سیکولرزم کے دعوے اور حقیقت
سیکولرزم کا دعویٰ تو یہ ہے کہ یہ انسان دوستی، محبت، رواداری، اور بقائے باہمی جیسی اقدار پر مبنی ہے، لیکن عملی رویے اس کے برعکس دکھائی دیتے ہیں۔ سیکولر حضرات اپنی تحریروں اور گفتگو میں زیادہ تر دوسروں کی تضحیک اور مذہب کا مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا نظریہ ردعمل کی غیر متوازن نفسیات پر مبنی ہے۔
سیکولر انتہا پسندی کے تضادات
فکری تضادات:
- سیکولر طبقہ، جمہوریت اور آزادی اظہار کا دعویٰ تو کرتا ہے، لیکن جب اسلام سے متعلق جمہوری فیصلے سامنے آتے ہیں، تو وہ انہیں تسلیم کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔
مقامی اور غیر مقامی تہذیب کا فرق:
- یہ حضرات مقامی تہذیب کے لیے بہت حساس ہیں جب بات عرب یا مسلم ثقافت کی ہو، لیکن جب ویلنٹائن ڈے جیسی مغربی رسومات کا سوال اٹھے، تو یہ گلوبل ولیج کا حوالہ دے کر انہیں قبول کرنے پر زور دیتے ہیں۔
جمہوری عمل اور سیکولر طبقے کا رویہ
قراردادِ مقاصد ایک جمہوری عمل کے تحت منظور کی گئی، جس میں پاکستان کے اسلامی تشخص کا تعین ہوا۔ لیکن سیکولر طبقے کو یہ عمل قبول نہیں۔ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ چونکہ قائد اعظم سیکولر تھے، اس لیے پاکستان بھی سیکولر ہونا چاہیے، حالانکہ جمہوریت میں اجتماعی شعور کو ترجیح حاصل ہوتی ہے نہ کہ کسی فرد کی ذاتی رائے کو۔
جمہوری اصولوں سے انحراف:
سیکولر طبقہ برطانیہ کے عوام کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنے لیے شہنشاہیت جیسے ادارے کو برقرار رکھیں، لیکن پاکستانی عوام کا حق تسلیم نہیں کرتا کہ وہ جمہوری طریقے سے اسلامی نظام کا انتخاب کریں۔ یہ رویہ جمہوریت اور آئین کی بالادستی کے دعوے کی نفی کرتا ہے۔
مذہب اور عورت کے استحصال کا سوال
سیکولر طبقے کے نزدیک عورت کی برہنہ تصاویر کو آرٹ کہا جاتا ہے، لیکن اس "آرٹ” کو اپنے گھروں میں آویزاں کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا یہ موقف عملی طور پر تضادات کا شکار ہے۔
نتیجہ
پاکستان کی اسلامی شناخت کوئی زبردستی مسلط کردہ چیز نہیں بلکہ جمہوری عمل کا نتیجہ ہے۔ آئین پاکستان نے واضح طور پر طے کر دیا ہے کہ ریاست کا مذہب اسلام ہوگا اور یہ اسلامی اصولوں کی بنیاد پر چلے گی۔ سیکولر حضرات اگر واقعی جمہوریت اور آئین کے حامی ہیں تو انہیں ان فیصلوں کو تسلیم کرنا ہوگا۔