سوال :
شادی بیاہ کی مجالس میں بعض اوقات نقال وغیرہ آ جاتے ہیں اور پیسے مانگتے ہیں، ان کو پیسے دینا کیسا ہے؟
جواب :
شادی وغیرہ کی محافل و مجالس میں اگر ایسے لوگ آجائیں اور شرعی ممنوعات کا ارتکاب کریں تو انھیں پیسے وغیرہ نہیں دینے چاہییں، کیونکہ مانگنا اور لوگوں سے سوال کرنا شریعت میں پسندیدہ نہیں ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”تم میں سے کوئی شخص اپنی رسی پکڑ کر پہاڑ پر چلا جائے اور اپنی پشت پر لکڑیوں کا گٹھا لا کر لائے اور اسے فروخت کر کے اس کی قیمت پر قناعت کرے تو یہ اس کے حق میں لوگوں سے سوال کرنے سے بہتر ہے، لوگ اسے دیں یا نہ دیں۔“
ابن ماجہ، کتاب الزكاة، باب كراهية المسألة (1836)، صحيح البخاری (1471)
جو شخص کمائی کرنے پر قادر ہے اس کے سوال کرنے کے بارے میں امام نووی رحمہ اللہ تحریر کرتے ہیں: ”اس کے بارے میں ہمارے اصحاب نے اختلاف کیا ہے، صحیح ترین بات یہ ہے کہ اس کا سوال حرام ہے، احادیث کے ظاہر کی بنا پر، دوسرا قول یہ ہے کہ کراہت کے باوجود تین شرطوں کے ساتھ یہ حلال ہے، ایک یہ کہ وہ اپنے نفس کو ذلیل نہ کرے، دوسرا یہ کہ وہ سوال کرنے میں گریہ وزاری سے کام نہ لے اور تیسرا یہ کہ وہ جس سے سوال کرتا ہے اسے تنگ نہ کرے۔ اگر تین شرطوں میں سے ایک بھی رہ گئی تو سوال کرنا بالاتفاق حرام ہے۔“
شرح صحیح مسلم (113/7)
اور اگر یہ لوگ کسی شرعی ممانعت کا ارتکاب کریں، انھیں ان امور سے روکا اور باز رکھا جائے اور احسان کرتے ہوئے انھیں کچھ دے دیا جائے اور نیت یہ ہو کہ ہمارا حلال مال کھا کر یہ شخص امور حرام سے تو بہتر کر لے گا تو کوئی حرج نہیں۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”ایک شخص نے کہا میں ضرور صدقہ کروں گا، وہ صدقہ کرنے لگا، اس نے صدقے کا وہ مال ایک چور کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ لوگ صبح باتیں کرنے لگے کہ رات چور کے ہاتھ پر صدقہ کر دیا گیا ہے۔ وہ کہنے لگا: ”اے اللہ! تمام تعریف تیرے لیے ہے، میں ضرور پھر صدقہ کروں گا۔“ وہ صدقہ کرنے نکلا تو اس نے زانیہ کے ہاتھ پر صدقہ رکھ دیا۔ لوگ باتیں کرنے لگے کہ رات زانیہ پر صدقہ کر دیا گیا۔ اس نے کہا: ”اے اللہ! تمام تعریف تیرے ہی لیے ہے، میں ضرور صدقہ کروں گا۔“ وہ صدقہ کرنے نکلا تو اس نے دولت مند اور غنی کے ہاتھ پر صدقہ رکھ دیا۔ لوگ صبح باتیں کرنے لگے کہ رات غنی پر صدقہ کیا گیا۔ اس نے کہا: ”اے اللہ! تمام تعریف تیرے لیے ہے، میں اپنا صدقہ چور، زانیہ اور غنی کو دے آیا“ تو اسے خواب میں کہا گیا: ”جہاں تک چور پر صدقہ کرنے کا مسئلہ ہے، ممکن ہے وہ اپنی چوری سے باز آجائے، اس طرح زانیہ کو صدقے کا مال جانے کی وجہ سے ممکن ہے وہ زنا سے بچ جائے اور غنی و دولت مند کو صدقہ مل جانے سے ممکن ہے وہ عبرت حاصل کرے اور اللہ کے دیے ہوئے مال سے خرچ کرنے لگ جائے۔“
بخاری، کتاب الزكاة، باب إذا تصدق على غنى وهو لا يعلم (1421)
اس صحیح حدیث میں بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر ہے جو صدقہ و خیرات کی تقسیم کے لیے نکلا، رات کا وقت تھا اور لاعلمی میں اپنا صدقہ پہلی رات چور کے ہاتھ پر رکھ آیا، دوسری رات زانیہ اور تیسری رات غنی و مال دار کو صدقہ دے آیا۔ بعد میں جب معلوم ہوا تو اس نے اللہ کی حمد وثنا کی اور اسے بتایا گیا کہ یہ صدقہ جو اللہ کے لیے ہوا، ممکن ہے اس کی برکت سے چور چوری سے باز آ جائے، زانیہ زنا کا ارتکاب نہ کرے اور دولت مند نصیحت و عبرت پکڑ اور اللہ کے عطا کردہ مال سے خرچ کرنے لگ جائے۔ جب نیک نیتی کے ساتھ یہ امور کیے جائیں تو اس کی برکت سے غلط آدمی اپنی غلطی سے رک سکتا ہے۔
لہٰذا جب ایسے افراد کو اس نیت سے مال دے دیں کہ اللہ اسے ہدایت دے دے اور یہ سوائی کرنے سے رک جائے تو کوئی حرج نہیں۔ اگر یہ ڈر ہو کہ یہ لوگ مذاق و استہزا کریں گے تو اپنی عزت و ناموس کے تحفظ کے لیے دے دے گا تو اس کے حق میں جائز ہے، مگر لینے والے کے لیے وبال ہے۔ اس پر ایک روایت دلالت کرتی ہے، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ حنین لڑا، فتح پائی، اموال غنیمت کی تقسیم کی تو آپ نے عباس بن مرداس سلمی کو تالیف قلب کے لیے مال دیا مگر مرداس کو دوسرے لوگوں کے مقابلہ میں کم مال ملنے پر اس نے اشعار کہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يذهبوا فاقطعوا على لسانه
”اس کو لے جاؤ اور میری طرف سے اس کی زبان بند کر دو۔“
تو صحابہ کرام رحمہم اللہ نے اسے کچھ مال دیا، یہاں تک کہ وہ راضی ہو گیا اور زبان بند کر لی۔ یہ واقعہ اسد الغابہ، استیعاب، سيرة ابن اسحاق، دلائل النبوۃ بیہقی، تاریخ طبری، الکامل اور ابن اثیر وغیرہ کتب تاریخ میں موجود ہے، اسی طرح تاریخ جرجان از حمزه بن یوسف اسمی (ص 122) میں بھی اس کا ذکر ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص زبان چلاتا ہے، مذاق و استہزا سے مانگتا ہے تو اپنی عزت کے تحفظ کے لیے اور اس کی زبان بند کرنے کے لیے اسے دینا جائز ہے۔ یہ بات معاشرے میں معروف ہے، معائنہ و مشاہدہ میں بھی ہے کہ شادی بیاہ میں آنے والے میرانی، ڈوم بھنڈ اور گویے وغیرہ نفسی مذاق کرتے اور بعض افراد کے پیچھے پڑ کر سوال کرتے ہیں اور اگر نہ دیں تو ہنگامہ اور مذاق کرتے ہیں، ان کا منہ بند کرنے کے لیے اگر کوئی شخص مال دیتا ہے تو اس کے حق میں تو جواز ہے، البتہ ان لوگوں کے حق میں قطعاً جائز نہیں ہے۔