سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی ٹوپی کا قصہ: ایک تحقیقی جائزہ
سوال:
بعض خطباء یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ جب جنگِ یرموک پیش آئی تو سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی ٹوپی مبارک کھو گئی، جس پر وہ بہت گھبرا گئے۔ انہوں نے اپنے تمام ساتھیوں سے ٹوپی تلاش کرنے کو کہا۔ جب کافی کوششوں کے بعد وہ ٹوپی ملی، تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو وہ پرانی سی ٹوپی دیکھ کر حیرت ہوئی۔ انہوں نے سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ اس پرانی ٹوپی کے کھو جانے پر آپ اتنے پریشان کیوں ہوئے؟ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:
’’اعتمر رسول الله صلی الله علیه وسلم فحلق راسه فابتدر الناس جوانب شعره فسبقتهم الی ناصیته، فجعلتها فی هذا القلنسوة، فلم اشهد قتالا فهی معی الا رزقت النصرة‘‘
یعنی:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ ادا فرمایا، پھر سر کے بال منڈوائے۔ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال بطورِ برکت حاصل کرنے کے لیے لپک پڑے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی کے بال حاصل کر لیے اور انہیں اس ٹوپی میں سی دیا۔ پھر جب بھی کسی جنگ میں شریک ہوا، اس ٹوپی کو پہنتا اور اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت سے فتح حاصل کرتا رہا۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ واقعہ معتبر اور باسند صحیح روایت سے ثابت ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ قصہ "عبدالحمید بن جعفر بن عبداللہ بن الحکم بن رافع عن ابیہ” کی سند سے مختلف کتبِ حدیث میں منقول ہے۔ ذیل میں ان کتب کا حوالہ دیا جا رہا ہے:
کتب حدیث میں روایت کا ذکر:
◈ المعجم الکبیر للطبرانی (جلد 4، صفحات 104-105، حدیث: 3804)
◈ مسند ابی یعلیٰ الموصلی (جلد 13، صفحہ 139، حدیث: 7183)
◈ المستدرک للحاکم (جلد 3، صفحہ 299، حدیث: 5299)
▪ حافظ ذہبی نے اس روایت کو "منقطع” قرار دیا ہے۔
◈ دلائل النبوۃ (جلد 6، صفحہ 249)
◈ اسد الغابہ لابن الاثیر (جلد 2، صفحہ 95، طریق ابو یعلیٰ سے)
◈ سیر اعلام النبلاء (جلد 1، صفحات 374-375)
◈ المطالب العالیہ
▪ (المسندۃ: جلد 8، صفحہ 421، حدیث: 4011)
▪ (غیر المسندۃ: جلد 4، صفحہ 90، حدیث: 4044، عن ابی یعلیٰ)
◈ اتحاف المہرۃ (جلد 4، صفحات 406-407، حدیث: 4451)
◈ اتحاف الخیرۃ المہرۃ للبوصیری
▪ (جلد 7، صفحہ 67، حدیث: 8669)
▪ (جلد 7، صفحہ 312، حدیث: 9141)
▪ البوصیری نے اس روایت کو "بسند صحیح” کہا ہے۔
◈ المقصد العلیٰ (جلد 3، صفحہ 233، حدیث: 1432)
مجمع الزوائد میں تبصرہ:
◈ مجمع الزوائد (جلد 9، صفحہ 349):
"رواه الطبرانی وابویعلیٰ بنحوه ورجالهما رجال الصحیح وجعفر سمع من جماعة من الصحابة فلا ادری سمع من خالد ام لا”
الاصابہ میں تبصرہ:
◈ الاصابہ (جلد 1، صفحہ 414، ترجمہ: 2201)
راوی کے بارے میں تحقیق:
اس واقعے کا مرکزی راوی جعفر بن عبداللہ بن الحکم ہے، جو ثقہ راوی ہے۔
◈ حوالہ: تقریب التہذیب: 944
لیکن تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ (متوفی 22ھ) سے جعفر بن عبداللہ بن الحکم کی ملاقات ثابت نہیں ہے۔
سند کی تحقیق:
◈ حافظ ذہبی نے روایت کو "منقطع” (یعنی سند میں راوی کا فاصلہ ہونا) قرار دیا ہے۔
◈ ہیثمی نے بھی سند کے منقطع ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
"مجھے معلوم نہیں کہ اس نے خالد سے سنا ہے یا نہیں”
یہ بات واضح ہے کہ نہ صرف ان کا سننا ثابت نہیں بلکہ اس زمانے میں ان کی پیدائش تک ثابت نہیں۔ مزید وضاحت کے لیے دیکھیں:
◈ الاصابہ (طبع جدیدہ، صفحہ 288، ترجمہ 2002)
خلاصۂ تحقیق:
یہ واقعہ صحیح اور متصل سند کے ساتھ ثابت نہیں ہے۔
یہ بات کہ جعفر بن عبداللہ بن الحکم نے بعض صحابہ (مثلاً: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ) سے روایات سنی ہیں، یہ دلیل نہیں بن سکتی کہ ان کی سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ (جو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں فوت ہوئے) سے ملاقات بھی ثابت ہو۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب