سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے منسوب ایک جھوٹ!
تحریر: ابو الحسن محمدی

علامہ ابوالفتح محمد بن عبدالکریم بن احمد شہرستانی (م : ۵۴۸ ھ) ایک رافضی کذاب ابراہیم بن یسار ابن ہانی النظام کے حالات لکھتے ہوئے اس کی بدعقیدگی کے پول بھی کھولتے ہیں۔
اس کا ایک جھوٹ علامہ شہرستانی نے یوں بیان کیا ہے کہ اس رافضی کذاب نے کہا:
إن عمر ضرب بطن فاطمة يوم البيعة حتى ألقت الجنين من بطنها، وكان يصيح : أحرقوا دارها بمن فيها، وما كان فى الدار غير على وفاطمة والحسن والحسين عليهم السلام .
”( سیدنا ) عمر ( رضی اللہ عنہ ) نے بیعت والے دن سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پیٹ پر مارا اور ان کے پیٹ کا بچہ گر گیا۔ عمر ( رضی اللہ عنہ ) پکار کر کہہ رہے تھے کہ اس (سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ) کے گھر کو گھر والوں سمیت جلا دو۔ گھر میں سوائے سیدنا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہم کے کوئی نہ تھا۔“ [الملل والنحل للشهرستاني : 57/1، الوافي بالوفيات للصفدي (م : ۷۶۴ ه ) ۳۴۷/۵]

رافضی شیعہ اس روایت کو بنیاد بنا کر خلیفہ راشد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر تبرا بازی کرتے ہیں، لیکن اس روایت کی نہ تو ابراہیم بن یسار تک کوئی سند مذکور ہے نہ ابراہیم سے آگے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تک کوئی سند دنیا کی کسی کتاب میں موجود ہے۔ یہ روایت دنیا کا سفید جھوٹ اور شیطان لعین کی کارستانی ہے۔ اس طرح کی جھوٹی بےسند اور بےسروپا روایات سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف پراپیگنڈہ کرنا ناعاقبت اندیشی ہے۔

ابراہیم بن یسار ابن ہانی النظام گندے عقیدے کا حامل تھا اور یونانی فلسفے سے بہت متاثر تھا۔ معتزلی مذہب رکھتا تھا اور اس کے نام پر فرقہ نظامیہ نےجنم لیا۔

حافظ ذہبی رحمہ اللہ (۶۷۳۔ ۷۴۸ ھ) نے احمد بن محمد بن ابی دارم ابوبکر کوفی (م : ۳۵۱ ھ) کے ترجمہ میں ابوالحسن محمد بن احمد بن حماد بن سفیان کوفی حافظ (م : ۳۸۴ ھ) کے حوالے سے اس کے بارے میں لکھا ہے :
كان مستقيم الأمر عامة دهره، ثم فى آخر أيامه كان أكثر ما يقرأ عليه المثالب، حضرته ورجل يقرأ عليه : إن عمر رفس فاطمة حتى أسقطت بمحسن.
”وہ ساری عمر درست نظریے اور عقیدے پر رہا، لیکن اس کی عمر کے آخری دور میں اس کے پاس عام طور پر صحابہ کرام کے خلاف ہرزہ سرائیاں ہی پڑھی جاتی تھیں۔ میں ایک دن اس کے پاس آیا تو ایک آدمی اس کے پاس یہ روایت پڑھ رہا تھا کہ عمر ( رضی اللہ عنہ ) نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا پر ظلم کیا حتی کہ ان کے پیٹ کا بچہ گر گیا۔“ [ميزان الاعتدال للذهبي : 139/1، ت : 552، آحمد بن محمد بن السري]

یاد رہے کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس ابن ابی دارم کے بارے میں لکھا ہے :
الرافضي الكذاب . ”یہ رافضی اور سخت جھوٹا آدمی تھا۔“ [ميزان الاعتدال للذهبي : 139/1]

امام حاکم رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
رافضي، غير ثقة. ”یہ شخص رافضی اور غیر معتبر تھا۔“ [ايضاً]

وہ شخص شیطان ہی ہو سکتا ہے جو اس جھوٹے رافضی کے پاس جھوٹ پڑھ رہا تھا۔ دنیا میں اس کی کوئی سند موجود نہیں، نہ رافضیوں کی کتب میں نہ اہل سنت کی کتب میں۔ رافضی شیعوں کو چاہیے کہ وہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب اس جھوٹ کی سند پیش کریں، ورنہ توبہ کر لیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ بہت سخت ہے اور اس کا عذاب بہت دردناک ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے