سیدہ فاطمہ ؓ اور غسلِ وفات

سوال : ایک تبلیغی دیوبندی خطیب سے اکثر یہ واقعہ سننے میں آیا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جب بیمار ہوئیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کہیں کام کے لئے گئے ہوئے تھے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نے اپنی خادمہ کو فرمایا کہ میرے لئے غسل کا پانی اور کپڑے رکھو انہوں نے پانی رکھا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نے غسل فرمایا۔ انہوں نے کہا: کہ میرے فلاں کپڑے نکالو، انہوں نے کالے کپڑے پہنے، کہا: میری چارپائی کمرے کے بیچ میں کر دو، بیچ کمرے کے کر دی، لیٹ کر قبلے کی طرف منہ کر کے کہا: اب میں مر رہی ہوں علی رضی اللہ عنہ کو کہہ دینا میرا غسل ہو گیا ہے میرا کندھا بھی ننگا نہیں ہونا چاہیئے جب حضرت علی آئے تو پیغام ملا تو کہا: اسی پر عمل ہو گا تو اُسی طرح دفنا دیا گیا۔ ’’ (محمد عثمان پنڈ دادن خان قمر)
الجواب : یہ ضعیف و منکر روایت ہے۔
اسے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے محمد بن إسحاق عن عبيد الله بن على بن أبى رافع عن أبيه عن أم سلمي کی سند سے روایت کیا ہے۔ [ مسند احمد 6؍461، 462 ح 27615، اُسُد الغابة ج 5ص 590، معرفة الصحابة لابي نعيم 6؍3507 ح 7944 ]
یہ سند ضعیف و منکر ہے۔
محمد بن اسحاق بن یسار مدلس ہیں اور روایت عن سے ہے۔
عبید اللہ بن علی بن ابی رافع : لین الحدیث (ضعیف ) ہے۔ [التقريب : 4322]
علی بن ابی رافع کی توثیق مجھے معلوم نہیں ہے۔

یہی روایت ابن سعد [الطبقات8؍27] عمر بن شبہ [تاريخ المدينه 1؍108، 109] ابن شاہین [632] اور ابن الجوزی [العلل المتناهيه : 419، الموضوعات 3؍277] نے محمد بن إسحاق عن عبيد الله ( عبد الله)( علي) بن على( فلان) بن أبى رافع عن أبيه عن أمه سلميٰ ’’ کی سند سے روایت کی ہے۔

اس سند میں بھی محمد بن اسحاق مدلس اور ابن علی بن ابی رافع ضعیف ہے۔
ابن الجوزی نے کہا:
هذا حديث لا يصح یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔
ذہبی نے کہا:
هذا منكر ’’ یہ منکر (روایت ) ہے۔“ [سير اعلام النبلاء2؍129، نيز ديكهئے مجمع الزوائد 9؍211 ]
مصنف عبدالرزاق [3؍ 411ح 6126 دوسرا نسخه : 6152] الآحادو المثانی لابن ابی عاصم [5؍356ح 2940] المعجم الکبیر للطبرانی [22؍399ح996] اور حلیۃ الاولیاء لابی نعیم الاصبہانی [2؍43] میں اس قصے کی تائید والا قصہ عبداللہ بن محمد بن عقیل سے مروی ہے۔
یہ قصہ دو وجہ سے ضعیف ہے۔
➊ عبداللہ بن محمد بن عقیل (قولِ راجح میں ) جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔
➋ عبداللہ بن محمد بن عقیل نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا لہٰذا یہ سند منقطع ہے۔
دیکھئے مجمع الزوائد للہیثمی [9؍211] و نصب الرایہ [2؍251 وقال : بسند ضعيف و منقطع ]
تنبیہ : مصنف عبدالرزاق اور الآحاد و المثانی میں عبدالرزاق کا استاد محمد بن راشد لکھا ہوا ہے جبکہ باقی کتابوں میں معمر (بن راشد) ہے۔ نصب الرایہ [2؍251] میں بھی معمر ہی ہے۔ محمد بن راشد المکحولی اور معمر بن راشد دونوں عبدالرزاق کے استاد اور ابن عقیل کے شاگرد ہیں۔
ابن کثیر رحمہ اللہ نے کہا:
وما روي من أنها اغتسلت قبل وفاتها و أوصت أن لا تغسل بعد ذلك فضعيف لا يعول عليه، والله أعلم
” اور جو روایت کیا گیا ہے کہ انہوں (سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا) نے اپنی وفات سے پہلے غسل کیا اور یہ وصیت کی کہ اس کے بعد انہیں غسل نہ دیا جائے تو یہ ضعیف ہے، اسپر اعتماد نہیں کیا جاتا۔ واللہ اعلم “ [البدايه و النهايه 6؍338 ]

خلاصۃ التحقیق : یہ روایت اپنی تمام سندوں کے ساتھ ضعیف و منکر ہے۔ لہٰذا مردود ہے۔ اس کے مقابلے میں محمد بن موسیٰ (بن ابی عبداللہ الفطری ابوعبداللہ المدنی ) نے کہا: فاطمہ رضی اللہ عنہ کو علی رضی اللہ عنہ نے غسل دیا تھا۔ [طبقات ابن سعد 8؍28و تاريخ المدينه 1؍109 ]
اس روایت کی سند محمد موسیٰ (صدوق) تک صحیح ہے لیکن منقطع ہونے کی وجہ سے یہ بھی ضعیف ہے۔ اس قسم کی ایک ضعیف روایت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔ دیکھئے المستدرک للحاکم [3؍123، 124 ح 4769] حلیۃ الاولیاء [2؍43] السنن الکبریٰ للبیہقی [3؍397] تاریخ المدینہ [1؍109] اور التلخیص الحبیر [2؍143ح 907 وقال : و اسناده حسن ]
بعض علماء کا سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہ والی روایت کو حسن قرار دینا محلِ نظر ہے۔ (27 ربیع الثانی 1427ھ)

 

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے