سوال :
آج کل تجدد پسند طبقہ کہ رہا ہے کہ شرعی احکامات اور حدود میں ترمیم کی ضرورت ہے، اجتہاد کر کے حدود میں تغییر و تبدل کیا جائے اور اسے عصر حاضر کے جدید تقاضوں کے مطابق بنایا جائے تو کیا ان کی یہ بات صحیح اور درست ہے؟ قرآن وحدیث کی رو سے وضاحت فرمائیں۔
جواب :
شرعی احکامات اور حدود اللہ جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے نازل فرمائی ہیں، ان میں بغیر و تبدل کا حق کسی بھی شخص یا پارٹی، پارلیمنٹ یا حکومتی ارکان کو حاصل نہیں ہے۔ نماز، روزہ، زکوٰة، حج، وراثت و فرائض، عائلی قوانین و ضوابط اور زنا، چوری، شراب وغیرہ کے متعلق حدود جیسے شرعی احکام میں نظر ثانی و ترمیم کا دعویٰ کرنا ہی حرام ہے۔ یہ احکام ہر دور اور زمانے میں اسی طرح ہی لاگو اور جاری وساری رہیں گے۔ جیسے رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مسعود اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے ایام ہائے خلافت میں نافذ وجاری تھے۔ جو شخص اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اللہ کی نازل کردہ محکم شرع میں رد و بدل اور کمی بیشی کرنا چاہیے اور حدود اللہ پر اعتراض کرے اور انھیں حقوق انسانی کے منافی سمجھے وہ صریح کفر کا مرتکب اور واجب القتل ہو جاتا ہے۔ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
”جو شخص اپنا دین تبدیل کرے اسے قتل کر دو۔ “
(بخاري، كتاب الجهاد والسير، باب لا يعذب بعذاب الله 3017)
عصر حاضر میں نسل نو کو تجدد پسند طبقے اور مغرب و مغربیت سے مرعوب ہو کر اپنے آپ کو جہنم کے گڑھے میں نہیں دھکیل دینا چاہیے۔ یہود و نصاری اور کفار و ہنود کے زہر آلود اور مسموم پروپیگینڈا سے متاثر ہونے کی بجائے اپنے آپ کو صحیح اسلامی تعلیمات کا پابند اور عملی مسلمان بنانا چاہیے اور مسلم والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کی تربیت اسلامی نہج پر کریں اور انھیں شعائر اسلامیہ اور فرائض دینیہ کا پابند بنا ئیں۔ مغربی تہذیب و تمدن اور ثقافت کا دلدادہ اور رسیانہ ہونے دیں اور ایسی اکیڈمیوں، یونیورسٹیوں، سکولوں اور کالجوں میں مت داخل کروائیں جو یہود و ہنود کی طرز زندگی منتخب کرتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالٰی امت مسلمہ کے جمیع افراد کو فتنہ ارتداد سے محفوظ فرمائے اور انھیں صحیح عملی مسلمان و مجاہد بنے کی توفیق بخشے ۔ (آمین)