سیدنا عمرؓ اور دریائے نیل کا واقعہ

تحریر: ڈاکٹر ابو جابر عبداللہ دامانوی، کراچی

سیدنا عمرؓ اور دریائے نیل

سوال :

کیا یہ واقعہ صحیح ہے کہ دریائے نیل نے جب بہنا بند کر دیا تو سیدنا عمرؓ نے اس کی طرف خط لکھا تھا۔ جب دریائے نیل میں آپ کا خط ڈالا گیا تو دریا کا پانی دوبارہ جاری ہو گیا۔

الجواب :

یہ واقعه ’’ابن لهيعة عن قيس بن حجاج عمن حدثه‘‘ کی سند کے ساتھ درج ذیل کتابوں میں مذکور ہے : فتوح مصر لا بن عبدالحکم ( ص ۱۵۰ ۱۵۱) کتاب العظمة لأبي الشيخ (۱۴۲۴/۴، ۱۴۲۵ ح ۹۳۷) شرح اعتقاد اھل السنۃ والجماعة لللا لکائی ( ۱/۲ ۴۰ ح ۷۲ کرامات ) و کرامات اولیاء اللہ (۲۶) وتفسیر ابن کثیر (۴۶۴/۳، السجدة : ۲۷) ومسند الفاروق (۲۲۴،۲۲۳/۱) البدایہ والنہایہ (۲۳/۱)

اس سند میں عبد اللہ بن لہیعہ مدلس راوی ہے ۔
(طبقات المدلسین ۵/۱۴۰)

اور روایت معنعن ہے۔

قیس بن الحجاج تبع تابعی ہے ۔

اس کے استاد کا نام معلوم نہیں ہے

لہٰذا یہ سند ظلمات(میں سے) ہے۔

خلاصۃ القصہ :

اس قصے کا خلاصہ یہ ہے کہ جب مصر فتح ہوا تو لوگوں نے سیدنا عمر و بن العاصؓ سے کہا:
یہ ہمارا (دریائے) نیل اس سال صرف اسی وقت پانی سے چلے گا جب اس مہینے کی گیارہویں رات کو ایک لڑکی اس میں پھینکی جائے گی ۔
تو سیدنا عمرؓ نے فرمایا:

اسلام میں ایسا نہیں ہو سکتا۔ پھر انہوں نے سیدنا عمرؓ کوخط لکھا تو امیر المومنین نے جواب میں ایک رقعہ بھیجا جس پر لکھا ہوا تھا:
”اللہ کے بندے عمر کی طرف سے دریائے نیل کی طرف! اگر تو خود بخود بہتا تھا تو نہ بہہ اور اگر تجھے بہانے والا اللہ ہے تو میں اللہ واحد قہار سے دعا کرتا ہوں کہ تجھے چلا دے۔‘‘
جب رقعہ دریا میں ڈالا گیا تو وہ دس ہاتھ بلند ہو کر بہنے لگا۔

خلاصہ تحقیق :

یہ روایت ضعیف و مردود ہے

لہذٰا یہ سارا قصہ بے بنیاد و باطل ہے۔

(۱۸/ رجب ۱۴۲۶ [الحدیث: ۱۸]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
لنکڈان
ٹیلی گرام
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: