193۔ کیا انہوں نے ان پر جادوگر ہونے کی تہمت بھی لگائی تھی ؟
جواب :
اس کا جواب اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے:
وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَىٰ تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ ۖ فَاسْأَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ إِذْ جَاءَهُمْ فَقَالَ لَهُ فِرْعَوْنُ إِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا مُوسَىٰ مَسْحُورًا ﴿١٠١﴾
”اور بلاشبہ یقیناً ہم نے موسیٰ کو نو واضح نشانیاں دیں، سو بنی اسرائیل سے پوچھ، جب وہ ان کے پاس آیا تو فرعون نے اس سے کہا: يقيناً میں تو تجھے اے موسیٰ! جادو زدہ سمجھتا ہوں۔“ [ الإسراء: 101]
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ اس نے موسیٰ علیہ السلام کو نو واضح دلائل دے کر بھیجا، جو ان کی نبوت کی صداقت پرقطعی دلائل تھے اور انھیں فرعون کی طرف بھیجنے والی ہستی کی طرف سے دی جانے والی خبر کی صداقت پر بھی قطعی دلیل تھے اور وہ معجزات و دلائل مندرجہ ذیل ہیں:
➊ لاٹھی
➋ ہاتھ
➌ قحط سالی
➍ سمندر
➎ طوفان
➏ ٹڈی
➐ جوئیں
➑ مینڈک
➒ خون
یا علاحدہ علاحده آیات و نشانیاں تھیں۔ آیت میں مذکور لفظ مَسْحُورًا سے مراد ساحر ہے۔
194۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا فرعون کے ساتھ کیا قصہ ہے ؟
جواب :
فرمان باری تعالیٰ ہے :
قَالَ مُوسَىٰ أَتَقُولُونَ لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءَكُمْ ۖ أَسِحْرٌ هَٰذَا وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُونَ ﴿٧٧﴾
”موسیٰ نے کہا کیا تم حق کے بارے میں (یہ) کہتے ہو، جب وہ تمھارے پاس آیا، کیا جادو ہے یہ؟ حالانکہ جادوگر کامیاب نہیں ہوتے۔ “ [يونس: 77]
حضرت موی علیہ السلام کا فرعون کے ساتھ قصہ یہ ہے کہ فرعون نے موسی علیہ السلام سے ہر طرح سے چوکنا رہنے کی کوشش کی، پھر بھی وہ ان میں پلے بڑھے اور جوان ہوئے۔ اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کے لیے ان کے پاس سے نکلنے کا سبب پیدا کیا اور موسیٰ علیہ السلام کو نبوت و رسالت سے نوازا، تاکہ وہ فرعون کی طرف جائیں اور اسے دعوت حق دیں۔ یہ سب کچھ فرعون کی حکومت اور بادشاہی کے باوجود قدرت خداوندی سے ہوا، پھر موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسالت کا تاج پہنے اس کے پاس آئے۔ جب کہ ان کے بھائی ہارون کے سوا ان کا کوئی وزیر نہ تھا۔ فرعون نے سرکشی اور تکبر کیا۔ اسے حمیت اور خبیث نفس نے پکڑ لیا، اس نے اپنے منہ کو موڑ لیا اور طاقت کے بل بوتے پر اعراض کیا، اس نے ایسی چیز کا دعوی کیا، جس کا وہ حقدار نہ تھا، اس نے سرکشی اور بغاوت کو اپنایا اور بنی اسرائیل کے اہل ایمان گروہ کی توہین کی۔
اللہ نے اپنے رسول موسیٰ علیہ السلام اور ان کے بھائی ہارون علیہ السلام کی حفاظت کی۔ انھیں اپنی عنایت کے گھیرے میں رکھا اور ان کی ایسی آنکھ سے پہرے داری کی جو کبھی سوتی نہیں۔ حجت و دلیل کی پیشگی، بحث و تکرار اور نشانیوں کا ظہور،
یکے بعد دیگرے موسیٰ علیہ السلام نے پیش کیے، جنھیں دیکھ کر عقلیں دنگ رہ گئیں اور ذوی الالباب پر دہشت چھا گئی۔ یہ تو ایسی چیز یں تھیں جنہیں اللہ کا تائید یافتہ ہی لا سکتا تھا، لیکن فرعون اور اس کے پیروکاروں نے انکار، عداوت اور تکبر کی بنا پر ان سب چیزوں کی تکذیب کا پختہ ارادہ کر لیا، پھر اللہ نے ان پر نہ ٹلنے والا عذاب مسلط کر دیا اور ایک ہی صبح ان سب کو غرق کر دیا۔
فرمان الہی ہے:
فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا ۚ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٤٥﴾
” تو ان لوگوں کی جڑ کاٹ دی گئی، جنھوں نے ظلم کیا تھا اور سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو سب جہانوں کا رب ہے۔“ [الأنعام: 45]
195۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے پہلی بار اپنی لاٹھی کے حرکت میں آنے پر کیا کیا ؟
جواب :
ارشاد ربانی ہے :
وَأَلْقِ عَصَاكَ ۚ فَلَمَّا رَآهَا تَهْتَزُّ كَأَنَّهَا جَانٌّ وَلَّىٰ مُدْبِرًا وَلَمْ يُعَقِّبْ ۚ يَا مُوسَىٰ لَا تَخَفْ إِنِّي لَا يَخَافُ لَدَيَّ الْمُرْسَلُونَ ﴿١٠﴾
” اور اپنی لاٹھی پھینک۔ تو جب اس نے اسے دیکھا کہ حرکت کر رہی ہے، جیسے وہ ایک سانپ ہے تو پیٹھ پھیر کر لوٹا اور واپس نہیں مڑا۔ اے موسیٰ! مت ڈر، بے شک میں، میرے پاس رسول نہیں ڈرتے۔“ [النمل: 10]
اللہ نے انھیں حکم دیا کہ وہ اپنی لاٹھی ہاتھ سے زمین پر پھینکیں، تا کہ وہ ان کے لیے واضح دلیل بن جائے کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر کام کرنے والا مختارکل اور ہر چیز پر قادر ہے۔ فَلَمَّا رَآهَا تَهْتَزُّ كَأَنَّهَا جَانٌّ ”الجان“ سانپوں کی ایک قسم ہے، جو حرکت میں سب سے تیز اور اضطراب میں سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔ حدیث میں آیا ہے :
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھریلو سانیوں کو قتل کرنے سے منع کیا ہے۔
پھر جب موسیٰ علیہ السلام نے اس کا معاینہ کیا، وَلَّىٰ مُدْبِرًا وَلَمْ يُعَقِّبْ ۚ یعنی شدت خوف سے پیٹھ پھیر کر بھاگے اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : موسیٰ! جو تو دیکھ رہا ہے، اس سے خوف نہ کھا، بلاشبہ میں تجھے اپنا رسول منتخب کرنا چاہتا ہوں اور تجھے قدر و منزلت والا نبی بنانا چاہتا ہوں۔
فرمان باری تعالیٰ ہے :
فَلَمَّا جَاءَتْهُمْ آيَاتُنَا مُبْصِرَةً قَالُوا هَٰذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ ﴿١٣﴾
”تو جب ان کے پاس ہماری نشانیاں آنکھیں کھول دینے والی پہنچیں تو انھوں نے کہا: یہ کھلا جادو ہے۔“ [ النمل: 13 ]
انھوں (فرعون اور اس کا لشکر) نے اپنے جادو کے ساتھ اس کا مقابلہ کرنا چاہا، لیکن مغلوب ہوئے اور ذلیل ہو کر لوٹے۔
196۔ فرعون کے جادوگروں کی مدد سے موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کا کیسے مقابلہ کیا ؟
جواب :
فرمان الہی ہے :
قَالُوا أَرْجِهْ وَأَخَاهُ وَأَرْسِلْ فِي الْمَدَائِنِ حَاشِرِينَ ﴿١١١﴾ يَأْتُوكَ بِكُلِّ سَاحِرٍ عَلِيمٍ ﴿١١٢﴾
” انھوں نے کہا اسے اور اس کے بھائی کو موخر رکھ اور شہروں میں جمع کرنے والے بھیج دے۔ کہ وہ تیرے پاس ہر ماہر فن جادوگر لے آئیں .“ [ الأعراف: 112 , 111 ]
أَرْجِهْ یعنی اسے موخر کر یا روکے رکھ أَرْسِلْ یعنی بھیج دے۔
فِي الْمَدَائِنِ یعنی اپنی بادشاہی کے تمام علاقوں میں حَاشِرِينَ جو تیرے لیے تمام علاقوں سے جادوگروں کو جمع کریں گے۔
اس زمانے میں جادو بڑا عام تھا۔ اسی لیے ان میں سے بعض یہ عقیدہ اور بعض نے وہم کر لیا تھا کہ يقيناً جو چیز موسیٰ علیہ السلام لے کر آئے ہیں، ان کے جادوگروں کی شعبدہ بازی کی طرح ہی ہے، اسی وجہ سے انھوں نے جادوگروں کو جمع کیا، تاکہ وہ موسی علیہ السلام کے معجزات کا مقابلہ کریں، جیسا کہ اللہ نے فرعون کے بارے میں اپنی مقدس کتاب میں خبر دی ہے۔
يَا مُوسَىٰ ﴿٥٧﴾ فَلَنَأْتِيَنَّكَ بِسِحْرٍ مِّثْلِهِ فَاجْعَلْ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ مَوْعِدًا لَّا نُخْلِفُهُ نَحْنُ وَلَا أَنتَ مَكَانًا سُوًى ﴿٥٨﴾ قَالَ مَوْعِدُكُمْ يَوْمُ الزِّينَةِ وَأَن يُحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى ﴿٥٩﴾ فَتَوَلَّىٰ فِرْعَوْنُ فَجَمَعَ كَيْدَهُ ثُمَّ أَتَىٰ ﴿٦٠﴾
”اے موسیٰ ! تو ہم بھی ہر صورت تیرے پاس اس جیسا جادو لائیں گے، پس تو ہمارے درمیان اور اپنے درمیان وعدے کا ایک وقت طے کر دے کہ نہ ہم اس کے خلاف کریں اور نہ تو، ایسی جگہ میں جو مساوی ہو۔“ [طه: 57-60]
مزید فرمایا:
وَجَاءَ السَّحَرَةُ فِرْعَوْنَ قَالُوا إِنَّ لَنَا لَأَجْرًا إِن كُنَّا نَحْنُ الْغَالِبِينَ ﴿١١٣﴾
”اور جادوگر فرعون کے پاس آئے، انھوں نے کہا: یقیناً ہمارے لیے ضرور کچھ صلہ ہو گا، اگر ہم ہی غالب ہوئے۔“ [الأعراف: 113]
اس آیت میں اللہ تعالیٰ خبر دیتے ہیں کہ فرعون اور ان جادوگروں نے جنھیں اس نے موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے کے لیے بلایا تھا، آپس میں یہ شرط طے کی کہ اگر وہ موسی علیہ السلام پر غالب آ گئے تو فرعون انھیں منہ مانگا انعام دے گا اور انھیں اپنے مقربین میں شامل کرے گا، پھر جب انھوں نے فرعون سے اس پر وثوق حاصل کر لیا تو موسی علیہ السلام کے مقابلے میں آ کر بولے :
قَالُوا يَا مُوسَىٰ إِمَّا أَن تُلْقِيَ وَإِمَّا أَن نَّكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ ﴿١١٥﴾
”انھوں نے کہا : اے موسیٰ! یا تو تو پھینکے، یا ہم ہی پھینکنے والے ہوں؟“ [الأعراف: 115]
197۔ جادوگروں، جادو، فرعون اور موسیٰ علیہ السلام کا کیا قصہ ہے ؟
جواب :
ارشاد ربانی ہے :
قَالَ أَجِئْتَنَا لِتُخْرِجَنَا مِنْ أَرْضِنَا بِسِحْرِكَ يَا مُوسَىٰ ﴿٥٧﴾
”کہا کیا تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ ہمیں ہماری سرزمین سے اپنے جادو کے ذریعے نکال دے اے موسیٰ ؟ “ [طه: 57 ]
اللہ تعالیٰ فرعون کے متعلق خبر دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ بلاشبہ اس نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا، جب موی علیہ السلام نے اسے بڑی نشانی دکھائی، وہ بڑی نشانی، ان کا لاٹھی پھینکنا تھا، جو ایک بڑا سانپ بن جاتی اور اپنے پہلو سے ہاتھ کو نکالنا جو سورج کی مانند چپکنے لگتا تھا۔ فرعون نے یہ دیکھ کر کہا : یہ تو جادو ہے جو تو ہمیں مسحور کرنے کے لیے لایا ہے۔ اس کے ذریعے تو لوگوں پر حکومت چاہتا ہے، تیرا یہ مقصد پورا نہیں ہوگا۔
فَلَنَأْتِيَنَّكَ بِسِحْرٍ مِّثْلِهِ فَاجْعَلْ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ مَوْعِدًا لَّا نُخْلِفُهُ نَحْنُ وَلَا أَنتَ مَكَانًا سُوًى ﴿٥٨﴾
”تو ہم بھی ہر صورت تیرے پاس اس جیسا جادو لائیں گے، پس تو ہمارے درمیان اور اپنے درمیان وعدے کا ایک وقت طے کر دے کہ نہ ہم اس کے خلاف کریں اور نہ ہو، ایسی جگہ میں جو مساوی ہو۔ “ [ طه: 58 ]
یعنی اے موسیٰ! ہمارے پاس بھی تیرے جادو جیسا جادو ہے، اس لیے تیرے پاس جو ہے، اس پر مغرور نہ ہو۔
فَاجْعَلْ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ مَوْعِدًا یعنی ایک دن مقرر کرو، جس میں تم اور ہم اکٹھے ہوں اور کسی معین دن اور معین وقت میں ہم اس جادو کا مقابلہ کریں جو تو ہمارے پاس لایا ہے۔ موسی علیہ السلام نے ان سے کہا: يوم الزينة یعنی تہوار کا دن تمھارے لیے مقرر کرتے ہیں۔
قَالُوا إِنْ هَٰذَانِ لَسَاحِرَانِ يُرِيدَانِ أَن يُخْرِجَاكُم مِّنْ أَرْضِكُم بِسِحْرِهِمَا وَيَذْهَبَا بِطَرِيقَتِكُمُ الْمُثْلَىٰ ﴿٦٣﴾
”کہا بے شک یہ دونوں یقینا جادوگر ہیں، چاہتے ہیں کہ تمھیں تمھاری سرزمین سے اپنے جادو کے ذریعے نکال دیں اور تمھارا وہ طریقہ لے جائیں جو سب سے اچھا ہے۔ “ [طه: 63 ]
جادوگر آپس میں کہنے لگے : تم جانتے ہو کہ یہ آدمی اور اس کا بھائی یعنی موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام جادو کے ماہر اور جادوگری سے پوری طرح باخبر ہیں۔ ان کا آج کے دن ارادہ یہ ہے کہ یہ تم پر اور تمھاری قوم پر غالب آ جائیں اور لوگوں پر حکومت کریں، عوام ان کی اطاعت کریں اور وہ فرعون اور اس کے لشکروں کے ساتھ لڑائی کر یں، پھر وہ ایک دوسرے کے مددگار بن کر جادو کے ذریعے تمھیں تمھاری زمین سے نکال دیں۔
وَيَذْهَبَا بِطَرِيقَتِكُمُ الْمُثْلَ یعنی وہ دونوں تمھارے بہترین مذہب کو برباد کر دیں۔
198۔ کیا فرعون نے موسیٰ علیہ السلام پر جادو اور جنون کی تہمت بھی لگائی تھی ؟
جواب :
جی ہاں!
اللہ تعالیٰ نے اس کی بات نقل فرمائی ہے۔
فَتَوَلَّىٰ بِرُكْنِهِ وَقَالَ سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ ﴿٣٩﴾
”تو اس نے اپنی قوت کے سبب منہ پھیر لیا اور اس نے کہا: یہ جادوگر ہے یا دیوانہ۔“ [الذاريات: 39]
یعنی فرعون نے تکبر اور عناد کرتے ہوئے موسٰ علیہ السلام ی کے لائے ہوئے واضح حق سے انکار کیا اور اپنی تعداد پر فخر کیا۔ اللہ کا دشمن اپنی قوم پر غالب تھا، اس لیے اس نے تمام گروہوں کو اپنے ساتھ جمع کیا۔ وقال سحر أو مجنونه یعنی اے موسی! تیرا معاملہ تیری لائی ہوئی دعوت میں دوطرح ہی کا ہوسکتا ہے، یا تو تو جادوگر ہے یا پھر مجنون۔
199۔ کیا سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر ہامان اور قارون نے بھی جادو گر ہونے کی تہمت لگائی تھی ؟
جواب :
جی ہاں !
الله تعالیٰ نے فرمایا :
إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَقَارُونَ فَقَالُوا سَاحِرٌ كَذَّابٌ ﴿٢٤﴾
”فرعون اور ہامان اور قارون کی طرف تو انھوں نے کہا : جادوگر ہے بہت جھوٹا ہے۔“ [ المؤمن: 24 ]
فرعون، مصری علاقوں میں قبطیوں کا بادشاہ تھا اور ہامان اس کی مملکت میں اس کا وزیر تھا اور قارون اس زمانے میں تمام لوگوں سے زیادہ مالدار اور صاحب تجارت تھا۔ فَقَالُوا سَاحِرٌ كَذَّابٌ یعنی انھوں نے موسیٰ علیہ السلام کی تکذیب کی، انھیں جادوگر، مجنون اور وہم پرست شہرایا، اللہ نے ان لوگوں کی تکذیب کی کہ یہ لوگ جھوٹے ہیں۔ درج ذیل فرمان ان کی تکذیب میں نازل کیا :
كَذَٰلِكَ مَا أَتَى الَّذِينَ مِن قَبْلِهِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا قَالُوا سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ ﴿٥٢﴾
”اسی طرح ان لوگوں کے پاس جو ان سے پہلے تھے، کوئی رسول نہیں آیا مگر انھوں نے کہا: یہ جادوگر ہے، یا دیوانہ۔“ [الذاریات: 52]
أَتَوَاصَوْا بِهِ ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ ﴿٥٣﴾
”کیا انھوں نے ایک دوسرے کو اس بات کی وصیت کی ہے؟ (نہیں) بلکہ یہ (خودی) سرکش لوگ ہیں۔“ [ الذاريات: 52 ]
الله تعالی کا یہ فرمان:
فَلَمَّا جَاءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِندِنَا قَالُوا إِنَّ هَٰذَا لَسِحْرٌ مُّبِينٌ ﴿٧٦﴾
”تو جب ان کے پاس ہمارے ہاں سے حق آیا تو کہنے لگے بے شک یہ تو کھلا جادو ہے۔“ [ يونس: 76]
قطعی دلیل ہے، جو اس بات پر دلالت کرنے والی ہے کہ اللہ ہی نے اسے ان کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے۔
<br
200۔ فرعون کی قوم نے موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کیا کہا: تھا ؟
جواب :
ارشاد ربانی ہے :
قَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِ فِرْعَوْنَ إِنَّ هَٰذَا لَسَاحِرٌ عَلِيمٌ ﴿١٠٩﴾
فرعون کی قوم کے سرداروں نے کہا: یقینا یہ تو ایک ماہرفن جادوگر ہے۔“ [الأعراف: 109]
یعنی سرداروں نے کہا اور وہ جمہور اور فرعون کی قوم کے وہ سردار تھے، جو فرعون کی اس بات میں اس کے موافق تھے۔ جب فرعون اپنے تخت پر جا گزیں ہوا اور اس کی گھبراہٹ ختم ہوئی، اس وقت اس کے گرد بیٹھے سرداروں نے کہا: وان السحر عليه پھر انھوں نے اس کی موافقت کی اور باہم مشورہ کیا کہ وہ موسیٰ علیہ السلام کے معاملے میں کیا کریں اور موسیٰ علیہ السلام کے لائے ہوئے نور کو کیسے بجھائیں۔ اس کے کلمے کو کیسے مٹائیں، کیسے اسے جھوٹا اور مفتری قرار دیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے یہ اندیشہ ظاہر کیا کہ لوگ اس کے جادو کی وجہ سے اس کی دعوت کو اپنا عقیدہ بنا لیں گے۔ جب لوگ موسیٰ علیہ السلام کا عقیده اپنائیں گے تو پھر موسیٰ علیہ السلام ہم پر غالب آ جائے گا، پھر موسیٰ علیہ السلام انھیں جلا وطن کر دیں گے وغیرہ۔ اس طرح کی باتوں میں وہ مشغول ہو گئے۔
597۔ فرعون، سیدنا موسیٰ، جادو اور جادوگروں کا کیا قصہ ہے ؟
جواب :
«قَالَ أَجِئْتَنَا لِتُخْرِجَنَا مِنْ أَرْضِنَا بِسِحْرِكَ يَا مُوسَىٰ» [طه: 57]
”کہا کیا تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ ہمیں ہماری سرزمین سے اپنے جادو کے ذریعے نکال دے اے موسیٰ !“
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ فرعون کے بارے خبر دیتے ہیں کہ اس نے جب بڑی نشانی دیکھی تو موسی علیہ السلام سے کہنے لگا (وہ بڑی نشانی موسیٰ کا اپنی لاٹھی کا پھینکنا اور اس کا سانپ بن جانا اور موسی علیہ السلام کا اپنے پہلو تلے ہاتھ رکھ کر نکالنا اور اس کا بلا عيب سفید ہونا تھی) یہ تو جادو ہے جو تو ہمیں مسحور کرنے کے لیے لایا ہے۔ تیرا مقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعے لوگوں پر حکومت کرے اور وہ تیرے فرمانبردار بن جائیں، تیرا یہ مقصد پورا نہیں ہوگا۔
«فَلَنَأْتِيَنَّكَ بِسِحْرٍ مِّثْلِهِ فَاجْعَلْ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ مَوْعِدًا لَّا نُخْلِفُهُ نَحْنُ وَلَا أَنتَ مَكَانًا سُوًى» [طه: 58]
تو ہم بھی ہر صورت تیرے پاس اس جیسا جادو لائیں گے، پس تو ہمارے درمیان اور اپنے درمیان وعدے کا ایک وقت طے کر دے کہ نہ ہم اس کے خلاف کریں اور نہ تو اس کی جگہ میں جو مساوی ہو۔“
یعنی اے موسیٰ ! ہمارے پاس بھی تیرے جادو جیسا جادو ہے، تو اپنے جادو پر مغرور نہ ہو بلکہ «واجعل بيننا وبين م ا تخلفه تحن ولا أنت مكانا سويا» ایک دن مقرر کر جس میں تم اور ہم اکٹھے ہوں اور ہم تیرے لائے ہوئے جادو کا مقابلہ کریں، کوئی معین جگہ اور معین وقت ہونا چاہیے، پھر موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا :
«مَوْعِدُكُمْ يَوْمُ الزِّينَةِ» [طه: 59]
تمھارے وعدے کا وقت زینت کا دن ہے۔“
« قَالُوا إِنْ هَٰذَانِ لَسَاحِرَانِ يُرِيدَانِ أَن يُخْرِجَاكُم مِّنْ أَرْضِكُم بِسِحْرِهِمَا وَيَذْهَبَا بِطَرِيقَتِكُمُ الْمُثْلَىٰ» [طه: 63]
”کہا بے شک یہ دونوں یقیناً جادوگر ہیں، چاہتے ہیں کہ تمہیں تمھاری سرزمین سے اپنے جادو کے ذریعے نکال دیں اور تمھارا وہ طریقہ لے جائیں جو سب سے اچھا ہے۔“
جادوگر آپس میں کہنے لگے : تمھیں علم ہونا چاہیے کہ یہ آدمی اور اس کا بھائی (موسیٰ اور ہارون) دونوں بڑے ماہر جادوگر ہیں اور جادوگری سے خوب واقف ہیں، آج ان کا ارادہ یہ ہے کہ یہ تمھیں اور تمھاری قوم کو مغلوب کریں اور لوگوں پر حکمرانی کریں، عوام ان کے ماتحت ہوجائے اور یہ فرعون اور اس کے لشکروں کے خلاف لڑیں اور تمھیں تمھاری زمین سے نکال دیں۔
500۔ بنو اسرائیل نے اپنے موسیٰ علیہ السلام سے کیا سلوک کیا ؟
جواب :
«وَقَالُوا يَا أَيُّهَ السَّاحِرُ ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِندَكَ إِنَّنَا لَمُهْتَدُونَ » [الزخرف: 49]
اور انھوں نے کہا اے جادوگر! ہمارے لیے اپنے رب سے اس کے ذریعے دعا کر جو اس نے تجھ سے عہد کر رکھا ہے، بے شک ہم ضرور ہی سیدھی راہ پر آنے والے ہیں۔
امام ابن جریر ج رحمہ اللہ نے کہا :
”یہاں «السَّاحِرُ » سے مراد «العالم » ہے اور ان کے زمانے کے علما جادوگر ہی ہوا کرتے تھے۔ یہ کام ان کے زمانے میں قابل مذمت نہ تھا اور نہ ہی ان کی طرف سے کسی نقصان کا سودا تھا۔ اصل بات یہ تھی کہ وہ اسے ضروری سمجھتے تھے، لیکن اس میں کوئی تناسب معلوم نہیں ہوتا، بلکہ یہ ان کے گمان میں تعظیم تھی۔ ہر بار وہ موسیٰ علیہ السلام سے ایمان کا وعدہ کرتے تھے اور اس بات کا وعدہ کہ وہ بنو اسرائیل کو اس کے ساتھ بھیج دیں گے اور ہر بار ہی وہ اپنے عہد کو توڑ دیتے تھے۔“