شادیوں پر برات اور بری کا رواج قرآن و حدیث کی روشنی میں
مرتب کردہ:اُم عبد منیب

خطبہ نکاح کا پیغام:

﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا. يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ. يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا . يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا.﴾
[رواه احمد ابوداؤد، ترمذي، نسائي، ابن ماجه، الدارمي]
”اے لوگو اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیئے، اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ وقرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو، یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔“ (النساء:1)
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ سے ڈرو جس طرح اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم اس کے مطیع وفرماں بردار ہو۔“ (آل عمران:102)
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ڈرو اللہ سے اور بات سیدھی بھی سیدھی کہو اس طرح وہ تمہارے اعمال کی اصلاح فرمادے گا، تمہارے گناہ معاف کر دے گا، جس نے اللہ اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم کی اطاعت کی اس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔“ (الاحزاب:70-71)
غور کریں ہر آیت تقویٰ کا پیغام دیتی ہے۔
کیوں؟ دراصل زوجین اپنی اپنی ذمہ داریوں کو بھی نبھا سکتے ہیں جب ان میں تقویٰ موجود ہو۔ اس لیے ہر نکاح پر معاشرے کے تمام افراد کو یہ یاد دہانی کروائی جاتی ہے کہ وہ اللہ سے ڈریں۔ رشتہ داریوں کا پاس رکھیں۔ اپنے معاملات صاف اور سیدھے رکھیں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر شادیوں پر تقویٰ کی بجائے اللہ تعالی سے بے ڈر ہو کر ایسی رسومات اور طریقے اختیار کیے جاتے ہیں جو سنت سے متجاوز اور اللہ تعالیٰ کو نا پسند ہیں۔ آئندہ سطور میں بری اور برات کے حوالے سے اس کا تجزیہ پیش کیا جا رہا ہے۔

برات:

زرق برقی کپڑوں میں ملبوس، مردوں عورتوں اور بچوں کا ایک مجمع، گھوڑے، کار یا بگھی میں سوار ایک عدد دولہا اور اس کے ساتھ شہ بالا، بینڈ باجے کے ساتھ آتش بازی کرتا ایک دلچسپ منظر ،جس کا گلیوں، چوراہوں، بازاروں، مختلف کھلی جگہوں اور شادی ہال میں ہم اکثر نظارہ کرتے ہیں۔
یہ اہم جلوس جب دلہن کے شہر، گاؤں یا محلے کے قریب پہنچتا ہے تو گولے چھوڑتا یا فائرنگ کرتا ہے۔ جیسے ہی گولہ باری کی آواز سنائی دیتی ہے، دلہن والوں کے ہاں شور مچ جاتا ہے کہ برات آگئی برات آگئی۔ دلہن کے گھر میں موجود تمام مہمانوں کے ساتھ ساتھ اہل محلہ برات دیکھنے کے لئے دور ویہ نزدیک گلیوں، اپنے گھروں کی چھتوں، دروازوں اور کھڑکیوں میں آکھڑے ہوتے ہیں۔

براتیوں کے ٹھاٹھ باٹھ:

براتیوں کا استقبال بڑے شاہانہ انداز سے کیا جاتا ہے۔ نوجوان بنی سنوری لڑکیاں معزز مہمانوں کا استقبال گجرے اور ہار پہنا کر کرتی ہیں۔ براتی بھی اپنی اہمیت خوب سمجھتے ہیں، اس لیے لڑکے کے متعلقین کی سرتوڑ کوشش ہوتی ہے کہ انہیں برات میں شامل کیا جائے۔ جنہیں برات میں شامل نہ کیا جائے وہ نکاح کی دیگر رسومات کا بائیکاٹ کر دیتے ہیں۔ جنہیں منانے کے لیے خاصی تگ و دو اور خوشامد کرنا پڑتی ہے۔
برات میں شمولیت کے لیے کیا مرد ! کیا عورتیں ! کیا بوڑھے ! سبھی خصوصی تیاری کا اہتمام کرتے ہیں۔ ادھر لڑکی سے متعلقین بھی مختلف انداز سے براتیوں پر تنقیدی نگاہ ڈالتے ہیں اور ساتھ ہی تبصرہ آرائی بھی کرتے ہیں۔

براتیوں کی تعداد کا تعین:

براتیوں کی تعداد کا تعین ہر شادی میں ایسے کیا جاتا ہے جیسے اس کی واقعی پابندی بھی کرنا ہے۔ 1000 میں سے 999 شادیاں ایسی ہوتی ہیں جن میں لڑکے والے لڑکی والوں سے اصرار کر کے مطلوبہ تعداد پاس کرواتے ہیں۔ لڑکی والے عموماً ”جی اچھا“ کر لیتے ہیں، چاہے ان میں اتنے آدمیوں کی مہمان نوازی کی سکت ہو یا نہ ہو۔ چند لڑکی والے ایسے بھی ہوتے ہیں جو کہہ سن کر براتیوں کی کچھ تعداد کم کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ گو براتیوں کی تعداد کا تعین لڑکی والوں ہی کی منظوری پر موقوف ہوتا ہے لیکن مرضی لڑکے والوں ہی کی چلتی ہے۔ تقریباً 1000 شادیوں میں بمشکل ایک شادی ایسی ہوتی ہے جس میں لڑکی والوں کی مرضی کے مطابق براتی لائے جاتے ہیں۔
اکثر برات لے کر آنے والے بڑے شریف لوگ ہوتے ہیں، وہ لڑکی والوں پر کسی قسم کا بوجھ ڈالنا پسند نہیں کرتے، ان کا کہنا ہوتا ہے کہ بیٹی دینے کے بعد پیچھے کیا رہ گیا۔ اب ان پر مزید بوجھ ڈالنا مناسب نہیں۔ لہذا وہ براتیوں کی تعداد کا تعین کرتے ہوئے لڑکی والوں سے کہتے ہیں، دو چار جتنے بھی لوگ آپ کہیں گے اتنے ہی لائیں گے۔ پھر بات آگے بڑھتی ہے اور چند مجبوریوں کی بنا پر فہرست کا نقشہ کچھ یوں بنتا چلا جاتا ہے۔ مثلا لڑکے کی چار بہنیں ہیں ان کا آنا بہت ضروری ہے، شادی روز روز تو ہوتی نہیں، بڑے ارمان ہیں ان کو بھائی کی شادی کے۔ لڑکے کے دو بھائی اور دونوں شادی شدہ ہیں، ان کا اور بھابھیوں کا آنا بھی بہت ضروری ہے( اور ان کے چھ عدد بچے تو کسی شمار و قطار میں ہے ہی نہیں) اور ماموں تو ہے ہی ایک، وہ اور اس کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ،ایک پھوپھی اور ان کے اہل خانہ ، ایک دادی جان ، دو چاچا اور ان کے اہل خانہ اور کچھ دیگر عزیزوں کا آنا بھی ناگزیر ہے۔ اور ہاں ہماری برادری میں سے ہر گھر کا ایک ایک آدمی ۔آخر برادری کو بھی تو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے۔ بس یہی کوئی تیس آدمی ہوں گے۔ لڑکے کے دس پندرہ دوست ،چند اس کے ابو کے کولیگ ، دو ہماری بیٹی کی سہیلیاں اور تین عدد پڑوسی، آخر ہمسایوں کا بھی تو کچھ حق ہوتا ہے۔
چلیے ! ملا کر یہی کوئی ایک سو پچاس آدمی۔
لڑکے والے خوب جانتے ہیں کہ یہ 150 آدمی بتانے کے دراصل 250 آدمی لانے کے برابر ہیں۔ پھر اپنے گھر بلائے ہوئے مہمان بینڈ باجے والوں کی ٹیم اور شادی پر کام کرنے والے مردوں اور عورتوں کی تعداد۔
اس کے بعد مطالبہ ہوتا ہے کہ دیکھیے کھانا اچھا ہو، فلاں ہوٹل میں کہیں لوگ یہ نہ کہیں کہ کیسے لوگوں سے ناطہ جوڑا ہے جو چار آدمیوں کو ڈھنگ کا کھانا بھی نہ کھلا سکے۔ اور لڑکی والے اپنی بیٹی کو باعزت طریقے سے اس کے گھر بھیجنے کے لیے براتیوں کو اپنی استطاعت سے کئی گنا بڑھ کر اچھا کھانا کھلا کر بھیجتے ہیں، انہیں خوب معلوم ہے کہ اگر ایسا نہ کیا تو سیدھے لوگ رشتہ توڑ دیں گے یا گھر جاتے ہی ان کی بیٹی پر طعن و تشنیع کے تیر پھینکنا شروع کر دیں گے۔
برات کی جو تصویر کشی کی گئی ہے اس کا تعلق پنجاب کے بعض علاقوں سے ہے۔ ورنہ دیگر علاقوں میں اس کا انداز یقیناً مختلف ہوگا۔ بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بعض قبائل میں برات لڑکے والوں کی بجائے لڑکی والے لے جاتے ہوں یا برات کا تمام خرچ لڑکے والے ہی اٹھاتے ہوں یا برات کا کسی معاشرے میں بالکل تصور ہی موجود نہ ہو۔
ہندوستان میں لڑکی کو جہیز دینے کا رواج ہے چونکہ دور قدیم میں لوٹ مار کا خطرہ ہوتا تھا لہذا دلہا کے ساتھ براتیوں کا لشکر بھیجا جاتا تھا دلہن کے ساتھ ساتھ جہیز کا قیمتی سامان بھی غنیم کی طرح ساتھ لاتا اور راستے میں لوٹ مار کرنے والوں کا مقابلہ بھی کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ برات کا ہندوستانی قبائل میں زیادہ تر رواج ہے۔

برات عہد رسالت میں:

اور اب آئیے ہمارے نبی صلى الله عليه وسلم کے قائم کردہ معاشرے کی طرف کہ یہاں برات کی کیا حیثیت ہے؟ اس کے لیے قرآن حکیم، احادیث سیرت کی کتب اور صحابہ کرام کے حالات زندگی جاننے کی ضرورت ہے۔
لیکن یہ کیا؟ برات کا تو ان سب میں کہیں نام ہی نہیں، نہ تصور نہ اشارہ ۔رسول صلى الله عليه وسلم نے اپنی چار بیٹیوں کی شادیاں کیں، گیارہ نکاح خود کیے، اپنی زندگی میں مزید کئی لوگوں کا نکاح کیا لیکن سب بے برات نکاح بے برات رخصتیاں۔ رسول صلى الله عليه وسلم کے قائم کردہ معاشرے میں نکاح ایک ایسا معمول تھا جس کی تقریبات کے لیے صرف ولیمہ ہی لازمی تھا، یہی وجہ ہے کہ اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نکاح کے بعد آپ کو پتا چلتا کہ انہوں نے نکاح کیا ہے۔
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے کپڑوں پر زعفران کا لگا ہوا رنگ دیکھا جس پر آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا یہ کیا؟
انہوں نے عرض کیا میں نے نکاح کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ”کتنے مہر پر“ عرض کیا ”ایک نواۃ( کھجور کی گٹھلی برابر تقریبا تین گرام) سونے پر“ آپ نے یہ سن کر فرمایا:
اولم ولو بشاة
”ولیمہ کرو اگر چہ ایک بکری ہی ہو۔“
(صحيح بخاري، كتاب النكاح، باب الوليمه)
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم صحابہ کو اپنے والدین، اقرباء اپنے دوستوں اور اپنے جان و مال سے بھی زیادہ عزیز تھے۔ ان کے ایک اشارے پر اپنی جان لڑا دیتے لیکن آپ صلى الله عليه وسلم کو نکاح پر بلانا ضروری خیال نہ کرتے تھے اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ کہا کہ برات میں مجھے لے کر کیوں نہیں گئے یا کتنی برات لے کر گئے تھے۔ بلکہ تاکید فرمائی کہ ولیمہ کرو چاہے ایک بکری ہی ہو۔ معلوم ہوا کہ نکاح کی تقریب صرف ولیمہ ہے۔

موجودہ برات کی خرابیاں:

بعض لوگوں کہنا ہے کہ اسلام میں برات لانا ممنوع تو نہیں قرار دیا گیا اور ہمارے معاشرے کا عرف بھی ہے اگر اس میں خرافات نہ ہوں تو پھر کیا حرج ہے؟ مان لیا اس میں خرافات نہیں ہونا چاہئیں لیکن موجودہ براتوں کو اسلام کے چوکھٹے میں رکھیے اور خود فیصلہ کیجئے کہ کہاں کون سی اور کتنی بڑی خرابی موجود ہے۔

قانون شکنی:

کھانا کھلانے پر قانونا پابندی ہونے کے باوجود لڑکے والوں نے یہ اصرار کھانا کھلوایا، بعض اوقات یوں بھی ہوا کہ برات گاؤں میں آئی اور کھانا شہر کے ہوٹل میں اڑایا گیا۔

وعدہ خلافی:

متعین تعداد سے زیادہ براتی بلا کر بن بلائے مہمان شامل کیے جاتے ہیں اور بچوں کو تو تعداد میں شمار ہی نہیں کیا جاتا۔ ایک بڑے آدمی کے ساتھ چار چار بچے بھی ہوں تو وہ ایک ہی شمار کیا جاتا ہے۔ لطف یہ کہ اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کو بچہ ہی تصور کیا جاتا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ﴾
”اے ایمان والو ! اپنے عہد پورے کرو۔“
(5-المائدة:1)
نیز ارشاد ہے:
﴿وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ ۖ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا﴾
” اور پورا کرو وعہد کو بے شک عہد کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔“
(17-الإسراء:34)
برات کی متعین تعداد سے زیادہ براتی لا کر وعدہ خلافی کی جاتی ہے اور اس پر کسی ندامت کی بجائے کہا جاتا ہے کہ ایسے معاملوں میں کمی بیشی ہو ہی جاتی ہے۔ اگر ایسے معاملوں میں کمی بیشی ہو ہی جاتی ہے تو پھر وہ کون سے معاملات ہیں جن کو درست اور سیدھا رکھنا مسلمانوں پر فرض ہے۔
رسول صلى الله عليه وسلم نے منافق کی چار علامات بتائی ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ”جب وہ کوئی وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے۔“ (صحیح مسلم، کتاب الایمان)

بدنظمی کا باعث:

زیادہ براتیوں کو اکٹھا کرنے کی وجہ سے اکثر براتیں طے شدہ وقت پر نہیں پہنچ پاتیں۔ جس سے لڑکی والوں کو انتظار کی کوفت اٹھانا پڑتی ہے۔ اتنی بڑی برات کا کرایہ اور سواری کا انتظام درد سر بن جاتا ہے۔ جن لوگوں نے برات میں جانا ہوتا ہے وہ برات سے قبل آتے اور ولیمہ کے بعد جاتے ہیں یوں صاحب خانہ پر ان کی ضیافت کا بوجھ بڑھ جاتا ہے۔

براتیوں کا باتیں بنانا:

براتی لوگ لڑکی والوں کا اگر کوئی کام اپنے مزاج کے مطابق نہ دیکھیں تو سو سو کیڑے نکالتے ہیں۔ مثلا کھانا بد ذائقہ تھا، انتظام ٹھیک نہیں تھا وغیرہ۔ جب کہ شریعت اسلامیہ میں ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کے کسی دنیوی کام میں عیب نکالنا درست نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کھانے میں عیب نہیں لگاتے تھے، پسند ہوتا تو کھا لیتے ورنہ نہ کھاتے مگر عیب گنواتے نہیں تھے۔ (صحیح مسلم، کتاب الاشربہ)

باہم بدمزگی:

اتنے بڑے کھکھیڑ کی وجہ سے جانبین میں دیگر کئی بدمزگیاں ہو جاتی ہیں، ذرا ذرا سی بات پر مہمان روٹھ جاتے ہیں اور جو کام باہم رنجش، نفرت اور جھگڑے کا سبب ہوں ان کا کرنا بھی حرام ہے۔( بحواله بهشتی زیور، حصہ ششم)
اسلام میں جو کام شریعت نے واجب قرار نہ دیا ہو اور وہ کسی گناہ کبیرہ کا سبب بن رہا ہو اسے چھوڑ دینے کا حکم ہے۔ شاید کہا جائے کہ اگر کھانا نہ کھلانا ہو تو پھر بڑی برات لے جانے میں لڑکی والوں کا کیا جاتا ہے۔
جواباً عرض ہے کہ اگر لڑکے والے ہی اتنی بڑی برات لے کر نہ جائیں تو ان کا کون سا اہم کام رک جائے گا یا نکاح ہونے سے رہ جائے گا۔
دعوت سے مراد صرف کھانے کی دعوت ہی نہیں چائے، پھل، مشروب اور مٹھائی وغیرہ کی دعوت بھی دعوت کہلاتی ہے۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے بعض بیویوں سے نکاح کے بعد صرف ستو اور جو کی دعوت کی جیسے کہ صفیہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا ولیمہ۔ (صحيح مسلم، كتاب النكاح:1265)
کیا یہ دعوت ولیمہ نہیں تھی؟ دور حاضر میں تو اتنے بڑے مجمع کو بٹھانا بھی ایک مسئلہ ہوتا ہے۔ سادہ پانی پلانا ہو تو بھی اتنے لوگوں کے لیے کرسیاں اور گلاس تو مہیا کرنے ہی پڑیں گے۔ اگر انتظام پچاس آدمیوں کے بٹھانے کا کیا ہے اور سو آجائیں تو بدنظمی پیدا ہوگی یا نہیں؟

عزت یا ذلت:

لوگ اپنی عزت بڑھانے کے لیے بڑی برات لے کر جاتے ہیں، لیکن تجربہ گواہ ہے کہ زیادہ لوگوں کی موجودگی میں جانبین میں جو بھی اختلاف رائے سر ابھارتا ہے، اسے برات میں شامل لوگ بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں مثلا حسن انتظام کے بارے کھانے کے بارے ایک دوسرے کے رویے کے بارے جہیز یا مہر پر کوئی اختلاف رائے وغیرہ۔ یوں برات لانے والے عزت کی بجائے بے عزتی کا موقع خود لوگوں کو مہیا کرتے ہیں۔

بے حیائی:

اکثر براتوں میں لڑکے لڑکیاں بن ٹھن کر بے پردہ شامل ہوتے ہیں، گپیں ہانکتے، بے ہودہ مذاق کرتے، ڈیک چلاتے اور ساتھ ساتھ ڈانس کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ستر و حجاب، غض بصر کی پابندی اور نامحرم کے ساتھ کسی بھی قسم کے اختلاط سے منع فرمایا ہے، بلکہ حکم تو یہاں تک ہے کہ:
﴿لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ﴾
”اور بے حیائی کے کام ظاہر ہوں یا پوشیدہ ان کے قریب نہ پھٹکو۔“
(6-الأنعام:151)

دلہا کا سنگھار:

بننا سنورنا صرف خواتین کا حق ہے اور وہ بھی حجاب میں رہ کر صرف اپنے شوہروں کے لیے۔ مردوں کے لیے زیب وزینت حرام ہے، اسی لیے ان پر ریشم پہننا اور زیور حرام کیا گیا ہے۔ (متفق علیہ، دیکھے کتاب اللباس، بخاری۔مسلم)
دلہا کو دلہنوں کی طرح بیوٹی پارلر میں لے جا کر آراستہ کیا جاتا ہے۔ میک اپ کرایا جاتا ہے۔ اللہ کے نبی صلى الله عليه وسلم نے ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں اور ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت کرتی ہیں لعنت فرمائی ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب اللباس) مرد کا بننا سنورنا کیا یہ عورتوں کی مشابہت نہیں؟

سہرا اور ہار پہننا:

سہرا اور ہار پہننا ایک زیب وزینت ہے جو مردوں کے لیے حرام ہے۔ نیز یہ ہندوؤں کی رسم ہے، اسلام کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
ليس منا من تشبه بغيرنا
”وہ ہم میں سے نہیں جو دوسروں کی مشابہت اختیار کرے۔“
(سنن ترمذی، کتاب الاستیذان:2695 ، سلسة الاحاديث الصحيحه:2194)

گانا یا کنگنا باندھنا:

یہ بھی ہندوؤں کی رسم ہے جس میں یہ عقیدہ کار فرما ہوتا ہے کہ اس طرح دولہا آسیب اور بلاؤں سے محفوظ رہے گا۔ جب کہ رسول اللہ کا فرمان ہے کہ:
” جو شخص اپنے گلے یا بازو میں کوئی تعویز یا دھاگہ لٹکاتا ہے تو اس کی ذمہ داری اس تعویز یا دھاگے کے سپرد کر دی جاتی ہے۔“
(عن عبد الله بن حكيم مرفوعاً، مسند احمد ،سنن ترمذی)

روپوں کے ہار پہنانا:

دولہا کو نوٹوں کے ہار پہنائے جاتے ہیں، حالانکہ درہم و دینار ایک ایسا فتنہ ہے کہ اگر وہ برائے ضرورت بھی پاس ہو تو فتنہ میں پڑنے کا اندیشہ ہے۔ اللہ تعالی نے دولت زندگی کی اصل ضروریات پورا کرنے کے لیے دی ہے، یہ اس لیے نہیں کہ اس پر فخر کیا جائے یا اس کی نمائش کی جائے اور اسے گلے کا طوق بنایا جائے۔

گھوڑے، کار یا بگھی پر سوار کرنا:

دولہا کی سواری کو بھی دولہا کی طرح آراستہ کیا جاتا ہے یہ فضول خرچی بھی ہے،ریا بھی، فخرو کبر بھی، شیخی بازی بھی۔ جب کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ﴾
”اللہ کسی اترانے اور شیخی بگھارنے والے کو پسند نہیں کرتا۔“
(57-الحديد:23)
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے ایک ارشاد کا مفہوم ہے:
لا يدخل الجنة من كان فى قلبه مثقال ذرة من كبر
” جس کے دل میں ذرہ برابر بھی کبر ہو گا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔“
(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب تحريم الكبر وبيانه، ج:273)

بینڈ باجے:

بینڈ باجا اور ساز کی دیگر تمام اقسام قطعی حرام ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
يكون فى امتي قذف ومسخ و خسف قيل يارسول الله ومتى ذالك قال اذا ظهرت المعازف وكثرة القيعان شربت الخمور
میری امت میں پتھروں کی بارش، صورتیں مسخ ہونا اور زمین میں دھنسنے کے واقعات رونما ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا یا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم ایسا کب ہوگا؟ فرمایا جب باجوں اور گانے والی عورتوں کا رواج عام ہو جائے گا اور کثرت سے شرابیں پی جائیں گی۔ (ترمذی، کتاب الفتن، باب ماجاء في علامة حلول المسخ والخسف، ح:2212)
نیز فرمایا:
لا تصحب الملئكة رفقة فيها كلب وجرس
”ان رفقاء کے ساتھ رحمت کے فرشتے نہیں رہتے جن کے ساتھ گھنٹا اور کتا ہو۔ “( صحيح مسلم، كتاب اللباس والزينه)
ستم تو یہ ہے کہ بعض لڑکی والوں نے بہت سر پیٹا کہ بینڈ باجا نہیں لانا لیکن لڑکے والوں نے اپنی یہ شیطانی مرضی منوا کر ہی دم لیا اور کہا یہ برات ہے کوئی جنازہ تو نہیں۔ ڈھول باجے ضرور بجیں گے۔ اس طرح برات میں شیطان کو شامل کر کے اسے منا کر اللہ کے عذاب کو دعوت دی جاتی ہے۔ بعد ازاں میاں بیوی کے تعلقات کیسے خراب نہ ہوں جن کی شادی میں شیطان گاتا، ناچتا اور تھرکتا رہا۔ اللہ اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم کو ناراض کر کے یہ سمجھنا کہ رحمت اور برکت ہوگی، خام خیالی ہے۔

دلہا کے سر سے روپے وار کر پھینکنا:

اللہ نے دولت نہ ضائع کرنے کے لیے دی ہے، نہ نمائش کے لیے، نہ زمین پر پھینکنے کے لیے بلکہ اللہ تعالیٰ کا تو یہ حکم ہے۔
﴿يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ﴾
”کھاؤ اور پیو اور بے جا نہ اڑاؤ، بے شک اللہ بے جا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ “
(7-الأعراف:31)
یعنی حسب ضرورت اس کا استعمال کیا جائے کیونکہ یوم آخرت اس امانت کی پائی پائی کا اللہ تعالیٰ کو حساب دینا ہے۔

مووی بنانا:

تصویر کشی ہر قسم کی حرام ہے لیکن مووی بنانے کا رواج اپنے عروج پر ہے۔ تمام براتی دلہا اور دلہن مختلف انداز سے کیمرہ کے سامنے آتے ہیں۔ دلہن جس کا سنگھار اسلام نے صرف شوہر کے لیے خاص کیا ہے وہ سب سے پہلے مووی بنانے والے کی آنکھ میں آتی ہے۔ شوہر، باپ، بھائی، سب بے غیرتی کی تصویر بنے خود تصویر بنواتے ہیں۔ غیر محرم مرد کا عورت کو اور غیر محرم عورت کا غیر محرم مرد کو دیکھنا سخت گناہ اور کلام رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے مطابق آنکھ کا زنا ہے۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے :
لا تدخل الملكئة بيتا فيه كلب وصورة
”جس گھر میں کتا یا تصویر ہو وہاں رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔“
(مسلم، كتاب اللباس والزينه، باب تحريم تصوير الحيوان:808)
البتہ ایسی جگہوں پر شیطان آتا ہے یا عذاب الہی اور موت کے فرشتے آتے ہیں۔ آج اکثر شادیوں کے ناکام ہونے کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ نکاح جس کی بنیاد تقوی ہونا چاہیے تھی، جس کے خطبہ کی ہر آیت تقویٰ کی تلقین کرتی ہے اسی خطبہ کو پڑھ کر اللہ کے احکام کو پامال کیا جاتا ہے اور شیطان کے ہاتھوں نکاح کی بنیاد رکھوائی جاتی ہے۔

سالیوں کا دلہا کو دودھ پلانا:

یہ ایک ہندوانہ رسم ہے۔ سالیاں اس بہانے دلہا سے چھیڑ چھاڑ اور مذاق کرتی ہیں، بعد ازاں کچھ لاگ بھی وصول کیا جاتا ہے۔ دودھ پلانے کے گلاس میں بھی آرائش کی جاتی ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے، اسلام نے نامحرموں کا آپس میں ملنا غیر ضروری بات چیت کرنا۔ باہم ہنسی مذاق کرنا قطعی حرام قرار دیا ہے۔ چونکہ سالی نامحرم ہے اس لیے یہ سب حرام و ناجائز ہے۔

دلہا، دلہن کو اکٹھے اسٹیج پر بٹھانا:

تمام مہمان مردوں اور عورتوں کے سامنے جو دلہا دلہن کے لیے نامحرم ہوتے ہیں۔ ان کا بن ٹھن کر اکٹھے اسٹیج پر بیٹھنا انتہائی بے حیائی اور بے غیرتی ہے۔

ہندو کی نقالی:

رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے:
من تشبه بقوم فهو منهم
”جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ اسی میں سے ہے۔“
(سنن ابی داؤد، کتاب اللباس، ح:4031 ، مسند احمد :50/3)
ہم کہلائیں مسلمان اور مشابہت اختیار کریں ہندوؤں کی۔ کیا ہمیں اپنے پیارے نبی صلى الله عليه وسلم کے اسوہ کی بجائے اغیار کا طریقہ پسند ہے؟ کیا اسلام کا یہی منشاء ہے کہ ہم دعوی کریں اسلام کا اور کام کریں اغیار سا؟

دیگر رسومات:

دلہے کو کھارے چڑھانا جس میں ہندو گنگا جمنا کا پانی دینے کو نہلانے کے لیے لاتے اور مسلمان کسی مزار کے کنویں کا پانی لاتے ہیں۔
کھارے چڑھانے کے لیے گھڑولی بھرنا، چنانچہ دلہا کی بھابھی قیمتی اور خوب صورت گھڑے سر پر اٹھا کر لوگوں کے ہجوم اور ڈھول باجوں کے ساتھ بن ٹھن کر نکلتی ہے۔ گھڑولی بھرنے کے دوران عورتیں گدا ڈالتی ہیں جو ایک ناچ کی قسم ہے اور ساتھ فحش گیت گاتی ہیں جن میں دلہے کے ماں باپ کا نام لے کر ان سے فحش باتیں منسوب کی جاتی ہیں۔
پھر دلہا کو عورتوں کے مجمع عام میں چوکی پر بٹھا کر اس پانی سے نہلاتے، گانا باندھتے سہرا باندھتے، سر پر لال دوپٹہ دیتے، ہاتھ میں کھنڈی پکڑاتے اور اسے بھابھی مکھن چینی کھلا کر اپنا لاگ لیتی ہے۔
دلہا کا گھوڑی پر سوار ہونا اور اب بگھی یا کار پر گھوڑی بگھی یا کار کا سجانا، بہنوں کا باگ پھڑائی کا لاگ لینا، ہندوؤں کا کسی دیوی کے مزار پر حاضری دینا اور مسلمان دنیا کا کسی مزار پر حاضر ہو کر سلام کرنا اور چڑھاوا چڑھانا۔ اس کے بعد برات کا پورا جلوس ڈھول باجوں، گولوں پٹاخوں کے ساتھ سکے اور روپے پھینکتا ہوا دلہن کے گھر کی طرف روانہ ہوتا ہے۔ وہاں پہنچ کر دلہن کی سہیلیوں کا برات کا راستہ روکنا، دلہا کو دودھ پلا کر لاگ لینا، دلہا کے کھانے کے دوران اس کے کھانے میں لڑکیوں کا مٹی اور گوبر پھینکنا، دلہا کی جوتی چھپانا، آئے یا مٹی سے دلہا کی ماں بہنوں کی مضحکہ خیز شبیہہ بنا کر دلہا کے سامنے رکھنا جسے بیٹر وگھوڑی کہتے ہیں۔ پھر دلہن کو تیار کر کے ڈولی میں بٹھا کر لانا اور اس کے علاوہ بہت سی رسومات بھی شامل ہیں۔ اس سارے بکھیڑے میں نو جوان لڑکیوں اور عورتوں کا فحش گیت گانے اور فحش مذاق کرنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

بری:

بری ان اشیاء کو کہتے ہیں جو سسرال والے دلہن کو مہیا کرتے ہیں۔ موجودہ دور میں یہ ایک اہم اور مہنگی رسم کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ لوگ دکھاوا کرنے اور اپنی ناک اونچی رکھنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں۔ امیر لوگ امارت کا اظہار اور متوسط طبقہ کے لوگ ان کی نقالی کرنے کے لیے اس پر کثیر رقم خرچ کرتے ہیں۔ شنید یہ ہے کہ دلہن کا شادی والے دن کا جوڑا اسی اسی ہزار تک میں تیار ہوتا ہے۔
بری میں 21 سے لے کر ، اکتیس ، اکیالیس، اکاون ،اکسٹھ، اکہتر اور اکاسی تک جوڑوں کی تعداد کا رواج ہے۔
ہر سوٹ پر گوٹے چمکتے یا کڑھائی کا کام اس کی سلائی ہر جوڑے کے ساتھ میچ کرتے ہوئے سونے چاندی اور ہیروں کے یا مصنوعی، زیورات جوتے اور میک اپ کا سامان اس پر مستزاد ہیں۔ بری کو اس انداز سے ٹانکنا کہ دوپٹے شلوار قمیص کا پورا کام بھی نظر آئے اور ہر جوڑا دوسرے سے مختلف انداز میں ٹانکا ہو بجائے خود بڑا ماہرانہ کام ہے۔
دلہا دلہن کو اسٹیج پر بٹھا کر ان کے ساتھ کھڑے ہو کر دلہا کی بہنیں، بھابھیاں اور دیگر رشتہ دار خواتین باری باری حاضرین کو ایک ایک جوڑا کر کے دکھاتی ہیں اور ان تمام مناظر کو مووی کا کیمرہ محفوظ کرتا جاتا ہے۔ پھر بری کی لوگ تعریف یا تنقید کرتے ہیں کہ فلاں کی بری شاندار تھی اور فلاں کی گھٹیا۔
بری میں بھی وہ تمام معاشرتی خرابیاں موجود ہیں جو برات میں ہیں:
⋆ اسلام عورت کا یہ حق مقرر کرتا ہے کہ اس کی شادی پر آرائش کی جائے بشرطیکہ اس میں حرام امور شامل نہ ہوں۔
⋆ سسرال والے دلہن کو زیور، لباس یا کسی بھی چیز کا عطیہ دے سکتے ہیں بشرطیکہ اس میں نہ دکھاوا ہو، نہ تکلف بلکہ حسب استطاعت ہو۔
⋆ فضول یا زائد از ضرورت اشیاء نہ ہوں جو دلہن کے بھی کسی کام نہ آسکیں۔
⋆ موجودہ معاشرے کی اکثر بری ضائع جاتی ہے چونکہ پہننے کے لئے چند جوڑے کافی ہوتے ہیں۔
⋆ ڈیزائن، پرنٹ، سلائی کڑھائی کا رواج آئے دن بدلتا رہتا ہے۔ لہذا آؤٹ آف فیشن ہونے کے بعد خواتین انہیں استعمال نہیں کرتیں اور ان پر خرچ کی گئی رقم ضائع جاتی ہے۔
⋆ دلہن کے پسند کے کپڑے نہ ہوں تو بھی وہ ان کو استعمال نہیں کرتی۔
⋆ بری بنانے اور ٹانکنے پر جو رقم، وقت اور صلاحیت خرچ ہوتی ہے وہ سب ضائع ہو جاتی ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آخرت میں ان سب کا حساب لینا ہے۔
بری بنانے میں اصل نیت دکھاوا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس پر بڑھ چڑھ کر خرچ کیا جاتا ہے اور اسے دکھایا جاتا ہے۔ جب کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے:
من سمع الناس بعمله سمع الله به اسامع خلقه و حقرة و صغرة
”جو شخص دوسروں کو دکھانے کے لیے کوئی کام کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے عمل کو اپنی مخلوق کو معلوم کرائے گا اور اسے حقیر اور ذلیل کرے گا۔“
(بيهقي في شعب الايمان، مشكاة، باب الريا و السمعة، خ:5319)
عہد رسالت میں بری کا کوئی رواج نہیں تھا۔ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں:
قد كان لى منهن درع على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فما كانت امراة تقين بالمدينة إلا ارسلت الى تسعيره
”رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے زمانہ میں میرے پاس ایک ایسا ہی کرتا تھا جس عورت کو مدینہ میں شادی کے وقت سنورنے کی ضرورت ہوتی یہ کرتا مجھ سے مستعار منگوالیتی۔“
( بخاری، کتاب الهبه، باب الاستعارة للعروس عند البناء، باب 1639، پارہ 10۔ رقم الحديث:2452)
سبحان اللہ کتنی سادہ بری تھی کتنی برکت والی، کم خرچ اور آسان بھی۔

تبذير (حرام خرچ):

غرض بری اور برات بیسیوں حرام خرچیوں کا مجموعہ ہے۔ ان کا آغاز انجام اور ہر رسم اپنے اندر فضول خرچی لیے ہوئے ہے۔ جب کہ اللہ تعالی نے شیطانی اور فضول رسموں پر خرچ کرنے والے کے بارے میں فرمایا ہے:
﴿وَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا. إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ ۖ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا.﴾
”اور رشتہ داروں اور محتاجوں اور مسافروں کو ان کا حق ادا کرو اور فضول خرچی سے مال نہ اڑاؤ کہ فضول خرچی کرنے والے تو شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کی نعمتوں کا کفران کرنے والا یعنی ناشکرا ہے۔“
(17-الإسراء:26،27)

دور حاضر کے چند علماء کی رائے

ڈاکٹر اسرار احمد:

⋆ شادی بیاہ کی چند اصلاحی تجاویز پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ اس موقع پر اگر دعوت طعام کے پروگرام کو خارج کر دیا جائے تو خود بخود برات کا پورا تصور ہی ختم ہو جاتا ہے اور واقعہ یہ ہے کہ یہ ہے ہی ختم ہو جانے کے لائق بلکہ صد لائق یہ لفظ خالص عجمی ہے اس طرح اس کا پورا تصور بھی خالص عجمی ہی ہے اور اس کا وہ نقشہ تو خالص ہندوانہ ہے جو ہمارے ذہنوں میں شادی کے لوازم کی حیثیت سے رچ بس گیا ہے کہ ایک جتھے کی صورت جمع ہو کر اور باقاعدہ چڑھائی کے انداز میں لڑکی والے کے گھر جانا اور پھر لڑکی کا ڈولا لے کر فاتحانہ انداز میں لوٹنا خالص ہندوانہ تصور ہے جس کی مبغض کئی لازمی ہونی چاہیے۔
(بحواله هفت روزه الاعتصام 22 اکتوبر 1976)

محترم حافظ صلاح الدین یوسف:

برات کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں سے چند اقتباسات:
⋆ برات کا یہ سلسلہ جو پاک و ہند میں رائج ہے اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں اور یہ قابل اصلاح ہے۔ لڑکی والوں سے اچھے اچھے کھانے طلب کرنا بھی انتہائی کمینگی ہے۔ اسلام میں اس کی اجازت تو کجا یہ تو عام انسانیت اور شرافت کے معیار سے بھی گری ہوئی حرکت ہے۔
⋆ نبی صلى الله عليه وسلم کے کسی نکاح میں اس قسم کی کوئی چیز نہیں ملتی۔
⋆ نبی صلى الله عليه وسلم کے طریقے کی پیروی پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے واجب ہے۔
⋆ جو لوگ عام رواج کی پیروی کرتے ہیں ان کا عمل قابل تقلید نہیں۔
(بحواله الاعتصام 10 اپریل 1985 زیر عنوان احکام و مسائل)
ایک اور استفسار کے جواب میں لکھتے ہیں:
⋆ برات کا اسلام میں کوئی تصور نہیں یہ سارا تصور غیر مسلموں سے اختلاط کا نتیجہ ہے۔
⋆ برات کے ساتھ ساری برادری، احباب اور تعلق داروں کو اٹھا کر لڑکی والوں کے گھر لاؤ لشکر کے ساتھ پہنچنا فضول رسم ہے، اس کو ختم کرنے کی شدید ضرورت ہے۔
⋆ صحیح بات یہ ہے کہ گھر کے ضروری افراد لڑکی والوں کے گھر جائیں اور سادگی کے ساتھ نکاح کر کے لڑکی کو اپنے گھر لے آئیں۔ صرف نکاح کا اعلان ضروری ہے اور وہ طرفین کے گھر والوں کے سامنے ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد لڑکے کے لئے ولیمہ اپنی استطاعت کے مطابق کرنا ضرورت ہے، اس میں اسراف اور نمودونمائش اور تکلفات شریعت کی روح کے خلاف ہیں۔
⋆ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جمع کر کے برات کی صورت لے جایا جاتا ہے اور اس کی وجہ سے بہت خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں جیسے بینڈ باجے، آتش بازی، ہار، بھانڈ گویوں کی ویلیں وغیرہ اگر برات کا تصور ختم کر دیا جائے تو یہ خرابیاں خود بخود ختم ہو جائیں۔
(بحوالہ الاعتصام 26 اپریل 1989، زیر عنوان، احکام و مسائل)

مولانا عبید اللہ عفیف:

شادی میں برات کی شرعی حیثیت کے تحت لکھتے ہیں:
ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا نکاح، والی حبشہ نجاشی نے ،رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے ساتھ کر دیا اور اپنی طرف سے 4 ہزار درہم مہر مقرر کر کے شرجیل بن حسنہ کے ساتھ مدینے بھیج دیا۔ (سنن ابی داؤد)
معلوم ہوا کہ برات شرعاً کوئی ضروری نہیں لیکن کسی حدیث میں اس کی ممانعت بھی مروی نہیں، اگر ضروری امور نبٹانے اور دلہن کو گھر لانے کے لئے ضروری افراد چلے جائیں تو کوئی حرج نہیں، تاہم ناموری اور شہرت کے لئے مروجہ تکلفات اور بے محابا آدمیوں کے ٹھٹھ کی نہ ضرورت ہے نہ گنجائش۔ لہذا مختصر آدمی ہونے چاہئیں ورنہ ریا، سمع، اسراف و تبذیر جیسے کبائر کا ارتکاب لازمی ہو جاتا ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ برات کے شرکا حتی الامکان شریعت کی پابندی کرنے والے ہوں۔ دلہا کے دوستوں اور چند اقرباء کی شمولیت کو غیر شرعی اجتماعی یا ہندوانہ رسم قرار دینا بھی صحیح نہیں۔ اس مسئلہ میں افراط و تفریط دونوں جائز نہیں۔
(الاعتصام 11 دسمبر 1987)

اشرف علی تھانوی:

اشرف علی تھانوی نے بہشتی زیور حصہ ششم ”رسومات کے بیان“ میں برات کے حوالے سے تقریبا 100 عدد گناہ شمار کئے ہیں۔ آخر میں خلاصہ کے طور پر برات میں موجود چند کبیرہ گناہوں کا دوبارہ ذکر کیا ہے جو درج ذیل ہے:
➊ مال کا بے ہودہ اڑانا
➋ ریا و افتخار یعنی نمودونمائش
➌ رسم کی بے حد پابندی
➍ کافروں کی مشابہت
➎ سودی قرض یا بلا ضرورت قرض لینا
➏ انعام و اکرام کو زبردستی لینا
➐ بے پردگی
➑ شرک و عقیدے کی خرابی
➒ نمازوں کا قضا ہونا یا مکروہ وقت میں پڑھنا۔
➓ گناہ میں مدد دینا
⓫ گناہ پر قائم و بر قرار رہنا اور اسے اچھا سمجھنا۔

مولانا نعیم صدیقی صاحب:

اپنی کتاب ”عورت معرض کشمکش میں“ بہ ”عنوان شادی بیاہ کی رسومات“ میں مرحلہ وار تمام خرابیوں کی حالت زار پر اپنا درد دل بیان کرتے ہیں۔ یہ اقتباس ملاحظہ ہو !

سلطنت جشن:

پھر کہیں براتوں کے ساتھ بینڈ باجے اور گولے پٹاخے اور کہیں لڑکے والوں کی طرف سے سماعت شکن واہیات ریکارڈنگ کا طوفانی شور، پھر لڑکی والوں کی طرف سے گھڑے تھالی اور ڈھولک کے پاکیزہ گھریلو گیتوں سے معاملہ آگے بڑھ کر اپوا والی ثقافت تک جا پہنچتا ہے۔ کچھ فلمی بول ہیں، کچھ دھمال لڈی بھی ہے، فن کی مہارت بھی جا شامل ہوتی بلکہ بلوائی جاتی ہے۔ گویا شادی نہ ہوئی کوئی سلطنت فتح ہو رہی ہے اور اس کا جشن منایا جا رہا ہے۔ اسلام میں تو ایسا جشن بھی سجدہ و عبودیت کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ یہ مسلمان جن کے آدھے بھائی افغانستان اور فلسطین، لبنان اور شام، بھارت اور حبشہ، فلپائن اور افریقی ریاستوں میں ہزار در ہزار ذبح ہو رہے ہیں اور آدھے بھائی مہاجرین بن کر متعدد کیمپوں میں پڑے ہیں اور جن کے ایک طرف روس اور دوسری طرف بھارت جدید اسلحہ سے لیس کھڑے ہیں۔ ان کی دلچسپیوں اور مشاغل کا یہ حال ہے۔ ان ساری لغویات کو چھوڑے بغیر الہ واحد کی عبادت اور دین کی سربلندی کا کام نہیں کیا جا سکتا۔
⋆ ہم لوگ جس دولت کو اس طرح اڑا دیتے ہیں، کیا یہ دوسروں کی حق ماری نہیں اور کیا ہمیں پیسے پیسے کا حساب آخرت میں نہیں دینا ہوگا؟ کیا دنیا اندھیر نگری ہے اور دولت ایک خوان یغما ہے کہ جس کا جتنا جی چاہے لوٹ لے اور پھر اس کو چاہے تو دریا برد کر دے چاہے تو آگ لگا دے۔ جی نہیں یہ خدا کے خزانے کا مال ہے اور اس کے ہر ذرہ کا حساب دینا ہوگا۔ (ص:256)
وہ نو جوانوں کی جنسی آوارگی غیرت کے نام پر خواتین کا قتل لو میرج اور کورٹ میرج گینگ ریپ کے واقعات اغواء قتل اور دہشت گردی کے مختلف اسباب کی نشاندہی کرتے ہوئے ایک سبب یہ بھی بیان کرتے ہیں:
مخلوط تعلیم اور تقلید فرنگ کا بہترین نتیجہ آپ شادی بیاہ کی گھریلو تقریبات میں دیکھیں جن کا بہت بڑا پارٹ ہے سماجی حالات کے ماحول کے شر میں، زرق برق لباسوں اور بیش بہا زیوروں میں بنی سنوری عورتوں کا سواریوں سے اتر کر مردوں کے سامنے گھر میں آنا جانا نو عمر لڑکیوں اور لڑکوں کا ”معصومی“ کی رعایت سے فائدہ اٹھا کر طرح طرح کی سرگوشیاں اور برزخ (ایک مقررہ حصہ میں) غلط لوگوں کا آمنا سامنا ہو جانا۔ پردہ والیوں کے ساتھ ساتھ بے پردہ عورتوں اور لڑکیوں کا بھی ٹپک پڑنا کیمروں اور آڈیو ویڈیو کی زد میں خاص دلہن اور سمدھیانوں کی بزرگ اور خود عورتوں کا آنا۔ ان کی شامیانوں میں عمومی نشست کی ایک جامع ویڈیو فلم کا لیا جانا یہ سارا کچھ اسی سلسلے کی کڑی ہے، جسے ہم اکساہٹوں کا زہر کہتے ہیں۔ (عورت معرض کشمکش میں ص:307)

حرف آخر:

رسول صلى الله عليه وسلم کا فرمان ہے:
ان اعظم النكاح بركة اليسره موونة .
”اس نکاح میں برکت زیادہ ہوتی ہے جو کم خرچ اور آسان ہو۔“
(مسند احمد 145،82/6 ابن ابی شیبه، 189/4 مجمع الزوائد، 225/4 المعجم الاوسط، 9451 بحواله هدية العروس)
غور کیجیے کہ برات اور بری نکاح کو کم خرچ بناتی ہیں یا زیادہ خرچ والا آسانی پیدا کرتی ہیں یا مشکلات؟ اگر ہم چاہتے ہیں کہ جو شادی خانہ آبادی کریں، اس کی خانہ بربادی نہ ہو تو پھر ضروری ہے کہ نکاح میں مشکلات پیدا کرنے والی اور خرچ بڑھانے والی رسومات کو ترک کر دیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا تو اس بعثت کا مقصد یہ بھی بیان کیا۔
﴿وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ﴾
”اور ان لوگوں پر جو بوجھ اور طوق( خود ساختہ پابندیوں کے) تھے ان کو دور کرتے ہیں۔“
(7-الأعراف:157)
عقیدہ مذہب رسم رواج اور معاشرے کے تمام طوق و سلاسل سے نجات دلانے والے نبی محمد صلى الله عليه وسلم نے تو ہم کو بڑا آسان طریق نکاح بتایا اور ایسے ہزاروں نکاح کر کے دکھائے لیکن ہم قرض لے کر ایک دوسرے سے لڑ جھگڑ کر ان رسومات کی زنجیروں کو اپنے پاؤں میں ڈالتے ہیں۔
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا فرمان ہے:
من حسن إسلام المرء تركه ما لا يعنيه
”آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لا یعنی امور کو ترک کر دے۔“
(بلوغ المرام، كتاب الجامع، ح:1273 سنن ترمذی: ابواب الزهد)
برات اور بری ایک لایعنی عمل ہے اسے ترک کر دینا سنت ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم مروجہ برات کی بجائے حسب ضرورت چند آدمیوں کو ساتھ لے جائیں۔ گھر کی ایک یا دو اہم خواتین، ماں، بہن، پھوپھی، دادی وغیرہ میں سے تا کہ دلہن کو اپنے ساتھ لاسکیں۔ اثنائے راہ دلہن ان کو اپنی ضرورت کی کوئی بات کہہ سکے۔
بری بنانے اور اس کو ساتھ لے جانے کا تکلف مت کریں یا تو دلہن والدین ہی کے گھر کا جوڑا پہن کر آ جائے یا سسرال قبل از وقت زیور کپڑے دلہن کے لئے بھیج دیں۔
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے دور کی طرح کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم کم از کم خاندان کی حد تک تمام دلہنوں کے لئے ایک ہی جوڑا تیار کرلیں اور اسے شادی پر پہنا لیں۔ کیونکہ ایسا بھاری جوڑا صرف پہلے دن پہنا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد اس کا کوئی مصرف نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں خود دلہا دلہن کو پیش قدمی کرنا چاہئے تاکہ مسنون طریق نکاح معاشرے میں رائج ہو۔

برات میں شامل ہونے والے:

آئندہ براتی بننے کا تصور دماغ سے نکال دیں۔ جب رسول اللہ صلى الله عليه وسلم، امہات المومنین اور صحابہ کرام نے براتی کی حیثیت سے کسی شادی میں شرکت نہیں کی تو پھر ہمیں کیا پڑی ہے براتی بننے کی۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ برات طے شدہ افراد سے زیادہ ہو، اس طرح بن بلائے مہمان بن کر جانے کے امکان کو مسترد کر دینا ہی ایک مسلمان کی خوبی ہے۔
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ان لوگوں کا کھانا کھانے سے منع فرمایا ہے جو باہم فخر جتلانے کے لئے دعوت کریں۔ (سنن ابی داؤد، كتاب الإعانة، الجزء الثاني:3193) برات کی دعوت کا مصرف سوائے باہم فخر جتلانے کے اور کچھ نہیں ورنہ یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ ضرورت کے چند آدمی لڑکے کے ساتھ چلے جاتے۔
عورتوں، بچوں اور جوان لڑکوں کا مجمع لے جانا، اس کی آمد ورفت کا کرایہ برداشت کرنا لڑکی والوں کا ان کی خاطر و مدارت پر بے تحاشا خرچ کرنا یہ سب تفاخر نہیں تو کیا ہے۔ جب کہ قرآن حکیم میں ارشاد ہے:
﴿اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ﴾
”جان رکھو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل تماشا زینت اور تمہارے آپس میں فخر و ستائش اور مال و اولاد کی ایک دوسرے سے زیادہ طلب اور خواہش ہے۔“
(57-الحديد:20)
ایسی دعوت جس میں حرام امور کا ارتکاب ہو، اس میں شامل ہونے سے نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے منع کیا ہے۔ صحابہ کرام اس کا خیال رکھتے تھے کہ وہ کسی حرام امور والی دعوت میں شریک نہ ہوں۔ چنانچہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو کھانے پر بلایا، ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ دیوار پر پردہ لٹک رہا ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ان کے استفسار پر عرض کیا عورتوں نے ہمیں یہ پردہ لگانے پر مجبور کیا۔ ابوایوب انصاری نے کہا مجھے خدشہ تھا کہ شاید کوئی دوسرا شخص یہ کام کرے گا لیکن تم سے یہ توقع نہ تھی، واللہ میں تمہارا کھانا نہیں کھاؤں گا اور یہ کہ کر کھانا کھائے بغیر واپس چلے گئے۔ (صحیح بخاری، كتاب النكاح، باب فعل يرجع اذا راى منكراً في الدعوة)
ہمارا اسلام اور ہمارا رسول صلى الله عليه وسلم سے محبت کا دعویٰ ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم برات سمیت تمام حرام امور والی دعوتوں اور مجلسوں سے دور رہیں۔

حرام امور والی دعوت میں شرکت؟

شیخ الحدیث مولانا عزیز زبیدی صاحب:
ایک استفسار کے جواب میں لکھتے ہیں۔ ”شادی اور منکرات جیسے بینڈ باجے کی موجودگی میں اس کے لئے شرکت جائز ہے جو جا کر ان کو روک سکتا ہے دوسرے کے لئے نہیں۔“ ایک شخص نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو شادی پر بلایا، انہوں نے جا کر دیکھا کہ گھر پردوں سے سجایا ہوا ہے، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ”کیوں جناب ! کعبہ کو کب سے اپنے گھر لا بسایا ہے۔“ پھر اپنے ساتھیوں سے فرمایا ”جو پردہ ہے اسے کھڑے کھڑے کر دو۔“ (الفتح الربانی فی شرح صحیح بخاری) ابن حجر رضی اللہ عنہ کی رائے ہے کہ ”جسے روکنے کی قدرت ہو وہی ایسی دعوت میں شامل ہو ورنہ نہیں۔“ (بحواله ترجمان الحدیث: اگست 1975)

مولانا مبشر احمد ربانی:

وہ مجالس و محافل جن میں ڈھول، طبلے سارنگیاں، آلات طرب، رقص و سرود اور تصویر سازی جیسی محرمات موجود ہوں وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر مشتمل ہے بلکہ احکامات شرعیہ کا مذاق ہیں۔ ان میں شرکت ناجائز و حرام ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں حکم فرماتا ہے:
﴿‏ وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚ إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا﴾
”جب کسی مجلس والوں کو اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے اور مذاق اڑاتے ہوئے سنو تو اس مجمع میں ان کے ساتھ نہ بیٹھو، جب تک اس کے علاوہ اور باتیں نہ کرنے لگیں ورنہ اس وقت تم بھی انہی جیسے ہو۔ یقینا اللہ تعالیٰ تمام کافروں اور منافقوں کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے۔ “
(4-النساء:140)
ایسی مجالس جہاں منکرات و منہیات ہوں وہاں شرکت کرنا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نزدیک قابل نفرت تھا۔ چنانچہ علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے کھانا تیار کیا اور نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی دعوت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر میں آئے تو ایک تصویر والا پردہ دیکھا اور گھر سے نکل گئے اور پھر فرمایا:
إن الملئكة لا تدخل بيتا فيه تصاوير .
”بے شک فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں تصویریں ہوں۔“
(سنن نسائی 5366،213/8 ابن ماجه مختصراً، 3359 مسند ابی یعلی 556،155،436 آپ کے مسائل از مبشر احمد ربانی)

امام اوزاعی:

ہم ایسے ولیمہ میں شامل نہیں ہوتے جس میں طبلے اور سارنگیاں ہوں۔
(بحوالہ آپ کے مسائل از قلم مولانا مبشر احمد ربانی) حرام امور والی دعوتوں میں شرکت کی تفصیل کے لیے دیکھئے کتابچہ ”شادی کی رسومات، دعوتیں اور ان میں شرکت“

دلہا والوں کا دلہن کے گھر سے کھانا کھانا:

محترم ڈاکٹر اسرار احمد کے مضمون ”شادی بیاہ کی ایک اصلاحی تحریک“ کا جائزہ لیتے ہوئے فن حدیث کے ایک عالم غازی عزیز صاحب برات میں موجود تمام قباحتوں کو غلط قرار دیتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کی تائید کرتے ہیں لیکن وہ متعدد دلائل کے ساتھ یہ ثابت کرتے ہیں کہ دلہن والوں کے گھر سے دلہا والوں کا کھانا کھانا حرام نہیں ہے بلکہ مستحب ہے۔ ان کے ان طویل دلائل کا خلاصہ یہ ہے :
⋆ مہمان کی تواضع و مدارت کی تاکید اسلام میں بہت زیادہ ہے اور دلہا والے بھی مہمان ہیں۔ لہذا ان کو کھانا کھلانا چاہئے۔
⋆ عربی زبان اور محاورہ میں ولیمہ ہر اس دعوت کا نام ہے جو شادی پر کی جائے۔ لڑکی والے کریں یا لڑکے کے والے۔ شادی کے دن ہو یا بعد میں کسی دن۔
⋆ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے نکاح کے بعد حاضرین اٹھ کر جانے لگے تو نجاشی نے کہا ”سب لوگ بیٹھے رہیں تمام انبیاء کی سنت ہے کہ شادی پر کھانا کھلایا جائے۔“ چنانچہ انہوں نے کھانا کھلایا۔
⋆ جب فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے علی رضی اللہ عنہ سے کیا تو بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا جو اور اونٹ ذبح کر کے کھانے کا اہتمام کریں چنانچہ بلال رضی اللہ عنہ نے تعمیل ارشاد کی۔ (محدث ماهنامه: ذیقعده 1407هجری)
اصل بات یہ ہے کہ لڑکی والوں کا دعوت کرنا اور اپنے یا دلہا کے عزیز واقارب کو کھانا کھلانا ناجائز نہیں، سنت ہے لیکن لڑکے والوں کا مروجہ برات کی صورت میں اپنے متعلقین کو ساتھ لے کر جانا ہندوانہ رسم ہے اور یہ درست نہیں۔ لڑکے والوں کے جن متعلقین کو لڑکی والوں نے اپنی خوشی سے بلایا ہے ان کا اپنے طور پر جانا اور دعوت قبول کرنا درست ہے۔ اس صورت میں وہ لڑکے والوں کے براتی نہیں بلکہ لڑکی والوں کے ذاتی مہمان کہلائیں گے۔ نیز لڑکی والوں کو بغیر کسی دباؤ کے اپنی خوشی اور استطاعت کے مطابق بلانا چاہیے نہ کہ لڑکے والوں کے دباؤ پر۔

نکاح خواں رجسٹرار اور گواہان کا فرض:

ایک قاری صاحب کو نکاح پڑھانے کے لئے بلایا گیا۔ انہوں نے شادی ہال میں پہنچ کر دیکھا کہ مخلوط مجلس ہے اور ڈیک بج رہا ہے موصوف نے نکاح پڑھانے سے انکار کر دیا۔ لڑکی والوں کے دل میں اللہ کا خوف موجود تھا۔ انہوں نے نہ صرف اسی وقت اصلاح کر لی بلکہ دوسرے بچوں کے نکاح انتہائی سادگی سے مسنون طریقے کے مطابق کیے۔
اگر نکاح خواں (مولوی صاحب) جو مسلمان معاشرے کی اصلاح کے اولین ذمہ دار ہیں اور رجسٹرار نکاح کے گواہ اپنی اپنی جگہ یہ تہیہ کر لیں کہ وہ نہ نکاح پڑھائیں گے نہ رجسٹر کریں گے نہ گواہی دیں گے۔ جب تک کہ لڑکے اور لڑکی کے اولیاء فضول اور ممنوع رسومات کو ترک نہیں کریں گے تو خود بخود ہی منکرات کا سد باب ہو جائے گا۔
اگر نکاح کا خطبہ دینے والے نکاح کی اصل غرض و غایت اس کے مسنون طریق کار اور منہیات کے ارتکاب پر جو وعید آئی ہے اس سے بھی حاضرین کو آگاہ کر دیا کریں تو یہ بھی فضول رسومات سے چھٹکارا حاصل کرنے میں کافی کارگر ثابت ہوگا۔
مولانا الیاس رحمہ اللہ نے ایک شادی میں شرکت کی اور اپنے بے تکلف شاگردوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا۔ آج آپ کے یہاں خوشی کا وہ دن ہے کہ جس دن کمینوں تک کو خوش کیا جاتا ہے۔ آپ کو یہ بھی گوارا نہیں ہوتا کہ گھر کی بھنگن بھی ناخوش رہے۔ ذرا انصاف سے بتائیے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو بھی خوش کرنے کی آپ لوگوں کو کچھ فکر ہے؟ (ماهنامه الحق۔ شادی از مولانا ابراہیم یوسف باوا)
غور کریں تو یہ بات درست ہے کہ شادیوں کو لڑکے والوں لڑکی والوں اور ان کے دیگر متعلقین کے علاوہ خادموں اور ملازموں تک کو خوش کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ ہر غیر اسلامی رسم اور حرام کام بچوں کی خوشی کہہ کر کر گزرتے ہیں۔ روز روز شادی نہیں ہوتی کہہ کر خوب گل چھڑے اڑاتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ جس ذات واحد نے اسے برکت، مسرت اور چین سے ہم کنار کرنا ہے، اس کی رضا کو ٹھکرا رہے ہیں، نعوذ باللہ، جس ہستی مقدس کے احکام امتی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ان کی سنت سے منہ موڑ کر دنیا بھر کی اور آخرت کی ذلت اٹھانے کا اپنے ہاتھوں سامان کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سنت کے مطابق ہر کام کرنے کی توفیق دے۔
آمین !

اسلامی معاشرت کے اہم انفرادی پہلو

⋆ انسان کا مقصد حیات اللہ کی عبادت واطاعت ہے۔ لہذا اس کی عبادت واطاعت کے تقاضے اطاعت رسول صلى الله عليه وسلم کی حدود میں رہ کر کرنا۔
⋆ خاتم النبین صلى الله عليه وسلم کی اطاعت اور محبت کو ہر شعبہ زندگی میں ملحوظ رکھنا۔
⋆ اولا کو اللہ کی کاص نعمت سمجھ کر اسلامی اقدار و آداب کے مطابق اس کی پرورش کرنا۔
⋆ بلوغ کی عمر کو پہنچتے ہی فوراً نکاح کا اہتمام کرنا۔
⋆ انتخاب زوج کی تلاش میں تقویٰ کو ترجیح دینا ۔
⋆ طویل منگنی کی بجائے نکاح اور رخصتی کرنا۔
⋆ اشیائے ضرورت میں نبوی معیار کو نمونہ بنانا ، زائد ملے تو اللہ تعالیٰ کی حدود میں رہ کر خرچ کرنا۔
⋆ اللہ تعالی کے حکم استیذ ان پر عمل کرنا۔
⋆ ستر و حجاب اور غض بصر کی پابندی کرنا۔
⋆ حقوق لینے کی بجائے دوسروں کے حقوق ادا کرنے میں کوشاں رہنا
⋆ مرد کا منصب قوام کے تقاضے۔۔ کفالت بہ کسب حلال ۔۔ حفاظت اوامر ونواہی۔۔ اور امارت وخلافت کا علم حاصل کرنا ۔۔ اور ممکنہ حد تک اسے بروئے کار لانا۔
⋆ خواتین کا احترام اور وقار برقرار رکھنا۔
⋆ عورت کا گھر میں ٹک کر اطاعت قوام ( شریعت کی حدود میں رہ کر ) کرنا اور نگرانی اطفال کی ذمہ داریاں نبھانا۔
⋆ دنیا کی دیگر اقوام کی مسرفانہ زندگی اور تعیش کی بجائے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طرز حیات کی پیروی کرنا۔
⋆ رفاہ دنیا کے بجائے فلاح آخرت میں ڈوبے رہنا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے