سید نا خضرؑ سے متعلق مختلف حقائق کا تفصیلی جائزہ
تحریر: محمد ارشد کمال ,پی ڈی ایف لنک

سید نا خضرؑ

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سیدنا موسیٰ اور سید نا خضرؑ کا ایک بڑا ہی دلچسپ اور سبق آموز واقعہ بیان کیا ہے۔ اس واقعہ کی بعض تفصیلات احادیث مبارکہ میں بھی ملتی ہیں۔ اس ایک واقعہ کے علاوہ خضرؑ کے مزید حالات ہم تک نہیں پہنچے مگر لوگوں کے اندر ان کے متعلق بڑی عجیب و غریب باتیں معروف ہیں۔ سطور ذیل میں انہی چیزوں پر ہم روشنی ڈالیں گے۔

خضر اور موسیؑ کا واقعہ:

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِفَتٰهُ لَا ابْرَحُ حَتَّى ابْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ أَوْ أَمْضِيَ حقبان الخ

(الكهف : ۶۰ تا ٨٢)

’’اور جب موسیٰ نے اپنے جوان سے کہا:

میں مسلسل چلتا رہوں گا یہاں تک کہ دو دریاوں کے سنگم پر پہنچ جاؤں یا مدتوں چلتا رہوں۔ پھر جب وہ دو دریاؤں کے سنگم پر پہنچے تو اپنی مچھلی بھول گئے ، پس اس نے دریا میں سرنگ کی طرح اپنی راہ بنالی۔ پس جب وہ دونوں آگے گزر گئے تو اس (موسیٰؑ) نے اپنے جوان سے کہا:

ہمارا ناشتہ لاؤ، بلاشبہ ہم اپنے اس سفر میں تھکاوٹ سے دو چار ہو چکے ہیں۔ اس نے کہا :

کیا آپ نے دیکھا کہ جب ہم چٹان کے پاس ٹھہرے تو بے شک میں مچھلی بھول گیا، اور مجھے شیطان ہی نے بھلا دیا کہ ( آپ سے ) اس کا ذکر کروں، اور اس نے دریا میں عجیب طریقے سے اپنی راہ بنائی تھی۔ اس (موسیٰؑ) نے کہا :

یہی وہ جگہ تھی جسے ہم ڈھونڈ رہے تھے۔ پھر وہ دونوں اپنے قدموں کے نشان ڈھونڈتے ہوئے واپس ہوئے۔ تو وہاں انھوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا جسے ہم نے اپنے پاس سے رحمت عطا کی تھی اور ہم نے اسے اپنے پاس سے ایک علم سکھایا تھا۔ موسیٰ نے اس سے کہا :

کیا میں اس شرط پر آپ کے پیچھے آسکتا ہوں کہ آپ مجھے بھی اس بھلائی میں سے کچھ سکھا دیں جو آپ کو سکھائی گئی ہے۔ اس نے کہا:

بے شک آپ میرے ہمراہ ہرگز نہ صبر کر سکیں گے۔ اور آپ اس چیز پر کیسے صبر کر سکتے ہیں جسے آپ اپنے احاطہ علمی میں نہیں لائے۔ اس (موسی) نے کہا:

آپ مجھے ان شاء اللہ ضرور صبر کرنے والا پائیں گے اور میں کسی معاملے میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔ اس (خضرؑ) نے کہا:

پس اگر آپ نے میرے ساتھ چلنا ہے تو کسی چیز کا مجھ سے سوال نہ کیجئے گا جب تک کہ میں خود آپ سے اس کا ذکر نہ چھیڑوں۔ پھر وہ دونوں چل پڑے، یہاں تک کہ جب دونوں کشتی میں سوار ہوئے تو اس (خضرؑ) نے اس میں شگاف کر دیا۔ موسیٰؑ نے کہا:

کیا آپ نے اس میں شگاف کر دیا ہے تا کہ اس کے سواروں کو غرق کر دیں؟ بے شک آپ نے تو بڑا خطرناک کام کیا ہے، اس نے کہا:

کیا میں نے کہا نہیں تھا کہ بے شک آپ میرے ہمراہ ہر گز صبر نہ کر سکیں گے۔ موسیٰ نے کہا:

جو چیز میں بھول گیا ہوں، آپ اس پر میرا مواخذہ نہ کریں اور میرے معاملے میں مجھے مشکل میں نہ ڈالیں۔ پھر وہ دونوں چل پڑے، یہاں تک کہ جب وہ ایک لڑکے سے ملے تو اس (خضر) نے اسے قتل کر ڈالا ۔ اس (موسیٰ) نے کہا:

کیا آپ نے ایک معصوم جان کو بغیر کسی جان کے بدلے قتل کر ڈالا، بے شک آپ نے تو ایک بہت ہی نا پسندیدہ کام کیا ہے۔ اس (خضر) نے کہا:

کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ بے شک آپ میرے ہمراہ ہرگز نہ صبر کر سکیں گے۔ اس (موسیٰ ) نے کہا:

اگر میں اس کے بعد آپ سے کسی چیز کی بابت سوال کروں تو مجھے ساتھ نہ رکھیے گا، یقیناً آپ میری طرف سے حد عذر کو پہنچ چکے ہیں۔ پھر وہ دونوں چل پڑے یہاں تک کہ جب ایک بستی والوں کے پاس آئے۔ تو اس کے باسیوں سے انھوں نے کھانا مانگا تو انھوں نے اس بات سے انکار کر دیا کہ ان کی ضیافت کریں پھر ان دونوں نے اس (بستی) میں ایک دیوار دیکھی جو گرا ہی چاہتی تھی تو اس ( خضرؑ) نے اسے سیدھا کر دیا۔ اس (موسیٰ) نے کہا:

اگر آپ چاہتے تو یقیناً اس پر کچھ مزدوری لے لیتے ۔ اس (خضر) نے کہا:

یہ میرے درمیان اور آپ کے درمیان جدائی ہے، میں جلد ہی آپ کو ان باتوں کی حقیقت سے آگاہ کر دوں گا جن پر آپ صبر نہ کر سکے۔ رہی کشتی ، تو وہ چند مسکینوں کی تھی جو دریا میں کام کاج کرتے تھے اور ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو زبردستی ہر کشتی چھین لیتا تھا تو میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کر دوں ۔ اور رہا وہ لڑکا، تو اس کے والدین مومن تھے۔ ہمیں یہ اندیشہ ہوا کہ وہ انھیں سرکشی اور کفر میں مبتلا کر دے گا۔ سو ہم نے چاہا کہ انھیں ان کا رب ایسا بدل عطا فرمائے جو پاکیزگی میں اس سے بہتر ہو اور شفقت میں زیادہ قریب ہو۔ اور رہی دیوار، تو وہ شہر میں دو یتیم لڑکوں کی تھی اور اس کے نیچے ان کا خزانہ تھا۔ اور ان کا باپ نیک آدمی تھا تو آپ کے رب نے چاہا کہ وہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچ جائیں اور آپ کے رب کی رحمت سے اپنا خزانہ نکال لیں۔ اور میں نے یہ اپنی رائے سے نہیں کیا۔ یہ تھی ان کا موں کی حقیقت جن پر آپ صبر نہ کر سکے ۔“

امام سعید بن جبیرؒ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عباسؓ سے کہا کہ نوف بکالی کا یہ خیال ہے کہ بنو اسرائیل کے موسیٰؑ وہ نہیں جو خضرؑ کے ہم عصر تھے۔ ابن عباسؓ نے کہا:

اس اللہ کے دشمن نے جھوٹ بولا ہے، میں نے ابی بن کعبؓ کو یہ کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :

” ایک دن موسیٰؑ بنو اسرائیل میں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو ان سے سوال ہوا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ علم والا کون ہے؟ انھوں نے کہا:میں سب سے زیادہ جاننے والا ہوں۔“

آپ ﷺ نے فرمایا:

اللہ تعالیٰ نے اس وجہ سے ان پر عتاب فرمایا کہ انھوں نے علم کو (جو اصل میں اللہ کے پاس ہے ) واپس اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیوں نہ کیا، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ مجمع البحرین ( دو پانیوں کے ملنے کی جگہ) پر ہے اور وہ تم سے زیادہ علم رکھنے والا ہے۔ حضرت موسیٰؑ نے کہا :

میرے رب ! میرے لیے ان سے ملنے کا کیا طریقہ ہے؟ تو ان سے کہا گیا :

ایک تھیلے میں ایک مچھلی رکھ لو، جہاں آپ مچھلی کو گم پائیں گے وہ وہیں ہوگا۔ وہ (حضرت موسیٰؑ) چل پڑے، ان کے ساتھ ان کا جو ان ساتھی (خادم) بھی چل پڑا، وہ یوشع بن نونؑ تھے۔ حضرت موسیٰؑ نے تھیلے میں ایک مچھلی اُٹھالی، وہ اور ان کا جوان ساتھی چل پڑے یہاں تک کہ ایک چٹان کے پاس پہنچ گئے ، موسیٰؑ بھی سو گئے اور ان کا جوان (خادم) بھی سو گیا، اتنے میں مچھلی تھیلے میں تڑپی، تھیلے سے نکلی اور سمندر میں جاگری۔ (حضرت موسیٰؑ کو اس بات کا پتہ نہ چل سکا صرف جوان نے یہ بات دیکھی ۔) اللہ تعالیٰ نے اس مچھلی کے لیے پانی کے بہاؤ کو روک دیا، حتی کہ وہ پانی مچھلی کے لیے ایک طاقچے کے مانند ہو گیا اور اس کے اندر ہی مچھلی کے لیے ایک سرنگ نما راستہ تھا، حضرت موسیٰؑ اور ان کے جوان دونوں کے لیے حیرت ناک بات تھی، ان دونوں نے دن اور رات کے باقی حصے میں سفر جاری رکھا، حضرت موسیٰؑ کا ساتھی (مچھلی کی بات) آپ کو بتانا بھول گیا۔ جب موسیٰؑ نے صبح کی تو اپنے جوان سے کہا :

ہمارا دن کا کھانا پیش کرو، ہمیں اس سفر میں خوب تھکاوٹ ہوئی ہے۔

آپ ﷺ فرمایا:

وہ اس جگہ سے جس کا انھیں حکم دیا گیا تھا، آگے نکل جانے سے پہلے نہ تھکے تھے۔ اس (جوان) نے کہا:

آپ نے دیکھا، جب ہم چٹان کے پاس رکے تھے تو میں مچھلی وہیں بھول گیا اور مجھے شیطان نے ہی یہ بات ( بھی ) بھلوادی کہ میں (آپ کے سامنے ) اس کا ذکر کروں، اور عجیب بات (یہ) ہے کہ اس ( مچھلی ) نے پانی میں راستہ پکڑ لیا تھا۔ حضرت موسیٰؑ نے کہا:

یہی تو ہم تلاش کر رہے تھے، پھر وہ دونوں واپس اپنے قدموں کے نشانوں پر روانہ ہو گئے۔ وہ دونوں اپنے قدموں کے نشانوں کو دیکھتے ہوئے جارہے تھے کہ دونوں چٹان کے پاس آئے تو موسیٰ ؑ نے ایک مرد کو دیکھا جس نے اپنے ارد گرد کپڑا لپیٹ رکھا تھا۔ موسیٰؑ نے انھیں سلام کہا، وہ بولے :

اس سرزمین پر سلام کہاں سے آگیا؟ انھوں نے کہا:

میں موسیٰ ہوں، پوچھا :

بنی اسرائیل کے موسیٰ ؟ کہا:

ہاں۔ انھوں نے کہا:

آپ اللہ کے علم میں سے اس علم پر ہیں جو اللہ نے آپ کو سکھایا اسے میں نہیں جانتا، اور میں اللہ کے اس علم پر ہوں جو اس نے مجھے سکھایا، آپ اسے نہیں جانتے۔ موسیٰؑ نے ان سے کہا:

کیا میں آپ کے پیچھے پیچھے چلوں تا کہ آپ ہدایت کا وہ علم جو آپ کو سکھایا گیا، مجھے بھی سکھا دیں؟ انھوں نے کہا:

آپ میرے ساتھ ( رہتے ہوئے ) ہرگز صبر نہیں کرسکیں گے، آپ اس بات پر صبر کر بھی کیسے سکتے ہیں جس کی آپ کو آگاہی (تک) نہیں۔ (موسیٰؑ نے ) کہا:

آپ ان شاء اللہ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے اور میں آپ کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کروں گا۔ خضرؑ نے ان سے کہا:

اگر آپ میرے پیچھے چلتے ہیں تو اس وقت تک مجھ سے کسی چیز کے بارے میں کوئی سوال نہ کریں جب تک میں خود آپ کے سامنے اس کا ذکر شروع نہ کروں۔ موسیٰؑ نے کہا:

ٹھیک ہے۔ خضر اور موسیٰؑ سمندر کے کنارے چل پڑے۔ ایک کشتی ان دونوں کے قریب سے گزری۔ دونوں نے ان (کشتی والوں) سے بات کی کہ وہ ان دونوں کو بھی کشتی میں بٹھا لیں۔ انھوں نے خضرؑ کو پہچان لیا اور دونوں کو بغیر کرایہ لیے کشتی میں بٹھالیا۔ خضرؑ نے کشتی کے تختوں میں سے ایک تختے کی طرف رُخ کیا اور اسے اکھیڑ دیا۔ موسیٰؑ نے ان سے کہا:

ان لوگوں نے ہمیں بغیر کرائے کے کشتی پر بٹھایا ہے، آپ نے ان کی کشتی کی طرف رُخ کر کے اسے توڑ دیا تا کہ آپ اس کے سواروں کو غرق کر دیں، آپ نے بڑا ہی عجیب کام کیا ہے۔ خضر نے کہا :

میں نے آپ سے کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکیں گے ! انھوں (موسیٰؑ) نے کہا:

میرے بھول جانے پر میرا مؤاخذہ نہ کریں اور میرے (اس) کام کی وجہ سے میرے ساتھ سخت برتاؤ نہ کریں۔ پھر وہ دونوں کشتی سے نکلے، جب وہ ساحل پر چلے جا رہے تھے تو اچانک ایک لڑکا دوسرے لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ خضرؑ نے اسے سر سے پکڑا اور اپنے ہاتھ سے اسے (جسم سے ) الگ کر دیا اور اس لڑکے کو مار دیا۔ اس پر موسیٰؑ نے ان سے کہا:

آپ نے کسی جان (کے قصاص) کے بغیر ایک معصوم جان کو قتل کر دیا۔ آپ نے بہت بُرا کام کیا۔ انھوں نے کہا:

میں نے آپ سے کہا نہ تھا کہ آپ میرے ساتھ ہرگز صبر نہیں کر سکیں گے؟“

آپ ﷺ نے فرمایا:

’’یہ بات پہلی بات سے شدید تر تھی ۔ انھوں ( موسیٰؑ) نے کہا:

اگر میں نے اس کے بعد آپ سے کسی اور چیز کے بارے میں سوال کیا تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیں، آپ میری طرف سے عذر تک پہنچ گئے ۔ وہ دونوں پھر چل پڑے، یہاں تک کہ جب ایک بستی کے لوگوں تک پہنچے تو دونوں نے بستی والوں سے کھانا طلب کیا، ان لوگوں نے ان دونوں کو مہمان بنانے سے انکار کر دیا، پھر ان دونوں نے ایک دیوار دیکھی جو گرنا چاہتی تھی ۔ یعنی وہ جھکی ہوئی تھی۔ خضرؑ نے ہاتھ سے اس طرح کیا اور اسے سیدھا کر دیا، موسیٰؑ نے ان سے کہا:

یہ ایسے لوگ ہیں کہ ہم ان کے ہاں آئے تو انھوں نے ہمیں مہمان نہ بنایا، کھانا تک نہ کھلایا، اگر آپ چاہتے تو اس کام پر اجرت لے سکتے تھے۔ انھوں نے کہا:

یہ میرے اور آپ کے درمیان جدائی (کا وقت ) ہے۔ جن باتوں پر آپ سے صبر نہ ہوسکا میں آپ کو ان کی حقیقت بتا تا ہوں۔“

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

’’ اللہ تعالیٰ موسیٰ ؑ پر رحم فرمائے ! میرا دل چاہتا ہے کہ وہ صبر کر لیتے یہاں تک کہ ہمارے سامنے ان کی مزید باتیں بیان ہوتیں۔“

اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

” پہلی بات موسیٰؑ کی طرف سے نسیان ( کی بنا پر ) تھی۔“

آپ نے فرمایا:

” ایک چڑیا ( اُڑتی ہوئی ) آئی یہاں تک کہ کشتی کے کنارے پر بیٹھ گئی، پھر اس نے سمندر میں چونچ ماری تو خضرؑ نے ان (موسیٰ) سے کہا:

میرے اور تمہارے علم نے اللہ کے علم (غیب) میں اس سے زیادہ کمی نہیں کی جتنی کمی اس چڑیا نے سمندر کے پانی میں کی ہے۔“

(صحیح البخاري ، ح: ۱۲۲ ، صحیح مسلم، ح: ۲۳۸۰ واللفظ له)

لفظ خضر ، کا تلفظ :

لفظ خضر خاء کے فتحہ اور ضاد کے کسرہ کے ساتھ (خضر) ہے۔ خاء کے کسرہ اور ضاد کے سکون کے ساتھ (خضر) بھی درست ہے۔ دونوں میں الف لام اور بغیر الف لام کے بھی درست ہے۔

(دیکھئے: فتح الباری : ۲۲۲/۱)

نام اور وجہ تسمیہ :

سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

((إِنَّمَا سُمِّيَ الخَضِرَ کہ لأَنَّهُ جَلَسَ عَلَى فَرْوَةٍ بَيْضَاءَ فَإِذَا هِيَ تَهْتَرُّ مِنْ خَلْفِهِ خَضْرَاءَ))

’’ان کا نام خضر اس وجہ سے رکھا گیا تھا کہ ایک مرتبہ وہ خشک زمین پر بیٹھے تو ان کے اُٹھنے کے بعد وہ زمین سرسبز ہو کر لہلہانے لگی تھی ۔“

(صحيح البخاري ، ح : ٣٤٠٢)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خضرؑ کا اصل نام کچھ اور تھا۔ خضر ان کا لقب تھا۔ اور جمہور اہل علم کا بھی یہی کہنا ہے۔

(تنویر الاذهان من تفسير روح البيان : ٢/ ٣٩٣)

اصل نام کے سلسلے میں مورخین کے متعدد اقوال ملتے ہیں جن میں زیادہ معروف ”بلیا بن ملکان‘‘ ہے۔

(فتح الباري : ٥٢٦/٦ ، ٥٢٧ – الإصابة في تمييز الصحابة :٤٨٩/١)

خضرؑ انسان تھے یا فرشتہ؟

بعض اہل علم کا خیال ہے کہ خضرؑ فرشتہ تھے۔

(دیکھئے : تیسیر القرآن :۶۵۲/۲)

لیکن درست اور راجح بات یہ ہے کہ وہ انسان تھے ، فرشتہ نہ تھے۔ کیونکہ فرشتے انسانوں سے الگ ایک جنس اور مخلوق ہیں۔

❀ صحیح البخاری میں موسیٰؑ اور خضرؑ کے واقعہ کے سلسلے میں مروی حدیث میں ہے کہ ایک سائل نے موسیٰؑ سے سوال کر دیا :

أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ؟

”لوگوں میں سب سے بڑا عالم کون ہے ؟‘‘

تو موسیٰؑ نے فرمایا کہ میں سب سے بڑا عالم ہوں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان پر عتاب فرمایا کیونکہ انھوں نے علم کو اللہ تعالیٰ کے حوالے نہیں کیا تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ:

((إِنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَادِي بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنكَ))

”بے شک دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ پر میرے بندوں میں سے ایک بندہ ہے، وہ تم سے بڑا عالم ہے۔“

(صحیح البخاري ، ح : ۱۲۲)

غور کریں کہ سائل کا سوال یہ نہیں تھا کہ مخلوق میں سب سے بڑا عالم کون ہے، بلکہ اس نے لوگوں اور انسانوں میں سے سب سے بڑے عالم کے متعلق دریافت کیا تھا جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے خضرؑ کا بتایا۔

❀ قرآن مجید میں قصہ موسی و خضرؑ میں مذکور ہے:

((حَتَّى إِذَا آتَيَا أَهْلَ قَرْيَةِ إِسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيّفُوهُمَا))

(الكهف : ۷۷)

’’حتی کہ جب وہ دونوں ایک بستی والوں کے پاس آئے ، دونوں نے اس ( بستی ) کے باشندوں سے کھانا مانگا تو انھوں نے انکار کر دیا کہ وہ ان دونوں کی مہمان نوازی کریں ۔ “

اور حدیث میں ہے:

(( حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ لِتَامًا فَطَافَا فِي الْمَجَالِسِ فَاسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا، فَأَبُوا أَنْ يُضَيفُوهُمَا ))

’’ یہاں تک کہ جب وہ دونوں ایک بستی والوں کے پاس آئے تو وہ کئی مجالس میں پھرے اور اس کے باشندوں سے کھانا مانگا لیکن انھوں نے انکار کر دیا کہ وہ ان کی مہمان نوازی کریں‘‘

(صحیح مسلم، ح: ۲۳۸۰)

اگر خضرؑ فرشتہ ہوتے تو انھیں کھانا مانگنے کی کیا ضرورت تھی ؟ کہ فرشتوں کو تو کھانے پینے کی حاجت ہی نہیں ہوتی۔ جیسا کہ ابراہیمؑ کے قصے میں ہے کہ فرشتے انسانی شکل میں ان کے پاس آئے ، انھوں نے فی الفور ایک بھنا ہوا بچھڑا کھانے کے لیے ان کے آگے رکھ دیا مگر فرشتوں نے کھایا ہی نہیں، ہاتھ تک نہیں بڑھایا۔

(دیکھئے : ھود : ۷۰،۶۹)

خضرؑ کا موسیٰؑ کے ہمراہ کھانا طلب کرنا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ انسان تھے، فرشتہ نہیں تھے۔

❀ قصہ خضر و موسیٰؑ میں منقول ہے کہ موسیٰؑ جب واپس دو دریاؤں کے سنگم پر پہنچ تو

(( إِذَا رَجُلٌ مُسَجِّى بِثَوب ))

’’اچانک وہاں ایک آدمی کپڑا لپیٹے ہوئے تھا۔‘‘

( صحيح البخاري ، ح: ۱۲۲)

یہاں حدیث میں خضرؑ کے لیے واضح طور پر ’’رَجُلٌ‘‘ (آدمی ) کا لفظ آیا ہے اور یہ لفظ انسان ہی کے لیے بولا جاتا ہے الا یہ کہ کوئی قرینہ آجائے اور وہ یہاں نہیں ہے۔ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ میں کہیں بھی یہ صراحت نہیں کہ خضرؑ فرشتہ تھے۔

❀ جمہور اہل علم کا بھی یہی موقف ہے کہ خضرؑ انسان تھے۔ چنانچہ امام ابوعبد اللہ محمد بن احمد القرطبیؒ (م : ۶۷۱ھ) فرماتے ہیں:

’’وقيل : كان ملكا أمر الله موسى أن ياخذ عنه مماحمله من علم الباطن ، والأول الصحيح، والله أعلم

اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ فرشتے تھے، اللہ تعالیٰ نے موسیٰؑ کو حکم دیا کہ وہ ان سے باطنی علم حاصل کریں جو ان کو حاصل تھا۔ لیکن پہلا قول ( کہ وہ انسان تھے ) ہی صحیح ہے۔

واللہ اعلم ۔

(الجامع لاحكام القرآن : ۱۸/۱۱)

علامہ ابوزکریا یحییٰ بن شرف النووی (م : ۶۷۶ ھ ) فرماتے ہیں:

وحــــــــکــــي الماوردي في تفسيره ثلاثة أقوال أحدهما نبي، والثاني ولي، والثالث أنه من الملائكة وهذا غریب باطل‘‘

اور ماوردی نے اپنی تفسیر میں تین اقوال بیان کیے ہیں :

ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ نبی تھے۔ دوسرا یہ کہ وہ ولی تھے اور تیسرا یہ ہے کہ وہ فرشتوں میں سے تھے، اور یہ (فرشتوں میں سے تھے ) قول غریب اور باطل ہے۔

(صحيح مسلم مع الشرح للنووى : ٢/ ٢٦٩)

امام عماد الدین ابوالفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقی (م: ۷۷۴ھ) فرماتے ہیں :

’’وأما كونه ملكا من الملائكة فقول غريب جدا

اور رہی یہ بات کہ وہ فرشتوں میں سے ایک فرشتہ تھے تو یہ قول انتہائی عجیب و غریب ہے۔

(البداية والنهاية :٢/ ١٣٤)

علامہ ابوالفضل محمود الآلوسی (م : ۱۲۷۰ھ ) لکھتے ہیں :

وقيل : مـــــلك مــــــن الملائكة وهو قول غريب باطل كما في شرح مسلم

اور کہا گیا ہے کہ وہ فرشتوں میں سے ایک فرشتہ تھے اور یہ قول عجیب اور باطل ہے۔

(روح المعاني : ۸/ ۳۰۱)

علاوہ ازیں علماء مورخین نے خضرؑ کا نسب بیان کیا ہے اور جمہور نے انھیں نبی کہا ہے، یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ انسان تھے، فرشتہ نہ تھے۔

خضرؑ نبی تھے یا ولی ؟

اس بات میں بھی اختلاف ہے کہ خضرؑ نبی تھے یا ولی ؟

امام ابومحمد حسین بن مسعود البغویؒ (م : ۵۱۶ھ) فرماتے ہیں:

’’ ولم یکن الخضر نبيا عند أكثر أهل العلم‘‘

اور اکثر اہل علم کے نزدیک خضرؑ نبی نہیں تھے۔

(معالم التنزيل : ٣/ ٤٧)

لیکن امام بغویؒ کی یہ بات محل نظر ہے کیونکہ جمہور کے نزد یک خضرؑ نبی تھے اور یہی راجح ہے۔ اب اس کے چند دلائل ملاحظہ فرمائیں :

➊ خضرؑ نے فرمایا:

(( وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِى ))

(الكهف : ۸۲)

’’اور میں نے یہ اپنی رائے سے نہیں کیا۔“

یہ خضرؑ کے نبی ہونے کی دلیل ہے کیونکہ کسی ولی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام کی بنا پر کسی بد سے بد کو بھی قتل کرنے کی اجازت نہیں کیونکہ اس کے الہام میں شیطان کا دخیل ہوسکتا ہے۔

(تفسیر القرآن الکریم : ۵۶۱/۲)

قاضی ابومحمد عبد الحق ابن عطیہ الاندلسیؒ (م : ۵۴۱ھ) فرماتے ہیں :

وَمَا فَعَلْتُه عَنْ أَمْرِى يقتضي أن الخضر نبي

’’اور میں نے یہ اپنی رائے سے نہیں کیا۔“

یہ اس بات کا مقتضی ہے کہ خضرؑ نبی تھے۔

(المحرر الوجيز ، ص: ۱۲۰۹)

بعینہ یہی بات امام قرطبی نے بھی فرمائی ہے۔

(دیکھئے : الجامع لأحکام القرآن :۱۱/ ۳۸)

حافظ ابوالفضل احمد بن علی ابن حجر العسقلانی (م:۸۵۲ھ) فرماتے ہیں:

’’ وهذا ظاهره أنه فعله بأمر الله و الأصل عدم الواسطة، ويحتمل أن يكون بواسطة نبي آخر لم يذكر وهو بعيد ولاسبيل إلى القول بأنه إلهام لأن ذلك لا يكون من غير النبي و حيا حتى يعمل به من قتل النفس وتعريض الأنفس للغرق، فإن قلنا: أنه نبي بلا إنكار ذلك

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سارے کام انھوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے کیے تھے اور اصل یہ ہے کہ بلا واسطہ تھے ۔ اور احتمال ہے کہ کسی دوسرے نبی کے واسطے سے ہوں جن کا ذکر نہیں ہوا مگر یہ بات بعید از عقل ہے۔ اور کسی شخص کا یہ کہنا کہ یہ سارے کام الہام کے ذریعے سے کیے تھے تو یہ وہ قول ہے جس کو کہنے کی بھی گنجائش نہیں کیونکہ غیر نبی کے پاس وحی نہیں آتی کہ وہ کسی جان کو ناحق قتل اور لوگوں کو غرق ہونے کے قریب کر دینے جیسے اہم کام کر ڈالے اگر ہم کہیں کہ وہ نبی تھے تو اس کا انکار نہیں۔

(الإصابة في تمييز الصحابة : ٤٩٠/١)

➋ ارشادِ باری تعالی ہے :

(فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَاۤ اٰتَیْنٰهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَ عَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا)

(الكهف : ٦٥)

تو انھوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا جسے ہم نے اپنے پاس سے رحمت عطا کی تھی اور ہم نے اسے اپنے پاس سے ایک علم سکھایا تھا۔ آیت ہذا میں رحمت سے مراد نبوت ہے۔ قرآن مجید میں کئی جگہ ”رحمة من ربك “ سے مراد نبوت لی گئی ہے جیسا کہ ایک جگہ فرمایا:

وَقَالُوا لَوْ لَا نُزِّلَ هَذَا الْقُرْآنُ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ أَهُم يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبَّكَ

(الزخرف : ۳۱-۳۲)

اور انھوں نے کہا:

یہ قرآن ان دو بستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہیں نازل کیا گیا ؟ کیا وہ تیرے رب کی رحمت ( نبوت ) تقسیم کرتے ہیں؟“

امام ابن عطیہ، واحدی ، قرطبی اور ابو حیان الاندلسی وغیرہ بھی یہی فرماتے ہیں کہ آیت ہذا میں رحمۃ سے مراد نبوت ہے۔

(دیکھئے: المحرر الوجيز ، ص: ۱۲۰۳ ـ الوجيز ، ص: ٦٦٧ ـ الجامع لأحكام القرآن : ١١ / ١٨ ـ البحر المحيط : ١٣٩/٦ (الشامله )

مفسر ابوالفضل محمود الآلوسی (م: ۱۲۷۰ھ ) رقم طراز ہیں :

أَتَيْنَهُ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِنَا قيل :

قیل: المراد بها الرزق الحلال والعيش الرغد ، وقيل العزلة عن الناس وعدم الاحتياج إليهم وقيل طول الحياة مع سلامة البنية والجمهور على أنها الوحي والنبوة وقد اطلقت على ذلك في مواضع من القرآن

”ہم نے اسے اپنی جناب سے رحمت عطا کی ۔“

کہا گیا ہے کہ اس سے مراد رزق حلال ہے اور خوش گوار زندگی ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ لوگوں سے کنارہ کشی اور ان سے بے غرضی و
استغناء ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ صحت وسلامتی کے ساتھ لمبی زندگی ہے۔ اور جمہور اس بات پر ہیں کہ اس سے وحی اور نبوت مراد ہیں اور قرآن مجید کے کئی مقامات پر رحمت کا نبوت پر اطلاق ہوا ہے۔

(روح المعاني : ٣٠٢/٨)

➌ خضرؑ نے فرمایا:

(وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا فَأَرَادَ رَبُّكَ أَنْ يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنزَهُمَا رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ)

(الكهف : ۸۲)

’’ ان کا باپ نیک آدمی تھا تو آپ کے رب نے چاہا کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائیں اور آپ کے رب کی رحمت سے اپنا خزانہ نکال لیں۔“ امام ابوالفداء اسماعیل ابن کثیر فرماتے ہیں:

’’ وقوله: رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ دليل على أنه كان نبيا وأنه ما فعل شيئاً من تلقاء نفسه بل بأمر ربه فهو نبي

تیرے رب کی رحمت سے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ نبی تھے اور انھوں نے اپنی طرف سے کچھ نہیں کیا تھا بلکہ اپنے رب کے حکم ہی سے کیا تھا لہٰذا وہ نبی تھے۔

(البداية والنهاية : ٢/ ٩٢)

➍ موسیٰؑ نے خضرؑ سے کہا:

(هَلْ اَتَّبِعُكَ عَلٰۤى اَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا قَالَ اِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا وَ كَیْفَ تَصْبِرُ عَلٰى مَا لَمْ تُحِطْ بِهٖ خُبْرًا قَالَ سَتَجِدُنِىٓ إِن شَآءَ ٱللَّهُ صَابِرًا وَلَآ أَعْصِى لَكَ أَمْرًاقَالَ فَاِنِ اتَّبَعْتَنِیْ فَلَا تَسْــٴَـلْنِیْ عَنْ شَیْءٍ حَتّٰۤى اُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْرًا)

(الكهف : ٦٦ تا ٧٠)

’’کیا میں اس شرط پر آپ کے پیچھے آسکتا ہوں کہ آپ مجھے بھی اس بھلائی میں سے کچھ سکھا دیں جو آپ کو سکھائی گئی ہے؟ اس نے کہا:

بے شک آپ میرے ہمراہ ہر گز صبر نہیں کر سکیں گے اور آپ اس چیز پر کیسے صبر کر سکتے ہیں جسے آپ اپنے احاطہ علمی میں نہیں لائے۔ کہا:

آپ مجھے ان شاء اللہ ضرور صبر کرنے والا پائیں گے اور میں کسی معاملے میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔ اس نے کہا:

پس اگر آپ نے میرے ساتھ چلنا ہے تو کسی چیز کا مجھ سے سوال نہ کرنا جب تک میں خود آپ سے اس کا ذکر نہ چھیڑوں۔“

موسیٰؑ اور خضرؑ کی اس گفتگو سے بھی معلوم ہو رہا ہے کہ خضرؑ اللہ تعالیٰ کے نبی تھے۔ چنانچہ امام ابن کثیر فرماتے ہیں :

فلو كان وليــا وليــس بــنبـي لـم يخاطبه موسى بهذه المخاطبة ، ولم يردّ على موسى هذا الرد، بل موسى إنما سأل صحبته لينال ما عنده من العلم الذي اختصه الله به دونه فلوكان غير نبي لم يكن معصوماً ولم تكن لموسى، وهو نبي عظيم ورسول كريم واجــب الـعـصـمة – كبير رغبة ولا عظيم طلبة في علم ولي غير واجــب الــعـصـمة، ولما عزم على الذهاب إليه والتفتيش عليه ولو أنه يمضي حقبا من الزمان قيل ثمانين سنة ، ثم لما اجتمع به تواضع له وعظمه واتبعه في صورة مستفيد منه ، دل على أنه نبي مثله، يوحى إليه كما يوحى إليه، وقد خُصّ من العلوم اللدنية والأسرار النبوية بما لم يُطلع الله عليه موسى الكليم نبي بني إسرائيل الكريم

’’پس اگر وہ (خضر) ولی ہوتے اور نبی نہ ہوتے تو موسیٰؑ اس انداز سے انھیں مخاطب نہ ہوتے اور نہ وہ اس انداز سے موسیٰؑ کو جواب دیتے ۔ بلکہ موسیٰؑ نے تو ان کی صحبت میں رہنے کی درخواست اس لیے کی تھی کہ اللہ کا دیا ہوا خاص علم ان سے حاصل کریں جوان (موسیٰؑ ) کے پاس نہ تھا۔ پس اگر وہ نبی نہ ہوتے تو معصوم عن الخطا بھی نہ ہوتے اور موسیٰؑ کو عظیم المرتبت نبی، عزت دار اور گناہوں سے محفوظ رسول ہوتے ہوئے ایک ولی جو معصوم عن الخطا نہیں، کی اتباع کرنے اور اس سے علم حاصل کرنے کی رغبت نہ ہوتی۔ اور نہ وہ ان کے پاس جاتے اور نہ ان کے حالات معلوم کرنے کا عزم کرتے ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے مدتوں سفر جاری رکھنے کا عزم کر لیا تھا اور کہا گیا ہے کہ اسی سال مراد ہیں۔ پھر جب وہ ( موسیٰؑ) ان سے ملے تو ان کے سامنے تواضع اور انکساری اختیار کی ان کی تعظیم وتو قیر بجالائے اور طالب علم کی حیثیت سے ان کی پیروی کی۔ یہ سب باتیں اس پر دلالت کرتی ہیں کہ وہ (خضرؑ ) بھی آپ جیسے نبی تھے۔ ان کی طرف بھی اسی طرح وحی کی جاتی تھی جس طرح آپ کی طرف کی جاتی تھی۔ وہ علم لدنی اور اسرار نبوت سے خصوصی طور پر نوازے گئے تھے جن پر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے معزز نبی موسیٰ کلیم کو بھی مطلع نہیں کیا تھا۔

(البداية والنهاية : ٢/ ١٣٣ ، ١٣٤)

➎ قصہ خضرؑ میں مذکور ہے کہ انھوں نے ایک لڑکے کو قتل کر دیا۔ یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ نبی تھے۔ امام ابن کثیرؒ فرماتے ہیں :

أن الــخـضـر أقدم على قتل ذلك الغلام ، وما ذاك إلا للوحي إليه من الملك العلام، وهذا دلیل مستقل على نبوته وبرهان ظاهر على عصمته، لأن الولي لا يجوز له الإقدام على قتل النفوس بمجرد ما يلقى في خلده لأن خاطره ليس بواجب العصمة، إذ يجوز عليه الخطأ بالاتفاق، ولما أقدم الخضر على قتل ذلك الغلام الذي لم يبلغ الحلم علما منه أنه إذا بلغ يكفر ويحمل أبويه على الكفر لشدة مجتهما له فيتابعانه عليه ، ففي قتله مصلحة عظيمة تربو على بقاء مهجته ، صيانة لأبويه عن الوقوع في الكفر وعقوبته دل ذلك على نبوته وأنه مؤيد من الله بعصمتہ

اور خضرؑ نے اس لڑکے کو قتل کیا تھا تو یہ اللہ ملک العلام کی طرف سے وحی کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے، اور یہ ان کی نبوت پر مستقل دلیل ہے اور ان کے معصوم ہونے کی واضح برہان ہے، کیونکہ ولی کے لیے جائز نہیں کہ وہ محض دل میں اٹھنے والے خیال کی وجہ سے نفوس کو قتل کرنے پر قدم اُٹھائے۔ اس لیے کہ اس کا خیال غلطی سے پاک نہیں ہے۔ بالا تفاق اس سے غلطی سرزد ہو سکتی ہے، جب خضرؑ نے اس نابالغ لڑکے کو یہ جانتے ہوئے قتل کیا کہ اگر یہ بڑا ہوا تو کفر کرے گا اور اپنے والدین کو کفر پر مجبور کرے گا اور وہ اس کے ساتھ شدید محبت کی وجہ سے اس کی بات مان لیں گے۔ یہ عظیم مصلحت صرف خضرؑ ہی کو معلوم ہوئی کہ لڑکے کو زندہ رکھنے کے معاملے میں اسے قتل کر کے اس کے والدین کو کفر سے بچانا اور کفر کی سزا سے محفوظ رکھنا بہتر ہے۔ تو یہ چیز ان کی نبوت پر اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے معصوم ہونے کی تائید پر دلالت کرتی ہے۔

(البداية والنهاية : ٢/ ١٣٤)

➏ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰؑ سے فرمایا:

((إن عبدا من عبادي بمجمع البحرين هو أعلم منك))

’’بے شک دو دریاؤں کے سنگم پر میرے بندوں میں سے ایک بندہ ہے وہ تم سے بڑا عالم ہے۔‘‘ (صحیح البخاري ، ح : ۱۲۲)

اس سے بھی پتا چلتا ہے کہ خضرؑ نبی تھے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:

و أيـــضــــا فكيف يكون غير النبي أعلم من النبي؟ وقد أخبر النبيﷺ في الحديث الصحيح إن الله قال لموسى: ’’بل عبدنا خضر“ وأيضا فكيف يكون النبي تابعا لغير نبي؟“

”اور یہ بھلا کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک غیر نبی، نبی سے بڑا عالم ہو؟ نبی ﷺ کی صحیح حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ سے فرمایا:

” بلکہ ہمارا بندہ خضر “ اور یہ بھلا کیسے ہوسکتا ہے کہ نبی غیر نبی کا تابع ہو؟

(الإصابه في تمييز الصحابة : ٤٩٠/١)

➐ جمہور اہل علم کا بھی یہی کہنا ہے کہ خضرؑ نبی تھے۔ امام ابن عطیہ فرماتے ہیں:

’’والخضر نبي عند الجمهور

” اور جمہور کے نزدیک خضر نبی ہیں۔“

(المحرر الوجيز ، ص : ۱۲۰۳)

امام قرطبیؒ فرماتے ہیں :

و الخضر نبي عند الجمهور ، وقيل : هو عبدصالح غير نبي، والآية تشهد بنبوته لأن بواطن أفعاله لاتكون إلا بوحي و أيضا فإن الإنسان لا يتعلم ولا يتبع إلا من فوقه، وليس يجوز أن يكون فوق النبي من ليس بنبي ، وقيل : كان ملكا أمر الله موسى أن ياخذ عنه مما حمله من علم الباطن، والأول الصحيح- والله أعلم

اور جمہور کے نزدیک خضرؑ نبی تھے۔ اور کہا گیا ہے کہ وہ نیک بندے تھے، نبی نہیں تھے لیکن آیت ان کی نبوت کی گواہی دے رہی ہے کیونکہ ان کے افعال کے راز وحی کے ذریعے ہی سے معلوم ہو سکتے ہیں اور اس لیے بھی کہ انسان اسی سے سیکھتا اور اسی کی اتباع کرتا ہے جو اس سے بلند رتبہ والا ہو اور یہ جائز نہیں کہ نبی سے وہ بلند رتبہ والا ہو جو نبی نہیں۔ اور کہا گیا ہے کہ وہ فرشتے تھے اللہ تعالیٰ نے موسیٰؑ کو حکم دیا تھا کہ وہ ان سے باطنی علم حاصل کریں جو ان کو حاصل تھا، لیکن پہلا قول صحیح ہے۔

واللہ اعلم ۔

(الجامع لأحكام القرآن : ۱۸/۱۱)

امام ابو حیان الاندلسیؒ فرماتے ہیں:

و الـجـمـهـور عـلـى أن الخضر نبي وكان علمه معرفة بواطن قد أوحيت إليه وعلم موسى الأحكام والفتيا بالظاهر

جمہور اس بات پر ہیں کہ خضر نبی تھے ان کا علم باطن کی معرفت کا تھا جس کی ان کی طرف وحی کی گئی تھی اور موسیٰ کا علم ظاہری احکام اور فتویٰ کا تھا۔

(البحر المحيط : ٦ / ١٣٩ ، الشاملة)

محمد بن احمد الخطيب الشربینی (م : ۹۷۷ ھ ) رقم طراز ہیں :

وكــونــه نبيا هو قول الجمهور

اور ان کا نبی ہونا ، یہ جمہور کا قول ہے۔

(السراج المنير : ٢/ ٤٣٣)

قاضی محمد بن علی الشوکانی (م : ۱۲۵۰ھ ) رقم طراز ہیں:

’’وقد ذهب الجمهور إلى أن الخضر كان نبيا‘‘

اور جمہور اس طرف گئے ہیں کہ خضر نبی تھے۔

(فتح القدير : ٢/ ٦٧٠)

معلوم ہوا کہ خضرؑ نبی تھے یہی جمہور اہل علم کی رائے ہے اور یہی راجح ہے۔

بریلوی مکتبہ فکر کے عالم علامہ غلام رسول سعیدی صاحب لکھتے ہیں :

جمہور کے نزدیک خضرؑ نبی ہیں اور یہی صحیح ہے کیونکہ اس قصہ میں ان کے نبی ہونے کی دلیل ہے۔ حضرت ابن عباسؓ کا بھی یہی قول ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ وہ ولی تھے اور یہ حضرت علی سے مروی ہے کہ یہ ایک مرد صالح تھے۔ ایک قول یہ ہے کہ وہ فرشتہ تھے اور یہ بہت غریب قول ہے۔ مصنف کے نزدیک ان کے ولی ہونے کا قول تحقیق کے خلاف ہے کیونکہ اگر وہ ولی ہوتے تو ان پر الہام ہوتا اور الہام ایک ظنی چیز ہے۔ اور انھوں نے بغیر کسی شرعی دلیل کے ایک لڑکے کو قتل کر دیا تھا اور ظنی دلیل سے کسی کو قتل کرنا جائز نہیں ہے۔ نیز اگر وہ ولی ہوتے تو ولی سے نبی افضل ہوتا ہے اور افضل کا مفضول کے پاس حصول علم کے لیے جانا صحیح نہیں ہے۔

اور رہا یہ قول کہ وہ فرشتہ تھے (اور سید مودودی نے بھی اسی طرح کہا ہے) تو یہ بالکل مردود ہے کیونکہ قرآن مجید میں مذکور ہے کہ حضرت موسیٰ اور حضرت خضر دونوں نے بستی والوں سے کھانا طلب کیا جبکہ فرشتے کھانا نہیں کھاتے۔

(نعمة الباري في شرح صحيح البخارى:٤٤٦/٦)

(نوٹ : سیدنا ابن عباسؑ اور سید نا علیؓ کا قول ثابت نہیں ہے )

دیوبند مکتبہ فکر کے عالم جناب مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں:

خلاصہ یہ ہے کہ جمہور اُمت کے نزدیک حضرت خضرؑ بھی ایک نبی اور پیغمبر تھے مگر ان کو کچھ تکوینی خدمتیں منجانب اللہ سپرد کی گئی تھیں انہی کا علم دیا گیا تھا اور حضرت موسیٰؑ کو اس کی اطلاع نہ تھی۔

(معارف القرآن : ٦١٢/٥)

حافظ ابن حجر العسقلانی رقم طراز ہیں :

وكان بعض أكابر العلماء يقول : أول عقد يحل من الزندقة اعتقاد كون الخضر نبيا ، لأن الزنادقة يتذرّعون بكونه غير نبي إلى أن الولى أفضل من النبي كما قال قائلهم : مقام النبوة في برزخ: فويق الرسول ودون الولي ‘‘

بعض اکابر علماء کہا کرتے تھے کہ خضرؑ کے نبی ہونے کے اعتقاد سے زنادقہ کا پہلا عقدہ حل ہو جاتا ہے کیونکہ زنادقہ کا خیال ہے کہ خضرؑ نبی نہیں تھے کیونکہ ان کے نزدیک نبی کے مقابلے میں ولی افضل ہے حتی کہ ان میں سے کسی کہنے والے نے یوں بھی کہا ہے :

نبوت کا مقام درمیان میں ہے رسول سے قدرے اُونچا اور ولی سے نیچا۔

(الإصابة: ٤٩٠/١)

کیا خضرؑ زندہ ہیں ؟

اس سلسلہ میں بھی شدید اختلاف ہے کہ خضرؑ زندہ ہیں یا وفات پاچکے ہیں۔ امام ابو زکریا النووی فرماتے ہیں :

واختلفوا في حياة الخضر ونبوته ، فقال الأكثرون من العلماء : هو حي موجود بين أظهرنا، وذلك متفق عليه عند الصوفية وأهل الصلاح والمعرفة، وحكاياتهم في رؤيته والإجتماع به والأخذ عنه، وسؤاله وجوابه، ووجوده في المواضع الشريفة ومواطن الخير أكثر من أن تحصر ، وأشهر من أن تذكر ، قال الشيخ أبو عمرو بن الصلاح في فتاويه : هو حي عند جماهير العلماء والــصــالــحـيـن والــعــامة معهم في ذلك ، قال : وإنما شذبإنكاره بعض المحدثین ۔

اور خضرؑ کی حیات اور نبوت میں اختلاف ہے۔ اکثر علماء کہتے ہیں کہ وہ زندہ ہیں اور ہمارے درمیان موجود ہیں اور یہ موقف صوفیوں ، صالحین اور عارفین کے ہاں متفق علیہ ہے اور خضر کو دیکھنے، ان سے مجلس اختیار کرنے ، ان سے علم حاصل کرنے ، سوال و جواب کرنے اور مقدس مقامات پر ان کے موجود ہونے کی حکایات اس قدر ہیں کہ انھیں احاطہ شمار میں لانا ایک مشکل امر ہے اور ذکر کرنے سے زیادہ مشہور ہیں۔ شیخ ابو عمرو بن الصلاح نے اپنے فتاویٰ میں کہا ہے کہ جمہور علماء اور صالحین کے نزدیک وہ زندہ ہیں اور عام مسلمان بھی اس مسئلہ میں ان کے ساتھ ہیں۔ انھوں (ابو عمرو) نے یہ بھی کہا ہے کہ بس بعض محدثین نے شذوذ اختیار کرتے ہوئے اس کا انکار کیا ہے۔

(تهذيب الأسماء واللغات : ۱/ ۱۹۱ ، ۱۹۲)

اس کے برعکس امام ابو حیان الاندلسی کا دعویٰ یہ ہے کہ :

والـجـمـهـور عــلـى أنـه مات، وقال شرف الدين أبو عبدالله محمد بن أبي الفضل المرسي : أما با خضر موسى بن عمران، فليس بحي لأنه لو كان حيا للزمه المجيئ إلى النبي صلى الله عليه وسلم والإيمان به و اتباعه

اور جمہور اس بات پر ہیں کہ وہ فوت ہو چکے ہیں اور شرف الدین ابو عبد اللہ بن ابی الفضل المرسی (محدث مفسرمتقن ) نے کہا:

رہا موسیٰ بن عمران کا خضر، تو وہ زندہ نہیں ہیں، کیونکہ اگر وہ زندہ ہوتے تو ان کے لیے ضروری تھا کہ وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے ، آپ پر ایمان لاتے اور آپ کی پیروی کرتے ۔

(البحر المحيط : ٦ / ١٣٩ ، الشامله)

یہ موخر الذکر موقف ہی دلائل کی رو سے راجح اور اقرب الی الحق ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ (م : ۷۲۸ھ) فرماتے ہیں :

والــصـــواب الــذي عــليـــه المحققون أنه ميت و أنه لم يدرك الإسلام ولو كان موجودا في زمن النبي لوجب عليه أن يؤمن به ويجاهد معه كما أوجب الله ذلك علیہ و علی غیرہ

اور درست موقف وہی ہے جس پر محققین ہیں کہ واقعی وہ فوت ہو چکے ہیں اور انھوں نے اسلام کا دور نہیں پایا اور اگر وہ نبیﷺ کے دور میں موجود ہوتے تو ان پر واجب تھا کہ آپ ﷺ پر ایمان لاتے اور آپ ﷺ کے ہمراہ جہاد کرتے جس طرح کہ یہ چیز آپ ﷺ اور دوسرے لوگوں پر واجب تھی ۔

(مجموع الفتاویٰ : ۲۷/ ۱۰۰ ، ۱۰۱)

شارح ابوداؤد علامہ محمد شمس الحق عظیم آبادی (م: ۱۳۲۹ھ ) فرماتے ہیں:

’’ قلت : ما قاله النووي من أن حياة الخضر قول الجمهور ليس بصحيح، وقد رد عليه الحافظ ابن حجر في الإصابة فقال : اعتنى بعض المتأخرين الثلاث بجمع الحكايات الماثورة عن الصالحين وغيرهم ممن بعد الـ مائة فما بلغت العشرين مع ما في أسانيد بعضها من يضعف لكثرة أغلاطه أو إيهامه بالكذب كأبي عبدالرحمن السلمي وأبي الحسن بن جہضم۔‘‘

میں کہتا ہوں کہ نووی نے حیات خضرؑ کو جو جمہور کا قول کہا ہے یہ بالکل صحیح نہیں۔ اس پر حافظ ابن حجرؒ نے ”الإصابة“ میں رد کیا ہے چنانچہ انھوں نے کہا:

تین سو اور تین سو بیس کے بعد بعض متاخرین صالحین سے ( خضرؑ کے متعلق) منقول حکایات جمع کرنے میں مشغول ہوئے باوجود یہ کہ ان کی سندوں میں بعض ایسے راوی ہیں جو کثرت اغلاط یا متہم بالکذب ہونے کی وجہ سے ضعیف قرار دیے گئے ہیں جیسے ابوعبدالرحمٰن السلمی اور ابوالحسن بن جہضم ہیں۔

(عون المعبود : ۲۹۸/۱۱)

علامہ محمود الآلوسی لکھتے ہیں:

فذهب جمع إلى أنه ليس بحي اليوم

اور جمہور اس بات کی طرف گئے ہیں کہ وہ (خضرؑ) آج زندہ نہیں ہیں۔

(روح المعاني : ٣٢٠/١٥ ، الشامله)

❀ وفات خضرؑ پر دلائل :

➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

(وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرِ مِنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ)
(الأنبياء :٣٤)

’’اور ہم نے آپ سے پہلے کسی بشر کے لیے ہمیشگی نہیں رکھی ۔“

اگر خضرؑ فوت نہیں ہوں گے تو پھر ان کے لیے خلود ( ہمیشگی ) ثابت ہو جائے گا۔ خضرؑ بھی ایک بشر تھے لہٰذا وہ بھی آیت ہذا کے عموم میں داخل ہیں۔ اور صحیح دلیل کے بغیر ان کی تخصیص جائز نہیں ہے۔ اصل عدم ہی ہے جب تک کہ اس کے برخلاف کوئی دلیل نہ ملے ۔

اور رسول اللہ ﷺ سے ایسی کوئی دلیل نہیں ملتی جس سے اس عموم کی تخصیص کی جا سکے۔

(دیکھئے: البداية والنهاية : ٢ / ١٤٤)

➋ سید نا ابن عمرؓ فرماتے ہیں:

نبی ﷺ نے اپنی حیات طیبہ کے آخری حصے میں ایک رات ہمیں عشاء کی نماز پڑھائی جب آپ نے سلام پھیرا تو کھڑے ہو گئے اور فرمایا:

((أَرَأَيْتَكُمْ لَيْلَتَكُمْ هَذِهِ؟ فَإِنَّ عَلَى رَأْسِ مِائَةِ سَنَةٍ مِنْهَا لَا يَبْقَى مِمَّنْ هُوَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ أَحَدٌ))

” کیا تم نے اپنی یہ رات دیکھی ہے؟ (اسے یاد رکھو ) کیونکہ اس سے ایک سو سال کے سرے پر ان لوگوں میں سے کوئی ایک بھی باقی نہیں رہے گا جو زمین پر موجود ہیں ۔‘‘

(صحیح البخاري ، ح: ١١٦ ۔ صحیح مسلم ، ح : ٢٥٣٧)

➌ سیدنا جابر بن عبد اللہؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو ان کی وفات . ایک مہینہ قبل یہ فرماتے سنا:

((تَسْأَلُونِي عَنِ السَّاعَةِ وَإِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللَّهِ ، وَأُقْسِمُ بِاللَّهِ مَا عَلَى الْأَرْضِ مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوسَةٍ تَأْتِي عَلَيْهَا مِائَةُ سَنَةٍ ))

’’ تم مجھ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہو؟ حالانکہ اس کا علم تو اللہ کے پاس ہے۔(البتہ اس بات پر ) میں اللہ کی قسم اٹھاتا ہوں کہ اس وقت کوئی ایسا سانس لیتا ہوا انسان موجود نہیں کہ اس پر سو سال گزریں تو وہ اس دن بھی زندہ ہو۔‘‘

(صحیح مسلم ، ح : ٢٥٣٨)

امام ابن کثیر ان دونوں حدیثوں کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

’’ قـــــــال ابــــن الجوزي: فهذه الأحاديث الصحاح تقطع دابر دعوى حياة الخضرؑ ، قالوا : فالخضر إن لم يكن قد أدرك زمان رسول الله ﷺ كما هو المظنون الذي يترقى فى القوة إلى القطع فلا إشكال . وإن كان قد ادرك زمانه فهذا الحديث يقتضى أنه لم يعش بعده مائة سنة فيكون الآن مفقودا لا موجودا لأنه داخل في هذا العموم والأصل عدم المخصص له حتى يثبت بدليل صحيح يجب قبوله . والله أعلم‘‘

ابن جوزی نے کہا:

یہ صحیح حدیثیں حیات خضر کے دعویٰ کی جڑ کاٹ کر رکھ دیتی ہیں۔ علماء کہتے ہیں کہ اگر تو خضرؑ نے نبی ﷺ کا دور نہیں پایا جیسا کہ غالب گمان ہے بلکہ قطعی رائے کے قریب قریب ہے تو پھر کوئی اشکال نہیں اور اگر انھوں نے آپ کا دور پایا ہے تو اس حدیث کا تقاضا ہے کہ وہ سو سال بعد زندہ نہیں رہے اور وہ اب دنیا میں موجود نہیں ہیں کیونکہ وہ اس (حدیث) کے عموم میں داخل ہیں اور اصل عدم تخصیص ہے جب تک کہ کوئی قابل قبول صحیح دلیل ثابت نہ ہو جائے۔

واللہ اعلم ۔

(البداية والنهاية : ٢/ ١٤٧)

اگر کوئی شخص یہ کہے کہ جس وقت نبی ﷺ نے یہ حدیث ارشاد فرمائی تھی اس وقت خضرؑ زمین پر نہیں تھے بلکہ پانی یا ہوا پر تھے۔ تو اس شخص سے دلیل کا مطالبہ کیا جائے گا۔ قیامت آ سکتی ہے مگر اس دعویٰ کی دلیل نہیں مل سکتی۔ اسی طرح خضرؑ کو اس عموم سے مستثنیٰ کرنے کی بھی کوئی دلیل نہیں ہے۔

➍ نبی ﷺ نے قصہ موسیٰ و خضر بیان کرتے ہوئے فرمایا:

((يَرْحَمُ اللهُ مُوسى لَوْ كَان صَبَرَ يُقَصُّ عَلَيْنَا مِنْ أَمْرِ هِمَا ))

’’اللہ تعالیٰ موسیٰ پر رحم فرمائے اگر وہ صبر کر لیتے ہمیں ان کے معاملے سے کچھ مزید سننے کو ملتا ۔“

(صحيح البخاري ، ح: ٣٤٠١)

یہ حدیث بھی اس بات کی دلیل ہے کہ خضرؑ زندہ نہیں ہیں۔ کیونکہ اگر وہ زندہ ہوتے تو نبیﷺ کو اس تمنا کی ضرورت نہ ہوتی ، آپ ان کو حاضر کرتے یا خود ان کے پاس تشریف لے جاتے اور عجائبات مشافھتہ دیکھ لیتے۔

استاذ العلماء حافظ محمد گوندلوی(م : ۱۴۰۵ھ) فرماتے ہیں:

قوله : ’’حتى يقص علينا من أمرهما

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خضرؑ نبی اکرم ﷺ کے زمانہ میں موجود نہیں تھے ورنہ آپ ان سے مل کر مزید باتیں پوچھ لیتے۔

(منحة الباري شرح صحیح بخاری : ١/ ١١٥)

➎ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

(وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَ لَتَنْصُرُنَّهٗؕ-قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَ اَخَذْتُمْ عَلٰى ذٰلِكُمْ اِصْرِیْؕ-قَالُوْۤا اَقْرَرْنَاؕ-قَالَ فَاشْهَدُوْا وَ اَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِیْنَ)

(آل عمران : ۸۱)

’’اور جب اللہ نے نبیوں سے پختہ عہد لیا کہ میں کتاب وحکمت میں سے جو کچھ تمہیں دوں، پھر تمہارے پاس رسول آئے جو اس کی تصدیق کرنے والا ہو جو تمہارے پاس ہے تو تم اس پر ضرور ایمان لاؤ گے اور ضرور اس کی مدد کرو گے۔ فرمایا:

کیا تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا بھاری عہد قبول کیا ؟ انھوں نے کہا:

ہم نے اقرار کیا۔ فرمایا:

پس گواہ رہو اور تمہارے ساتھ میں بھی گواہوں میں سے ہوں ۔

امام ابن کثیرؒ لکھتے ہیں :

وقد دلت عليـــه هــذه الآية الكريمة أن الأنبياء كلهم لو فرض أنهم أحياء مكلفون في زمن رسول الله ﷺ لكانوا كلهم أتباعـا لـه وتحت أوامره وفي عموم شرعه، كما أنه صلوات الله وسلامه عليه لما اجتمع معهم ليلة الأسراء رفع فوقهم كلهم، ولما هبطوا معه إلى بيت المقدس وحانت الصلاة، أمره جبريل عن أمر الله أن يؤمهم فصلى بهم في محل ولايتهم ودار إقامتهم، فدل على أنه الإمام الأعظم ، والرسول الخاتم المبجل، المقدم صلوات الله وسلامه عليه عليهم اجمعين . فإذا علم وهو معلوم عنه كل مؤمن علم أنه لوكان الخضر حيا لكان من جملة أمة محمد وممن يقتدى بشرعه ، لا يسعه إلا ذلك، هذا عيسى بن مريم لك إذا نزل في آخر الزمان يحكم بهذه الشريعة المطهرة لا يخرج منها ولا يحيد منها وهو أحد أولى العزم الخمسة المرسلين وخاتم أنبياء بني إسرائيل“۔

اور یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر بالفرض تمام کے تمام انبیاء کرامؑ رسول اللہ ﷺ کے دور میں زندہ اور مکلف ہوتے تو یقیناً وہ سب بھی آپ ﷺ کے متبع ہوتے ، آپ کے حکموں کے تحت ہوتے اور آپ کی شریعت کے عموم میں ہوتے جس طرح کہ معراج کی شب جب آپ کے ساتھ تمام انبیاء اکٹھے ہوئے تو آپ ﷺ کو ان سب سے اوپر اُٹھایا گیا اور جب وہ آپ کے ساتھ بیت المقدس میں آئے اور نماز کا وقت ہوا تو جبریلؑ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ کو ان کی امامت کرانے کا حکم دیا تو آپ نے ان کے محل ولائت اور ان کے ٹھہرنے کی جگہ پر ان کی امامت کرائی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ امام اعظم ، خاتم الرسل، رسول مکرم اور سب پر مقدم ہیں۔ آپ پر درود وسلام ہوں اور ان سب پر بھی۔ جب حقیقت حال یہ ہے اور یہ ہر مومن کو معلوم ہے، تو اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ اگر خضرؑ زندہ ہوتے تو وہ آپﷺ کی امت میں شامل ہوتے اور آپ کی شریعت پر چلتے ، ان کے لیے اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ تھا۔ عیسیٰ بن مریمؑ کو دیکھ لیجئے جب وہ آخری زمانے میں نازل ہوں گے تو وہ اسی شریعت مطہرہ کے مطابق فیصلے کریں گے، وہ اس شریعت سے الگ نہیں ہوں گے حالانکہ وہ پانچ اولو العزم رسولوںؑ میں سے ایک ہیں ۔
اور انبیاء بنی اسرائیل کے سلسلے کی آخری کڑی ہیں ۔

(البداية والنهاية : ٢/ ١٤٥)

➏ سیدنا عمر بن خطابؓ فرماتے ہیں :

( غزوہ بدر میں ) نبی ﷺ نے مشرکین کی طرف دیکھا اور وہ ایک ہزار تھے جبکہ آپ کے اصحاب تین سو اور چند افراد تھے۔ اللہ کے نبی ﷺ نے قبلہ کی طرف رخ کیا پھر اپنے دونوں ہاتھ پھیلا دیے اور اپنے رب کو پکارنے لگے:

((اللَّهُمَّ إِنْ تُهْلِكْ هَذِهِ العِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ لَا تُعْبَدُ فِي الأرضِ ))

’’اے اللہ ! اگر تو اس جماعت کو ہلاک کر دے گا تو زمین میں تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔‘‘

’’آپ ہاتھوں کو پھیلائے ہوئے قبلہ کی طرف رخ کیے ہوئے اپنے رب کو پکارتے رہے یہاں تک کہ آپ کے کندھوں سے آپ کی چادر گر گئی۔ اتنے میں ابو بکر آپ کے پاس آئے انھوں نے آپ کی چادر پکڑی اور آپ کے کندھے پر ڈالی پھر پیچھے سے آپ کے ساتھ چمٹ گئے اور عرض کی:

اللہ کے نبی (ﷺ) ! اپنے رب سے آپ کا مانگنا اور پکارنا کافی ہے وہ ضرور آپ سے کیا ہوا وعدہ پورا فرمائے گا ۔‘‘

(صحیح مسلم ، ح : ١٧٦٣ – سنن الترمذي ، ح: ۳۰۸۱)

یہ حدیث بھی اس بات کی دلیل ہے کہ خضرؑ فوت ہو چکے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کے دور میں وہ زندہ نہیں تھے ورنہ غزوہ بدر کے موقع پر وہ ضرور اہل اسلام کی نصرت کے لیے آتے۔

امام ابن کثیرؒ فرماتے ہیں :

والمعلوم أن الخضر لم ينقل بسند صحيح ولا حسن تسكن النفس إليه أنه اجتمع برسول الله ﷺ في يوم واحد، ولم يشهد معه قتالا في مشهد من المشاهد، و هذا يوم بدر يقول الصادق المصدوق فيما دعابه لربه عز وجل، واستنصره واستفتحه على من كفره : ((أللهم إن تهلك هذه العصابة لا تعبد بعدها في الأرض)) وتلك العصابة كان تحتها سادة المسلمين يومئذوسادة الملائكة حتى جبريل عليه السلام كما قال حسان بن ثابت في قصيدته له في بيت يقال : إنه أفخر بيت قالته العرب، وبئر بدر إذ يرد وجوههم جبريل تحت لوائنا ومحمد فلوكان الخضر حيا لكان وقوفه تحت هذه الراية أشرف مقاماته ، وأعظم غزواته.

اور واضح رہے کہ خضرؑ کے متعلق کوئی صحیح یا حسن قابل اطمینان سند منقول نہیں کہ وہ کبھی ایک دن ہی رسول اللہﷺ سے ملے ہوں اور نہ ( یہ مروی ہے کہ ) وہ آپ کے ساتھ کسی جنگ میں شریک ہوئے ہیں۔ غزوہ بدر کو لے لیں۔ جس میں صادق المصدوق نبی اپنے رب سے نصرت وفتح کی دعا مانگتے ہوئے فرماتے ہیں : اے اللہ ! اگر تو اس جماعت کو ہلاک کر دے گا تو اس کے بعد زمین میں تیری عبادت نہیں ہوگی ۔ اس جماعت میں مسلمانوں کے سردار اور فرشتوں کے سردار حتی کہ جبریلؑ بھی شامل تھے جیسا کہ حسان بن ثابتؓ نے اپنے قصیدے میں کہا ہے اور یہ شعر عربی شاعری میں بہت مقبول اور قابل فخر ہیں :

”بدر کے کنویں کے پاس جب ہمارے جھنڈے کے نیچے جبریلؑ اور محمد ﷺ ان کے چہروں کو پھیر رہے تھے ۔‘‘

پس اگر خضرؑ زندہ ہوتے تو ان کا آپ کے جھنڈے تلے آکر قتال کرنا، ان کے لیے بہت زیادہ شرف و عظمت والا ہوتا ۔

(البداية والنهاية : ٢/ ١٤٥)

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کے تلمیذ رشید شیخ الاسلام ثانی امام ابن القیم (م : ۷۵۱ ھ ) فرماتے ہیں :

وسئل عنه شيخ الإسلام ابن تيميه رحمه الله فقال : لوكان الخضر حيا لوجب عليه أن يأتي النبي ويجاهد بين يديه ويتعلم منه وقد قال النبي يوم بدر : ((اللَّهُمَّ إِنْ تَهْلِكُ هَذِهِ العِصَابَةَ لَا تُعْبَدُ فِي الأرضِ)) وكانوا ثلاث مائة وثلاثة عشر رجلا معروفين بأسمائهم وأسماء آبائهم وقبائلهم ، فأين الخضر حینئذ؟

اور شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ سے ان کے متعلق سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا:

اگر خضر زندہ ہوتے تو ان پر واجب تھا کہ وہ نبی ﷺ کے پاس آتے ، آپ کے سامنے جہاد کرتے اور آپ سے علم حاصل کرتے ۔ بدر کے دن نبی ﷺ نے فرمایا تھا:

”اے اللہ ! اگر تو اس جماعت کو ہلاک کر دے گا تو زمین پر تیری عبادت نہیں ہوگی ۔‘‘

اور اصحاب بدر تین سو تیرہ تھے جن کے نام، ولدیت اور قبائل معروف ہیں۔ تو اس دن خضرؑ کہاں تھے؟

(المنار المنيف ، ص: ٦٨ )

❀ وفات خضرؑ پر کچھ عقلی دلائل :

خضرؑ کی وفات پر کئی عقلی دلائل بھی ہیں، مثلاً:

➊ یہ کہنا کہ خضرؑ زندہ ہیں، فوت نہیں ہوئے۔ یہ تقول علی اللہ (اللہ تعالیٰ کی طرف جھوٹ منسوب کرنا) کے زمرے میں آتا ہے جو بنص قرآن حرام ہے۔ کیونکہ اگر وہ زندہ ہوتے تو اس پر قرآن مجید، حدیث و اجماع امت کی دلالت ہوتی۔

➋ اگر خضرؑ اتنا لمبا عرصہ زندہ رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہمیں ضرور اس کی خبر دیتا کیونکہ یہ عجیب خبر اور اس کی قدرت کی ایک عجیب نشانی ہے۔ جب اس نے ساڑھے نوسوسال زندہ رہنے والے کا ذکر کر دیا ہے تو جو اس سے کئی گنا زیادہ زندہ ہے اس کا بدرجہ اولیٰ ذکر کرنا چاہیے تھا۔

➌ ساری اُمت اس بات پر متفق ہے کہ جو شخص یہ کہے کہ میں خضر ہوں اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے۔ تو اس کی اس بات کی طرف ذرا بھی التفات نہیں کیا جائے گا۔ اور نہ اسے دین کی دلیل بنایا جائے گا بلکہ یوں کہا جائے گا کہ خضر رسول اللہ ﷺ کے پاس تو کبھی آئے نہیں، تمہاری ملاقات کرنے کیسے آگئے ؟

پھر اگر وہ جاہل آگے سے یہ جواب دے کہ رسول اللہ ﷺ خضر کی طرف رسول بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے تو اس کا جواب یہی دیا جائے گا کہ ایسی باتیں کفر کے سوا کچھ نہیں ہیں۔

➍ اگر وہ نوحؑ سے پہلے موجود تھے جیسا کہ ان کی حیات کے قائلین میں سے بعض یہ دعویٰ کرتے ہیں۔ تو ثابت ہوا کہ نوحؑ کے بعد وہ زندہ نہیں رہے کیونکہ طوفانِ نوح کے بعد ان کی نسل کے علاوہ کوئی باقی نہیں رہا۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے :

(وَجَعَلْنَا ذُرِّيَّتَهُۥ هُمُ ٱلْبَاقِينَ)

(الصافات : ۷۷)

’’اور اس کی اولا د کو ہم نے باقی رہنے والی بنا دیا۔“

➎ خضرؑ کو زندہ ماننے والوں کی سب سے بڑی دلیل منقول حکایتیں ہیں کہ فلاں شخص نے خضرؑ کو دیکھا تھا، فلاں شخص خضرؑ سے ملا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ دیکھنے والے نے کسی علامت سے پہچان لیا کہ یہ خضر ہیں؟

بھلا اس خبر کو کیسے تسلیم کر لیا جائے کہ انا الخضر (میں خضر ہوں) کہنے والا سچا ہے اور وہ جھوٹ نہیں بول رہا ؟

➏ اگر خضرؑ زندہ ہوتے تو جنگلوں میں وحوش وطیور کے درمیان مارے مارے پھرنے سے یہ بہتر تھا کہ وہ کافروں سے جہاد کرتے ، فی سبیل اللہ سرحدات کی حفاظت کرتے ، جمعہ و جماعات میں شریک ہوتے اور علم دین سکھاتے ۔

➐ خضرؑ نے موسیٰ کلیم الرحمٰن کو تو چھوڑ دیا تھا اور ان کی مصاحبت اختیار نہیں کی اور ان سے کہا :

(هذا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ)

(الكهف : ۷۸)

’’یہ میرے اور تمہارے درمیان جدائی ہے ۔‘‘

حیران کن بات یہ ہے کہ موسیٰ جیسے الوالعزم پیغمبر سے تو خضرؑ نے جدائی اختیار کرلی اور دوسری طرف یہ حضرات جن کی کوئی حیثیت نہیں، ان کی انھوں نے کیسے مصاحبت اختیار کر لی ؟

➑ موسیٰ جیسے اولو العزم پیغمبر تو خضرؑ کی ملاقات کے لیے اس قدر مشقت اور لمبا سفر کریں تب جا کر خضر سے ملاقات ہو اور دوسری طرف یہ لوگ جو خضر سے ملنے کا دعویٰ کرتے ہیں ان کے پاس خضر خود چل کر آئیں اور انھیں شرف ملاقات بخشیں۔ یہ عجیب بات ہے۔

ایک شبہ اور اس کا ازالہ :

اگر کوئی شخص یہ کہے کہ خضرؑ اہم مقامات ومواقع پر حاضر تو ہوئے تھے لیکن کسی نے ان کو دیکھا نہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کا حاضر ہونا بہت دور کا احتمال ہے جس کی وجہ سے صرف تو ہمات کی بنا پر عموم کی تخصیص لازم آتی ہے اور یہ ٹھیک نہیں لہٰذا ایسا احتمال تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ اگر وہ حاضر ہوتے تھے تو پوشیدہ کیوں رہے؟ جبکہ اہم مقامات میں ان کا ظاہر ہونا زیادہ اجر کا ذریعہ بلندی درجات کا سبب اور ان کے معجزات کو زیادہ نمایاں کرنے والا ہے۔ اگر وہ آپ ﷺ کے بعد زندہ ہوتے تو وہ قرآنی آیات اور احادیث نبویہﷺ کی تبلیغ کرتے ۔ جھوٹی احادیث، مقلوب روایات، بدعت اور ہوی و ہوس پر مبنی نظریات کی تردید کرتے۔ مسلمانوں کے ساتھ غزوات میں شریک ہوتے ، ان کے اجتماعی پروگراموں میں شرکت کرتے۔ ان کو فائدہ پہنچاتے ، ان سے نقصان کو دور کرتے ۔ علماء و حکام کی اصلاح کرتے ، دلائل اور احکام کی وضاحت کرتے ۔ یہ عام شہروں میں چھپنے اور جنگلوں اور اقطار عالم میں گھومنے پھرنے سے زیادہ بہتر تھا۔

مزیدان کے ذمہ یہ بات بھی لگائی جاتی ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ میل جول کرتے ہیں لیکن لوگوں کو ان کے بارے میں علم نہیں ہوتا اگر حقیقت میں ایسا ہے تو خضرؑ ان بے مقصد اور بے کار کاموں کی بجائے تعمیری کاموں میں مصروف کیوں نہیں ہوئے ؟ ہماری ذکر کردہ باتوں پر غور و فکر کرنے والا ان کے انکار کی جرات نہیں کر سکتا۔ اور اللہ جس کو چاہتا ہے سیدھے راستے کی طرف راہنمائی کر دیتا ہے۔

(البداية والنهاية : ١٤٦/٢)

❀ حیات خضرؑ کے قائلین کے دلائل :

❀ علی بن حسین کو ایک قریشی آدمی نے بیان کیا … جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی اور تعزیت کرنے والے حاضر ہوئے تو انہوں نے گھر کے کونے سے آواز سنی :

اہل بیت ! تم پر سلامتی ہو، اللہ کی رحمت اور اس کی برکات ہوں، بے شک اللہ کی کتاب میں ہر مصیبت سے عزا و تسلی ہے، ہر ہلاک ہونے والی چیز کا معاوضہ ہے، اور ہر نقصان کا تدارک ہے، اللہ کی توفیق کے ساتھ اللہ سے ڈرو، صرف اس سے اُمید وابستہ کرو، خسارے والا شخص وہ ہے جو ثواب سے محروم ہو گیا۔ علی (زین العابدینؒ ) نے کہا:

کیا تم جانتے ہو کہ وہ شخص کون تھا ؟ وہ خضرؑ تھے۔

(دلائل النبوة للبيهقي ، ح: ۳۳۱۱)

یہ روایت سخت ضعیف ہے۔ قاسم بن عبد اللہ بن عمر بن حفص متروک ہے۔

❀ سیدنا واثلہ بن اسقعؓ بیان کرتے ہیں :

غزوہ تبوک میں ہم نبی ﷺ کے ہمراہ تھے. ہم نے کہا:

آپ (الیاسؑ) کی خضرؑ سے کب ملاقات ہوئی ہے ؟ انھوں نے کہا:

پچھلے سال حج کے موقع پر۔ اور میں حج کے موقع پر ہی ان سے ملتا ہوں، انھوں نے مجھ سے کہا تھا کہ تم مجھ سے پہلے محمد ﷺ سے ملو گے تو میری طرف سے ان کو سلام کہنا .

(تاریخ دمشق : ۲۱۳/۹)

یہ روایت ضعیف ہے۔ بقیہ بن ولید مدلس کا عنعنہ ہے۔ اس کے دیگر طرق بھی ضعیف ہیں۔

(دیکھئے: الإصابة في تمييز الصحابة : ١ / ٥٠٠ تا ٥٠١)

❀ سید نا عمرو بن عوفؓ بیان کرتے ہیں … خضرؑ نے فرمایا:

”اے انس ! تم جاؤ اور رسول اللہ ﷺ کو جا کر کہو کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کو تمام مہینوں پر فضیلت دی ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام انبیاءؑ پر فضیلت دی ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے جمعہ المبارک کو تمام دنوں پر فضیلت دی ہے، اسی طرح آپ کی اُمت کو تمام امتوں پر فضیلت دی ہے ۔ “ ( الكامل لابن عدي : ٧ / ١٩٦، ١٩٧ ت ١٥٩٩) اس کی سند سخت ضعیف ہے۔ کثیر بن عبداللہ المزنی متروک ہے۔ اس کے دیگر طرق و شواہد بھی ضعیف ہیں۔

(دیکھئے: الإصابة في تمييز الصحابة: ١/ ٤٩٧ تا ٤٩٩)

❀ سیدنا علی بن ابی طالبؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

ہر عرفہ کے دن جبریل، میکائیل، اسرافیل اور خضر اکٹھے ہوتے ہیں …. (تـــــاريـــخ دمشق : ٤٢٧/١٦۔ الموضوعات لابن الجوزي : ۱/ ۱۳۹) یہ روایت موضوع ہے۔ دیکھیے :

الضعيفة ، ح : ۶٢٥٠

❀ سیدنا ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

خضر اور الیاس ہر سال موسم حج میں اکٹھے ہوتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک دوسرے کا سرمونڈتا ہے…. (تاریخ دمشق : ۲۱۱/۹ـ الـمـوضـوعات لابن الجوزي : ۱/ ۱۳۸) یہ روایت بھی موضوع ہے۔

(دیکھئے: الضعيفة ، ح : ٦٢٥١)

❀ سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

بے شک خضر سمندر میں اور الیاس خشکی میں رہتے ہیں۔ دونوں کی ہر رات اس دیوار کے پاس ملاقات ہوتی ہے جو ذوالقرنین نے لوگوں اور یاجوج و ماجوج کے درمیان بنائی تھی۔ دونوں ہر سال حج وعمرہ کرتے ہیں (بغية البـــاحــــث ، ح : ٩٢٦) یہ روایت بھی موضوع ہے۔ دیکھئے:

الضعيفة ، ح : ۵۵۲۹-

اس قسم کی اور بھی ضعیف اور موضوع روایات ہیں جن کی تفصیل ’’الإصابة في تمييز الصحابة“ کی جلد : اصفحہ : ۴۹۱ تا ۵۱۳ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔

امام ابن القیمؒ فرماتے ہیں :

الأحاديث يـذكـر فيها الخضر وحياته كلها كذب ولا يصح في حياته حديث واحد

وہ احادیث جن میں خضرؑ اور ان کی حیات کا تذکرہ ہے وہ سب کی سب جھوٹ ہیں۔ حیات خضر کے بارے میں ایک بھی حدیث صحیح نہیں ہے۔

(المنار المنيف ، ص: ٦٧)

اسی طرح حکایتوں کی بھی بھرمار ہے، جن میں سے بعض تو من گھڑت ہیں اور بعض کی بنیاد محض گمان ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں :

و عامة ما يُحكى في هذا الباب من الحكايات بعضها كذب و بعضها مبني على ظن رجل : مِثلُ شخص راى رجلا ظن أنه الخضر وقال : إنه الخضر كما أن الرافضة ترى شخصا تظن أنه الإمام المنتظر المعصوم أو تدعى ذلك

اس باب میں عام طور پر جو حکایات بیان کی جاتی ہیں ان میں سے بعض جھوٹ پر مبنی ہیں اور بعض کی بنیاد کسی آدمی کے گمان پر ہے، مثلاً کسی شخص نے کسی آدمی کو دیکھا تو اسے خضرؑ سمجھ لیا اور کہ دیا کہ یہ خضرؑ ہیں ، جس طرح رافضی حضرات کسی کو دیکھ کر امام منتظر معصوم ہونے کا گمان یا دعویٰ کرتے ہیں۔

(مجموع الفتاویٰ : ۲۷/ ۱۰۱، ۱۰۲)

امام ابن الجوزیؒ فرماتے ہیں:

و انتشر الأمــر إلـــى أن جماعة من المتصنعين: رأيناه وكلمناه فواعجبا ألهم فيه علامة يعرفونه بها؟ وهل يجوز لعاقل أن يلقى شخصا فيقول له الشخص أنا الخضر فيصدقه‘‘

اور یہ (حیات خضرؑ کا ) معاملہ اس قدر پھیل گیا ہے کہ نام نہاد زاہدوں کی ایک جماعت کہتی ہے کہ ہم نے اس (خضر) کو دیکھا ہے اور ان سے گفتگو کی ہے۔ یہ بڑی تعجب خیز بات ہے۔ کیا ان لوگوں کے لیے ان (خضر ) میں کوئی نشانی اور علامت ہے جس کے ذریعے یہ انھیں پہچان لیتے ہیں ؟ اور کیا کسی عقل مند کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ کسی شخص سے ملے اور وہ شخص اسے کہے کہ میں خضر ہوں اور وہ فوری طور پر اس کی تصدیق کر دے؟

(الموضوعات :١ / ١٤٠)

مفسر قرآن حافظ عبدالسلام بھٹوی رقمطراز ہیں :

سب سے بڑی دلیل جو وہ حضرات بیان کرتے ہیں یہ ہے کہ بہت سے صالحین سے ان کی ملاقات ہوئی ہے۔ حالانکہ اسے دلیل کہنا دلیل کی توہین ہے کیونکہ جنھوں نے انھیں دیکھا ہے انھیں کیسے معلوم ہوا کہ وہ خضر ہیں ؟ کیا انھوں نے پہلے خضرؑ کو دیکھا ہے کہ ملاقات پر وہ انھیں پہچان گئے؟ رہا کسی ملنے والے کے کہنے سے کہ میں خضر ہوں، اسے خضر مان لینا سادہ لوحی کی انتہا ہے جس سے فائدہ اُٹھا کر شیطان نے بے شمار لوگوں کو گمراہ کیا ہے۔

(تفسير القرآن الكريم : ٥٥٦/٢)

خضرؑ کے متعلق عجیب و غریب عقائد :

خضرؑ کے متعلق لوگوں کے اندر عجیب و غریب قسم کے عقائد پائے جاتے ہیں، چنانچہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ، مطبوعہ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں ”خواجہ خضر“ کے عنوان کے تحت لکھا ہے :
ہندوستان میں انھیں بہت سی جگہوں پر دریا کے دیوتا یا کندوں اور چشموں کی روح کا روپ سمجھا جاتا ہے۔ ان کا ذکر سکندر نامے میں ایسے بزرگ کی حیثیت سے آیا ہے جو چشمہ حیات کے نگران تھے۔ یہ نام پاکستان و ہند میں اپنا لیا گیا ہے، ہند و مسلم سب ان کی عزت کرتے ہیں۔ دریائے سندھ کے آس پاس انھیں اکثر دریا کا اوتار سمجھا جاتا ہے اور کبھی کبھی وہ سبر لباس میں ملبوس ایک عمر رسیدہ شخص کی صورت میں دیکھنے میں بھی آتے ہیں۔ اگر کوئی آدمی ڈوبنے سے بچ جائے تو کہا جاتا ہے :

اسے خواجہ خضر نے بچالیا۔

(اردو دائرہ معارف اسلامیه : ۲۱/۹)

اور لکھا ہے :

ان بزرگ کے بارے میں یہ یقین کیا جاتا ہے کہ وہ ایک مچھلی پر سوار ہوتے ہیں۔ مچھلی کو اودھ کے بادشاہوں نے اپنا امتیازی نشان (Crest) بنالیا تھا جو ان کے سکوں پر بھی کندہ ہوا۔ مسلمانوں میں لڑکے کے عقیقے کے موقع پر خواجہ خضر کی فاتحہ دی جاتی ہے اور ساتھ ہی ایک چھوٹی سی کشتی دریا میں ڈالی جاتی ہے۔ موسم برسات کے ختم ہونے پر بھی ایسا ہی کیا جاتا ہے۔

(ایضاً :۹/ ۲۲)

علامہ محمد اقبال نے اپنے اشعار میں خضرؑ کو ’’نگران بحر“ اور ”راہنمائے جویائے اسرار‘‘ کہا ہے۔

(ایضاً: ۲۱/۹)

ایک بلوچ شاعر کی نظم میں جو دریائے سندھ کی ایک جنگ کے بارے میں ہے، ایک کشتی کے دریا میں چھوڑ دیے جانے کا بیان ہے تا کہ ’’وہ خواجہ خضر کی لہروں میں تیرے“ اور یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ”خواجہ خضر خود اس جنگ کو یا درکھیں گے ۔‘‘

(ایضاً: ۹/ ۲۲)

بعض لوگ خواجہ خضر خواج کی نیاز دریا میں پھینکتے ہیں تاکہ کشتی یا جہاز بخیر و عافیت کنارے پر لگ جائے، گویا ایسا مشرکوں کے لیے خواجہ خضر ایک مستقل اوتار یا معبود بن گیا ہے۔

(تیسیر القرآن : ٢/ ٦٥٤)

خضرؑ سے ملاقات کرنے کا طریقہ بیان کیا جاتا ہے، چنانچہ لکھا ہے … اس کے بعد اگر ہو سکے تو حضرت خضرؑ کی نماز بارہ رکعتیں پانچ سلاموں کے ساتھ پڑھے۔ پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد ایک مرتبہ سورہ فیل ، دوسری میں لایلاف ، تیسری میں ماعون ، چوتھی میں کوثر ، پانچویں میں کافرون ، چھٹی میں نصر ، ساتویں میں تبت ،آٹھویں میں اخلاص ، نویں میں خلق ، دسویں میں سورہ ناس پڑھے۔ (گیارھویں بارھویں کے متعلق کچھ ارشاد نہیں ہوا ) جو شخص اس نماز کو ہمیشہ پڑھے اس کو حضرت خضرؑ کی ملاقات حاصل ہو جاتی ہے۔

(تلقین مرشد کامل از صادق فرغانی، ص: ۲۴۰ بحوالہ شریعت و طریقت ص: ۲۳۴)

یہ اور اس طرح کی دیگر ہفوات پر سوائے انا للہ وانا الیہ راجعون کے اور کیا کہا جاسکتا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے