ومتروک ہے۔
➋ ابو قعنب کے حالات زندگی نہیں ملے۔
➌ ابو قعنب کا سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے سماع معلوم نہیں۔
➍ عبدالقدوس بن مرد اس کے حالات زندگی نہیں ملے۔
دلیل نمبر 6۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
من صلى ليلة النصف من شعبان ثنتي عشرة ركعة يقرأ فى كل ركعة قل هو الله أحد ثلاثين مرة لم يخرج حتى يرى مقعده من الجنة ويشفع فى عشرة من أهل بيته كلهم وجبت له النار.
جو پندرہ شعبان کی رات بارہ رکعات ادا کرتا ہے ہر رکعت میں تیس مرتبہ سورت اخلاص پڑھتا ہے وہ دنیا سے نہیں جائے گا جب تک کہ جنت میں اپنا ٹھکانہ نہ دیکھ لے وہ اپنے گھرانے کے ایسے دس افراد کی سفارش کرے گا جن پر جہنم واجب ہو چکی ہوگی۔
(الموضوعات لابن الجوزي 444/2 ح 1013)
جھوٹی روایت ہے۔
➊ ابو اسماعیل عبدالصمد بن محمد قنطری۔
➋ ابوالحسن علی بن احمد بز نانی۔
➌ محمد بن جبهان۔
➍ عمر بن عبد الرحیم۔ (کے حالات زندگی نہیں مل سکے۔)
➎ بقیہ بن ولید کا عنعنہ ہے۔
➏ لیث بن ابی سلیم ضعیف اور سیء الحفظ ہے۔
➐ قعقاع کا سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں۔
حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اسے موضوع من گھڑت کہا ہے۔
❀ حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں۔
إسناده ظلمات إلى بقية.
بقیہ تک اس کی سند کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔
(تلخيص الموضوعات ص186 ح 437)
دلیل نمبر 7۔
❀ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔
رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة النصف من شعبان قام فصلى أربع عشرة ركعة ثم جلس بعد الفراغ فقرأ بأم القرآن أربع عشرة مرة وقل هو الله أحد أربع عشرة مرة وقل أعوذ برب الفلق أربع عشرة مرة وقل أعوذ برب الناس أربع عشرة مرة وآية الكرسي مرة ولقد جاء كم رسول الآية فلما فرغ من صلاته سألت عما رأيت من صنيعه فقال من صنع مثل الذى رأيت كان له كعشرين حجة مبرورة وكصيام عشرين سنة مقبولة فإن أصبح فى ذلك اليوم صائما كان كصيام ستين سنة ماضية وسنة مستقبلة.
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پندرہ شعبان کی رات دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ رکعات ادا کیں فارغ ہونے کے بعد بیٹھ گئے چودہ مرتبہ سورۃ الفاتحہ چودہ مرتبہ سورۃ الاخلاص چودہ بار سورۃ الفلق چودہ مرتبہ سورۃ الناس ایک مرتبہ آیت الکرسی اور سورۃ توبہ کی ایک سو اٹھائیس 128 نمبر آیت پڑھی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے اس بارے میں سوال کیا فرمایا جو شخص یہ عمل کرتا ہے اسے بیس مبرور حج اور بیس سال کے مقبول روزوں کا ثواب دیا جائے گا جو شخص پندرہ شعبان کے دن روزے کی حالت میں صبح کرے اسے ساٹھ سال گزشتہ اور ایک سال آئندہ کے روزوں کا ثواب ملے گا۔
(شُعب الإيمان للبيهقي 424/7 ح 3559 الموضوعات لابن الجوزي 444/2_445 ح 1014)
جھوٹی روایت ہے۔
➊ ابوالقاسم عبدالخالق بن علی موذن۔
➋ ابو جعفر محمد بن بسطام قومسی۔
➌ ابو جعفر احمد بن محمد بن جابر۔
➍ احمد بن عبدالکریم۔
➎ خالد حمصی۔
ان سب راویوں کے حالات زندگی نہیں مل سکے۔
امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
في رواية قبل عثمان بن سعيد مجهولون والله أعلم.
اس روایت میں عثمان بن سعید سے پہلے مجہول راویوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں واللہ اعلم۔
(شعب الإيمان 424/7)
➏ حکم بن عتیبہ مدلس ہیں سماع کی تصریح نہیں کی۔
➐ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کا سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں۔
❀ امام ابو زرعہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
إبراهيم النخعي عن على مرسل.
ابراہیم نخعی رضی اللہ عنہ کی سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت مرسل ہوتی ہے۔
(المراسيل لابن أبي حاتم ص10 الرقم 23)
❀ حافظ بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
يشبه أن يكون هذا الحديث موضوعا وهو منكر.
یہ حدیث من گھڑت اور منکر معلوم ہوتی ہے۔
(شعب الإيمان 424/7)
❀ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
هذا موضوع أيضا وإسناده مظلم وكان واضعه يكتب من الأسماء ما وقع له ويذكر قوما ما يعرفون.
اسی طرح یہ روایت بھی موضوع اور اس کی سند مجہول ہے یہ حدیث گھڑنے والا خیالی نام لکھ دیتا تھا اور ایسے لوگ ذکر کرتا جن کا اتہ پتہ ہی نہیں۔
(الموضوعات 445/2)
❀ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
إسناده مظلم وفيه كذاب.
سند مجہول ہے اور اس میں ایک جھوٹا ہے۔
(تلخيص الموضوعات ص 186)
دلیل نمبر 8۔
❀ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
من صلى ليلة النصف من شعبان خمسين ركعة قضى الله له كل حاجة طلبها تلك الليلة وإن كان كتب فى التوح المحفوظ شقيا يمحو الله ذلك ويحوله إلى السعادة ويبعث إليه سبعمائة ألف ملك يكتبون له الحسنات وسبعمائة ألف ملك يبنون له القصور فى الجنة.
جو پندرہ شعبان کی رات پچاس رکعت ادا کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ہر وہ ضرورت پوری کرتا ہے جس کا وہ اس رات مطالبہ کرتا ہے اگر چہ اسے لوح محفوظ میں بد بخت ہی کیوں نہ لکھ دیا گیا ہو اللہ تعالیٰ اسے مٹا کر سعادت مند لکھ دیتا ہے اور اس کی نیکیاں لکھنے کے لیے سات لاکھ فرشتے مامور ہوتے ہیں اور سات لاکھ فرشتے جنت میں اس کے محلات تعمیر کرتے ہیں۔
(ميزان الاعتدال للذهبي 565/3-566 ترجمة محمد بن سعيد الميلي الطبري)
جھوٹی روایت ہے۔
➊ محمد بن سعید ملی طبری کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
لا يدري من هو.
اس کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔
(میزان الاعتدال 565/3)
امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
محمد بن سعيد الأزرق أبو عبد الله الطبري من أهل ميلة يضع الحديث.
اہل میلہ کا محمد بن سعید از رق ابو عبد اللہ طبری احادیث گھڑتا ہے۔
(الكامل في ضعفاء الرّجال 556/7 ترجمة سعيد بن الأزرق)
➋ محمد بن عمر بجلی کو حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے مجہول کہا ہے۔
(میزان الاعتدال 565/3 ترجمه محمد بن سعيد الطبري)
➌ شعیب بن عبد الملک کے حالات زندگی نہیں مل سکے۔
❀ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
قبح الله من وضعه.
اللہ تعالیٰ اسے گھڑنے والے کو برباد کرے۔
(میزان الاعتدال 565/3)
دلیل نمبر 9۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
يا على من صلى مائة ركعة فى ليلة النصف يقرأ فى كل ركعة بفاتحة الكتاب وقل هو الله أحد عشر مرات قال النبى صلى الله عليه وسلم يا على ما من عبد يصلي هذه الصلوات إلا قضى الله عز وجل له كل حاجة طلبها تلك الليلة قيل يا رسول الله وإن كان الله جعله شقيا أيجعله سعيدا قال والذي نفسي بالحق يا على إن مكتوب فى اللوح أن فلان بن فلان خلق شقيا ويمحوه الله عزوجل ويجعله سعيدا ويبعث الله إليه سبعين ألف ملك يكتبون له الحسنات ويمحون عنه السيئات ويرفعون له الدرجات إلى رأس السنة.
علی جو آدمی پندرہ شعبان کی رات سو رکعات نماز ادا کرتا ہے ہر رکعت میں سورت فاتحہ اور سورت اخلاص دس مرتبہ پڑھتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا علی جو آدمی یہ نماز پڑھتا ہے تو اس رات اللہ تعالیٰ سے اپنی جس ضرورت کا مطالبہ کرے اللہ رب العزت پوری کر دیتا ہے عرض کیا گیا اللہ کے رسول وہ بد بخت ہے تو اسے خوش بخت بنا دیا جائے گا فرمایا اس ذات کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے علی اگر چہ لوح محفوظ میں لکھ دیا گیا ہو کہ فلاں بن فلاں بد بخت ہے تو اللہ تعالیٰ اسے مٹا کر سعادت مند لکھ دیں گے اللہ تعالیٰ اس آدمی کی طرف ستر ہزار فرشتے بھیجتا ہے جو اس کی نیکیاں لکھتے ہیں برائیاں مٹاتے ہیں اور آخر سال تک اس کے درجات بلند کرتے ہیں۔
(الموضوعات لابن الجوزي 440/2 ح 1010)
جھوٹی روایت ہے۔
➊ فضل بن خصيب بن عباس بن نصر ابوعباس اصبہانی کے بارے میں امام ابوالشیخ رحمہ اللہ کہتے ہیں۔
كان حديثه يزيد وذكر قبل عن أبى كريب حديثين ثم زاد وكان يقرأ عليه من كتب أبى مسعود كل ما يحمل إليه.
اس کی احادیث اضافہ شدہ ہیں اس نے پہلے بھی ابو کریب سے دو حدیثیں بیان کی ہیں جن میں اضافہ کر دیا ہے کتب ابی مسعود کی طرف منسوب کر کے ہر سنی سنائی بات بیان کر دیتا تھا۔
(طبقات المحدثين بإصبهان 572/3)
➋ علی بن حسن بن يعمر مصری کے متعلق امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
أحاديثه كلها بواطيل ليس لها أصل وهو ضعيف جدا.
اس کی تمام روایتیں جھوٹی اور بے اصل ہیں نیز یہ سخت ضعیف ہے۔
(الكامل في ضعفاء الرجال 211/5)
❀ امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
مصري يكذب يروي عن الثقات بواطيل.
مصری جھوٹا ہے اور ثقہ راویوں سے منسوب باطل روایتیں بیان کرتا ہے۔
(سؤالات البرقاني ص 53 الرقم 368)
❀ امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
روى عن الثوري وابن أبى ذتب ومالك بن أنس وعبد الله بن عمر أحاديث موضوعة.
اس نے سفیان ثوری ابن ابی ذئب مالک بن انس اور عبداللہ بن عمر سے منسوب من گھڑت روایات بیان کی ہیں۔
(المدخل إلى الصحيح 209/1)
➌ سفیان ثوری کا عنعنہ ہے۔
➍ لیث بن ابی سلیم ضعیف ہے۔
➎ مجاہد کا سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں۔
❀ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
هذا حديث لا نشك أنه موضوع وجمهور رواته فى الطرق الثلاثة مجاهيل وفيهم ضعفاء بمره والحديث محال قطعا.
یہ حدیث بلا شبہ من گھڑت ہے اس کی تینوں سندوں کے اکثر راوی مجہول اور بعض ضعیف ہیں اس کا حدیث ہونا قطعاً محال ہے۔
(الموضوعات 443/2)
❀ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے باطل کہا ہے۔
(میزان الاعتدال 120/3)
نیز فرماتے ہیں۔
ألظاهر أنه من وضع على هذا.
یعلی بن حسن کی گھڑ تل ہے۔
(تلخيص الموضوعات ص185-186)
دلیل نمبر 10۔
❀ سیدنا کردوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
من أحيا ليلتي العيد وليلة النصف من شعبان لم يمت قلبه يوم تموت القلوب.
جس نے عید الفطر عید الاضحیٰ اور پندرہ شعبان کو شب بیداری کی اس کا دل اس دن مردہ نہیں ہو گا جس دن دل مردہ ہو جائیں گے۔
(المعجم لابن الأعرابي 1047/3 ح 2252 معرفة الصحابة لأبي نعيم الأصبهاني 2414/5 ح 5908 العلل المتناهية لابن الجوزي 71/2-72 ح 924)
سند سخت ضعیف ہے ۔
➊ عیسی بن ابراہیم بن طہمان قرشی کو امام یحیی بن معین رحمہ اللہ۔ (تاريخ يحيي بن معين برواية الدوري 462/2) نے ليس بشيء امام بخاری رحمہ اللہ۔(التاريخ الكبير 407/6) اور امام نسائی رحمہ اللہ۔(الضعفاء والمتروكون 448) نے منکر الحدیث کہا ہے۔
امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ نے متروک الحدیث کہا ہے۔
(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم 272/6)
➋ سلمہ بن سلیمان جزری کے بارے میں امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
ليس هو بذلك المعروف إنما يحدث عنه على بن حرب وابن أبى العوام الرياحي وبعض ما يرويه لا يتابعه عليه أحد.
نوٹ روایت میں معروف نہیں اس سے علی بن حرب اور ابن ابی العوام ریاحی روایت کرتے ہیں اس کی بعض روایات کی کسی نے متابعت نہیں کی۔
(الكامل في ضعفاء الرّجال 364/4-365 طبع دار الكتب العلمية)
الکامل فی ضعفاء الرجال طبع دار الفکر سے اس کے حالات زندگی گر گئے ہیں۔
➌ مروان بن سالم غفاری ابو عبد اللہ جزری متروک ہے۔
➍ ابن کردوس کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔
➎ مفضل بن فضالہ ضعیف ہے۔
❀ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
هذا حديث لا يصح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم وفيه آفات.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث ثابت نہیں اس میں کئی علتیں ہیں۔
(العلل المتناهية 72/2)
❀ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
هذا حديث منكر مرسل.
منکر اور مرسل ہے۔
(میزان الاعتدال 308/3)
❀ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
في إسناده مروان بن سالم وهو تالف.
اس کی سند میں مروان بن سالم ہے جو سخت ترین ضعیف ہے۔
(التلخيص الحبير 161/2)
دلیل نمبر 11۔
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
من أحيا الليالي الأربع وجبت له الجنة ليلة التروية وليلة عرفة وليلة النحر وليلة الفطر.
جس نے ترویہ عرفہ عید الاضحی اور عید الفطر کی چار راتیں عبادت کی اس پر جنت واجب ہوگئی۔
(تاريخ دمشق لابن عساكر 92/43-93 الترغيب والترهيب لأبي القاسم الأصبهاني 248/1-249 ح 374)
سند باطل ہے۔
➊ عبد الرحمن بن زید کمی بصری متروک و کذاب ہے۔
➋ زید بن حواری علمی ضعیف ہے۔
(تقريب التهذيب لابن حجر 2131)
➌ وہب بن منبہ رحمہ اللہ اور سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے۔
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں فوت ہوئے اور وہب بن منبہ رحمہ اللہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں پیدا ہوئے۔
➍ سوید بن سعید حد ثانی کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
صدوق فى نفسه إلا أنه عمي فصار يتلقن ما ليس من حديثه.
یہ صدوق تھا نابینا ہونے کے بعد تلقین قبول کر لیتا تھا۔
(تقريب التهذيب 2690)
❀ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
هذا حديث لا يصح.
یہ حدیث ثابت نہیں۔
(العلل المتناهية 78/2)
دلیل نمبر 12۔
❀ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
من قرأ ليلة النصف من شعبان ألف مرة قل هو الله أحد فى مائة ركعة لم يخرج من الدنيا حتى يبعث الله إليه فى منامه مائة ملك يلبون يبشرونه بالجنة وثلاثون يومنونه من النار وثلاثون يعصمونه من أن يخطيء وعشرون يكيدون من عاداه.
جس نے پندرہ شعبان کی شب سو رکعات میں ہزار مرتبہ سورۃ اخلاص پڑھی وہ اس وقت تک فوت نہیں ہو گا جب تک اللہ تعالیٰ خواب میں اس کے پاس سو فرشتے نہ بھیج دے جو اسے پکار پکار کر جنت کی خوشخبری دیں گے تیس فرشتے اسے جہنم سے امان دلائیں گے تیس اسے گناہوں سے بچائیں گے اور بیس دشمن کی فریب کاریوں سے تدبیر کریں گے۔
(الموضوعات لابن الجوزي 442/2 ح 1011)
جھوٹی سند ہے اس کے اکثر راویوں کے حالات نہیں مل سکے متن موضوع ہے۔
❀ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
هذا حديث لا نشك أنه موضوع وجمهور رواته فى الطرق الثلاثة مجاهيل وفيهم ضعفاء بمره والحديث محال قطعا.
یہ حدیث بلا شبہ من گھڑت ہے اس کی تینوں سندوں کے اکثر راوی مجہول ہیں اور ان میں ضعیف بھی ہیں لہذا اس کا حدیث ہونا قطعاً محال ہے۔
(الموضوعات 443/2)
❀ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
هذا من عمل الحسين بن إبراهيم أو شيخه والإسناد ظلمة.
یہ حسین بن ابراہیم یا اس کے شیخ کی کارروائی ہے اس کی سند اندھیر ہے۔
(تلخيص الموضوعات ص 186)
حسین بن ابراہیم کا استاذ محمد بن جابار صدوق ہے یہ ان کے بعد والوں کی کارستانی معلوم ہوتی ہے۔
دلیل نمبر 13۔
1۔ أخبار المكّة للفاكهي 86/3 87 اللآلي المصنوعة للسيوطي 59/2۔
جھوٹی روایت ہے۔
➊ عمرو بن ثابت متروک ہے۔
❀ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
ليس بثقة ولا مأمون
ثقہ اور محفوظ نہیں ہے۔
(تاريخ ابن معين برواية الدوري : 440/2)
❀ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
كان ممن يروي الموضوعات عن الأثبات
ثقہ راویوں سے منسوب من گھڑت روایات بیان کرتا تھا۔
(كتاب المجروحين : 42/2)
❀ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے متروک کہا ہے۔
(المغني في الضعفاء : 62/2)
➋ ، ➌ ابویحیی اور اس کے باپ کا تعین نہیں ہو سکا۔
➍ محمد بن مروان ذیلی مجہول ہے۔
دلیل نمبر 14۔
محمد بن علی ابو جعفر باقر رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
من قرأ ليلة النصف من شعبان ألف مرة قل هو الله أحد عشر مرات، لم يمت حتى يبعث الله إليه مائة ملك ثلاثون يبشرونه بالجنة وثلاثون يؤمنونه من النار وثلاثون يقومونه أن يخطئ وعشر أملاك يكتبون أعداءه
جو پندرہ شعبان کی شب ہزار مرتبہ سورۃ اخلاص پڑھنے کا وظیفہ دس مرتبہ کرتا ہے ، تو وہ دنیا سے نہیں جائے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ خواب میں اس کے پاس سو فرشتے بھیج دے، تیس اسے جنت کی خوشخبری دیں گے، تیس اسے جہنم سے امان دلائیں گے تیس اسے گناہوں سے بچائیں گے اور دس فرشتے اس کے دشمنوں کے خلاف تدبیر لکھتے ہیں۔
(الموضوعات لابن الجوزي : 442/2-443 ، ح : 1012)
سند جھوٹ ہے۔
➊ ابو یوسف یعقوب بن عبدالرحمن کے متعلق امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
في حديثه وهم كثير
اس کی روایت میں بہت زیادہ وہم ہے۔
تاريخ بغداد : 431/16
➋ محمد بن عبید اللہ ۔
➌ اور اس کے باپ عبد اللہ کا تعین نہیں ہوسکا۔
➍ عمرو بن مقدام کون ہے؟ کچھ معلوم نہیں۔
➎ علی بن عاصم اگر علی بن عاصم بن صہیب واسطی ہے، تو سخت مجروح ہے
➏ ابوجعفر باقر تابعی براہ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا لینے سے بیان کر رہے ہیں ، لہذا سند مرسل ہے۔
❀ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
هذا حديث لا نشك أنه موضوع، وجمهور رواته فى الطرق الثلاثة مجاهيل وفيهم ضعفاء بمرة والحديث محال قطعا
یہ حدیث بلاشبہ من گھڑت ہے، اس کے اکثر راوی مجہول ہیں، نیز ان میں سخت ضعیف بھی ہیں، اس کا حدیث ہونا قطعاً محال ہے۔
الموضوعات : 443/2
دلیل نمبر 15۔
فضائل رمضان لابن أبي الدنيا، الرقم : 9
جھوٹ ہے
➊ امام بخاری رحمہ اللہ محمد بن عبید عرزمی ابو عبد الرحمن کوفی کے بارے میں فرماتے ہیں۔
تركه ابن المبارك و يحيي
امام عبد اللہ بن مبارک اور امام یحییٰ بن سعید القطان رحمہما اللہ نے اسے متروک قرار دیا ہے۔
(التاريخ الكبير : 1717/1)
امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے ليس بشيء کہا ہے
(تاريخ يحيى بن معين برواية الدوري : 529/2)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
ترك الناس حديثه
محمد ثین نے اس کی حدیث ترک کر دی تھی۔
❀ ابو جعفر باقر رحمہ اللہ کی مرسل ہے۔
(العلل ومعرفة الرّجال : 313/1)
دلیل نمبر 16۔
(الأمالي الشجرة : 270/1)
من طريق الحسين بن علوان عن جعفر بن محمد عن أبيه قال۔ من قرا ليلة النصف من شهر رمضان هذا خطا والصواب شعبان قل هو الله احد الف مرة في ماية ركعة، في كل ركعة عشر مرات، لم يمت حتى يري في منامه ماية من الملائكة ثلاثين يبشرونه بالجنة وثلاثين يومنونه من النار، وثلاثين يعصمونه ان يخطي والعشرة الباقية يكتبون له اعداءه
جو رمضان ( یہ غلطی ہے صحیح شعبان ہے ) کی پندرھویں رات سو رکعت میں ایک ہزار مرتبہ یعنی ہر رکعت میں دس مرتبہ سورۃ اخلاص پڑھتا ہے، وہ خواب میں سو فرشتے دیکھے بغیر نہیں مرے گا تیس اسے جنت کی خوشخبری دیں گے، تیس اسے جہنم سے آزادی کا پروانہ اور تیس اسے گناہوں سے بچائیں گے اور باقی دس اس کے دشمن کے خلاف تدبیر لکھیں گے۔
جھوٹی سند ہے۔
➊ حسین بن علوان کو فی بالاتفاق کذاب متروک اور وضاع ہے۔
➋ ابوجعفر باقر رحمہ اللہ کی مرسل ہے۔
❀ علامہ ابوشامہ مقدسی رحمہ اللہ (665 ھ ) فرماتے ہیں۔
ليس في بفضيلة هذه الليلة وقيام الليلة مستحب في جميع ليالي السنة وكان على النبي صلى الله عليه وسلم واجبا فهذه الليلة بعض من الليالي التي كان يصليها ويحييها وانما المحذور المنكر تخصيص بعض الليالي بصلاة مخصوصة على صفة محصصوصة واظهار ذلك على مثل ما ثبت من شرائع الاسلام كصلاة الجمعة والعيد وصلاة التراويح
اس میں خاص نماز کا ذکر نہیں، بلکہ صرف اس رات کی فضیلت کا اشارہ ہے، باقی سال بھر رات کا قیام تو مستحب ہے، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر واجب تھا ( بعد میں وجوب ختم ہو گیا تھا ) یہ سال کی انہی راتوں میں سے ہے، جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے اور شب بیداری کرتے ۔ منکر وممنوع تو بعض نمازوں کو مخصوص صفت کے ساتھ مخصوص راتوں میں مختص کرنا اور انہیں جمعہ، عیدین اور نماز تراویح کی طرح شعائر اسلام میں سے خیال کرنا ہے۔
(الباعث على إنكار البدع والحوادث، ص 36 ـ 37)
نیز فرماتے ہیں۔
قد ثبت ان هاتين الصلاتين اعني صلاتي رجب وشعبان صلاة بدعة قد كذب فيهما على رسول الله صلى الله عليه وسلم بوضع ما ليس من حديثه وكذب على الله تعالى بالتقدير عليه في جزاء الاعمال ما لم ينزل به سلطانا
رجب اور شعبان کی دونوں نمازیں بدعت ہیں ، ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وہ کچھ گھڑا گیا ہے، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی منقول حدیث نہیں، نیز اللہ تعالیٰ پر جھوٹ ہے کہ وہ ان راتوں میں اعمال کی جزا دیتا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس پر کوئی دلیل نازل نہیں کی۔
(الباعث على إنكار البدع والحوادث، ص 52)
❀ علامہ شاطبی رحمہ اللہ (790 ھ) فرماتے ہیں۔
الالتزام العبادات المعينة في اوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة، كالالتزام صيام يوم النصف من شعبان وقيام ليلته
معین عبادات کا ایسے معین اوقات میں التزام کرنا جن کا شریعت میں کوئی تعین ثابت نہ ہو، جیسے پندرہ شعبان کے دن روزہ اور قیام اللیل کا اہتمام ہے۔
(الإعتصام : 46/1)
❀ علامہ شوکانی رحمہ اللہ (1250ھ) فرماتے ہیں۔
اما مجرد ثبوت ورود ما يدل على فضيلة الوقت فلا ملازمة بينه وبين مشروعية الصلاة فيه
د کسی وقت کے با فضیلت ہونے سے اس میں نماز مشروع نہیں ہو جاتی۔
(تحفة الذاكرين، ص 143)
❀ علامه ابن باز رحمہ اللہ (1420ھ ) فرماتے ہیں۔
لوگوں نے جو بدعات ایجاد کر رکھی ہیں ، ان میں ایک پندرہ شعبان کی رات کا اجتماع اور اگلے دن بطورِ خاص روزہ رکھنا بھی ہے، اس کے جواز پر کوئی قابل اعتماد دلیل نہیں۔ اس کی فضیلت میں ایسی ضعیف روایات وارد ہوئی ہیں، جن پر اعتماد جائز نہیں ۔ اس رات نماز کی فضیلت کے بارے میں منقول ساری روایات من گھڑت ہیں ، جیسا کہ اکثر اہل علم نے اس پر خبر دار کیا ہے، ان میں سے کچھ کی بحث ان شاء اللہ آگے آئے گی ، اسی طرح اس ضمن میں اہل شام وغیرہ کے بعض سلف سے آثار نقل کیے گئے ہیں، جمہور علمائے کرام کا اجماع ہے کہ اس رات محفل لگانا بدعت ہے، اس کی فضیلت کے متعلق منقول تمام روایات ضعیف ہیں ، جن میں بعض من گھڑت بھی ہیں۔
(مجموع فتاوى ومقالات متنوعة : 186/1-187)
❀ شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ (1421ھ ) فرماتے ہیں۔
پندرہ شعبان کی رات قیام کے تین مراتب ہیں۔
پہلا مرتبہ :
آدمی معمول کے مطابق نماز پڑھتا ہے، آدھی رات قیام کرنا اس کی عادت ہے، چنانچہ پندرہ شعبان کی رات کمی و بیشی کے بغیر وہی عمل کرتا ہے، اس رات کی خصوصیت کی نیت سے اضافی عبادت نہیں کرتا ہے، تو جائز ہے، یہ بدعت کے زمرے میں نہیں آتا۔
دوسرا مرتبہ :
خاص اسی رات کو نماز پڑھتا ہے، عام راتوں میں اس کا معمول نہیں ، یہ بدعت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا، نہ خود کیا ، نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایسا کیا، اب رہی ابن ماجہ کی سید نا علی رضی اللہ عنہ سے منقول روایت کہ پندرہ شعبان کی رات قیام کریں اور اس دن روزہ رکھیں ۔ تو ہم ذکر کر چکے کہ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ نے اسے ضعیف کہا ہے ، علامہ محمد رشید رضا مصری رحمہ اللہ نے اسے موضوع کہا ہے، ایسی روایات سے شرعی حکم ثابت نہیں ہوتا، جن علما نے فضائل میں ضعیف روایت پر عمل کی رخصت دی ہے، وہ بھی چند شروط سے مقید ہے، وہ شروط اس مسئلہ میں ثابت نہیں ۔
پہلی شرط :
حدیث سخت ضعیف نہ ہو، جب کہ یہ حدیث سخت ضعیف ہے، اس کے راوی وضاع ہیں، جیسا کہ ہم علامہ محمد رشید رضا رحمہ اللہ کے حوالے سے ذکر کر چکے۔
دوسری شرط:
مسئلے کی اصل ثابت ہو، کیوں کہ جب کسی مسئلے کی اصل ثابت ہو اور پھر اس کے متعلق ہلکے درجے کی کچھ ضعیف روایات بھی آجائیں، تو وہ مذکورہ ثواب کی امید کے سبب اس عمل پر ابھارتی ہیں لیکن یقین نہیں کیا جاتا، چنانچہ اگر وہ ثابت ہے، تو عمل بھی ثابت ہوگا، اگر ثابت نہیں تو عامل کو کوئی نقصان نہیں ہوگا، کیوں کہ فعل کی اصل ثابت ہے اور یہ معلوم ہے کہ پندرہ شعبان کی رات نماز پڑھنے کے بارے میں یہ شرط تحقیق نہیں، کیوں کہ اس مسئلہ کی اصل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں، جیسا کہ علامہ ابن رجب رحمہ اللہ وغیرہ نے لطائف المعارف (ص 541 ) میں کہا ہے :
اسی طرح پندرہ شعبان کی رات کا قیام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں ۔ اس حوالے سے علامہ محمد رشید رضا رحمہ اللہ نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے مومنین کے لیے اپنی کتاب (یعنی قرآن مجید ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے اس رات کے حوالے سے کوئی خاص عمل بیان نہیں کیا۔ علامہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس رات نماز کی فضیلت میں مروی تمام روایات من گھڑت ہیں۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ جن بعض تابعین کرام رحمہم اللہ نے یہ نماز پڑھی ہے، جیسا کہ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ نے لطائف المعارف (ص 441) میں کہا ہے :
اہل شام کے بعض تابعین اس رات کی تعظیم کیا کرتے تھے اور عبادت میں مگن رہتے تھے ۔ لوگوں نے ان سے اس رات کی فضیلت و عظمت کو بیان کیا ہے، کہا جاتا ہے کہ ان تک بعض اسرائیلی روایات بھی پہنچی تھیں، چنانچہ جب یہ عمل دوسرے شہروں میں مشہور ہوا تو لوگوں میں اختلاف پڑ گیا، بعض نے اسے قبول کیا اور اس کی تعظیم میں ان کی موافقت کی لیکن اکثر علمائے حجاز نے اس کا رد کیا اور اسے بدعت قرار دیا، اس بات میں کسی قسم کا کوئی شک وشبہ نہیں کہ علمائے حجاز کا مسلک ہی حق ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا
(5-المائدة:3)
آج میں نے تمہارا دین مکمل کر دیا تم پر اپنی نعمت تمام کی اور تمہارے لئے اسلام دین پسند کیا ۔
اگر یہ نماز دین ہوتی ، تو اللہ رب العزت اپنی کتاب یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل کے ذریعے اس کا بیان فرماتے ، جب ایسا نہیں ، تو معلوم ہوا کہ اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں ،لہذا بدعت ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہر بدعت گمراہی ہے۔
تیسرا مرتبہ :
اس رات میں ہر سال مخصوص نماز مخصوص تعداد میں پڑھی جائے ، چناں چہ یہ دوسرے مرتبے سے بڑھ کر بدعت اور سنت سے دوری ہے، نیز اس بارے میں منقول روایات من گھڑت ہیں۔
(مجموع فتاوى و رسائل : 20/28_30)
شعبان کی پندرہویں شب خصوصی نیت سے عبادت کرنا اور اس کے دن کا روزہ رکھنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین وائمہ دین سے قطعا ثابت نہیں ہے، بل کہ بعض نے اسے بدعت قرار دیا ہے، اسی طرح سو رکعت کے بارے میں ایک جھوٹی روایت آتی ہے۔
❀ علامه ملاعلی قاری حنفی رحمہ اللہ (1014ھ ) فرماتے ہیں۔
العجب ممن شم رائحة العلم بالسنة ان يغتر بمثل هذا الهديان ويصليها وهذا الصلاة وضعت في الاسلام بعد الاربعماية ونشات في بيت المقدس
و علم حدیث کی خوشبو سونگھنے والے پر تعجب ہے کہ وہ اس جیسی فضول اور لایعنی روایات سے دھو کہ کھا کر یہ نماز ادا کرتا ہے ( یعنی سو رکعت نماز پڑھتا ہے اور ہر رکعت میں سورہ فاتحہ اور سورہ اخلاص دس بار پڑھتا ہے ) یہ نماز اسلام میں چار سو سال بعد بیت المقدس میں شروع ہوئی۔
(الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة : 440)
❀ حافظ نووی رحمہ اللہ نے اس نماز کو مذموم و منکر اور بدعت قرار دیا ہے۔
(خلاصة الأحكام : 616/1)
❀ حافظ ابن دحیہ رحمہ اللہ نے نصف شعبان کی فضیلت میں مروی حدیث کو موضوع کہا ہے۔
(العلم المشهور في فضائل الأيام والشهور، ص 416)
الحاصل۔
شعبان کی پندرھویں شب کی فضیلت میں کوئی حدیث ثابت نہیں،ضعیف پر عمل کرنا فضائل میں بھی درست نہیں، کیونکہ فضائل بھی دین میں شامل ہیں اور ضعیف حدیث دین نہیں، دین تو صرف صحیح احادیث کا نام ہے، کسی صحابی یا کسی ثقہ تابعی سے اس رات کو خاص نیت اور اہتمام سے عبادت کرنا ثابت نہیں ، جو کچھ اس بارے میں بیان کیا جاتا ہے، اس کی کوئی حقیقت نہیں۔