سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور جمعِ قرآن کا عظیم کارنامہ احادیث کی روشنی میں
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

❀ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
قال عثمان للرهط القرشيين الثلاثة: إذا اختلفتم أنتم وزيد بن ثابت فى شيء من القرآن فاكتبوه بلسان قريش، فإنما نزل بلسانهم، ففعلوا، حتىٰ إذا نسخوا الصحف فى المصاحف، رد عثمان الصحف إلىٰ حفصة، وأرسل إلىٰ كل أفق بمصحف مما نسخوا، وأمر بما سواه من القرآن فى كل صحيفة أو مصحف أن يحرق.
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے تین قریشیوں سے کہا: اگر تمہارا اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا قرآن کے کسی حصے کے بارے میں اختلاف ہو جائے، تو اسے قریش کی زبان میں لکھ دینا، کیونکہ قرآن قریش کی زبان میں نازل ہوا ہے۔ تو انہوں نے ایسا ہی کیا، یہاں تک کہ جب صحیفوں سے نسخے تیار کر دیے گئے، تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے وہ صحیفے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو واپس کر دیے اور تیار کردہ نسخوں میں سے ایک ایک نسخہ ہر علاقے میں بھیج دیا، اس کے علاوہ قرآن کے جتنے بھی صحائف تھے، سب کو جلانے کا حکم فرمایا۔
(صحيح البخاري: 4987)
اس روایت کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے قرآن کو جلا دیا، کیا یہ قرآن کی بے حرمتی نہیں؟

جواب:

سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے قرآن کریم جلانا ثابت نہیں، یہ آپ رضی اللہ عنہ پر بعض لوگوں کا الزام ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ جامع القرآن ہیں۔
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن کو نہیں جلایا، بلکہ قرآن کے وہ نسخے جلائے جو زائد تھے اور امت کو ایک مصحف پر جمع کر دیا۔ ایسا انہوں نے قرآن کی حفاظت و صیانت کے لیے کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے مصحف کو مختلف علاقوں میں نشر کیا، لہذا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ قرآن کو پھیلانے والے تھے، نہ کہ مٹانے والے۔
❀ علامہ ابن بطال رحمہ اللہ (449ھ) فرماتے ہیں:
في أمر عثمان بتحريق الصحف والمصاحف حين جمع القرآن جواز تحريق الكتب التى فيها أسماء الله تعالىٰ وأن ذلك إكرام لها، وصيانة من الوطء بالأقدام وطرحها فى ضياع من الأرض.
قرآن کو (کتابی شکل میں) جمع کرنے کے بعد سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا بقیہ تمام صحائف کو جلا دینے کا حکم دینے میں جواز ہے کہ ان کتب کو جلانا جائز ہے، جن میں اللہ کے نام درج ہوتے ہیں، یہ ان کتب کی عزت اور پاؤں میں روندے جانے سے حفاظت ہے۔ نیز یہ بھی جائز ہے کہ ان کتب کو غیر آباد زمینوں کے سپرد کر دیا جائے۔
(شرح صحيح البخاري: 226/10)
❀ علامہ زرکشی رحمہ اللہ (794ھ) نقل کرتے ہیں:
أما تعلق الروافض بأن عثمان أحرق المصاحف فإنه جهل منهم وعمى، فإن هذا من فضائله وعلمه، فإنه أصلح ولم الشعث وكان ذلك واجبا عليه، ولو تركه لعصىٰ لما فيه من التضييع وحاشاه من ذلك … أما قولهم إنه أحرق المصاحف … أنه أحرق مصاحف قد أودعت ما لا يحل قراءته، وفي الجملة إنه إمام عدل غير معاند ولا طاعن فى التنزيل، ولم يحرق إلا ما يجب إحراقه، ولهذا لم ينكر عليه أحد ذلك.
روافض کا یہ اعتراض کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے مصاحف کو جلا دیا تھا، تو یہ ان کی جہالت اور اندھا پن ہے، کیونکہ یہ تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے فضائل اور علم میں سے ہے کہ انہوں نے مصلحت سے کام لیا اور بکھرے ہوئے (لوگوں) کو جمع کیا۔ ایسا کرنا ان پر واجب تھا، اگر وہ نہ کرتے، تو گناہ گار ٹھہرتے، کیونکہ اس میں قرآن کا ضیاع تھا اور وہ ایسا ہرگز نہ ہونے دیتے۔ روافض کا یہ کہنا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے مصاحف کو جلا دیا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن کے ان نسخوں کو جلایا، جن کو پڑھنا درست نہ تھا۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ عادل خلیفہ تھے، قرآن کریم کے دشمن یا اس پر طعن کرنے والے نہ تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے قرآن کے انہی نسخوں کو جلایا، جن کو جلانا واجب تھا، اسی لیے کسی نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے اس عمل پر انکار نہیں کیا۔
(البرهان في علوم القرآن: 240/1)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے