سوال:
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
إني قد علمت أن أقواما يطعنون فى هذا الأمر، أنا ضربتهم بيدي هذه على الإسلام، فإن فعلوا ذلك فأولئك أعداء الله، الكفرة الضلال
میں بخوبی جانتا ہوں کہ کچھ لوگ خلافت کے متعلق طعن کرتے ہیں، میں اسلام کی خاطر انہیں اپنے اس ہاتھ سے ماروں گا، اگر انہوں نے ایسا کیا، تو وہ اللہ کے دشمن، کافر اور گمراہ ہیں۔
(صحیح مسلم: 567)
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے خلافت پر طعن کرنے والوں کو کافر کیوں کہا؟
جواب:
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی مراد یا تو منافقین ہیں، جو امور خلافت میں طعن کرتے رہے ہیں، وہ تو کافر ہی ہیں، انہیں کافر کہنے میں کوئی حرج نہیں۔
اگر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی مراد مسلمان ہیں، تو انہوں نے انہیں حقیقی کافر نہیں کہا، بلکہ مراد یہ ہے کہ ان کا طرز عمل کافروں والا ہے۔
❀ حافظ نووی رحمہ اللہ (676ھ) فرماتے ہیں:
معناه إن استحلوا ذلك فهم كفرة ضلال وإن لم يستحلوا ذلك ففعلهم فعل الكفرة
اس قول کا معنی و مفہوم یہ ہے کہ اگر وہ امور خلافت میں طعن کو حلال سمجھتے ہیں، تو وہ کافر اور گمراہ ہیں اور اگر طعن کرنے کو حلال نہیں سمجھتے، تو ان کا عمل کافروں والا ہے۔
(شرح مسلم: 53/5)