شاتمِ رسول ذمی کا حکم
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا تو اس نے کہا:
السام عليك
”آپ پر موت ہو“
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وعليك
”اور تجھ پر بھی ۔“
صحابہ نے اسے قتل کرنے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا ، إذا سلم عليكم أهل الكتاب فقولوا وعليكم
”نہیں ، بلکہ جب اہل کتاب تمہیں سلام کہیں تو تم انہیں (جواب میں صرف ) وعلیکم کہو ۔“
[بخاري: 6926 ، كتاب استتابة المرتدين: باب إذا عرض الذى أو غيره بسب النبى ولم يصرح نحو قوله: السام عليك ، أحمد: 210/3 ، نسائى فى عمل اليوم والليلة: 385]
شاتم رسول ذمیوں (اہل کتاب ) کو قتل کیا جائے گا یا نہیں اس میں اختلاف ہے:
(احمدؒ ، شافعیؒ ، مالکؒ ) اگر اسلام قبول نہیں کرتا تو اسے قتل کر دیا جائے گا ۔
(احناف ) اگر ذمی ہو تو اسے سخت مارا جائے گا اور اگر مسلمان ہو تو وہ مرتد ہے ۔
(طحاویؒ ) یہود اگر ایسا کریں تو جس پر وہ پہلے ہیں وہ تو کفر سے بھی زیادہ سخت ہے ۔
(ابن حجرؒ ، شوکانیؒ ) رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی کو تالیف قلب کی مصلحت کی وجہ سے قتل نہیں کیا یا اس لیے کہ وہ ظاہری طور پر (گالی ) نہیں دیتے تھے یا ان دونوں وجوہات کی بنا پر اور یہی زیادہ بہتر ہے ۔
[نيل الأوطار: 652/4 ، غاية المنتهى: 359/3 ، القوانين الفقهية: ص / 364]
(راجح ) جب وہ اعلانیہ سب و شتم نہ کریں بلکہ تعریض و کنایہ کے ذریعے ہی عداوت کی بھڑاس نکالیں تو انہیں قتل نہ کرنا ہی زیادہ بہتر ہے بصورت دیگر انہیں قتل کر دیا جائے گا ۔
[فتح البارى: 284/14]